حضرت خدیجہ کبریٰ (سلام اللہ علیہا) قرآن کی روشنی میں
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
اسلام ٹائمز: حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیہا) نے اسلام کے ابتدائی دور میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حمایت کی اور ان کے ساتھ کھڑی رہیں۔ ان کی وفاداری اور قربانی نے اسلام کی بنیادوں کو مضبوط کیا۔ قرآن مجید کی آیات میں ان کے مال کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بے نیازی کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ان کا کردار اسلام کی ترقی میں نہایت اہم تھا۔ تحریر: ڈاکٹر میثم طہ
اس مضمون میں ہم ان آیات کا جائزہ لیں گے، جو اسلام کی عظیم اور مثالی شخصیت، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفادار اور فداکار زوجہ، ام المؤمنین حضرت خدیجہ کبری (سلام اللہ علیہا) کے شأن میں نازل ہوئی ہیں۔ حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیہا) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی واحد وفادار ساتھی تھیں اور جب تک وہ زندہ رہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے کسی دوسری خاتون سے شادی کرنا حرام تھا۔ اسی طرح، حضرت امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب (علیہ السلام) نے بھی حضرت فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا) کی حیات تک کسی دوسری شادی کا ارادہ نہیں کیا۔ حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیہا) موحد اور یکتا پرست تھیں اور انہوں نے کبھی بھی جاہلیت کے رسم و رواج کی پیروی نہیں کی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی محبت بھری زوجہ کے بارے میں فرمایا: "میرے لیے خدیجہ جیسی کوئی نہیں ہے۔"
اب ہم قرآن مجید کی سات آیات کا جائزہ لیں گے، جو حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیہا) کے شأن میں نازل ہوئی ہیں۔ ان آیات کی روشنی میں ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ حضرت خدیجہ کبری (سلام اللہ علیہا) ایک عظیم شخصیت تھیں، جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفادار ساتھی اور اسلام کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والی تھیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے فضائل کو سمجھنے اور ان کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
کلیدی کلمات: حضرت خدیجه سلام الله علیها، ام المؤمنین، قرآن، تفسیر، اعراف و علیین۔
مقدمہ:
حضرت خدیجہ کبریٰ (سلام اللہ علیہا) صدر اسلام کی ایک با فضیلت، متقی اور مثالی خاتون تھیں۔ وہ وہ خاتون تھیں، جنہوں نے اپنی ساری دولت اسلام، قرآن اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی راہ میں وقف کر دی۔ کیونکہ ہر حکومت کو چلانے کے لیے مالی پشتیبانی کی ضرورت ہوتی ہے، اسی لیے تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ خلفاء نے حضرت فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا) سے فدک کو غصب کر لیا، تاکہ حضرت علی (علیہ السلام) اس کی آمدنی سے اسلام کے اخراجات پورے نہ کرسکیں۔ حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیہا) وہ خاتون تھیں، جنہوں نے جب تمام لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تنہا چھوڑ دیا تو وہ آپ کی مددگار اور پشتیبان بنیں۔ حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیہا) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے کسی سے شادی نہیں کی اور 25 سال کی عمر میں کنواری ہونے کی حالت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شادی کی۔ اس شادی کے نتیجے میں کئی بچے پیدا ہوئے، لیکن وہ سب بچپن میں ہی فوت ہوگئے، سوائے ایک بیٹی کے جو حضرت فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا) کے نام سے مشہور ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نسل کو حضرت فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا) کے ذریعے جاری رکھا اور تمام ائمہ شیعہ انہی کی نسل سے ہیں۔
قرآن مجید اور احادیث میں بیان کردہ آیات اور روایات کا گہرائی سے مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندوں کو خاص فضیلت اور مقام عطا کیا ہے۔ ان آیات اور روایات میں حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیہا) کا ذکر خصوصی اہمیت کا حامل ہے، جو نہ صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفادار زوجہ تھیں، بلکہ اسلام کی ترقی اور استحکام میں ان کا کردار نہایت اہم تھا۔ ان آیات اور روایات کے ذریعے ہم حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیہا) کی عظمت، فضیلت اور ان کے ایمان و قربانی کے جذبے کو سمجھ سکتے ہیں۔ قرآن مجید کی آیات اور ان کی تفسیر میں حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیہا) کا ذکر بار بار آیا ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ نہ صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں ایک اہم ستون تھیں، بلکہ ان کی وفاداری، ایثار اور قربانی نے اسلام کی بنیادوں کو مضبوط کیا۔ ان آیات اور روایات کے مطالب کو سمجھنے کے لیے ہمیں ان کے تاریخی اور روحانی پہلوؤں پر غور کرنا ہوگا۔
پہلی آیت: "وَ الَّذِینَ یَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْیُنٍ وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِینَ إِمَامًا"، "اور وہ لوگ جو کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں اپنی بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں متقیوں کا پیشوا بنا۔"(1) قرآن مجید کی یہ آیت ان لوگوں کی صفات بیان کرتی ہے، جو اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ انہیں اپنی بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرمائے اور انہیں متقیوں کا پیشوا بنائے۔ اس آیت کی تفسیر میں بہت سی روایات ہیں، جو اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ یہاں "ازواجنا" سے مراد کون ہے اور "ذریاتنا" سے کیا مراد ہے۔
1۔ حاکم حسکانی حنفی جو اہل سنت کے نامور قرآن پژوه ہیں، انہوں نے لکھا ہے کہ ابو سعید سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا: "میں نے جبرائیل (علیہ السلام) سے پوچھا: اے جبرائیل! "ازواجنا" سے کون مراد ہے؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے جواب دیا: خدیجہ (سلام اللہ علیہا)۔ میں نے پوچھا: "ذریاتنا" سے کون مراد ہے۔؟ جواب دیا: فاطمہ (سلام اللہ علیہا) اور "قرة عین" (آنکھوں کی ٹھنڈک) حسن اور حسین (علیہما السلام) ہیں۔ میں نے پوچھا: "واجعلنا للمتقین اماما" سے کون مراد ہے۔؟ جواب دیا: علی (علیہ السلام)۔" (2)
2۔ علامہ مجلسی (قدس سرہ) نے بھی اسی طرح کی روایت ذکر کی ہے۔(3)
3۔ حکیم فیض کاشانی (قدس سرہ) نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے: "اس آیت میں نبوت، قرآن اور حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیہا) مراد ہیں، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تمام اولاد سوائے ابراہیم کے، حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیہا) سے ہیں۔"
4۔ تفسیر قمی میں بھی آیا ہے کہ "ازواجنا" سے مراد حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیہا) ہیں۔(4)
5۔ حاکم حسکانی: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا: "جب یہ آیت نازل ہوئی تو میں نے جبرائیل (علیہ السلام) سے پوچھا: "ازواجنا" سے کون مراد ہے؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے جواب دیا: خدیجہ (سلام اللہ علیہا)۔
میں نے پوچھا: "ذریاتنا" سے کون مراد ہے۔؟ جواب دیا: فاطمہ (سلام اللہ علیہا) اور ان کے دو نورانی فرزند حسن اور حسین (علیہما السلام)۔ میں نے پوچھا: "واجعلنا للمتقین اماما" سے کون مراد ہے۔؟ جواب دیا: علی (علیہ السلام)۔"(5)
6۔ فیض کاشانی (قدس سرہ) نے اسی آیت کی تفسیر میں لکھا ہے: "اس آیت میں رسالت کا بلند مقام، قرآن مجید اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفادار اور مخلص رفیقہ حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیہا) مراد ہیں، جن سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نسل جاری ہوئی۔"(6)
آیت "وَ الَّذِینَ یَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْیُنٍ وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِینَ إِمَامًا" کی تفسیر میں مختلف روایات موجود ہیں، جن میں خاص طور پر حضرت خدیجہ، حضرت فاطمہ، حضرت علی اور ان کے فرزندان حسن و حسین کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ روایات ان شخصیات کی فضیلت کو واضح کرتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ یہ شخصیات اسلام کی بنیادوں کو مضبوط کرنے اور متقیوں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بنی ہیں۔ حضرت خدیجہ کو رسول اللہ کی وفادار زوجہ اور اسلام کی پہلی حامی کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اسلام کی ابتدائی دور میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حمایت کی اور ان کے ساتھ کھڑی رہیں۔ ان کی وفاداری اور قربانی نے اسلام کی بنیادوں کو مضبوط کیا۔ حکیم فیض کاشانی (قدس سرہ) نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اس آیت میں نبوت، قرآن اور حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیہا) مراد ہیں۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیہا) کا کردار صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ کے طور پر نہیں، بلکہ اسلام کی ترقی میں ان کا کردار نہایت اہم تھا۔
دوسری آیت: "أَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیمًا فَآوَىٰ * وَوَجَدَکَ ضَالًّا فَهَدَىٰ * وَوَجَدَکَ عَائِلًا فَأَغْنَىٰ"، "کیا اس نے تجھے یتیم نہ پایا تو پناہ دی؟ اور تجھے گمشدہ پایا تو ہدایت دی؟ اور تجھے محتاج پایا تو بے نیاز کر دیا؟"(7) قرآن مجید کی یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے ان احسانات کا ذکر کرتی ہے، جو اس نے اپنے حبیب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کیے۔ اس آیت میں تین اہم مراحل کا تذکرہ ہے: یتیمی، گمنامی اور فقر۔شیخ صدوق (رحمہ اللہ) نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: "میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس آیت کے بارے میں پوچھا: "کیا اس نے تجھے یتیم نہ پایا تو پناہ دی؟" آپ نے فرمایا: "اس نے مجھے یتیم اس لیے کہا کیونکہ زمین پر نہ تو پہلے اور نہ ہی بعد میں میرا کوئی نظیر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اپنے احسان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: "کیا اس نے تجھے یتیم نہ پایا تو پناہ دی؟" یعنی تو اکیلا تھا، تیرا کوئی نظیر نہیں تھا، پھر اس نے لوگوں کو تیری طرف متوجہ کیا اور تیری فضیلت کو ان پر ظاہر کیا اور تجھے فقیر پایا، یعنی تیری قوم کے لوگ کہتے تھے کہ تیرے پاس مال نہیں ہے، پھر اللہ نے تجھے خدیجہ (سلام اللہ علیہا) کے مال سے بے نیاز کر دیا۔"(8)
شیخ صدوق (رحمہ اللہ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: "رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو "یتیم" اس لیے کہا گیا، کیونکہ وہ پوری کائنات میں بے نظیر اور منفرد ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے احسان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: "کیا اس نے تجھے یتیم نہ پایا تو پناہ دی؟" یعنی تو اکیلا تھا، تیرا کوئی نظیر نہیں تھا، پھر اس نے لوگوں کو تیری طرف متوجہ کیا اور تیری فضیلت کو ان پر ظاہر کیا اور تجھے فقیر پایا، پھر خدیجہ (سلام اللہ علیہا) کے مال سے تجھے بے نیاز کر دیا۔"(9) بہت سے مفسرین کا کہنا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دولت خدیجہ (سلام اللہ علیہا) کے مال سے تھی اور اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کنایہ کے طور پر خدیجہ (سلام اللہ علیہا) اور ان کے احسان کا ذکر فرمایا ہے۔"(10) اس آیت اور اس کی تفسیر سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیہا) نہ صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفادار زوجہ تھیں، بلکہ انہوں نے اپنی دولت کو اسلام کی راہ میں وقف کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خدیجہ (سلام اللہ علیہا) کے ذریعے بے نیازی عطا کی، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ خدیجہ (سلام اللہ علیہا) کا کردار اسلام کی ترقی میں نہایت اہم تھا۔
یہ آیت ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر مختلف طریقوں سے احسان فرماتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یتیمی، گمنامی اور اہل حجاز نبوت کی معرفت نہ رکھتے اور فقر کے بعد اللہ نے انہیں پناہ گاہ بنایا، ہدایت کا ذریعہ بنایا اور بے نیازی عطا کی۔ خدیجہ (سلام اللہ علیہا) کا مال اور ان کی وفاداری اس بے نیازی کا ایک اہم ذریعہ تھی۔ اس تفسیر سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیہا) کی عظمت اور فضیلت صرف ان کی مالی معاونت تک محدود نہیں تھی، بلکہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روحانی اور عملی زندگی میں بھی ایک اہم ستون تھیں۔ ان کی وفاداری، ایثار، اور قربانی نے اسلام کی بنیادوں کو مضبوط کیا۔
تیسری آیت: "کَلَّا إِنَّ کِتَابَ الْأَبْرَارِ لَفِی عِلِّیِّینَ * وَمَا أَدْرَاکَ مَا عِلِّیُّونَ * کِتَابٌ مَرْقُومٌ * یَشْهَدُهُ الْمُقَرَّبُونَ * إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِی نَعِیمٍ * عَلَى الْأَرَائِکِ یَنْظُرُونَ * تَعْرِفُ فِی وُجُوهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِیمِ * یُسْقَوْنَ مِنْ رَحِیقٍ مَخْتُومٍ * خِتَامُهُ مِسْکٌ وَفِی ذَٰلِکَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ * وَمِزَاجُهُ مِنْ تَسْنِیمٍ * عَیْنًا یَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ"، "ہرگز نہیں! بلکہ نیکوکاروں کا نامہ اعمال "علیین" میں ہے۔ * اور تمہیں کیا معلوم کہ "علیین" کیا ہے؟ * یہ ایک لکھا ہوا نامہ ہے، * جس کے گواہ مقربین ہیں۔ * بے شک نیکوکار نعمتوں میں ہوں گے، * تختوں پر بیٹھے ہوئے (جنت کی نعمتوں کو) دیکھ رہے ہوں گے۔ * تم ان کے چہروں پر نعمت کی تازگی اور شادمانی کو پہچان لو گے۔ * انہیں مہر لگے ہوئے شراب (طہور) پلائی جائے گی، * جس کی مہر مشک کی ہوگی اور اس میں مقابلہ کرنے والوں کو مقابلہ کرنا چاہیئے۔ * یہ شراب "تسنیم" سے ملا ہوا ہے، * وہ چشمہ جس سے مقربین پیتے ہیں۔"(11)
قرآن مجید کی یہ آیت نیکوکاروں کے اعمال کے بلند مقام اور جنت کی نعمتوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ نیکوکاروں کا نامہ اعمال "علیین" میں محفوظ ہے، جو جنت کا ایک اعلیٰ اور ممتاز مقام ہے۔ اس آیت میں جنت کی نعمتوں کا تفصیلی تذکرہ ہے، جیسے تختوں پر بیٹھنا، چہروں پر نعمت کی تازگی اور شادمانی کا ظاہر ہونا اور مقربین کے لیے مخصوص شراب "تسنیم" کا ذکر۔ علامہ مجلسی (رحمہ اللہ) نے جابر بن عبداللہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ کا فرمان: "وَمِزَاجُهُ مِنْ تَسْنِیمٍ" سے مراد جنت کا سب سے اعلیٰ شراب ہے، جسے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیتے ہیں اور وہی مقربین ہیں۔ پیشرو لوگ ہیں: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، علی بن ابی طالب (علیہ السلام)، ائمہ، فاطمہ (سلام اللہ علیہا)، اور خدیجہ (سلام اللہ علیہا)۔ اور ان کی اولاد جو ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کرتی ہے، وہ ان کے گھروں کے بلند مقامات سے "تسنیم" پیتے ہیں۔"(12)
علی بن ابراہیم بن ہاشم (رحمہ اللہ) نے کہا: "السابقون السابقون اولئک المقربون" سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، خدیجہ (سلام اللہ علیہا)، علی بن ابی طالب (علیہ السلام) اور ان کی اولاد ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "ہم ان کی اولاد کو ان کے ساتھ ملا دیں گے۔ مقربین خالص "تسنیم" پیتے ہیں، جبکہ دیگر مومنین ملا ہوا پیتے ہیں۔"(13) علامہ مجلسی (رحمہ اللہ) نے لکھا ہے: "اللہ تعالیٰ کا فرمان: "فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ وَلِلْمُؤْمِنِینَ" سے مراد علی (علیہ السلام) اور ان کے اصحاب ہیں، اور "وَالْمُؤْمِنَات" سے مراد خدیجہ (سلام اللہ علیہا) ہیں۔"(14) اس آیت اور اس کی تفسیر سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ "علیین" جنت کا ایک اعلیٰ مقام ہے، جہاں نیکوکاروں کے اعمال محفوظ ہیں۔ یہاں پر مقربین، جن میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، حضرت علی (علیہ السلام)، ائمہ، حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا)، اور حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیہا) شامل ہیں، کو خاص نعمتیں عطا کی جاتی ہیں۔ انہیں "تسنیم" جیسی اعلیٰ شراب پلائی جاتی ہے، جو جنت کی سب سے بہترین نعمتوں میں سے ایک ہے۔
حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیہا) کا ذکر ان مقربین میں شامل ہونا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ نہ صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفادار زوجہ تھیں، بلکہ ان کی قربانیوں، ایثار اور ایمان کی وجہ سے وہ جنت کے اعلیٰ مقامات پر فائز ہیں۔ ان کی فضیلت اور عظمت کو قرآن مجید اور احادیث میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اس آیت سے یہ سبق ملتا ہے کہ نیکوکاروں کے اعمال کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بلند مقام حاصل ہوتا ہے اور وہ جنت کی اعلیٰ نعمتوں سے نوازے جاتے ہیں۔ حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیہا) کی زندگی ہمارے لیے ایک روشن مثال ہے کہ کیسے ایمان، وفاداری، اور قربانی کے ذریعے انسان اللہ کی رضا حاصل کرسکتا ہے اور جنت کے اعلیٰ مقامات تک پہنچ سکتا ہے۔
چوتھی آیت: "وَإِذْ قَالَتِ الْمَلَائِکَةُ یَا مَرْیَمُ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاکِ وَطَهَّرَکِ وَاصْطَفَاکِ عَلَىٰ نِسَاءِ الْعَالَمِینَ"، "اور (یاد کرو) جب فرشتوں نے کہا: اے مریم! بے شک اللہ نے تمہیں منتخب کیا ہے، تمہیں پاک کیا ہے اور تمہیں تمام دنیا کی عورتوں پر فضیلت دی ہے۔"(15) قرآن مجید کی یہ آیت حضرت مریم (علیہا السلام) کی فضیلت اور ان کے منتخب ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم (علیہا السلام) کو تمام دنیا کی عورتوں پر فضیلت دی، انہیں پاکیزہ بنایا اور انہیں اپنے خاص بندوں میں شامل کیا۔ یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے کچھ کو خاص فضیلت اور مقام عطا کرتا ہے۔ شیخ طوسی (رحمہ اللہ) نے لکھا ہے: "وَاصْطَفَاکِ عَلَىٰ نِسَاءِ الْعَالَمِینَ" سے مراد حضرت مریم (علیہا السلام) کو اپنے زمانے کی عورتوں پر فضیلت دی گئی ہے۔ ابو جعفر (علیہ السلام) نے فرمایا: اس لیے کہ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) تمام دنیا کی عورتوں کی سردار ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: "خدیجہ (سلام اللہ علیہا) کو میری امت کی عورتوں پر اسی طرح فضیلت دی گئی ہے، جیسے مریم (علیہا السلام) کو تمام دنیا کی عورتوں پر فضیلت دی گئی ہے۔"(16)
زمخشری نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے: "بہت سے مرد کمال تک پہنچے، لیکن عورتوں میں سے صرف چار نے کمال حاصل کیا: آسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)، مریم بنت عمران، خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔"(17) بغوی نے لکھا ہے: "بہترین عورتیں مریم بنت عمران ہیں اور میری امت کی بہترین عورت خدیجہ (رضی اللہ عنہا) ہیں۔"(18) آلوسی نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: "چار عورتیں اپنے زمانے کی سردار ہیں: مریم بنت عمران، آسیہ بنت مزاحم، خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔ اور ان میں سے افضل ترین فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) ہیں۔"(19) قرطبی نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: "جنت کی سب سے افضل عورتیں خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، مریم بنت عمران، اور آسیہ بنت مزاحم ہیں۔"(20)
ابن کثیر نے حضرت علی (علیہ السلام) سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا: "میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا: بہترین عورتیں مریم بنت عمران ہیں اور میری امت کی بہترین عورت خدیجہ بنت خویلد ہیں۔"(21) اس آیت اور اس کی تفسیر سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم (علیہا السلام) کو تمام دنیا کی عورتوں پر فضیلت دی اور انہیں پاکیزہ بنایا۔ اسی طرح، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیہا) کو اپنی امت کی عورتوں پر فضیلت دی اور انہیں مریم (علیہا السلام) کے برابر قرار دیا۔ حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیہا) کی زندگی ہمارے لیے ایک روشن مثال ہے کہ کیسے ایمان، وفاداری اور قربانی کے ذریعے انسان اللہ کی رضا حاصل کرسکتا ہے اور جنت کے اعلیٰ مقامات تک پہنچ سکتا ہے۔
پانچویں آیت: "وَمَا یَسْتَوِی الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِیرُ * وَلَا الظُّلُمَاتُ وَلَا النُّورُ * وَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَرُورُ * وَمَا یَسْتَوِی الْأَحْیَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ ۚ إِنَّ اللَّهَ یُسْمِعُ مَن یَشَاءُ ۖ وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِی الْقُبُورِ"، "اور اندھا اور بینا برابر نہیں ہوسکتے، * اور نہ تاریکیاں اور روشنی، * اور نہ سایہ (آرام بخش) اور تپش (گرمی کی شدت)، * اور نہ زندہ اور مردہ برابر ہوسکتے ہیں۔ بے شک اللہ جسے چاہتا ہے، اپنا پیغام سناتا ہے اور تو انہیں نہیں سنا سکتا جو قبروں میں ہیں۔"(22) سید ہاشم بحرانی (رحمہ اللہ) نے اہل سنت کے طریقے سے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: "اللہ تعالیٰ کا فرمان: "وَمَا یَسْتَوِی الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِیرُ" سے مراد اندھا ابوجہل ہے اور بینا امیرالمومنین علی (علیہ السلام) ہیں۔ "وَلَا الظُّلُمَاتُ وَلَا النُّورُ" سے مراد تاریکیاں ابوجہل ہیں اور نور امیرالمومنین علی (علیہ السلام) ہیں۔ "وَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَرُورُ" سے مراد سایہ جنت میں امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کے لیے ہے اور گرمی جہنم ابوجہل کے لیے ہے۔ پھر انہوں نے تمام کو جمع کرتے ہوئے کہا: "وَمَا یَسْتَوِی الْأَحْیَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ" سے مراد زندہ حضرت علی (علیہ السلام)، حمزہ، جعفر، حسن، حسین، فاطمہ (سلام اللہ علیہا)، اور خدیجہ (سلام اللہ علیہا) ہیں اور مردہ مکہ کے کفار ہیں۔"(23)
چھٹی آیت: "إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَىٰ آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِیمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِینَ"، "بے شک اللہ نے آدم، نوح، آل ابراہیم اور آل عمران کو تمام دنیا والوں پر فضیلت دی ہے۔"(24) قرآن مجید کی یہ آیت حق و باطل، نور و ظلمت اور زندہ و مردہ کے درمیان واضح فرق کو بیان کرتی ہے۔ یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ حق اور باطل، نور اور تاریکی اور زندہ اور مردہ کبھی برابر نہیں ہوسکتے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ حق کو قبول کریں اور باطل سے دور رہیں۔ فرات کوفی (رحمہ اللہ) نے ابو مسلم خولانی سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: "رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے پاس تشریف لے گئے، جبکہ عائشہ بھی وہاں موجود تھیں۔ دونوں کے چہرے سرخ تھے، کیونکہ وہ فخر کر رہی تھیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے پوچھا: تمہارا کیا معاملہ ہے؟ تو انہوں نے بتایا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: "اے عائشہ! کیا تم نہیں جانتیں کہ اللہ نے آدم، نوح، آل ابراہیم، آل عمران، علی، حسن، حسین، حمزہ، جعفر، فاطمہ اور خدیجہ (علیہم السلام) کو تمام دنیا والوں پر فضیلت دی ہے؟"(25) اسی طرح کا مضمون "الدر المنثور" میں بھی ذکر کیا گیا ہے۔ (26)
اس آیت اور اس کی تفسیر سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حق و باطل، نور و ظلمت اور زندہ و مردہ کے درمیان واضح فرق قائم کیا ہے۔ یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ حق اور نور ہمیشہ باطل اور تاریکی پر غالب آتے ہیں۔ سید ہاشم بحرانی (رحمہ اللہ) کی تفسیر کے مطابق، اس آیت میں "اندھا" سے مراد ابوجہل ہے، جو کفر اور گمراہی کی علامت ہے، جبکہ "بینا" سے مراد امیرالمومنین علی (علیہ السلام) ہیں، جو علم، ہدایت اور حق کی روشنی کی علامت ہیں۔ اسی طرح، "تاریکیاں" ابوجہل کی گمراہی کو ظاہر کرتی ہیں، جبکہ "نور" امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کے علم اور ہدایت کو ظاہر کرتا ہے۔ "سایہ" جنت میں امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کے لیے ہے، جو آرام اور سکون کی علامت ہے، جبکہ "گرمی" جہنم ابوجہل کے لیے ہے، جو عذاب اور تکلیف کی علامت ہے۔ آخر میں، "زندہ" سے مراد حضرت علی (علیہ السلام)، حمزہ، جعفر، حسن، حسین، فاطمہ (سلام اللہ علیہا)، اور خدیجہ (سلام اللہ علیہا) ہیں، جو ایمان، قربانی اور ایثار کی وجہ سے زندہ اور جاوداں ہیں، جبکہ "مردہ" سے مراد مکہ کے کفار ہیں، جو کفر اور گمراہی کی وجہ سے روحانی طور پر مردہ ہیں۔
ساتویں آیت: "وَبَیْنَهُمَا حِجَابٌ ۚ وَعَلَى الْأَعْرَافِ رِجَالٌ یَعْرِفُونَ کُلًّا بِسِیمَاهُمْ ۚ وَنَادَوْا أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَنْ سَلَامٌ عَلَیْکُمْ ۚ لَمْ یَدْخُلُوهَا وَهُمْ یَطْمَعُونَ * وَإِذَا صُرِفَتْ أَبْصَارُهُمْ تِلْقَاءَ أَصْحَابِ النَّارِ قَالُوا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِینَ * وَنَادَىٰ أَصْحَابُ الْأَعْرَافِ رِجَالًا یَعْرِفُونَهُمْ بِسِیمَاهُمْ قَالُوا مَا أَغْنَیٰ عَنْکُمْ جَمْعُکُمْ وَمَا کُنْتُمْ تَسْتَکْبِرُونَ * أَهَٰؤُلَاءِ الَّذِینَ أَقْسَمْتُمْ لَا یَنَالُهُمُ اللَّهُ بِرَحْمَةٍ ۚ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ لَا خَوْفٌ عَلَیْکُمْ وَلَا أَنْتُمْ تَحْزَنُونَ * وَنَادَىٰ أَصْحَابُ النَّارِ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَنْ أَفِیضُوا عَلَیْنَا مِنَ الْمَاءِ أَوْ مِمَّا رَزَقَکُمُ اللَّهُ ۚ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى الْکَافِرِینَ"، "اور ان دونوں (جنت اور جہنم والوں) کے درمیان ایک پردہ ہے اور اعراف پر کچھ لوگ ہیں، جو ہر ایک کو ان کی شکل و صورت سے پہچانتے ہیں۔ وہ جنت والوں کو پکارتے ہیں: "تم پر سلامتی ہو!" لیکن وہ خود جنت میں داخل نہیں ہوتے، حالانکہ انہیں اس کی امید ہوتی ہے۔ * اور جب ان کی نگاہیں جہنم والوں کی طرف پلٹتی ہیں تو کہتے ہیں: "اے ہمارے رب! ہمیں ظالم لوگوں کے ساتھ نہ رکھ۔" * اور اعراف والے کچھ لوگوں کو پکارتے ہیں، جنہیں وہ ان کی شکل و صورت سے پہچانتے ہیں اور کہتے ہیں: "تمہارا مال و دولت اور تمہارا تکبر تمہیں کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکا۔"* کیا یہ وہی لوگ نہیں ہیں، جن کے بارے میں تم قسمیں کھاتے تھے کہ اللہ کی رحمت ان تک نہیں پہنچے گی؟ (لیکن اب ان سے کہا جاتا ہے:) جنت میں داخل ہو جاؤ، نہ تمہیں کوئی خوف ہوگا اور نہ تم غمگین ہوگے۔ * اور جہنم والے جنت والوں کو پکارتے ہیں: "ہم پر پانی یا جو کچھ اللہ نے تمہیں دیا ہے، اس میں سے کچھ بہا دو۔" وہ جواب دیتے ہیں: "اللہ نے یہ چیزیں کافروں پر حرام کر دی ہیں۔"(27)
اعراف کیا ہے؟
قرآن مجید کی یہ آیت جنت اور جہنم کے درمیان ایک خاص مقام "اعراف" کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اعراف دراصل بلند زمینوں کو کہتے ہیں۔ اعراف ایک بلند مقام ہے، جو جنت اور جہنم کے درمیان واقع ہے، جیسے ایک پردہ یا ایک بلند مقام جو ان دونوں کے درمیان حائل ہے۔ یہاں پر کچھ لوگ کھڑے ہوتے ہیں، جو جنت اور جہنم دونوں کو دیکھ سکتے ہیں اور انہیں ان کی شکل و صورت سے پہچانتے ہیں۔ سید ہاشم بحرانی (رحمہ اللہ) نے بشر بن حبیب سے روایت کی ہے کہ امام صادق (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ کے فرمان "وَبَیْنَهُمَا حِجَابٌ وَعَلَى الْأَعْرَافِ رِجَالٌ" کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: "یہ جنت اور جہنم کے درمیان ایک دیوار ہے، جس پر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، علی، حسن، حسین، فاطمہ، اور خدیجہ الکبری (علیہم السلام) کھڑے ہیں۔ وہ پکارتے ہیں: "ہمارے دوستدار اور شیعہ کہاں ہیں؟" پھر وہ ان کی طرف آتے ہیں اور انہیں ان کے ناموں اور ان کے باپوں کے ناموں سے پہچانتے ہیں۔ یہی وہ ہے، جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "ہر ایک کو ان کی شکل و صورت سے پہچانتے ہیں۔" پھر وہ ان کے ہاتھ پکڑتے ہیں اور انہیں پل صراط سے گزار کر جنت میں داخل کرتے ہیں۔" (28)
اس آیت اور اس کی تفسیر سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ "اعراف" جنت اور جہنم کے درمیان ایک خاص مقام ہے، جہاں کچھ برگزیدہ لوگ کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ جنت اور جہنم دونوں کو دیکھ سکتے ہیں اور انہیں ان کی شکل و صورت سے پہچانتے ہیں۔ امام صادق (علیہ السلام) کی تفسیر کے مطابق، یہ برگزیدہ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، حضرت علی (علیہ السلام)، حسن، حسین، فاطمہ (سلام اللہ علیہا) اور خدیجہ الکبری (سلام اللہ علیہا) ہیں۔ یہ تفسیر ہمیں بتاتی ہے کہ اہل بیت (علیہم السلام) اور حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیہا) کا کردار صرف دنیا میں ہی نہیں، بلکہ آخرت میں بھی نمایاں ہے۔ وہ جنت اور جہنم کے درمیان ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں اور اپنے شیعوں اور دوستداروں کو پہچانتے ہیں، انہیں جنت کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ اس آیت سے یہ سبق ملتا ہے کہ اہل بیت (علیہم السلام) اور ان کے ساتھیوں کی پیروی کرنے والے لوگ آخرت میں بھی ان کی رہنمائی اور شفاعت سے مستفید ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان برگزیدہ شخصیات کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں جنت کی بلندیوں تک پہنچائے۔
نتیجہ:
1۔ حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیہا) کی فضیلت اور عظمت:
ان آیات کی روشنی میں ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ حقیقی زندگی والوں میں سے ایک اور چار برگزیدہ خواتین میں سے ایک، جو دوسری عورتوں پر فضیلت رکھتی ہیں اور سابقین میں سے ایک، اعراف پر کھڑے ہونے والوں میں سے ایک، وہ ام المؤمنین حضرت خدیجہ کبریٰ (سلام اللہ علیہا) ہیں، جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یار و مشاور تھیں۔ قرآن مجید کی آیات اور احادیث میں حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیہا) کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفادار زوجہ، اسلام کی اولین حمایتی اور جنت کی اعلیٰ عورتوں میں سے ایک کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ ان کی فضیلت کو قرآن مجید کی آیات اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ انہوں نے نہ صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مالی معاونت کی، بلکہ ان کی روحانی اور عملی زندگی میں بھی ایک اہم کردار ادا کیا۔
2۔ حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیہا) کا کردار اسلام کی ترقی میں:
حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیہا) نے اسلام کے ابتدائی دور میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حمایت کی اور ان کے ساتھ کھڑی رہیں۔ ان کی وفاداری اور قربانی نے اسلام کی بنیادوں کو مضبوط کیا۔ قرآن مجید کی آیات میں ان کے مال کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بے نیازی کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ان کا کردار اسلام کی ترقی میں نہایت اہم تھا۔
3۔ حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیہا) کا مقام آخرت میں:
احادیث میں حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیہا) کو جنت کی اعلیٰ عورتوں میں سے ایک کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ انہیں "تسنیم" جیسی اعلیٰ شراب پلائی جاتی ہے، جو جنت کی سب سے بہترین نعمتوں میں سے ایک ہے۔ ان کا ذکر مقربین میں شامل ہونا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ نہ صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفادار زوجہ تھیں، بلکہ ان کی قربانیوں، ایثار اور ایمان کی وجہ سے وہ جنت کے اعلیٰ مقامات پر فائز ہیں۔
4۔ حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیہا) کی زندگی سے سبق:
قرآن مجید کی آیات اور احادیث میں حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیہا) کا ذکر ان کی عظمت، فضیلت اور اسلام کی ترقی میں ان کے اہم کردار کو واضح کرتا ہے۔ ان کی وفاداری، ایثار اور قربانی نے نہ صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کو آسان بنایا، بلکہ اسلام کی بنیادوں کو مضبوط کیا۔ ان کی زندگی ہمارے لیے ایک روشن مثال ہے کہ کیسے ایمان، وفاداری، اور قربانی کے ذریعے انسان اللہ کی رضا حاصل کرسکتا ہے اور جنت کے اعلیٰ مقامات تک پہنچ سکتا ہے۔ ان کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اللہ کی راہ میں قربانی اور ایثار کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ بلند مقام عطا فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان برگزیدہ شخصیات کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں جنت کی بلندیوں تک پہنچائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں شیعیان اہل بیت کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ ہم اس عظیم خاتون کے فضائل کو اس طرح بیان کرسکیں، جو حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی والدہ کے شایانِ شان ہو اور دنیا میں ان کی زیارت اور آخرت میں ان کی شفاعت ہمارا مقدر بنے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی:
[1] سورہ الفرقان، آیت 74۔
[2] حاکم حسکانی، شواہد التنزیل، جلد 1، صفحہ 342۔
[3] علامہ مجلسی، بحار الانوار، جلد 16، صفحہ 12۔
[4] تفسیر قمی، جلد 2، صفحہ 123۔
[5] فیض کاشانی، تفسیر الصافی، جلد 4، صفحہ 45۔
[6] تفسیر قمی، جلد 2، صفحہ 123۔
[7] سورہ الضحی، آیات 6-8۔
[8] شیخ صدوق، معانی الاخبار، جلد 1، صفحہ 45۔
[9] شیخ صدوق، معانی الاخبار، جلد 1، صفحہ 46۔
[10] تفسیر المیزان، جلد 20، صفحہ 123۔
[11] سورہ المطففین، آیات 18-28۔
[12] علامہ مجلسی، بحار الانوار، جلد 8، صفحہ 34۔
[13] علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، جلد 2، صفحہ 56۔
[14] علامہ مجلسی، بحار الانوار، جلد 16، صفحہ 78۔
[15] سورہ آل عمران، آیت 42۔
[16] شیخ طوسی، التبیان، جلد 2، صفحہ 45۔
[17] زمخشری، الکشاف، جلد 1، صفحہ 56۔
[18] بغوی، معالم التنزیل، جلد 1، صفحہ 78۔
[19] آلوسی، روح المعانی، جلد 3، صفحہ 89۔
[20] قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، جلد 4، صفحہ 123۔
[21] ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، جلد 2، صفحہ 34۔
[22] سورہ فاطر، آیات 19-22۔
[23] سید ہاشم بحرانی، البرہان فی تفسیر القرآن، جلد 4، صفحہ 56۔
[24] سورہ آل عمران، آیت 33۔
[25] فرات کوفی، تفسیر فرات الکوفی، جلد 1، صفحہ 78۔
[26] سیوطی، الدر المنثور، جلد 2، صفحہ 123۔
[27] سورہ الاعراف، آیات 46-50۔
[28] سید ہاشم بحرانی، البرہان فی تفسیر القرآن، جلد 2، صفحہ 12
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اور قربانی نے اسلام کی بنیادوں کو مضبوط کیا جنت اور جہنم کے درمیان ایک کا کردار اسلام کی ترقی میں نے اس آیت کی تفسیر میں طور پر بیان کیا گیا ہے قرآن مجید کی آیات اور کی وفادار زوجہ تھیں قرآن مجید کی یہ آیت وفاداری اور قربانی م ا ی س ت و ی ال أ امیرالمومنین علی توفیق عطا فرمائے حضرت فاطمہ زہراء نہ صرف رسول اللہ خدیجہ بنت خویلد سید ہاشم بحرانی اور احادیث میں اور حضرت خدیجہ سے کون مراد ہے اور ان کے ساتھ کہ حضرت خدیجہ ان کی وفاداری ہیں اور انہیں میں رسول اللہ علیہم السلام نے رسول اللہ میں نے پوچھا کو تمام دنیا کو رسول اللہ علامہ مجلسی علیہ السلام ان کا کردار جنت کے اعلی کے بارے میں فیض کاشانی میں سے ایک نے لکھا ہے بلکہ ان کی اس آیت میں نے فرمایا قربانی کے اور خدیجہ ایثار اور اہم کردار رحمہ اللہ کے لیے ہے کی وجہ سے میں ان کے کے طور پر ان کا ذکر اور ان کی بے نیازی والوں کو کی روشنی کا ذریعہ کی پیروی کے ذریعے کی علامت کرتے ہیں کی زندگی جواب دیا کہتے ہیں حضرت علی ل ا الظ اور تجھے ہے کہ وہ ایک اہم میں بھی اللہ نے سکتا ہے اللہ کی ع ل ى ال کیا اور اور جنت مقام ہے ان آیات نے اپنے کرتی ہے ال م ین ا
پڑھیں:
داعش کمانڈر شریف اللہ کو 70 ممالک ڈھونڈ رہے تھے
کراچی (ڈیلی پاکستان آن لائن )کابل ایئر پورٹ حملے کے ماسٹر مائنڈ داعش کمانڈر شریف اللہ کو 70 ممالک کی پولیس اور انٹیلی جنس ڈھونڈ رہی تھی۔
روز نامہ امت کی رپورٹ کے مطابق اسامہ بن لادن کے بعد یہ سب سے بڑی ”مین ہنٹ“ (Man Hunt ) تھی۔ یہ کہنا ہے معروف عسکری تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون کا۔” امت“ سے بات کرتے ہوئے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کابل ایئر پورٹ پر سوا تین برس پہلے کئے جانے والے حملے کے بعد سے تاریخ کی دوسری بڑی ”مین ہنٹ“ شروع کی گئی، جس کا مقصد شریف اللہ عرف جعفر کو پکڑنا تھا۔ ”مین ہنٹ“ کا مطلب کسی خطرناک مفرور کی بڑے پیمانے پر تلاش ہے جس میں عوام کی مدد، پولیس، فوج، انٹیلی جنس اور جدید ٹیکنالوجی سمیت ہر قسم کے ذرائع کو استعمال کیا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ چھبیس اگست دو ہزار اکیس کوامریکی انخلا کے موقع پر کابل ایئرپورٹ حملے میں تیرہ امریکی فوجیوں سمیت ایک سو ستّر افغان باشندے ہلاک ہوگئے تھے۔ آصف ہارون کے مطابق تب سے داعش کمانڈر شریف اللہ نہ صرف امریکی خفیہ ایجنسیوں کا اہم ہدف تھا بلکہ روس، برطانیہ، لیبیا، ایران ، ترکی، فرانس، جرمنی اور کینیڈا سمیت ستّر ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیاں اس ”مین ہنٹ“ میں شامل تھیں۔ کیونکہ داعش اس وقت دنیا بھر کے لئے ایک سنگین خطرے کے طور پر ابھری ہے۔
شریف اللہ داعش کے جس نیٹ ورک سے منسلک تھا، اس کی شاخیں درجنوں ممالک میں پھیلی ہوئی ہیں۔ تمام تر کوششوں کے باوجود یہ ستّر ممالک شریف اللہ کو پکڑنے سے قاصر رہے اور آخرکار یہ کارنامہ پاکستان نے انجام دیا اور دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں اپنا لوہا منوایا ،جس سے دنیا بھر میں پاکستان کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ مستقبل میں اس جنگ میں پاکستان ایک اہم سٹیک ہولڈر ہوگا۔
نانا نے کتاب لی، 81 سالہ نواسی نے آخر کار 99 برس بعد لائبریری کو کتاب واپس کردی، دلچسپ تفصیلات سامنے آگئیں
آصف ہارون کے بقول پاکستان نے شریف اللہ کو بلوچستان میں پاک افغان بارڈر کے ملحقہ علاقے سے گرفتار کرکے مکمل انٹیروگیشن کے بعد امریکا کے حوالے کیا۔ ایبے گیٹ خودکش حملے اور ماسکو حملے سمیت دہشت گردی کے دیگر واقعات کے اعترافات بھی وہ پاکستانی تفتیش کاروں کے سامنے کرچکا تھا، جسے امریکی انٹیلی جنس نے ری چیک کرکے درست قرار دیا اور اب امریکی ایف بی آئی کی ٹیم اور ورجینیا کی عدالت کے روبرو بھی شریف اللہ نے یہ سارے اعترافات کرلئے ہیں۔ پاکستان میں انٹیروگیشن کے دوران داعش کمانڈر نے اپنے مستقبل کے منصوبوں کے حوالے سے بھی انکشافات کئے تھے، جس کی مزید تحقیقات اب امریکی حکام کریں گے۔
آصف ہارون کہتے ہیں چونکہ داعش کی افغانستان میں مضبوط جڑیں ہیں۔ اس لئے مستقبل میں امریکا اور پاکستان کے تعاون سے افغانستان میں داعش کے ٹھکانوں اور کمانڈروں کو ڈرون کے ذریعے ٹارگٹ کیا جاسکتا ہے۔ ماضی میں بیت اللہ محسود سے لے کر فضل اللہ تک ٹی ٹی پی کی صف اول کی قیادت کو ڈرون کے ذریعے ہی نشانہ بنایا گیا تھا۔ پاکستان کے لئے داعش کے ساتھ ساتھ ٹی ٹی پی بھی ایک بڑا خطرہ ہے، لہٰذا امریکاسے ڈرون کی جدید ٹیکنالوجی حاصل کرکے پاکستان بھی یہی طریقہ اختیار کرسکتا ہے۔ جس طرح حافظ گل بہادر گروپ سے منسلک تنظیم نے بنوں میں حملہ کیا ، اس سے واضح ہوگیا ہے کہ ٹی ٹی پی کا داعش سے بھی گٹھ جوڑ ہے، اگرچہ داعش کو افغان طالبان کا بڑا حریف تصور کیا جاتا ہے لیکن حافظ گل بہادر جیسے ٹی ٹی پی سے منسلک کئی گروپ داعش خراسان کے ساتھ مل کر دہشت گردی کی کارروائیاں کررہے ہیں۔
ایک سوال پر آصف ہارون کا کہنا تھا کہ بنوں حملے کے منصوبہ سازوں اور سہولت کاروں کو کسی صورت نہیں چھوڑا جائے گا، کیوں کہ اس حملے کے تانے بانے بھی افغانستان کی سرزمین سے ملتے ہیں ، لہٰذا افغانستان میں حافظ گل بہادر کے ٹھکانوں پر فضائی کارروائی خارج ازامکان نہیں لیکن یہ مناسب وقت اور پوری تیاری کے ساتھ کی جائے گی تاکہ سو فیصد اہداف حاصل کئے جاسکیں۔ یہ طے کرلیا گیا ہے کہ محض انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کافی نہیں، دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لئے سرحد پار دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کرنے ہوں گے۔ اس کے لئے امریکا سے انیٹلی جنس تعاون بھی لیا جاسکتا ہے اور امریکا اس کے لئے تیار ہے۔صدر ٹرمپ سبکدوش ہونے والے امریکی صدر جو بائیڈن پر جلدبازی میں کئے جانے والے انخلا اور ساڑھے سات ارب ڈالر کے جدید ہتھیار افغانستان چھوڑ جانے پر تو سیخ پا ہیں ہی ، وہ بگرام ایئر بیس حوالے کرنے پر بھی برہم ہیں۔ ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ سٹریٹجک اہمیت کا بگرام ایئربیس امریکا کے پاس رہنا چاہئے تھا تاکہ افغانستان میں داعش اور القاعدہ کو امریکا کاﺅنٹر کرسکتا۔
آصف ہارون کے مطابق اب ٹرمپ ہر صورت بگرام ایئر بیس واپس لیناچاہتے ہیں اور اس سلسلے میں روس ان کی مدد کرے گا۔ یوکرین معاملے میں ٹرمپ ایسے ہی پیوٹن سے تعاون نہیں کررہے، ظاہر ہے کہ اس کے بدلے میں وہ خود بھی تو کچھ لیں گے۔ ٹرمپ کا دوسرا بڑا ہدف افغانستان سے اپنا اربوں ڈالر مالیت کا جدید اسلحہ واپس لینا ہے، جو وہ سمجھتے ہیں کہ افغان طالبان، ٹی ٹی پی اور داعش جیسی تنظیموں کو فروخت کررہے ہیں۔
اس فوجی سازو سامان کے بارے میں افغان آرمی چیف نے کہا ہے کہ لے کر دکھا سکتے ہو تو لے لو۔ ہوسکتا ہے امریکا پاکستان سے کہہ دے کہ وہ ان سے جتنے ہتھیار لے سکتا ہے لے کہ یہ ہتھیار زیادہ تر پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال ہورہے ہیں۔
پورٹ قاسم اراضی سکینڈل:وزیراعظم نے تحقیقات کیلئے 3 رکنی کمیٹی قائم کر دی
مزید :