شامی افواج اور معزول صدر بشار الاسد کے حامیوں کے درمیان جھڑپیں ایک ہزار سے زیادہ ہلاکتیں
اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT
دمشق(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔10 مارچ ۔2025 )شام کی سیکیورٹی فورسز اور معزول صدر بشار الاسد کے حامیوں کے درمیان جھڑپوں اور انتقامی کارروائیوں میں دو دن کے دوران ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کرگئی ہے شام میں انسانی حقوق پر نظر رکھنے والے برطانیہ میں قائم گروپ ”سیرین اوبزرویٹری فار ہیومن رائٹس“نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ 14 سال سے جاری شام کے تنازع میں یہ اب تک سب سے شدید ہلاکت خیز تصادم کے واقعات ہیں.
(جاری ہے)
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق اپنی رپورٹ میں آبزرویٹری نے بتایا ہے کہ جھڑپوں میں 745 عام شہری ہلاک ہوئے ہیں جنہیں بہت قریب سے گولیاں ماری گئی ہیں اس کے علاوہ شامی سیکیورٹی فورسز کے 125 اہل کار جب کہ بشار الاسد کے حامی مسلح گروہوں کے 125 جنگجو ہلاک ہوئے ہیں رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ لتاکیہ شہر میں کئی علاقوں کو بجلی اور پانی کی فراہمی بھی بند ہو چکی ہے بحیرہ روم کے ساحل پر واقع شام کے صوبے لتاکیہ میں حکومتی فورسز اور بشارالاسد کی حامی ملیشیاﺅں کے درمیان جھڑپوں کا آغاز جمعرات کو ہوا تھا. اس صورتِ حال کو دمشق میں قائم ہونے والی نئی حکومت کے لیے بڑا چیلنج قرار دیا جارہا ہے شام میں اس وقت برسرِ اقتدار حکمراں فورس ہیئت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) نے گزشتہ برس دسمبر میں تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے صرف 11 دن میں ملک کے کئی شہروں پر قبضہ کر لیا تھا اور دارالحکومت دمشق میں داخل ہوکر 24 سال سے حکومت کرنے والے بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا. حکومت کے حامی مسلح افراد نے جمعے کو اقلیتی علوی فرقے کے افراد کے قتل کے لیے کارروائیاں شروع کی تھیں شام کے سابق حکمراں اسد خاندان کا تعلق بھی اسی فرقے سے تھا اسد خاندان کی اس فرقے میں خاطر خواہ سیاسی حمایت پائی جاتی ہے مبصرین کے مطابق سنی مسلحہ افراد کی انتقامی کارروائیاں ایچ ٹی ایس کے لیے بڑا دھچکا ہیں. بحیرہ روم کے کنارے شام کے صوبے لتاکیہ اور طرطوس میں علوی فرقے کا اثر و رسوخ زیادہ ہے ان ہی علاقوں میں سابق حکمران خاندان اسد کے حامی مسلحہ گروپس ہیں رپورٹ کے مطابق لتاکیہ اور طرطوس کے جن علوی اقلیت کے قصبوں اور دیہات پر حملے ہوئے ہیں وہاں کے مقامی افراد نے شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ علوی فرقے کے افراد کو قتل کرنے کے علاوہ گھروں میں لوٹ مار بھی کی گئی ہے. طرطوس میں سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں برنیاس شہر کے ایک رہائشی نے بتایا کہ کئی علاقوں میں بے گور و کفن لاشیں گھروں، گلیوں اور مکانات کی چھتوں پر پڑی ہیں اور کشیدہ صورتِ حال کی وجہ سے کوئی انہیں لانے بھی نہیں جاسکتا بانیاس سے نقل مکانی کرنے والے 57 سالہ علی شہا کا کہنا ہے کہ ان کے ہمسایوں ساتھ کام کرنے والوں اور رشتے داروں میں 20 علوی کمیونٹی کے لوگوں کو قتل کیا گیا ہے ان کا کہنا ہے کہ علوی کمیونٹی پر یہ حملے ”انتقامی قتل“ ہے اور اسد حکومت کے جرائم کا بدلہ اس کمیونٹی سے لیا جا رہا ہے. مقامی افراد کے مطابق علوی کمیونٹی پر حملے کرنے والوں میں قریبی دیہات سے تعلق رکھنے والوں کے علاوہ غیر ملکی جنگجو بھی شامل ہیں سیرین اوبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق انتقامی حملے تھم گئے ہیں تاہم علوی کمیونٹی کے سویلین افراد کے قتل کے واقعات کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ یہ شامی تنازع کی تاریخ کا سب سے بڑا قتلِ عام تھا اس سے قبل ہیومن اوبزرویٹری نے چھ سو سے زائد ہلاکتوں کی اطلاعات دی تھیں تاہم اس کی سرکاری سطح پر تصدیق نہیں ہوسکی ہے شام کے سرکاری ریڈیو نے وزارتِ دفاع کے ذرائع سے رپورٹ کیا ہے کہ شامی فورسز نے اسد کے حامی علوی گروپس کے زیرقبضہ زیادہ تر علاقہ دوبارہ حاصل کرلیا ہے ذرائع نے بتایا ہے کہ حالات کو بتدریج معمول پر لانے کے لیے شام کے ساحلی خطے کی جانب جانے والی سڑکیں بند کر دی گئی ہیں اسد خاندان کے دورحکومت میں علوی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد فوج اور سیکیورٹی ایجنسیوں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے شام کی نئی حکومت الزام عائد کرتی ہے کہ یہ بشار الاسد کے وفادار سابق عہدے دار گزشتہ کئی ہفتوں سے ملک کی نئی سیکورٹی فورسز پر حملے کر رہے ہیں.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بشار الاسد کے اسد کے حامی کے مطابق کے لیے شام کے
پڑھیں:
شام میں 2 دن سے جاری جھڑپوں میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک
شام کے صوبے لاتاکیہ میں گزشتہ 2 دنوں سے جاری شدید لڑائی میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوگئے ہیں جن میں سے اکثر شہری ہیں۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ ہلاکتیں معزول شامی صدر بشار الاسد کی حامی فورسز اور کی شام میں قائم عبوری حکومت کی افواج کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں ہوئیں، ان ہلاکتوں کو 2011 کے بعد شام میں ہونے والا سب سے زیادہ جانی نقصان قرار دیا جارہا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: شام میں آئین کی تشکیل نو اور انتخابات میں 4 سال لگ سکتے ہیں، احمد الشرع
’سیریئن اوبزرویٹری فار ہیومن رائٹس‘ نامی تنظیم کے مطابق اس مسلح تنازعے میں 745 شہریوں کو مارا گیا جبکہ 300 کے قریب دونوں جانب کے اہلکار ہلاک ہوئے۔
یہ تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب جمعرات کو بشار الاسد کی حامی فورسز نے عبوری حکومت کی چیک پوسٹوں پر حملے شروع کردیے جس کے بعد شدید لڑائی کے دوران مقامی آبادی کو اپنا علاقہ چھوڑ کر جانا پڑا۔
عبوری حکومت کے سربراہ احمد الشرع نے خبردار کیا کہ کوئی بھی عام شہریوں کو نقصان پہنچائے گا اسے سخت سزا دی جائے گی تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ لڑائی کے دوران غیر مسلح شہریوں کو بڑی تعداد میں ہلاک کیا گیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں