اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کا اعلان، شرح سود 12 فیصد پر برقرار
اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT
اسٹیٹ بینک نے مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے شرح سود 12 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ماہرین کی جانب سے شرح سود میں ایک فیصد متوقع کمی کی توقعات کے برعکس اسٹیٹ بینک نے آئندہ 2 ماہ کے لیے شرح سود 12 فیصد پر برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ رواں برس گزشتہ ماہ کے دوران مہنگائی توقعات سے کم رہی، غذائی اشیا اور توانائی کی قیمتوں میں کمی کے باعث مہنگائی میں کمی رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے، گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد
اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ جون تک زرمبادلہ ذخائر 13 ارب ڈالر سے زائد ہوجائیں گے، مہنگائی میں مزید کمی ہوگی اور پھر بتدریج بڑھتے ہوئے 5 سے 7 فیصد پر مستحکم ہوجائے گی، غذا اور توانائی کی قیمتوں کا بڑھنا مہنگائی میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔
معاشی سرگرمیوں میں مسلسل بہتری سمیت درآمدات میں اضافہ ہورہا ہے، معاشی استحکام کے لیے مستقبل بنیادوں پر موجودہ حقیقی شرح سود کافی حد تک مثبت ہے، ٹیکس محاصل میں ہدف کے مقابلے میں کمی جنوری اور فروری میں مزید بڑھ گئی ہے۔
مزید پڑھیں:
واضح رہے کہ 27 جنوری 2025 کو اسٹیٹ بینک نے 2 ماہ کے لیے شرح سود میں ایک فیصد کمی کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد شرح سود 12 فیصد کی سطح پر آگئی تھی۔
جون 2024 کے بعد سے اب تک مسلسل 6 بار شرح سود میں کمی کی جاچکی ہے، گزشتہ 8 ماہ کے دوران شرح سود 10 فیصد کم ہوکر 22 فیصد سے اب 12 فیصد کی سطح پر برقرار ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
12 فیصد اسٹیٹ بینک توانائی ٹیکس درآمدات شرح سود غذا مانیٹری پالیسی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: 12 فیصد اسٹیٹ بینک توانائی ٹیکس درآمدات مانیٹری پالیسی شرح سود 12 فیصد اسٹیٹ بینک کا اعلان فیصد پر ماہ کے کے لیے
پڑھیں:
اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود برقرار رکھنے پر صنعت کار مایوس
کراچی:کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (کاٹی) کے قائم مقام صدر اعجاز احمد شیخ نے اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود 12 فیصد پر برقرار رکھنے کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اسے معیشت کے لیے غیر مؤثر قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صنعتکاروں نے امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں، لیکن کمی نہ کرکے صنعتکاروں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا گیا۔ اعجاز احمد شیخ نے کہا کہ پاکستان میں افراط زر 9 سال کی کم ترین سطح پر آ چکا ہے، جس کے پیش نظر شرح سود میں نمایاں کمی کی جانی چاہیے تھی، لیکن اسٹیٹ بینک نے آئی ایم ایف مذاکرات سے اثرانداز ہوکر محتاط پالیسی اپناتے ہوئے شرح سود کو گزشتہ سطح پر برقرار رکھا، جب مہنگائی موجودہ سطح سے زیادہ تھی، یہ فیصلہ صنعتکاروں کی توقعات کے برعکس ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ معیشت میں حقیقی بہتری لانے کے بجائے کاروباری سرگرمیوں پر مزید دباؤ ڈال سکتا ہے کیونکہ صنعتکار اور سرمایہ کار مہنگے قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے کم لاگت پر سرمایہ فراہم کرنا ضروری ہے، لیکن بلند شرح سود اس مقصد میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ صنعتکار طویل عرصے سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ پالیسی ریٹ کو سنگل ڈیجٹ میں لایا جائے تاکہ کاروباری لاگت میں کمی ہو اور نئی سرمایہ کاری کو فروغ ملے، لیکن اسٹیٹ بینک کے فیصلے سے مایوسی ہوئی۔ یہ وقت محتاط پالیسی اپنانے کا نہیں بلکہ جرات مندانہ فیصلے کرنے کا ہے۔ اگر سرمایہ کاروں اور صنعتکاروں کو سازگار مالی ماحول فراہم نہیں کیا گیا، تو معیشت کی بحالی ایک چیلنج بنی رہے گی۔
انہوں نے حکومت اور اسٹیٹ بینک سے اپیل کی کہ وہ معاشی ترقی کے لیے صنعتکاروں کی توقعات کے مطابق پالیسی ریٹ میں کمی کریں تاکہ پاکستان میں صنعتوں کو فروغ ملے اور روزگار کے مواقع بڑھ سکیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر قرضوں کی لاگت اسی طرح بلند رہی تو ملکی پیداوار اور برآمدات متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔