(امیر تنظیم اسلامی پاکستان)
سورۃ البقرۃ کے چار مسلسل رکوع 28 تا31 میں گھریلو زندگی کے متعلق رہنمائی موجود ہے، ان آیات میں متعدد بار تقویٰ کا تذکرہ پایا جاتا ہے۔ قرآن کریم تمام انسانوں کے لیے ہدایت ہے لیکن یہ ھدایت ملے گی اْن کو جن میں تھوڑا بہت تقویٰ موجود ہو گا۔ ازروئے الفاظ قرآنی یہ ھْدًی لِّلمْتَّقِینَ(البقرہ) ہے ۔
انسان کے دنیا میں رشتے ناطے تو بہت ہوتے ہیں لیکن سورۃ الزخرف کی آیت 67 میں بتایا گیا کہ انسان کا وہ رشتہ اللہ کے ہاں مقبول ہو گا جو تقوٰی کی بنیاد پر قائم ہو گا۔ محض دوستیاں کام آنیوالی نہیں بلکہ متقین کی دوستی کام آئے گی ۔ تقویٰ کا مفہوم ہے، اللہ سے ڈرنا ، گناہوں سے بچنا۔ ظاہر ہے جو بندہ اللہ سے ڈرنے والا ہو گا تو وہ فرائض و واجبات بھی ادا کرے گا ۔ مگر اللہ کا عذاب اکثر گناہوں پر بھڑکتا ہے ۔ پچھلی قوموں کے واقعات ہمارے سامنے ہیں ۔
قوم عاد ہو ، ثمود ہو ، قوم نوح ؑ ہو یا دیگر تمام اقوام جن پر اللہ کے عذاب آئے تو وہ گناہوں کی وجہ سے ہی آئے ۔ ہمارے ہاں ایک مزاج بن گیا ہے کہ ہم الا ماشاء اللہ خیرات کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ۔ نوافل ، مستحبات ، تسبیح اور اذکار کا بھی اہتمام ہوتا ہے۔ اعمال کے فضائل بھی بہت بیان ہوتے ہیں، سب سرآنکھوں پر مگر گناہوں سے بچنے یعنی نہی عن المنکر کی طرف توجہ کا معاملہ نسبتا کم ہے۔ ہم حرام نہیں چھوڑ رہے ، جھوٹ نہیں چھوڑ رہے، وعدہ خلافی نہیں چھوڑ رہے، بے پردگی ، بے حیائی ، سود ، منکرات کی بھرمار ہے۔
حالانکہ اللہ کے پیغمبرﷺ نے فرمایا کہ ’’اگر تم اللہ کی حرام کردہ باتوں سے بچو تو تم سب سے بڑے عبادت گزار بن جاؤ گے۔‘‘ ایک اور حدیث مبارک ہے کہ "جو اللہ کی حرام کردہ باتوں سے اپنے آپ کو بچاتا ہو ، اس کا اللہ کے ہاں وہی مقام ہے جو روزانہ رات کو نوافل پڑھنے اور دن کو روزہ رکھنے والے شخص کا ہے"تقویٰ کی اس قدر فضیلت ہے کہ اللہ کے پیغمبر نے اپنے سینہ مبارک کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ تقویٰ یہاں ہے۔ ہم اپنا ظاہری حلیہ جس قدر چاہے مسلمانوں والا بنا لیں لیکن دل میں تقویٰ نہیں ہے تو کچھ نہیں ہے ۔ ہر کام کرنے سے پہلے بندہ دل میں سوچے کہ اللہ ناراض تو نہیں ہو جائے گا۔
اس کیفیت کے ساتھ زندگی گزارنا تاکہ جب موت آئے تو اسی فرمانبرداری کی حالت میں آئے۔ سورہ آل عمران آیت 102 میں ارشاد ربانی ہے؛ ’’اے اہل ایمان! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جتنا کہ اْس کے تقویٰ کا حق ہے اور تمہیں ہرگز موت نہ آنے پائے مگر فرمانبرداری کی حالت میں ۔‘‘
قارئین اللہ کی جنت اتنی سستی نہیں ہے جتنی ہم نے سمجھ رکھی ہے۔ جنت مشقتوں سے گھری ہوئی ہے۔ گناہوں سے بچنا اور اللہ کی اطاعت پر کاربند رہنا مستقل محنت والا کام ہے۔ اللہ کے پیغمبرﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جو بندہ اللہ کی فرمانبرداری اختیار کرے اور پھر گناہوں سے خود کو بچائے رکھے ، اللہ تعالیٰ دنیا کو ذلیل کر کے اْس کے قدموں میں ڈال دے گا ۔ یہ دنیا تو بہت معمولی چیز ہے۔ ایک حدیث مبارکہ ہے کہ جو بندہ تقویٰ اختیار کرے تو روزِ قیامت جب وہ کھڑا ہو گا تو اْسے جنت کی طرف بھاگنا نہیں پڑے گا بلکہ جنت اْس کے قریب ہی کر دی جائے گی ۔
ہمیں یہ علم ہونا چاہئے کہ انسان نرا حیوان نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی روح میں سے اس میں پھونکا ہے۔ اس روح کی بنیاد پر انسان کو اشرف المخلوقات کا شرف بخشا ہے، اور اس روح کے پھونکے جانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو آدم علیہ السلام کے سامنے جھکایا ہے ، لہذا اس روح کی حفاظت کرنا، اس کی آبیاری کرنا انسان پر لازم ہے۔
مگر بدقسمتی سے آج مغرب نے انسان کو محض معاشی حیوان بنا ڈالا ہے ۔ نہ لباس کا تکلف ، نہ محرم نامحرم کی تمیز، نہ نکاح ، نہ گھر ، نہ خاندان۔ انسان کو بالکل جانور بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون، یہ سب روح کی حفاظت نہ کرنے کا نتیجہ ہے ۔ پھر اللہ نے جونعمتیںہمیں عطا فرمائی ہیں، اْن کی حفاظت کرنا بھی ہم پر لازم ہے، یہ نعمتیں حلال طریقے سے حاصل کی جائیں، حلال طریقے سے ان کا استعمال کیا جائے۔
انسانی جسم اور اعضاء بھی نعمت ہیں یہ حرام کاموں میں استعمال نہ ہوں ۔ اولاد بھی اللہ کی امانت ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا‘‘، اولاد کی پرورش حلال کمائی سے ہو ، ان کی دینی تربیت کا اہتمام ہو ، اْنہیں اللہ کا بندہ بنانے کی پوری کوشش کی جائے ۔ اِسی طرح اللہ کے رسولﷺ نے جو حدود معین فرما دیں ہیں اْن کی حفاظت کرنا مسلمان پر لازم ہے۔
سورہ الحجرات آیت01 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اے اہل ِ ایمان! مت آگے بڑھو اللہ اور اْس کے رسول ﷺ سے‘‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنا دین ہمارے حوالے کیا، یہ اگر قائم ہے تو اسکی حفاظت کرنا اور اگر قائم نہیں تو اسے قائم کرنے کی جدوجہد کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔ اللہ کی کتاب یعنی قرآن پاک ہمارے پاس موجود ہے ، اس کو پڑھنا ، سمجھنا اور پھر اس پر عمل کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔
ایک مومن مسلمان کو اس بنیاد پر بے خوف نہیں ہو جانا چاہئے کہ وہ اللہ کی رحمت کے آسرے پر گناہ کیے چلا جائے، حرام خوری میں لگا رہے ، نافرمانیوں میں لگا رہے ۔ وہ رحمٰن ہے، ا س میں کوئی شک نہیں، وہ رحیم ہے اس میں کوئی شک نہیں، وہ غفار ہے کوئی شک نہیں مگر وہ العادل بھی ہے ۔ مومن کی شان یہ ہے کہ ہر ممکن گناہوں سے بچتا اور اللہ کی ناراضی سے ڈرتا رہے۔
اللہ کی خشیت ہر دم اپنے دل میں رکھے۔ دنیا میں دیگر رشتوں سے محبت بھی فطری ہے مگر سب سے بڑھ کر محبت اللہ سے ہو ، اللہ مقصود اول رہے۔ یہ ہے وہ اخلاص جو دلوں کے اندر موجود رہنا چاہئے۔ زندگی میں ہر متقی کو مصائب بھی آئیں گے، پریشانیاں بھی آئیں گی، تکالیف بھی آئیں گی ۔ لیکن اللہ کا تقوی اختیار کرنے والے مومن ( مرد و خواتین) کو اللہ تبارک و تعالی اْخروی فلاح سے ضرور نوازے گا ۔
سورۃ البقرۃ: آیت 165میںارشاد باری تعالیٰ ہے ؛ ترجمہ: ’’اور ایمان والے سب سے زیادہ اللہ سے محبت کرتے ہیں‘‘۔
اللہ اپنی محبت کی ہم سب کوتوفیق عطا فرمائے ورنہ بندہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کے بت بنا کر اْن کی محبت میں ڈوب جاتا ہے۔ استغفراللہ ۔ سورہ الانعام: آیت 162 میں ہے کہ ’’ آپﷺ کہیے میری نماز ‘ میری قربانی‘ میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔‘‘ گویا بندہ جو کچھ بھی کرے ،اْس کا مقصود رب کی رضا ہو تاکہ کل روز قیامت اللہ تعالیٰ کہہ دے ، ’’اے نفسِ مطمئنہ!اب لوٹ جاؤ اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تم اْس سے راضی، وہ تم سے راضی، تو داخل ہو جاؤ میرے (نیک) بندوں میں اور داخل ہو جاؤ میری جنّت میں!‘‘ (سورہ الفجر30)
دنیا میں دیگر رشتوں سے محبت بھی فطری امر ہے مگر سب سے بڑھ کر محبت اللہ سے ہونی چاہیے، اللہ مقصود اول رہنا چاہیے۔ یہ وہ اخلاص ہے جو دلوں کے اندر درکار ہے، پھر بدلتے حالات میں مصائب بھی آسکتے ہیں، پریشانیاں بھی آسکتی ہیں ، تکالیف بھی آسکتی ہیں۔ سورہ التغابن:11میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’نہیں آتی کوئی مصیبت مگر اللہ کے اذن سے اور جو کوئی اللہ پر ایمان رکھتا ہے‘ وہ اْس کے دل کو ہدایت دے دیتا ہے۔ ‘‘
بندہ رب کی رضا پہ راضی رہے۔
میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی
یہ صفات اور کیفیات جس بندے میں ہوں گی تو اللہ کی مدد اور نصرت اْسے ملے گی اور ثابت قدم رہنے پر اللہ جنت بھی نصیب فرمائے گا۔ سورہ ق:34 میں فرمایا : داخل ہو جاؤ اس (جنّت) میں سلامتی کے ساتھ ۔‘‘
جنت کا ایک نام دارالسلام بھی ہے ،جس کے معنی ہیں سلامتی والا گھر ۔ دنیا میں رنج بھی ہے، غم بھی ہے، نشیب بھی ہے، زوال بھی ہے، بیماری بھی ہے، تکلیف بھی ہے، پریشانی بھی ہے۔ اس لیے کہ دنیا کی زندگی امتحان ہے ۔ جو اس امتحان میں پاس ہو گیا، اْس کے لیے آخرت میں سلامتی ہی سلامتی ہو گی اور وہ ہمیشہ ہمیشہ رہنے کی جگہ ہے۔
دنیا میں بحران آجاتے ہیں، قحط سالی، سیلاب اور دیگر مصائب ،کبھی غریب آدمی دو وقت کی روٹی کا بھی محتاج ہو جاتا ہے لیکن وہاں پر نعمتیں کبھی ختم ہوں گی ، نہ ہی کوئی مصیبت آئے گی۔ وہاں فرشتے سلام کہیں گے: سورۃ الواقعہ 26 میں ہے ’’مگر (ان کے لیے‘ہر طرف سے) سلام سلام ہی کی آوازیں ہوں گی۔‘‘ سب سے بڑھ کر یہ کہ خود اللہ سلام کہے گا ۔‘ پھر سورہ یٰس آیت 58 میں ہے’’سلام کہا جائے گا ربّ ِرحیم کی طرف سے ۔‘‘
جہاں رب بندوں کو سلام کہے گا، وہاں کی سلامتی کا کیا عالم ہوگا۔ البتہ یاد رہے کہ اپنے عمل کی بنیاد پر کوئی جنت میں نہیں جائے گا۔ صرف اللہ کی رحمت کے طفیل ہی یہ ممکن ہے۔ سورہ ق میں فرمایا: ’’اب یہ ہمیشہ رہنے کا دن ہے۔ اْن کے لیے اِس میں وہ سب کچھ ہو گا جو وہ چاہیں گے اور ہمارے پاس مزید بھی بہت کچھ ہے۔ ‘‘ اللہ ہم سب کو عطا فرمائے۔
یہ دنیا کی زندگی فانی، عارضی اور چند روزہ ہے۔ یہاں ہرکسی کو موت آنی ہے۔ ہر چیز کو فنا ہو جانا ہے لیکن وہاں زندگی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہو گی۔ ہم چاہتے ہیں سب کچھ اِس دنیا میں ہی ہمیں مل جائے ۔ اول تو ملے گا نہیں اور جتنا تھوڑا بھی مل بھی گیا تو وہ عارضی ہے، دو فٹ زمین کے نیچے جاتے ہی سب چھوڑ جائیں گے۔ جبکہ جنت میں انسان جو کچھ چاہے گا، اْسے ملے گا۔ ہر انسان کو اْس کے ذوق اور شوق کے مطابق سب کچھ ملے گا جو وہ چاہے گا۔ اِدھر انسان کے من میں خواہش پیدا ہو گی اْدھر وہ پوری ہو جائے گی ۔
ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے جنت میں وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ، نہ کسی کان نے سنا ، نہ کسی دل میں خیال آیا ۔ جنت کی نعمتوں کا ہم اس دنیا میں رہ کر تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ مسلم شریف کی روایت کے مطابق آخری بندہ جس کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کیا جائے گا ، اْس کی جنت اِس دنیا سے دس گنا بڑی ہو گی ۔
یہ سب سے آخر میں جنت میں جانے والے کی شان ہو گی تو ذرا سوچئے کہ اول اول جانے والوں کی جنت کتنی وسیع ہو گی ، صحابہ کی جنت کا عالم کیا ہو گا؟ انبیاء کی جنتوں کا عالم کیا ہو گا؟ محمد مصطفیٰﷺ کی شان کیا ہو گی ؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہو گا ۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: اے میرے صحابہ! یہ چودہویں کا چاند دیکھتے ہو ۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کوئی شک نہیں، کوئی شبہ نہیں ہم اِسے دیکھ سکتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بالکل ایسے ہی تم جنت میں اپنے رب کو دیکھو گے ۔
یہ اللہ کی جنت اور رحمت کی شان ہے لیکن یہ جنت اْنہیں ہی ملے گی جن کے اندر وہ صفات ہوں گی، جن کا بیان یہاں آیا۔ آج ہمیں دنیا کا غم کھائے جا رہا ہے، دنیا کی حرص میں ہلکان ہوئے جا رہے ہیں، کیا ہمیں اِس دائمی جنت کی فکر بھی ہے؟ جو اْدھر کی فکر کو اختیار کر لے یہ دنیا کی فکریں اْس کو پاگل نہیں کریں گی، ان شاء اللہ ۔ اللہ تعالی ہم سب کو اِس کا یقین عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین !
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کی حفاظت کرنا کوئی شک نہیں سب سے بڑھ کر اللہ تعالی پر لازم ہے اختیار کر گناہوں سے بنیاد پر انسان کو دنیا میں نہیں ہے دنیا کی اللہ کی اللہ کا اللہ کے کہ اللہ جائے گا ہے لیکن اللہ سے بھی ہے ہوں گی ا نہیں کی شان کے لیے کی طرف کی جنت
پڑھیں:
توکل
لفظ ’’توکل‘‘ کے لغوی معنی ہیں، اپنی ذات سے ہٹ کر کسی دوسرے پر انحصار کرنا ساتھ اُس انحصار پر مکمل اعتماد رکھنا۔ عموماً جب انسان اپنے مسائل کا حل خود تلاش کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے تو وہ کسی ایسی ذات کو ڈھونڈنے نکل پڑتا ہے، جس کے پاس اُس کی پریشانیوں کو ختم کرنے کا اختیار موجود ہو اور جس پر وہ پورے اعتماد سے انحصار کر سکے۔
توکل اِلَّا اللہ دراصل ایمان کا وہ اعلیٰ درجہ ہے جہاں انسان گھٹا ٹوپ راستوں پر انجان منزل کی جانب اس یقین کے ساتھ سفر کرتا ہے کہ یہ جو وحشت ناک اندھیرا ہے اس کے پار روشن صبح اللہ کے حکم سے اُس کی منتظر ہوگی۔ توکل اِلَّا اللہ کو سمجھانا جتنا سہل ہے اس کو زندگی میں اپنانا اتنا ہی دشوار ہے، یہ کانٹوں سے لیس راستہ ہے، جو انسان بھی اس مشکل راہ پر اپنے رب پر بھروسہ کرکے صبر و شکر کرتے ہوئے چل پڑتا ہے، سفر کے اختتام پر خالق کی جانب سے اُس پر مہکتے پھولوں کی بارش یقینی ہے۔
بیشتر افراد توکل اِلَّا اللہ کی تعریف سے واقفیت تو رکھتے ہیں مگر اپنے وجود پر اس کو لاگو کیسے کیا جاتا ہے انھیں معلوم نہیں ہوتا ہے۔ اپنی زندگی میں آنے والی آزمائشوں پر وہ بوکھلا جاتے ہیں، اللہ پر توکل کرو تو وہ یہ جملہ سنتے ہیں مگر یہ کیسے کیا جاتا ہے اُنھیں اس کا کوئی خاص ادراک نہیں ہوتا ہے۔
اللہ پر توکل کرنے کا طریقہ سیکھنے کا موقع خوش نصیب لوگوں کو ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ایمان کو جانچنے کے لیے وقتاً فوقتاً مختلف نوعیت کے امتحانات لیتے رہتے ہیں۔ اُن میں سے جو افراد وجود جھنجھوڑتی اور روح کپکپاتی آزمائشیں آنے پر گھبراتے نہیں اور نہ اپنے نیک اصولوں سے منحرف ہوتے ہیں بلکہ ثابت قدمی کے ساتھ اپنے مثبت ارادوں پر ڈٹے رہتے ہیں وہ پھر خدا کے پسندیدہ بندوں کی فہرست میں شامل کر لیے جاتے ہیں۔
عشق ِ حقیقی توکل اِلَّا اللہ تک پہنچنے کی سیڑھی ہے، خالق کے لیے عشق کے جذبات دل میں رکھے بغیر مخلوق اُس ذاتِ عظیم پر مکمل انحصار کرنے کا جذبہ اپنے اندر پیدا کر ہی نہیں سکتی ہے۔ توکل اِلَّا اللہ کی پہلی شرط اپنے وجود کی اللہ تعالیٰ کو سپردگی ہے کیونکہ اس کے بغیر معاملہ کسی صورت آگے بڑھ نہیں سکتا ہے۔
جب کوئی انسان اپنی پوری آمادگی کے ساتھ خود کو اپنے رب کے حوالے کر دیتا ہے تو پھر کسی سوال کی گنجائش بچھتی ہے نہ مڑ کر پیچھے دیکھنے کی، بس سر جھکا کر کھردرے راستوں پر ایمان کی پٹی آنکھوں پر باندھ کر چلتے چلے جانا ہے۔ جن سے عشق کیا جاتا ہے اُن کا کہنا بھی فرض کا مقام رکھتا ہے اور اُس کی ذات پر کامل یقین رکھنا اس رشتے کا اہم تقاضہ سمجھا جاتا ہے۔ کیا، کیوں اور کس لیے، جہاں ذہن میں آئے وہیں سے عاشق کی نیگیٹو مارکنگ شروع ہو جاتی ہے۔
ہر انسان کے توکل اِلَّا اللہ کا سفر دوسرے انسان سے مختلف ہوتا ہے مگر اس کا تجربہ سبھی انسانوں کے لیے عجب قسم کی راحت سے بھرپور ہوتا ہے جس میں تکلیفوں سے گزرتے رہنے کے باوجود دل میں ہمہ وقت سکون کا احساس موجود رہتا ہے۔
اس راستے پر ہر بار انسان کے قدم لڑکھڑانے پر کوئی غیبی قوت فوراً سنبھال لیتی ہے، درد کی شدت سے کسی کا وجود تھک جائے تو اللہ تعالیٰ اس پر خصوصی کرم کرتا ہے۔ آزمائش کی اُن گھڑیوں میں انسان کے رواں رواں سے اُس کے گناہ جھڑ رہے ہوتے ہیں اور ایسے موقعوں پر ایمان والوں کے لبوں سے نکلی ہر جائز دعا قبولیت کا شرف حاصل کر رہی ہوتی ہے۔ دراصل پروردگار عالم اپنے اُنھی بندوں کا امتحان لیتا ہے جن میں اُس امتحان کی سختیاں برداشت کرنے کا حوصلہ موجود ہو اور اس معاملے میں باحوصلہ صرف وہی لوگ پائے جاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ سے عشق کا خالص جذبہ رکھتے ہیں۔
قرآن شریف میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں، ’’اور جو شخص اللہ پر توکل کرے گا اللہ اُسے کافی ہے۔‘‘ وہ بڑی ذات جو رب العالمین ہے اپنے بندوں کو کبھی بیچ منجدھار میں اکیلا نہیں چھوڑتی، صحیح وقت آنے پر اُنھیں صحیح جگہ پہنچا کر رہتی ہے، لہٰذا جلد بازی اور بار بار بند دروازوں کو کھٹکھٹانے سے اور اُن کو نہ کھلتا پا کر اُتائولے پن میں جھروکوں سے جھانکنے سے انسان کے وجود پر محض مایوسی چھا جاتی ہے جب کہ ہمارے مذہب اسلام میں مایوسی کو کفر کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
توکل اِلَّا اللہ انسانی زندگی میں ٹھہراؤ لاتا ہے، بھاگتی دوڑتی منفی سوچوں اور بے مقصد پالی ہوئی پریشانیوں کو لگام لگاتا ہے ساتھ انسان کو اُس کے نفس کا غلام بننے سے باز رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پر توکل انسان کو بددل ہونے سے بچاتا ہے بلکہ دنیا میں ملنے والی ہر چوٹ سے اُسی کا مرہم تلاش کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
ارشادِ نبوی ﷺ ہے، ’’قیامت کے روز جب مصیبت زدہ لوگوں کو (ان کے صبر کے سبب) اجر و ثواب دیا جائے گا تو اس وقت دنیا میں آرام و سکون (کی زندگی گزارنے والے) تمنا کریں گے کاش! دنیا میں ان کی جلدیں قینچیوں سے کاٹ دی جاتیں۔‘‘
ایک مرتبہ نبی پاک ﷺ نے صحابہ کرام کی ایک جماعت سے سوال پوچھا،’’کیا تم مومن ہو؟‘‘ وہ خاموش رہے، حضرت عمرؓ نے عرض کیا،’’اے اللہ کے رسول! ہم آسانی میں شکر کرتے ہیں اور ابتلا میں صبر کرتے ہیں اور قضا پر راضی رہتے ہیں‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا کہ’’ کعبہ کے رب کی قسم! تم مومن ہو۔‘‘ حضور اکرم نے مومنین کو آزمائش کے دور میں اپنے پروردگار پر توکل کرنے پر ملنے والے انعام و کرام کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ’’بندہ مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے اس کے ہر معاملے اور ہر حال میں خیر ہی خیر ہے، لیکن اگر اسے کوئی رنج اور دکھ پہنچتا ہے تو وہ اس کے لیے خیر اور موجبِ برکت ہوتی ہے۔‘‘
اہل ایمان کے قلب میں اُس کے خالق کے لیے عقیدت و احترام کا جذبہ خود بخود اُس کا وجود قوتِ عظیم کے سامنے جھکا دیتا ہے اور یہیں سے توکل اِلَّا اللہ کی شروعات ہوتی ہے، للاہیت کا یہ اصول مومن کو بہشت کا یقینی طور پر مکین بنا دیتا ہے۔
رب پر توکل کرنے کے انسان کو بڑے فائدے ہیں جیسے کہ اُس کو اپنی کسی پریشانی کے بارے میں سوچ سوچ کر ہلکان ہونے کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ اس کام کے لیے اللہ تعالیٰ کافی ہے جو کہ سب سے بڑا کار ساز ہے۔ اس کے علاوہ انسان کی زندگی میں آنے والی اندھیری رات کتنی ہی لمبی کیوں نہ ہو، چین و سکون کے احساسات اُس کے لیے کبھی مدھم نہیں پڑتے۔
تخلیق کا تخلیق کار کی رضا میں راضی رہنا بہترین منزل تک اُس کی رسائی کو ممکن بناتا ہے، تھوڑے وقت کی آزمائش عمر بھر کے سکون کا وسیلہ بنتی ہے۔ توکل اِلَّا اللہ کا راستہ پرکھنے والی آنکھ کو موتیوں سے لیس دکھائی دیتا ہے جب کہ نہ سمجھوں کو یہ فقط زندگی کا ایک تاریک دور معلوم ہوتا ہے۔