اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 10 مارچ 2025ء) اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ شام کے شمال مغربی ساحلی علاقے میں خونریز کشیدگی کے دوران ہلاک ہونے والے 1,000 سے زیادہ شہریوں میں بچوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔

مشرق وسطیٰ کے لیے یونیسف کے ریجنل ڈائریکٹر ایڈورڈ بیگبیڈر کا کہنا ہے کہ اس لڑائی میں کم از کم 13 بچوں کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے جن میں ایک کی عمر چھ ماہ تھی۔

ساحلی شہر لاطاکیہ اور طرطوس میں جمعے کی شام کی عبوری حکومت کی فوج اور سابق صدر بشار الاسد کے حامیوں میں جھڑپیں شروع ہو گئی تھیں۔ ان دونوں علاقوں میں علاوی فرقے سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت ہے جو سابق حکومت کے حامی سمجھے جاتے ہیں۔ بشار الاسد کا تعلق بھی اسی فرقے سے تھا جس کا شام کی آبادی میں تناسب 10 فیصد ہے۔

(جاری ہے)

اس لڑائی میں شہریوں کی ہلاکتوں، لوٹ مار، بڑے پیمانے پر لوگوں کی نقل مکانی اور تنصیبات کو تباہ کیے جانے کی اطلاعات ہیں جبکہ بجلی کی ترسیل کے نظام، کم از کم چھ ہسپتالوں اور متعدد ایمبولینس گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

بچوں کے تحفظ کا مطالبہ

ایڈورڈ بیگبیڈر نے تنازع کے تمام فریقین سے کہا ہے کہ وہ مفاہمت کو اہمیت دیں اور پرامن سیاسی تبدیلی کا عزم رکھیں۔ شام کے بچے زندہ رہ سکتے ہیں، وہ ترقی کریں گے اور اپنی پوری صلاحیتوں سے کام لیں گے۔ ان بچوں نے بہت سےمصائب دیکھے ہیں اور اب انہیں تحفط سے رہنے اور بہتر مستقبل کی امید رکھنے کا حق ہے۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے بھی اس تشدد پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ کہ ایسے واقعات اور آن لائن و آف لائن نفرت کے متواتر اظہار سے جامع انصاف یقینی بنانے کی ضرورت ایک مرتبہ پھر واضح ہو گئی ہے اور اس عمل کو سچائی اور احتساب پر مرتکز ہونا چاہیے۔

اقوام متحدہ کی امدادی کوششیں

امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر اوچا کے سربراہ ٹام فلیچر نے کہا ہے کہ ادارے کی ٹیمیں کشیدگی سے متاثرہ شہریوں کی مدد کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کر رہی ہیں۔

ایک آن لائن پیغام میں انہوں نے خبردار کیا ہے کہ جھڑپوں کے باعث مزید بڑی تعداد میں شہری بے گھر ہو گئے ہیں جنہیں خطرناک حالات کا سامنا ہے اور بنیادی ضرورت کی امداد تک ان کی رسائی ختم ہو گئی ہے۔

اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن ڈوجیرک نے شہریوں پر تشدد کے تباہ کن اثرات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان واقعات میں خواتین، بچوں اور طبی کارکنوں سمیت سیکڑوں لوگوں کے ہلاک ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

بہت بڑی تعداد میں لوگ بے گھر ہو گئے ہیں جن میں بہت سے تحفظ کی خاطر لبنان کا رخ کر رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا ہے کہ اس تشدد میں اہم تنصیبات کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ہے اور مرکزی سڑک بند ہو جانے سے لوگوں تک امداد کی رسائی محدود ہو گئی ہے۔ 'اوچا' کا اندازہ ہے کہ شام بھر میں ایک کروڑ 65 لاکھ لوگوں کو انسانی امداد کی فوری ضرورت ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اقوام متحدہ کے بڑی تعداد ہو گئی

پڑھیں:

ویبنار کے شرکاء کا کشمیری خواتین کے خلاف تشدد کی اقوام متحدہ کے ذریعے تحقیقات کا مطالبہ

ویبنار میں انسانی حقوق کے کارکنوں، سیاسی رہنمائوں اور بین الاقوامی قانون دانوں نے شرکت کی۔ اسلام ٹائمز۔ تحریک کشمیر برطانیہ کے زیراہتمام ایک ویبینار کے شرکاء نے کہا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی خواتین کی حالت زار صرف ایک علاقائی مسئلہ نہیں بلکہ انسانی حقوق کا عالمی مسئلہ ہے جس میں فوری بین الاقوامی مداخلت کی ضرورت ہے۔
ذرائع کے مطابق”خاموش متاثرین، 1947ء سے بھارتی قبضے کے تحت کشمیری خواتین کی جدوجہد” کے عنوان سے ویبنار کے شرکاء نے جنسی تشدد اور جبری گمشدگیوں کی اقوام متحدہ کی زیر نگرانی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے جنگی جرائم پر بھارت کے احتساب اور آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ اور پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے کالے قوانین کی منسوخی کا بھی مطالبہ کیا۔ مقررین نے کشمیری خواتین کو درپیش انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں کو بے نقاب کیا جن میں جنسی تشدد کا جنگی ہتھیار کے طور پراستعمال، جبری گمشدگیاں اور ظالمانہ قوانین شامل ہیں۔ تقریب کی صدارت تحریک کشمیر برطانیہ کے صدر فہیم کیانی نے کی اور نظامت کے فرائض انفارمیشن سیکرٹری ریحانہ علی نے انجام دیے۔

ویبنار میں انسانی حقوق کے کارکنوں، سیاسی رہنمائوں اور بین الاقوامی قانون دانوں نے شرکت کی۔ فہیم کیانی نے اپنے افتتاحی خطاب میں کشمیری خواتین کے عزم و ہمت کو سراہتے ہوئے کہا کہ وحشیانہ مظالم کا نشانہ بننے کے باوجود کشمیری خواتین حق خودارادیت کی جدوجہد سے دستبردار نہیں ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کو اپنی خاموشی توڑنی چاہیے اور ٹھوس کارروائی کرنی چاہیے۔ ریحانہ علی نے آسیہ اندرابی، ناہیدہ نسرین اور فہمیدہ صوفی جیسی کشمیری خواتین کارکنوں کی پبلک سیفٹی ایکٹ اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام جیسے کالے قوانین کے تحت غیر نظربندی کو اجاگر کیا۔ سابقہ کونسلر ثمرہ خورشید، کونسلر ماجد حسین، انسانی حقوق کی ترک کارکن شیری حامد، فلسطینی شاعر شاہد مہنوی، گلوبل پاک کشمیر سپریم کونسل کے چیئرمین راجہ سکندر خان اور سابق اطالوی کونسلر ارم طاہر نے بھی مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی جابرانہ پالیسیوں کی مذمت کی اور عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دلانے کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔

متعلقہ مضامین

  • شام میں جاری جھڑپوں میں گزشتہ 3 روز کے دوران ہونیوالی ہلاکتوں کی تعداد 1300 سے تجاوز کرگئی
  • تائیوان چین کے ایک صوبے کے طور پر، آزاد حیثیت نہیں رکھتا، چینی وزارت خارجہ
  • شام میں جھڑپوں کے نتیجے میں ہلاکتیں ایک ہزار سے تجاوز کرگئیں
  • اقوام متحدہ نے غزہ میں بجلی کی اسرائیلی بندش کو فلسطینیوں کی’نسل کشی’ قرار دے دیا
  • اقوام متحدہ نے غزہ میں بجلی کی اسرائیلی بندش کو فلسطینیوں کی'نسل کشی' قرار دے دیا
  • ویبنار کے شرکاء کا کشمیری خواتین کے خلاف تشدد کی اقوام متحدہ کے ذریعے تحقیقات کا مطالبہ
  • شام میں 2 دن سے جاری جھڑپوں میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک
  • دنیا کے ایک چوتھائی ممالک میں خواتین کی صورتحال میں تنزلی ہوئی، اقوام متحدہ
  • مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی آپریشن بے گھری کا سبب، یو این ادارے