زباں فہمی نمبر239 ؛ اُردو اور گجراتی کے لسانی تعلق واشتراک پر ایک نظر
اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
یکم مئی1960 ء کو گجرات، ہندوستان کا خودمختار صوبہ یا ریاست بنا۔ اُس دور میں جب آزادی کا سورج دیکھنے والی نسل بوڑھی ہوچکی تھی اور نئی نسل اُس کی جگہ لے رہی تھی تو ایسے میں پورے معاشرے میں تبدیلیاں رُونُما ہورہی تھیں، مختلف زبانیں بولنے والوں کے آپس میں میل ملاپ کی وجہ سے گجراتی کا ذخیرہ الفاظ بھی قدرے مختلف اور وسیع ہوا، نیز، گجراتیوں اور گجرات میں رہنے والے دیگر لوگوں نے (جن کا تعلق اترپردیش، بہار، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، راجستھان سمیت مختلف صوبوں سے تھا)، اُردو سے روزاَفزوں ارتباط کی وجہ سے اردو زبان وادب میں دل چسپی ظاہر کرتے ہوئے نثرونظم میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دِکھائے۔
عالمی معیار کی شاعری بھی دیکھنے سننے کو ملی، جبکہ اس ضمن میں تحقیق کا سفر بھی جاری رہا، گو قدرے سُست رَوی سے۔ ایک طویل مدت تک پورے گجرات میں اردو شاعری کا چلن رہا اور اِس باب میں گجراتی ودیگر شعراء نے خوب خوب حصہ لیا، بطورِخاص احمد آباد کے متعلق یہاں تک کہا گیا کہ ’’گجرات میں اردو شاعری کا بھی ایک زمانہ رہا۔ ایک بڑی تعداد شعرا کی یہاں پائی گئی۔ یہ شعر اس زمانے کی تصویر کو ہمارے سامنے پیش کرتا ہے جب یہاں گلی گلی شاعر ہوا کرتے تھے۔ مشاعروں کا دور دورہ تھا۔ شعر دیکھیے ؎
اے مِرے دل! آ تجھے میں لے چلوں ’رکھیال*‘میں
ڈیڑھ سو شاعر ملیں گے تجھ کو ، ایک ہی چال میں
* احمدآباد میں واقع ایک علاقہ جہاں ایک زمانے میں بڑی تعداد میں اردو شعرا موجود تھے اور اکثر مشاعرہ و شعری نشستوں کا اہتمام ہوا کرتا تھا‘‘۔ (’’گجرات میں اردو غزل: 1950 کے بعد ‘‘۔مضمون نگار: ڈاکٹر غلام محمد انصاری، آنلائن دستیاب)۔ یہاں ایک اور لفظ کی وضاحت اہلِ زبان پاکستانیوں کے لیے ضروری ہے۔ اُس مخصوص علاقے میں ’چال‘ کا لفظ ایک مخصوص تناظُر میں استعمال ہوتا ہے اور اَکثر اُس کا تلفظ ’چَول‘ سننے میں آیا ہے۔ چال مغربی ہندوستان میں، گجرات تا بمبئی و مضافات میں کسی ایسی رہائشی عمارت کے لیے مستعمل ہے جہاں بھانت بھانت کے لوگ چھوٹے چھوٹے حصّوں میں رہتے ہوں اور عمارت تعمیراتی لحاظ سے معمولی درجے کی ہو۔ یہ اسم بنیادی طور پر سنسکِرِت سے مراٹھی میں مستعار لیا گیا اور مادّہ اشتقاق مختلف ہونے کے باجود، انگریزی لفظ cell بھی اس کا ہم معنیٰ ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پہلے پہل ’چال‘ کی تعمیر کا کام 1700ء کے لگ بھگ ہوا تھا، مگر خاکسار کے خیال میں یہ نکتہ تحقیق طلب ہے۔ ہمیں ڈراموں اور فلموں کے توسط سے ایسی عمارت کے دیکھنے اور اِس نام کا تحقیری استعمال سننے کا بارہا اتفاق ہوا، مثلاً ’فُلاں تو چال کا رہنے والا ہے‘۔
’’1950ء کے بعد گجرات سے جو شاعری اور شعر فہمی چھن کر آتی ہے وہ بڑی خوبصورت اور پرُکشش ہے۔ اُس نے زندگی کو ایک الگ انداز سے دیکھا ہے، پرکھا ہے اور اُس سے جو نچوڑ سامنے آیا ہے وہ ملک کے کسی بھی شاعر کے شعر کے سامنے رکھا جا سکتا ہے۔ اس لحاظ سے خلشؔ بڑودوی کا ایک شعر پیشِ خدمت ہے جس میں زندگی کے سرد و گرم تجربات کو نہایت قریب سے محسوس کیا جا سکتا ہے اور میرا ماننا ہے کہ 1950 کے بعد جس پل صراط سے گجرات میں اردو غزل گزری ہے، یہ شعر اس کی بھر پور نمائندگی کرتا ہے ؎
دل لگانا بُرا نہیں لیکن
لوگ ملتے نہیں طبیعت کے
کیا یہ شعر کبھی مر سکتا ہے؟ اس قدر آسان اور سلیس زبان و انداز سے کہا گیا شعر اردو غزل میں اپنے آپ اپنا مقام بنا لیتا ہے۔ اور اُس خیالِ خام کو رد کرتا ہے کہ گجراتیوں کی اردو اچھّی نہیں ہوتی۔ اردو شاعری میں ایک بڑی تعداد میں اشعار زندہ رہے اور ضرب الامثال بنے۔ خلشؔ بڑودوی کا یہ شعر بھی ایسا ہی ہے جو ذہن میں کسی پلاننگ، سابقہ منصوبہ بندی اور دانستہ کوشش کے بغیر یاد رہ جاتا ہے۔ بڑی، سخت اور مشکل بحروں کے علاوہ آسان اور چھوٹی بحروں میں بھی گجرات میں عمدہ شاعری ہوئی ہے۔ میں اس خیال اور منصوبہ بند طریقے سے پھیلائی گئی غلط فہمی کو بھی رَد کرتا ہوں کہ 1950 ء کے بعد سے شاعری اور غزل کے نام پر گجرات سے صرف ایک یا دو یا چند نام ہی لیے جا سکتے ہیں‘‘۔ (حوالہ مندرجہ بالا)۔ اس تحریر سے گجرات میں جدید اُردو شاعری کا منظرنامہ سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے، ورنہ ہمارے یہاں لوگ فقط ولیؔ گجراتی اور اُن کے عہد کی شاعری ہی سے واقف ملتے ہیں۔
محولہ بالا ماخذ سے مدد لے کر گجرات میں اردو غزل کی بات کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 1950ء سے 1980ء کے عرصے میں گجرات میں کلاسیکی اور جدید دونوں اسلوب میں نمایاں ہونے والے شعراء میں’’فخرِ گجرات‘‘ فخر احمدآبادی، کلیم احمدآبادی، راز صدیقی شاہجہانپوری، حکیم بشیر احمد خاں زخمی احمدآبادی، خلیل احمدآبادی، حزیں ؔقریشی، محمد نظیر نصیری فیض آبادی، کامل چشتی احمدآبادی، وحید بنارسی، عیسیٰ خاں نشتر، عاشق جونپوری، خداداد خاں وحشی، عادل دہلوی، ضیا ناگوری، مرزا کوثر بیگ، منشی نسیم احمد صدیقی کامل امروہوی، زوّار حسین احمر، قمر احمدآبادی، خیال قریشی، بیکل جونپوری، تاج ٹونکی، کامل جونپوری، شاطر اصلاحی، محمود مائل، شور الہ آبادی، نادم اندوری، شمس ؔقریشی اور رحمت امروہوی، اثر احمدآبادی، سرشار بلند شہری، فنا پرتاپ گڑھی، نفیس دھامپوری، خلیل دھنتیجوی، جمال قریشی، خواجہ سنبھلی، مختار جونپوری، کفیل احمدآبادی، اسماعیل خالدی صاحب، ایم کے ارمان، نظر سورتی، عمر انصاری، وسیم ملک، منظر نوساروی، ڈاکٹرسیّد علی ندیم، ڈاکٹرانجنا سندھیر، شبنم انصاری، عباس دانا، عقیل شاطر، مظہر رحمن، شکیل اعظمی، انیس منیری، وفا جونپوری کے علاوہ سامر کھتری اور ہرش برہم بھٹ شامل ہیں۔
اب ذرا اِ س فہرست میں شامل کچھ شعراء کے کلام سے خوشہ چینی بھی کرلی جائے:
یا تو دیوانہ ہنسے یا وہ جسے توفیق دے
ورنہ اس دنیا میں رہ کر مسکرا سکتا ہے کون
(خدا داد خاں وحشیؔ)
راقم کے خیال میں جناب انصاری سے مصرع اولیٰ نقل کرنے میں کچھ سہو ہوا ہے۔
اب مجھے نیند میں پہنا دیا شیشے کا لباس
کوئی مارے نہ صداؤں کے نُکیلے پتّھر
(شمسؔ احمدآبادی)
یہ شعر ہر لحاظ سے نادر اور بدیع ہے۔ ’’صداؤں کے نُکیلے (نوکیلے) پتھر‘‘ بہت ہی منفرد ترکیب ہے، پہلے کبھی کہیں نہیں دیکھی۔
خوں رگوں میں ہے ابھی جتنا بھی چاہے، لے لے
پاؤں ہو جائیں گے محتاجِ حنا، میرے بعد
بجلیوں کی ہے اُچھل کود، میرے پینے تک
پھُوٹ کے روئے گی ساون کی گھٹا، میرے بعد
ہے نصیریؔ کا مکاں، کیسے کہا غالب ؔنے
کس کے گھر جائے گا سیلابِ بلا میرے بعد
طرز ِ غالبؔ میں ایسا بھرپور کلام محمد نظیر نصیری فیض آبادی کا ہے جنھوں نے گجرات میں اپنی استادی کا لوہا منوالیا ہے۔
اب ذر ا یہ مختلف شعر ملاحظہ فرمائیں:
جانور کے کاٹ لینے کا تدارُک ہے مگر
آدمی کو آدمی کھائے تو اُس کا کیا علاج
اس کے شاعر ہیں نادمؔ اندوری۔ یہ اُن کی قسمت ہے کہ اپنے اصل وطن میں مشہور نہ ہوئے جہاں ڈاکٹر راحتؔ اندوری مرحوم کے سامنے کسی کا چراغ جلنا محال تھا۔
یہ بتا سکتے ہیں محسوس ہی کرنے والے
چوٹ لگتی ہے کہاں درد کہاں ہوتا ہے
( نفیسؔ دھام پوری)
’’روایتی لب و لہجہ اور اندازِ فکر سے ہٹ کر جب گجرات میں اردو شاعری ہونے لگی تو اُس میں سب سے بڑا نام محمد علوی کا سامنے آیا۔ محمد علوی کے ساتھ ساتھ کچھ اور شعرا نے جدید شاعری کا دامن سنبھالا اور اردو شاعری کو نئے تصورات سے روشناس کرایا۔ اس قبیل سے گجرات سے جو نام اُبھر کر سامنے آئے اُن میں محمد علوی اور عادل منصوری کے ساتھ ساتھ رشید افروز، قیوم کنول، جینت پرمار، چینو مودی ارشاد، ریاض لطیف، تنویر صدیقی اور صادق نور کے نام قابلِ ذکر ہیں‘‘۔ (’’گجرات میں اردو غزل: 1950 کے بعد ‘‘۔ مضمون نگار: ڈاکٹر غلام محمد انصاری، آنلائن دستیاب)
ساہتیہ اکادمی ایوارڈ اور گجرات اردو ساہتیہ اکادمی کی طرف سے گورو پرسکار سے نوازے جانے والے منفرد شاعر، محمد علوی کی غزل کا ایک نمونہ دیکھیے:
کبھی تجھ سے ایسا بھی یارانہ تھا
مصلّے سے اُٹھنا گوارا نہ تھا
بہت خوش ہوئے آئینہ دیکھ کر
یہاں کوئی ثانی ہمارا نہ تھا
عادل منصوری اردو ہی نہیں گجراتی کے بھی بڑ ے شاعر مانے جاتے ہیں۔ اُن کے منتخب کلام کی جھلک اہل نقدونظر کو بہت کچھ کہنے اور لکھنے پر مجبور کردے گی:
جو چپ چاپ رہتی تھی دیوار پر
وہ تصویر باتیں بنانے لگی
…………
بسمل کی تڑپنے کی اداؤں میں نشہ تھا
میں ہاتھ میں تلوار لیے جھوم رہا تھا
…………
کیوں چلتے چلتے رُک گئے ویران راستو!
تنہا ہوں آج میں ذرا گھر تک تو ساتھ دو
…………
گھر سے میرے قدم جو گلی کی طرف بڑھے
دروازے پوچھنے لگے، صاحب! کدھر چلے
…………
ایسا کلام ہمیشہ زندہ رہتا ہے جو بہ یک وقت عام فہم اور کلاسیکی طرز سے منسلک ہونے کے باوجود، انتہائی جدید اسلوب میں کہا گیا ہو۔ اس کی کشش ہر خاص وعام کو اَپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔
گجرات میں قیوم کنول اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ اُنھوں نے محض اسلوب ہی مختلف نہیں رکھا ، بلکہ بربِنائے ضرورت، جدید بحور بھی ایجاد کیں۔ ایسے صاحبِ علم کی شاعری نظراَنداز نہیں کی جاسکتی۔ نمونہ کلام:
میرے سائے سے کترا کر گیا ہے
ترا احساس کب سے مر گیا ہے
…………
زنجیر میرے نام کی کھینچی گئی جہاں
تعریف کی ٹرین وہیں پر ٹھہر گئی
…………
حال اُس کا چلو پوچھیں کہ آج اُس کی طرف سے
کیوں اپنی طرف کوئی بھی پتّھر نہیں آیا
گجراتی پر بھرپور دسترس کے حامل حنیف ساحل نے ایسے عمدہ اشعار اُردو میں کہہ کر ہماری تاریخ میں اپنا مقام بنالیا ہے:
قصّہ گو سے خوش بیانی مانگ لے
تیری اپنی ہے کہانی مانگ لے
آج وہ تجھ پر مہرباں ہے بہت
قربتوں کی جاوِدانی مانگ لے
اب ذرا بالکل ہی عوامی رنگ میں کہا گیا یہ مشہور شعر ملاحظہ کیجئے جس کے شاعر خلیلؔ دھنتیجوی، گجراتی اور اُردو دونوں ہی زبانوں میں بطور شاعر اور ناول نگار، نامور ہوئے، محض چار جماعت تک تعلیم پائی اور اتنے بڑے شاعر ہوئے کہ اُن پر ابھی تک چار طالب علم تحقیقی مقالے لکھ چکے ہیں:
اپنے کھیتوں سے بچھڑنے کی سزا پاتا ہوں
اب میں راشن کی قطاروں میں نظر آتا ہوں
اُن کا یہ کلام جگجیت سنگھ نے گایا بھی ہے۔ خلیل دھنتیجوی کا اصل نام خلیل اسمٰعیل مکرانی تھا (یعنی مکرانی نژاد تھے)۔ وہ 12دسمبر1935ء کو گجرات کے ضلع وَڈو دَرا ( Vadodara) یعنی سابق بڑودہ کے گاؤں دھنتیج میں پیدا ہوئے (یہ سن پیدائش وِکی پیڈیا میں درج ہے جبکہ روزنامہ الحیات، رانچی نے اُن کی وفات کی خبر دیتے ہوئے سن پیدائش 1938ء لکھا تھا ) اور4 اپریل 2021ء کووَڈو دَرامیں فوت ہوئے۔ انھیں ادب و صحافت کے علاوہ، طباعت اور فلم سازی کے شعبوں میں دخل تھا۔ خلیل ؔ کو اُردو میں ’ولی ؔ گجراتی غزل ایوارڈ ‘ ملا تو گجراتی میں ’کلاپی ایوارڈ ‘ اور Narsinh Mehta Award سے نوازا گیا جبکہ حکومت ِ بھارت نے انھیں بعداَز مرگ 2022ء میں اعلیٰ اعزاز پدم بھوشن عطا کیا۔ اُن کے دس شعری مجموعے اور سولہ ناول شایع ہوئے۔
شاعری کے مزید انتخاب کا سلسلہ آیندہ بھی جاری رہ سکتا ہے ، سرِ دست اس موضوع کی دوسری جہت کی طرف رُخ کرتے ہیں:
دنیا کی بڑی زبانوں میں شامل، گُجراتی زبان کے مختلف لہجوں یا بولیوں میں سُورتی (سُورت کی بولی)، کھاکڑی (Khakari)، کھاروا (Kharwa) ، کاٹھیاواڑی، میہونی (Mehoni)، پارسی اور مشرقی افریقی گجراتی شامل ہیں۔ (یہاں خاکسار نے قصداً گجراتی بولنے والوں کی تعداد درج کرنے سے گریز کیا ہے، کیونکہ انٹرنیٹ اور پرانے دائرۃ المعارف (Encyclopaedia) قسم کے مآخذ میں آبادی کے اعدادوشمار، ظنّ وتخمین پر مبنی ہیں اور اَگر ہم ہندی، اردو اور ہم رشتہ بولیوں کے اہل زبان ہی کی تعداد جوڑیں تو ایک لمحے میں یہ بات ثابت ہوجائے گی کہ اُردو/ہندی ہی دنیا کی سب سے بڑی زبان ہے ;یہ بات بہت پہلے بھی اپنے ایک مضمون میں لکھ چکا ہوں)۔
ماقبل خاکسارنے قدیم تناظر میں ایسے متعدد الفاظ نقل کیے جن سے گجراتی اور اُردو کی قربت ثابت ہوتی ہے۔ اب ذرا جدید دور میں دیکھتے ہیں۔ گجراتی اور ہندی (جدید) یا اُردو میں مشترکات کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے۔ ہم فقط روزمرّہ ہی سے مثالیں تلاش کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ، نہیں، ہاں، پانی، کھانا، آج، کل، سُنو، بَہُت (بُہت)، اچھّا، تھک (تھکن سے)، دیکھو، بھائی، بہن، ماں، باپ، آنکھ، کام، سامان، پیسہ، پدھارو (تشریف لائیں،خوش آمدید)، نام، نمستے، شُبھ کامنا (نیک تمنّا)، شُبھ راتری (شب بخیر)، بھاگیہ وان (خوش نصیب)، سمج (سمجھ : مختلف شکلوں میں تصریف ہوتی ہے)، بولو، بُلاوو (بُلاؤ)، کرو، جلدی، ٹھیک، آگ، جنم، جنم دن (سالگرہ)، دیوالی، سال مُبارک (سالگرہ مبارک)، ماپھ (مُعاف)، دھنّے واد (دھنّے باد، شاباش)، مَلینے (مِلنا)، مہربانی، سُوم وار (پِیر کا دن)، منگل وار (منگل کا دن)، بُدھ وار (بُدھ کا دن)، گُروُ وار (جمعرات)، شُکر وار (جمعہ)، سنی وار (شنی وار، سنیچر، ہفتہ)، رَوی وار (اِتوار)۔
یہ فہرست یقیناً بہت طویل ہوسکتی ہے اگر اس جہت میں جم کر کام کیا جائے۔ گجراتی اور مراٹھی میں مشترک الفاظ کی فہرست میں پانی، نہیں، ہاں، آپ، ما (مَیں)، تُو، کیا، کا (کیا)، آج، کل، سارے وغیرہ شامل ہیں۔ گجراتی میں دیگر زبانوں (بشمول ہندی/اردو، فارسی، عربی، تُرکی، سواحلی، پُرتگِیز اور انگریزی ) سے مستعار الفاظ کا ذخیرہ بھی توجہ طلب ہے۔ (جاری)
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: گجرات میں اردو غزل گجراتی اور محمد علوی سے گجرات شاعری کا ہوتا ہے کہا گیا سکتا ہے اور ا س کی طرف یہ شعر کے بعد ہے اور
پڑھیں:
شعیب ملک کا بیٹے اذہان سے گہرا تعلق، ہر ماہ دو بار دبئی جانے کا انکشاف
سابق قومی کپتان شعیب ملک نے انکشاف کیا ہے کہ وہ اپنے بیٹے اذہان سے ملاقات کو یقینی بنانے کے لیے ہر ماہ دو مرتبہ دبئی جاتے ہیں حالیہ رمضان ٹرانسمیشن میں گفتگو کرتے ہوئے شعیب ملک نے اپنی نجی زندگی اور بیٹے سے اپنے قریبی تعلق پر بات کی انہوں نے بتایا کہ ان کا بیٹے کے ساتھ محض باپ بیٹے کا نہیں بلکہ ایک دوستانہ اور مضبوط رشتہ ہے شعیب ملک کا کہنا تھا کہ جب وہ دبئی میں ہوتے ہیں تو پوری کوشش کرتے ہیں کہ بیٹے کو اسکول ڈراپ کریں اور واپسی پر خود ہی پِک کریں اس کے علاوہ وہ اذہان کے ساتھ کھیلوں کی سرگرمیوں میں بھی بھرپور حصہ لیتے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ والدین کا بچوں کے ساتھ دوستانہ تعلق بہت اہم ہوتا ہے جیسے وہ خود اپنی والدہ کے بہت قریب ہیں انہوں نے بتایا کہ وہ بیٹے کو پارک لے کر جاتے ہیں جہاں دونوں کے درمیان فٹبال کا دلچسپ مقابلہ ہوتا ہے، جو اذہان کو بے حد پسند ہے یاد رہے کہ بھارتی ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا سے علیحدگی کے بعد شعیب ملک نے اداکارہ ثنا جاوید سے شادی کرلی تھی جبکہ ان کا بیٹا اذہان اپنی والدہ کے ساتھ دبئی میں مقیم ہے