ویب ڈیسک : وفاقی حکومت نے مجموعی طور پر 47 افسروں کو گریڈ 22 میں ترقی دے دی گئی
وفاقی حکومت نے مجموعی طور پر 47 افسروں کو گریڈ 22 میں ترقی دے دی، 11 افسروں کو گذشتہ روز 10 مارچ جبکہ 36 افسروں کو 5 مارچ کو منعقدہ ہائی پاورڈ سلیکشن بورڈ کے اجلاس میں ترقی دی گئی ہے۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی بیوروکریٹس کی گریڈ 21 سے 22 میں ترقی کیلئے 2 سال کے تعطل کے بعد نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کی سربراہی میں منعقدہ ہائی، اجلاس میں وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن احد چیمہ، چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری، سیکریٹری کابینہ ڈویژن کامران علی افضل، سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن انعام اللہ خان دھاریجو نے شرکت کی،ذرائع کے مطابق یہ ہائی پاورڈ سلیکشن بورڈ کا پہلا اجلاس ہے جو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں منعقد ہوا اور اِس کی صدارت وزیر اعظم نے خود نہیں کی بلکہ وزیراعظم کے نامزد وزیر نے کی۔
رمضان المبارک : پھلوں اور سبزیوں کی قیمتیں کنٹرول سے باہر
پاورڈ سلیکشن بورڈ نے رواں ماہ 5 مارچ اور گزشتہ روز 10 مارچ کو 2 مراحل میں اپنی کارروائی مکمل کرتے ہوئے مجموعی طور پر 47 افسروں کو گریڈ 21 سے 22 میں وفاقی سیکریٹری کے عہدے پر ترقی دینے کی منظوری دی ہے تاہم فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے افسروں کی آسامیاں اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم امتناعی کی وجہ سے اجلاس میں زیرِ غور نہیں لائی گئیں۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق ہائی پاورڈ سلیکشن بورڈ نے گزشتہ روز 10 مارچ کو 11 افسروں اور گزشتہ ہفتے 5 مارچ کو 36 افسروں کو گریڈ 22 میں ترقی دینے کی سفارش کی ہے، گذشتہ روز جن 11 افسروں کو گریڈ 22 میں ترقی دی گئی اُن میں انفارمیشن گروپ کی ایک اسامی پر سیکریٹری وزارتِ اطلاعات اور ایم ڈی پی ٹی وی عنبرین جان، سیکرٹریٹ گروپ کی 5 اسامیوں کیلئے ظہور احمد، ڈاکٹر نواز احمد، عائشہ حمیرا چوہدری، حماد شمیمی اور محمد اسلم غوری، پاکستان آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس سروس کے شہزاد حسن، عمار نقوی، پوسٹل گروپ کےسمیع اللہ خان، ریلویز کے سید مظہر علی شاہ اور اکانومسٹ گروپ کے ڈاکٹر امتیاز احمد کو گریڈ 22 میں ترقی دینے کی منظوری دی گئی ہے، یاد رہے کہ ہائی پاورڈ سلیکشن بورڈ نے 5 مارچ کو منعقدہ اجلاس کے پہلے مرحلے میں پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے 19 افسروں کو گریڈ 22میں ترقی کی سفارش کی ہے۔
نئی مانیٹری پالیسی میں بھی شرح سود 12 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ
ترقی پانے والے افسروں میں سیکریٹری نیشنل فوڈ سیکورٹی وسیم اجمل چوہدری، ایڈیشنل سیکریٹری سائنس اینڈ ٹیکنالوجی عنبرین رضا، تقرری کے منتظر علی طاہر، سیکرٹری نجکاری کمیشن عثمان اختر باجوہ، سپیشل سیکرٹری اقتصادی امور محمد حمیر کریم، ایڈیشنل سیکرٹری مذہبی امور سید عطاء الرحمان، سیکریٹری توانائی سندھ مصدق احمد خان، چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال، سیکریٹری پیٹرولیم ڈویژن مومن آغا، سیکریٹری وزارت صحت ندیم محبوب، سیکریٹری تعلیم محی الدین احمد وانی، تقرری کے منتظرداؤد محمد بریچ، سپیشل سیکریٹری وزارت تجارت شکیل احمد منگیجو، ایڈیشنل سیکریٹری قومی سلامتی ڈویژن سعدیہ ثروت جاوید، وزیراعظم کے سیکریٹری اسد الرحمان گیلانی، امریکہ میں ٹریڈ منسٹر علی سرفراز حسین، چیف سیکرٹری پنجاب زاہد اختر زمان، چیئر مین پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ پنجاب نبیل احمد اعوان اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری پنجاب احمد رضا سرور شامل ہیں۔پولیس سروس آف پاکستان کےترقی پانے والے 8 افسروں میں ایڈیشنل سیکریٹری وزارتِ مواصلات بی اے ناصر، آئی جی پولیس سندھ غلام نبی میمن، ایڈیشنل آئی جی پنجاب محمد فاروق مظہر، ایڈیشنل آئی جی سندھ عمران یعقوب منہاس، تقرری کے منتظر عبدالخالق شیخ، ایڈیشنل آئی جی موٹر وے پولیس محمد زبیر ہاشمی، نیشنل اسکول آف پبلک پالیسی میں تعینات محمد شہزاد سلطان اور آئی جی ریلوے پولیس رائے محمد طاہر شامل ہیں۔
میو ہسپتال میں انجیکشن کا ری ایکشن، باقی مریض خطرے سے باہر، حادثہ تیسری ڈوز سے ہوا
ذرائع کے مطابق گریڈ 22 کیلئے ترقی کی دوڑ میں شامل پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے جن 13 افسروں کو ترقی نہیں مل سکی، اِن افسروں میں سیکریٹری سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ساجد بلوچ، آمنہ عمران خان، عثمان چاچڑ، ارم بخاری، اسد اسلام ماہنی، کیپٹن(ر) سید وقار الحسن، مجتبیٰ پراچہ، کیپٹن(ر) محمود، جودت ایاز، کیپٹن (ر) آصف، طارق وقار بخشی، احسن علی منگی اور حسن محمود یوسفزئی شامل ہیں۔
فارن سروس آف پاکستان سے تعلق رکھنے والے ترقی پانے والے 9 افسروں میں احمد نسیم وڑائچ، رحیم حیات قریشی، عاصم افتخار احمد، رضوان سعید شیخ، سید احسن رضا شاہ، فیصل نیاز ترمذی، نبیل منیر، ثقلین سیداں اور ترجمان دفترخارجہ شفقت علی خان شامل ہیں۔
حکومت کا چینی کی قیمتیں مستحکم رکھنے کیلئے شکر درآمد کرنے کا فیصلہ
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: افسروں کو گریڈ 22 میں ترقی ہائی پاورڈ سلیکشن بورڈ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سیکریٹری وزارت افسروں میں شامل ہیں کے مطابق مارچ کو
پڑھیں:
لاہور: میو ہسپتال کا تنازع شدت اختیار کرگیا، وزیر صحت اور سیکریٹری ادویہ کی قلت سے آگاہ تھے
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے حال ہی میں میو ہسپتال لاہور کے دورے کے دوران مریضوں کی جانب سے ادویہ کی قلت کی شکایات پر میڈیکل سپرنٹنڈنٹ پروفیسر ڈاکٹر فیصل مسعود کے بارے میں دیے گئے متنازع بیان نے ایک نیا تنازع کھڑا کر دیا، جب یہ بات سامنے آئی کہ ایم ایس پہلے ہی ادارے کے 3.5 ارب روپے کے بقایاجات کے باعث استعفیٰ دے چکے ہیں جبکہ وزیر صحت اور سیکریٹری مبینہ طور پر اس معاملے سے بخوبی واقف تھے۔
نجی اخبار میں شائع خبر کے مطابق طبی برادری نے وزیراعلیٰ کے طرز پر شدید رد عمل کا اظہار کیا اور وزیراعلیٰ کے اقدام کو پیشے کے تقدس کے لیے ایک دھچکا قرار دیا۔ اس واقعے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے طبی برادری نے کہا کہ اس سے پنجاب کے وزیر صحت اور سیکریٹری کی نااہلی کھل کر سامنے آ گئی ہے جنہوں نے گزشتہ دو سال سے میو ہسپتال کو درپیش مالی بحران کے بارے میں حکومت اور عوام کو گمراہ کیا۔
ذرائع کے مطابق وزیر صحت پنجاب خواجہ سلمان رفیق نے گزشتہ چند ماہ کے دوران ہسپتال کے تقریباً پانچ دورے کیے اور ہر دورے میں ادارےکی انتظامیہ نے انہیں فنڈز کی شدید قلت اور مریضوں کی شکایات سے آگاہ کیا۔
اسی عرصے کے دوران سیکرٹری صحت پنجاب عظمت محمود بھی مبینہ طور پر وزیر صحت کے ہمراہ دو مرتبہ ہسپتال آئے اور فنڈز کی کمی کا معاملہ ان کے سامنے رکھا گیا، ایم ایس کی جانب سے خدشات کا اظہار کیا گیا کہ وینڈرز نے اربوں روپے کے بقایاجات کے باعث ادویات کی فراہمی بند کردی ہے اور ہر گزرتے مہینے کے ساتھ صورتحال خراب ہوتی جارہی ہے۔
معاملے سےآگاہ ایک عہدیدار نے بتایا کہ میو ہسپتال کی انتظامیہ نے ان پر فنڈز جاری کرنے کے لیے دیا تھا، انہوں نے کہا کہ بار بار درخواستوں پر بھی جب کوئی عمل نہیں ہوا تو پروفیسر فیصل مسعود نے ذاتی وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے 2 فروری کو استعفیٰ دے دیا۔
پروفیسر فیصل مسعود کے 12 فروری کے استعفے میں کہا گیا ہے کہ ’مودبانہ عرض ہے کہ ذاتی وجوہات کی بنا پر میں میو ہسپتال لاہور کے چیف آپریٹنگ آفیسر اور میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کا اضافی چارج جاری رکھنے سے قاصر ہوں، اس لیے مجھے فوری طور پر اس ذمہ داری سے فارغ کیا جائے‘۔
سیکریٹری صحت کی دانستہ غفلت کے بارے میں بات کرتے ہوئے عہدیدار نے کہا کہ سیکریٹری صحت عظمت محمود نے وزیراعلیٰ کے طے شدہ دورے سے ایک روز قبل پروفیسر مسعود کو ناراضی کا خط لکھا تھا حالانکہ وہ حقائق سے آگاہ تھے کہ وہ چار ہفتے قبل ہی اپنے عہدے سے استعفیٰ دے چکے ہیں۔
عہدیدار نے دعویٰ کیا کہ خط تیار کرنے کا مقصد صرف وزیر اعلیٰ پنجاب کی توجہ ہٹانا اور ان کے محکمے کی غفلت کا سارا بوجھ اسپتال انتظامیہ پر ڈالنا تھا کیونکہ عظمت محمود کو اگلے دن وزیراعلیٰ کے اسپتال کے متوقع دورے کا علم تھا۔
محکمہ صحت کی جانب سے 5 مارچ کو جاری کیے گئے ناپسندیدگی کے خط میں کہا گیا ہے کہ ’مجھے ہدایت کی گئی ہے کہ میو ہسپتال لاہور کے شعبہ ہنگامی حالت میں غیر موثر پروٹوکول پر عمل کرنے پر مجاز اتھارٹی کی جانب سے شدید عدم اطمینان کا اظہار کیا جائے‘۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ضروری ادویات کی مسلسل عدم دستیابی انتہائی تشویشناک ہے جس کی وجہ سے شدید بیمار مریضوں کو بروقت اور موثر دیکھ بھال فراہم کرنے کی صلاحیت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
عہدیدار نے کہا کہ ایک بیانیہ تیزی سے بڑھ رہا ہے کہ مذکورہ بالا دو خطوط سکریٹری صحت اور وزیر صحت پر ذمہ داری عائد کرنے کے لیے حقیقی تصویر بیان کر رہے تھے جو ہسپتال کی اصل صورتحال سے آگاہ تھے۔
وزیراعلیٰ کے اسپتال کے دورے کے بعد طبی برادری نے اس پر سخت رد عمل کا اظہار کیا اور سینئر اساتذہ کی گرفتاری کی دھمکیوں کو ’صحت کے مرتے ہوئے شعبے کے تابوت میں آخری کیل‘ قرار دیا۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) کے عہدیدار ڈاکٹر ملک شاہد شوکت نے کہا کہ یہ واقعہ ڈاکٹر برادری کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہے اور صحت کے شعبے میں گورننس ماڈل پر ایک داغ ہے۔
پروفیسر شوکت نے کہا کہ میڈیکل اساتذہ کی توہین اور وزیراعلیٰ پنجاب کے سامنے دیگر سینئر پروفیسرز کی خاموشی سے ظاہر ہوتا ہے کہ صحت کا پیشہ بدترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔
یہ کارروائی توقعات سے بالاتر تھی کیونکہ حکومت نے میو ہسپتال کی 3.5 ارب روپے کی بقایا رقم کے مقابلے میں صرف 2 کروڑ روپے جاری کیے تھے۔
ڈاکٹر شوکت نے کہا کہ اہم اسامیوں پر من پسند افسران کی تعیناتی اور صحت کے شعبے میں بدترین قسم کی نجکاری کی وجہ سے صحت کے دو محکمے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔
ینگ کنسلٹنٹس ایسوسی ایشن آف پاکستان (وائی سی اے) نے وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے میو ہسپتال لاہور کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ (ایم ایس) کی بے عزتی کی مذمت کی ہے۔
ایسوسی ایشن نے الزام عائد کیا ہے کہ ادویات کی قلت پنجاب حکومت کی جانب سے اسپتال کو فنڈز کی عدم فراہمی کی وجہ سے ہے، ایسوسی ایشن نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ واقعہ مزید برین ڈرین کا سبب بنے گا۔
وائی سی اے کے چیئرمین ڈاکٹر اسفندیار خان اور صدر ڈاکٹر حامد مختار بٹ کی جانب سے جاری بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پروفیسر فیصل مسعود کو ہٹانا نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ ایک طبی پیشہ ور کی توہین بھی ہے۔
پروفیسر فیصل مسعود ایک ممتاز ماہر تعلیم اور آرتھوپیڈک سرجن ہیں جو کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی میں آرتھوپیڈک سرجری کے شعبے کے سربراہ ہیں، آرتھوپیڈک سرجنوں کی تعلیم میں ان کی گرانقدر خدمات اور مریضوں کی دیکھ بھال کے لئے ان کی غیر متزلزل لگن نے انہیں طبی برادری میں بے پناہ احترام اور تعریف دلائی ہے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر اسفندیار خان نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنی ناکامی پر ایک ہیلتھ پروفیشنل کے ساتھ بدسلوکی کی۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت نے ادویہ اور دیگر سہولیات کی قلت کا مسئلہ حل نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ پروفیسر فیصل مسعود وزیراعلیٰ کو جواب دے سکتے تھے لیکن انہوں نے صرف ایک خاتون اور اپنی پیشہ ورانہ دیانت داری کا احترام کیا، انہوں نے متنبہ کیا کہ یہ واقعہ پاکستان سے مزید برین ڈرین کا باعث بن سکتا ہے۔
Post Views: 1