اسلام آباد:

سویلینز کے ملٹری ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت میں لاہور بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان نے اپنے دلائل مکمل کرلیے۔
 

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے کیس کی سماعت کی، جس میں ایڈووکیٹ حامد خان نے آج پھر اپنے دلائل دیے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سماعت پر پاکستان کی تاریخ کے دلائل دیے۔ پاکستان میں مارشل لا اور ملٹری کورٹس کی تاریخ کا بتایا تا۔ پاکستان کے تاریخی تناظر میں مارشل لا اور فوجی عدالتوں کے حوالے سے دلائل  دیے تھے۔

حامد خان نے دلائل کے آغاز میں بتایا کہ گزشتہ سماعت میں سپریم کورٹ کا راولپنڈی بار کیس کا فیصلہ عدالت کے سامنے رکھا۔ راولپنڈی بار کیس میں فوجی عدالتوں سے متعلق 21ویں ترمیم چیلنج کی گئی تھی۔ آج بھی میرے دلائل اسی حوالے سے ہوں گے۔

انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی حالات میں سویلینز کو اتنے بڑے پیمانے پر فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں کیا جاسکتا۔فوجی عدالتیں آئینی ترمیم کے بغیر قائم نہیں ہوسکتیں۔ فوجی عدالتوں کے حوالے سے آئینی ترمیم پر بھی اصول طے شدہ ہیں۔

حامد خان نے کہا کہ فوجی عدالتوں کے حوالے سے آئینی ترمیم مخصوص مدت کے لیے ہوسکتی ہے۔اس صورت میں فوجی عدالتوں کے فیصلوں کیخلاف اپیل کا حق بھی دیا جانا ضروری ہے۔ موجودہ حالات میں ایسی کوئی صورتحال نہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ 26ویں ترمیم کے بعد فوجی عدالتوں کے فیصلوں کیخلاف اپیل کہاں ہوسکتی ہے؟ جس پر حامد خان نے بتایا کہ ہائیکورٹ میں رٹ دائر کی جاسکتی ہے، مگر اسکا دائرہ اختیار محدود ہوتا ہے۔ فوج ایگزیکٹو کا حصہ ہے جو عدالتی اختیارات استعمال نہیں کرسکتی۔ آرمی ایکٹ کو ایک طرف رکھیں تو آئین میں فوجی عدالتوں کی گنجائش نہیں۔

ایڈووکیٹ حامد خان نے بتایا کہ ماضی میں 1973 کے آئین سے پہلے کے آئین میں گنجائش تھی۔ دسویں ترمیم میں آئین کا آرٹیکل 245 شامل کیا گیا۔ آرٹیکل 245 میں میں بھی فوج کو جوڈیشل اختیار حاصل نہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ایف بی علی کیس میں طے ہوا کہ آرمی ایکٹ فوج کے ممبران کے لیے بنا۔ مگر ایف بی علی میں یہ بھی کہا گیا کہ آرمی ایکٹ کا سیکشن ڈی اس مقصد کے لیے نہیں بنا۔ اب تنازع یہ ہے کہ وہ کہہ رہے ایف بی علی کیس میں سویلینز کے ٹرائل کی بھی اجازت تھی۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ اجازت نہیں۔

حامد خان نے کہا کہ فوجی عدالتوں کے حق میں دلائل دینے والوں کا انحصار آئین کے آرٹیکل 8(3) پر ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایف بی علی میں کہا گیا کہ پارلیمان اس معاملے پر 2 سال میں ریوو کر سکتی ہے۔ مگر آج تک پارلیمان نے اس معاملے پر کچھ نہیں کیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ تنازع یہ نہیں کہ فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل کیا جائے یا نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ آرمی ایکٹ کے ماتحت جرائم اگر سویلینز کریں تو کیا ہوگا؟ آرمی ایکٹ میں درج جرائم کرنے پر اس کا دائرہ اختیار سویلینز تک بڑھایا جاسکتا ہے یا نہیں۔ وکیل حامد خان نے کہا کہ  آرمی ایکٹ میں شامل وہ شقیں جن کے تحت سویلین کا ٹرائل کیا جاتا ہے وہ غیر آئینی ہیں۔

حامد خان نے اس موقع پر کہا کہ اب میں اپنے دلائل میں آئین کے آرٹیکل 175(3) کو بیان کروں گا۔ آئین کے اس آرٹیکل میں واضح لکھا ہے کہ عدلیہ ایگزیکٹو سے الگ ہوگی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ آپ یہ بتائیں کہ عدلیہ کو ایگزیکٹو سے الگ کس نے کرنا تھا؟ آرٹیکل 175(3) کے تحت عدلیہ ایگزیکٹو سے خود بخود الگ تصور ہوگی؟ یا عدلیہ کے ایگزیکٹو سے الگ ہونے کی ڈیکلریشن عدلیہ دے گی یا پارلیمان؟

حامد خان نے بتایا کہ آئین کے الفاظ واضح ہیں، پارلیمان کے ڈیکلریشن کی ضرورت نہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ فوجی عدالتیں آئین کے آرٹیکل 175(3) کے زمرے میں نہیں آتیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں فوجی عدالتوں کو تاریخی تناظر میں دیکھا گیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کے مطابق آرٹیکل 175(3) کے تحت عدلیہ خود بخود ایگزیکٹو سے الگ تصور ہوگی۔ تو اس کا مطلب ہے کہ اس آرٹیکل کے 14 سال بعد فوجی عدالتیں فوج کے ممبران کے لیے بھی قائم نہیں رہ سکتیں۔

حامد خان نے کہا کہ فوجی عدالتیں صرف فوج کے ممبران کے لیے قائم رہ سکتی ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اگر ایسا ہے تو پھر آپ کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ فوجی عدالتیں متوازی عدالتی نظام ہیں۔  یہ بہت اہم ہے کہ اس معاملے میں آرٹیکل 175(3) کو واضح ہونا ہوگا۔

وکیل حامد خان کے دلائل مکمل ہونے پر وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث روسٹرم پر آئے اور انہوں نے جواب الجواب کا آغاز کیا۔ جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ آپ جواب الجواب کے لیے کتنا وقت لیں گے، جس پر خواجہ حارث نے بتایا کہ بہت سے اہم نکات سامنے آئے ہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ  لگتا ہےآپ کو جواب الجواب دلائل میں پورا ہفتہ لگ جائے گا، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ہو سکتا ہے ایک ہفتہ لگ جائے۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت کل ساڑھے گیارہ  بجے تک ملتوی کردی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جسٹس محمد علی مظہر نے جسٹس جمال مندوخیل نے حامد خان نے کہا کہ میں فوجی عدالتوں فوجی عدالتوں کے وکیل حامد خان فوجی عدالتیں نے بتایا کہ آرٹیکل 175 3 ایف بی علی آرمی ایکٹ حوالے سے نے دلائل کہ فوجی آئین کے کے لیے

پڑھیں:

آئل مارکیٹنگ ایسوسی ایشن نے اوگرا کے نئے قوانین کو مسترد کردیا

آئل مارکیٹنگ ایسوسی ایشن نے اوگرا کے نئے قوانین کو مسترد کردیا WhatsAppFacebookTwitter 0 9 March, 2025 سب نیوز

اسلام آباد (سب نیوز)آئل مارکیٹنگ ایسوسی ایشن نے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا)کے نئے قوانین کو مسترد کردیا۔
رپورٹ کے مطابق آئل مارکیٹنگ ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین طارق وزیر علی نے چیئرمین اوگرا مسرور خان کو ایک خط دیا جس میں کہا گیا کہ ریفائنریز اور آئل مارکیٹنگ کمپنیوں (او ایم سی)کے درمیان سیلز پرچیز ایگریمنٹ (ایس پی اے)میں اس شق کا شامل کیا جانا غیر منصفانہ ہے، یہ قانون پہلے سے مشکلات کا شکار او ایم سیز کے لیے مزید مالی بحران پیدا کر سکتا ہے۔
آئل مارکیٹنگ ایسوسی ایشن نے کہا کہ اوگرا کو یہ قانون بنانے سے پہلے زمینی حقائق اور او ایم سیز کی مالی صورتحال کو مدنظر رکھنا چاہیے، ٹیک یا پے کا قانون صرف ریفائنریز اور بڑی آئل کمپنیوں کو فائدہ دے گا جبکہ چھوٹی کمپنیوں کو مزید مشکلات میں ڈال دے گا اور مجموعی طور پر تیل کی سپلائی چین متاثر ہوگی۔اس میں کہا گیا کہ ریفائنریاں اکثر قیمتوں میں اضافے کے دوران تیل کی فراہمی روک لیتی ہیں، جس کی وجہ سے او ایم سیز کو مہنگی پٹرولیم مصنوعات درآمد کرنی پڑتی ہیں، ملک میں غیر قانونی طریقے سے پیٹرولیم مصنوعات کی در آمد بھی مقامی مصنوعات کی طلب کو کم کر رہی ہے، جس سے او ایم سیز کو مزید مالی نقصان ہو رہا ہے۔
آئل مارکیٹنگ ایسوسی ایشن نے کہا کہ اوگرا سے مطالبہ ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول چھوٹی اور درمیانی آئل کمپنیوں کے ساتھ مشاورت کی جائے، او ایم سیز کے دیرینہ مسائل جیسے تاخیر سے مصنوعات کی فراہمی اور امتیازی قیمتوں کے مسائل کو حل کیا جائے، مارکیٹ میں مسابقت کو فروغ دیا جائے تاکہ چھوٹی کمپنیاں بھی بہتر انداز میں کام کر سکیں۔

متعلقہ مضامین

  • ملٹری ٹرائل کیس:آرمی ایکٹ کو ایک طرف رکھیں تو آئین میں فوجی عدالتوں کی گنجائش نہیں.جسٹس محمد علی مظہر
  • چیف جسٹس سےاسلام آباد، راولپنڈی، بہاولپور اور سرگودھا کی بار ایسوسی ایشنز کے نمائندوں کی ملاقات
  • آرمی ایکٹ میں درج جرائم اگر سویلینز کریں تو کیا ہو گا؟ جسٹس جمال نے سوال اٹھا دیا
  • آرمی ایکٹ میں درج جرائم اگر سویلینز کریں تو کیا ہو گا؟ جسٹس جمال نے سوال اٹھا دیا
  • تنازعہ یہ نہیں کہ فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل کیا جائے یا نہیں،مسئلہ یہ ہے آرمی ایکٹ کے ماتحت جرائم اگر سویلینز کریں تو کیا ہوگا؟جسٹس جمال مندوخیل
  • فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل، لاہور بار کے وکیل کے دلائل
  • سویلینز کا ملٹری ٹرائل: آرٹیکل 245 کے تحت بھی فوج کو جوڈیشل اختیار حاصل نہیں، وکیل حامد خان کا موقف
  • کسی بھی حالات میں سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں کیا جا سکتا،وکیل حامد خان
  • آئل مارکیٹنگ ایسوسی ایشن نے اوگرا کے نئے قوانین کو مسترد کردیا