شرجیل میمن نے کہا کہ کراچی شہر کیلئے ایک مربوط اور مؤثر شہری ٹرانزٹ سسٹم تشکیل دیا جا رہا ہے، دونوں بی آر ٹی لائنز کو دیگر پبلک ٹرانسپورٹ سسٹمز کے ساتھ منسلک کرنے کے منصوبے پر کام  جاری ہے۔ اسلام ٹائمز۔ گرین لائن اور اورنج لائن بس سروسز کا آپریشنل کنٹرول حکومتِ سندھ نے باضابطہ طور پر سنبھال لیا۔ تفصیلات کے مطابق گرین لائن اور اورنج لائن بس سروسز آپریشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر گارڈن کراچی میں آپریشنل کنٹرول سندھ کے حوالے کرنے کی تقریب منعقد ہوئی۔ سی ای او پی آئی ڈی سی ایل وسیم باجوہ نے کنٹرول سیکریٹری ٹرانسپورٹ اسد ضامن کے حوالے کیا۔ تقریب میں سندھ ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کے ایم ڈی کمال دایو، اورنج لائن اور گرین لائن بی آر ٹی  کے حکام بھی شریک ہوئے۔ اس موقع پر سندھ کے سینئیر وزیر شرجیل انعام میمن نے کہا کہ گرین لائن اور اورنج لائن  کی سندھ حکومت کو منتقلی پبلک ٹرانسپورٹ نیٹ ورک کو مزید منظم کرنے کی جانب اہم قدم ہے۔

شرجیل میمن نے کہا کہ حکومتِ سندھ بس سروسز کی بہتری اور پائیداری کیلئے پُرعزم ہے، تاکہ شہریوں کو بہترین سفری سہولیات فراہم کی جا سکیں، ہم جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور باقاعدہ دیکھ بھال کے ذریعے بس سروسز کی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے کام کریں گے۔ شرجیل میمن نے مزید کہا کہ کراچی شہر کیلئے ایک مربوط اور مؤثر شہری ٹرانزٹ سسٹم تشکیل دیا جا رہا ہے، دونوں بی آر ٹی لائنز کو دیگر پبلک ٹرانسپورٹ سسٹمز کے ساتھ منسلک کرنے کے منصوبے پر کام  جاری ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: گرین لائن اور اورنج لائن کہا کہ

پڑھیں:

کراچی سمیت اندرون سندھ میں غیر مستند دائیوں کے حوالے سے رپورٹ

آج کے ترقی یافتہ دور میں جہاں اسپتالوں اور میٹرنٹی ہوم میں ڈیلیوری کے لیے جدید طبی سہولیات موجود ہیں وہیں کراچی سمیت اندورن سندھ کی پسماندہ دیہی خواتین کی اکثریت بچوں کی پیدائش کے لیے روایتی دائیوں پر اعتماد اور انحصار کرتی ہیں۔

طبی ماہرین کے مطابق اس کے ایک بڑی وجہ دیہی علاقوں میں حاملہ خواتین میں بچوں کی پیدائش کے حوالے سے شعور اور آگاہی کی کمی بتائی گئی ہے، ان پسماندہ خواتین میں یہ تاثر بھی ہے کہ شہری علاقوں میں موجود اسپتالوں میں آپریشن کے ذریعے ڈیلیوری کی جاتی ہے جس کے اخراجات نا قابل برادشت ہوتے ہیں۔ اس وقت ملک بھر میں تقریباً 6 لاکھ سے زائد روایتی دائیاں گھروں میں ڈیلیوری کرتی ہیں، ان دائیوں کی وجہ سے تقریباً 20 ہزار خواتین سالانہ جان بحق ہوجاتی ہیں جبکہ 6 لاکھ خواتین دوران زچگی مختلف انفیکشن اور پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتی ہیں، کراچی سمیت سندھ بھر میں اطائی ڈاکٹروں کے کلینک اور میٹرنٹی ہوم بدستور قائم ہیں۔ اطائی ڈاکٹروں کے کلینکس اور میٹرنٹی ہوم کے خلاف کوئی موثر آپریشن نہیں کیا جاسکا۔

طبی ماہرین کے مطابق روایتی دائیوں کے ذریعے بچے کی پیدائش کے عمل میں سنگین پیچیدگیاں سامنے آرہی ہیں جبکہ پیدا ہونے والے نوزائیدہ مختلف انفکیشن کا بھی شکار ہورہے ہیں، یہ غیر مستند دائیاں بچے کی پیدائش کے دروان ماں اور بچے کی غیر محفوظ طریقے سے ڈیلیوری کرائی جاتی ہے۔ کراچی سمیت سندھ بھر میں اطائی ڈاکٹر اور اطائی ڈائیوں کے کلینک بدستور قائم ہیں، یہ غیر تربیت یافتہ اور غیر رجسٹرڈ دائیوں  کے جانب سے کی جانے والی ڈیلوریاں ماں اور بچے کی صحت کے لیے سنگین خطرات اور انفیکشن کا باعث بن رہی ہیں۔

زیادہ تر یہ دائیاں دیہی اور پسماندہ علاقوں میں کام کرتی ہیں جہاں سادہ لوح اور پسماندہ خواتین کو کم پیسوں میں ڈیلوری کرنے کی ترٖغیب دیتی ہیں اور پسماندہ خواتین بھی مجبوراً ان غیر رجسٹرڈ ڈائیوں سے ڈیلوریاں کرواتی ہیں۔

دوسری جانب اندورون سندھ کے گاؤں گوٹھوں میں رہائش پزیر خواتین شہر جانے سے اجتناب کرتی ہیں کیونکہ وہاں پر ڈیلیوری کے اخراجات ڈائیوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتے ہیں لیکن یہ پسماندہ خواتین ان بات سے لاعلم ہوتی ہیں کہ دوران زچگی ان کو مختلف قسم کے مہلک انفیکشن بھی لاحق ہوسکتے ہیں۔ ان دائیوں کی جانے والی زچگی کے دوران پیچیدگیوں کو سنبھالنے کی صلاحیت محدود ہوتی ہے  جس سے ماں اور بچے کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

 اس کے علاوہ ان غیر مستند ڈائیوں کے پاس صفائی کے ناقص انتظامات اور غیر معیاری آلات کے استعمال سے انفیکشنز کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔اس کے علاوہ بعض غیر رجسٹرڈ دائیاں غیر غیر محفوظ طریقوں سے اسقاط حمل کرتی ہیں۔ صوبے میں غیر تربیت یافتہ دائیوں کی روک تھام کے لیے قانونی فریم ورک موجود ہے لیکن اس پر مؤثر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (PMA) کے سابق مرکزی سیکریٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد نے بتایا کہ کراچی میں آج بھی 30 سے 40 ہزار اطائی ڈاکٹروں اور غیر مستند میٹرینٹی ہوم بدستور قائم ہیں اوریہ غیر مستند لوگ انسانی جانوں سے کھلے عام کھیل رہے ہیں۔

 یہ اطائی ڈاکٹر اور غیر مستند دائیاں آنے والے مریضوں اور خواتین مریضاؤں سے پیسے بٹورنے کے لیے غیر ضروری انجیکشن اور ڈرپس لگاتے ہیں جبکہ غیر ضروری ہیوی اینٹی بائیوٹک ادویات بھی تجویز کرتے ہیں جس سے انسانی جسم میں ان غیر ضروری ادویات کے خلاف قوت مدافعت بھی پیدا ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی میں اطائی ڈاکٹر اور غیر مستند میٹری ہوم پیچھلے 50 سال سے غیر قانونی کام کررہے ہیں اور ہم ان اطائی ڈاکٹر کے کلینکس کو بچپن سے دیکھتے آرہے ہیں جو اب مافیا کی شکل اختیار کرگئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان اطائی ڈاکٹر اور میٹری ہوم کے خاتمے کے لیے سندھ ہیلتھ کیئر کیمیشن کو مضبوط کاروائی کرنے کے ضرورت ہے۔

سابق پروچیکٹ ڈائریکٹر مدر نیونیٹل اینڈ چائلڈ ہیلتھ (MNCH) کی سابق پروجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر صاحب جان بدر نے بتایا کہ محکمہ صحت نے 2008 میں اندرون سندھ سے روایتی دائیوں کو ختم کرنے اور ان کی جگہ تربیت یافتہ کمیونٹی مڈوائف کو متعارف کراوانے کے لیے 2 سالہ مڈوائف کورس شروع کروایا  جس کے تحت اب تک 12 ہزار سے زائد مستند مڈوائف اندرون سندھ میں کام کررہی ہیں، ان کمیونٹی مڈوائف کی خدمات پیپلز پرائمری ہیلتھ اینشٹو (PPHI) کے حوالے کردی گئی ہے۔

 انہوں نے کہا کہ کمیونٹی مڈوائف کو تیار کرنے کا مقصد روایتی دائیوں کا خاتمہ ہوسکے اور کی جگہ تربیت یافتہ کمیونٹی مڈوائف اپنے اپنے علاقوں میں دوران زچگی خواتین کا معائنہ کرتی رہیں۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اندرون میں روایتی دائیوں کو کوئی ڈیٹا موجود نہیں ہے کیونکہ ان روایتی دائیوں کی کوئی رجسٹریشن نہیں ہوتی۔

 ڈاکٹر صاحب جان بدر نے بتایا کہ اندرون سندھ میں آج بھی پسماندہ خواتین روایتی ڈائیوں پر انحصار اور اعتماد کرتی ہے اور بیشتر دائیاں ایسی بھی جونسل در نسل دائی کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے کہا ایک کمیونٹی مڈوائف 5 سے 10 ہزار پاپولیشن پر تعینات ہوتی ہیں ان میں  22 فیصد خواتین بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، انہوں نے اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ 100 میں 22 خواتین بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور ان 22 خواتین میں سے 4.5 خواتین حاملہ ہوتی ہیں جن کی ڈیلیوری اور ان کی نگہداشت کی ذمہ داری کمیونٹی مڈوائف کی ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ MNCH کے تحت سندھ میں 12 ہزار سے زائد مستند تربیت یافتہ کمیونٹی مڈوائف موجود ہیں، اس پروگرام کے تحت ہم کے روایتی دائیوں کی جگہ مستند کمیونٹی مڈوائف کورس شروع کیا جو اب تک جاری ہے۔ انہوں نے کہا یہ بات درست ہے کہ روایتی دائیوں کے ذریعے ہونے والی ڈیلیوریوں سے پیچیدگیوں کا سامنا آج بھی خواتین اور نوزائیدہ کو کرنا پڑتا ہے، کراچی میں کچھ علاقوں میں آج بھی روایتی دائیوں موجود ہیں لیکن زیادہ تر دائیاں اندرون سندھ میں کام کررہی ہیں۔

 انہوں نے کہاکہ آج بھی 1 ہزار میں 40 بچے ایک سال عمر تک پہنچنے سے پہلے جان بحق ہوجاتے ہیں، یہ وہ ہیں جہیں پیدائش کے دروان پیدائش مختلف انفیکشن کا سامنا کرنا پرتا ہے۔

ماہر گائناکولوجسٹ پروفیسر شیرشاہ سید نے بتایا کہ اندرون سندھ میں اور کراچی کے بعض مضافاتی علاقوں میں آج بھی پسماندہ خواتین روایتی دائیوں سے ڈیلیوریاں کرواتی ہے، روایتی دائیوں کی تعداد کے حوالے سے ایک سوال کے جواب انہوں نے بتایا کہ اس وقت ملک بھر میں تقریباً 6 لاکھ سے زائد روایتی دائیاں گھروں میں ڈیلیوری کرتی ہیں اور ان کی کہیں رجسٹریشن نہیں ہوتی، ان دائیوں کی وجہ سے تقریباً 20 ہزار خواتین سالانہ جان بحق ہوجاتی ہیں جبکہ 6 لاکھ خواتین دوران زچگی مختلف انفیکشن اور پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتی ہیں۔

گھروں میں کی جانے والی ڈیلیوریوں کے دروان انفیکشن کنٹرول نہیں ہو پاتا جس کی وجہ سے یہ خواتین زندگی بھر مختلف امراض نسواں کی پیچیدگیوں میں مبتلا رہتی ہیں۔ پاکستان میں 85 ہزار گاؤں ہیں جس میں لاکھوں پسماندہ خواتین رہتی ہے۔ بدقسمتی سے بیشتر گاؤں میں مستند مڈوائف نعینات نہیں، ان پسماندہ خواتین اور نوزائیدہ کی زندگی بچانے کے لیے ہر ایک گاؤں میں 2 سے 3 کمیونٹی مڈوائف کی تعیناتی ہونی چاہیے تاکہ ماں اور بچے کی زندگی بچائی جاسکے اور محفوظ ڈیلیوری کو یقینی بنایا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ گھروں میں کی جانے والی ڈیلیوریاں دائیوں کا  کام نہیں بلکہ یہ کوالیفائیڈ کمیونٹی مڈوائف کا کام ہے جو اپنی نگرانی میں ڈیلیوری کرائے، اس سے زچہ بچہ کی زندگی کو بچایا جاسکتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ گھروں میں دائیوں سے کرائی جانے والی ڈیلیوری سے ماں اور بچے کی صحت کو مختلف اقسام کے شدید انفیکشن لاحق ہوجاتے ہیں۔

 انہوں نے کہا کہ روایتی دائیاں گھروں میں جب ڈیلیوری کرتی ہیں تو بچے سے  Umbilical Cord (اؤنال) کو کاٹنے کے لیے عام طور سے بلیڈ استعمال کرتی ہیں جبکہ اندروں سندھ کے گاؤں گوٹھوں کے گھروں میں غیر صحت مندانہ ماحول کی وجہ سے ماں اور نوزائیدہ کو شدید انفیکشن لاحق ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے ماں اور نوازئیدہ کو مختلف قسم کی پیچیدگیوں سے گزرنا پڑتا ہے، ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان دائیوں کے ہاتھوں ہونے والی زچگیوں کا بھی کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا کیونکہ روایتی دائیوں کی کہیں رجسٹریشن نہیں ہوتی جس کی وجہ سے ان کا کوئی ڈیٹا موجود نہیں ہے۔ روایتی دائیوں کے پاس موجود زچگی میں استعمال ہونے والے چھوٹے موٹے طبی آلات میں اسٹرلائز نہیں ہوتے۔

انہوں نے بتایا کہ گھروں میں کی جانے والی ڈیلیوریوں کے کئی سامنے آئیں ہیں جن میں ماؤں میں بہت زیادہ خون بہنے پر انہیں ایمرجنسی میں رورل ہیلتھ سینٹر پہنچایا گیا، اس دوران بیشتر مائیں زیادہ خون بہنے سے جان بحق بھی ہوئیں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ملک میں گھروں میں ہونے والی ڈیلیوری کے دوران بچے کی ہلاکت کے حوالے سے بھی کوئی ڈیٹا موجود نہیں۔

سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر خالد شیخ نے اطائی ڈاکٹروں اور اطائی میٹری ہوم میں کام کرنے والی غیر مستند دائیوں کے خلاف آپریشن کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن اب تک کراچی سمیت اندرون سندھ میں 20 ہزار کے خلاف کروائی کی گئی جس میں سے 10 ہزار سے زائد زائد اطائی کلینکس اور اطائی میٹریٹی ہومز کو سیل کیا ہے اور کمیشن کے تحت ان کے خاتمے کے لیے وقتافوقتاً کریک ڈاؤ مہم بھی چلائی جاتی ہے۔

 انہوں نے کہا کہ اگر کوئی ہومیو ڈاکٹر اپنے کلینک میں ایلوپیتھی علاج و معالجے طریقکار استعمال کررہا ہے تو ہم اس کے خلاف کاروائی کا حق رہتے ہیں اور ہم نے ایسے کئی کلینکس بھی سیل کیے ہیں۔ اسی طرح اندرون سندھ میں کسی غیر منظور شدہ میٹرنٹی ہوم میں کسی حاملہ خاتون کا سی سیکشن یا آپریشن کیا گیا تو اس کے خلاف کاروائی کی جاتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • گرین لائن اور اورنج لائن بس سروسز کا انتظام سندھ حکومت سنبھال لیا
  • گرین لائن اور اورنج لائن بس سروسز کا انتظام حکومت  سندھ کے حوالے
  • کراچی سمیت اندرون سندھ میں غیر مستند دائیوں کے حوالے سے رپورٹ
  • کراچی: محکمہ ٹرانسپورٹ نے رمضان کے دوران پیپلز بس سروس کے اوقات میں توسیع کا اعلان کر دیا
  • پیپلز بس سروس کے اوقات میں توسیع کا اعلان
  • کراچی: رمضان میں پیپلز بس سروس کا ٹائم بڑھانے کا اعلان
  • پیپلز پارٹی نے ہمیشہ خواتین کے حقوق اور تحفظ کو ترجیح دی، شرجیل میمن
  • پیپلز بس سروس کا وقت بڑھادیا، 15رمضان کے بعد رات گئے تک بسیں چلیں گی، شرجیل میمن
  • رمضان کا مہینہ ہے، بانی پی ٹی آئی کیلئے دعا گو ہوں، شرجیل انعام میمن