آرمی ایکٹ میں درج جرائم اگر سویلینز کریں تو کیا ہو گا؟ جسٹس جمال نے سوال اٹھا دیا
اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT
آرمی ایکٹ میں درج جرائم اگر سویلینز کریں تو کیا ہو گا؟ جسٹس جمال نے سوال اٹھا دیا WhatsAppFacebookTwitter 0 10 March, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(آئی پی ایس) سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت جاری ہے۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7رکنی آئینی بینچ سماعت کر رہا ہے۔
لاہور بار کے وکیل حامد خان ایڈووکیٹ نے دلائل میں کہا کہ گزشتہ سماعت پر پاکستان کی تاریخ پر دلائل دیے، پاکستان میں مارشل لاء اور ملٹری کورٹس کی تاریخ کا بتایا۔
جسٹس مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر کے ریمارکس
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ ایف بی علی کیس میں طے ہوا کہ آرمی ایکٹ فوج کے ممبرز کے لیے بنا ہے، مگر کیس میں یہ بھی کہا گیا کہ آرمی ایکٹ کا سیکشن ڈی اس مقصد کے لیے نہیں بنا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اب تنازع یہ ہے کہ وہ کہہ رہے ہیں ایف بی علی کیس میں سویلینز کے ٹرائل کی بھی اجازت تھی، آپ کہہ رہے ہیں کہ اجازت نہیں تھی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ایف بی علی کیس میں کہا گیا کہ پارلیمان اس معاملے پر 2 سال میں ریویو کر سکتی ہے، آج تک پارلیمان نے اس معاملے پر کچھ نہیں کیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھا دیا کہ تنازع یہ نہیں کہ فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل کیا جائے یا نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ آرمی ایکٹ میں درج جرائم اگر سویلینز کریں تو کیا ہو گا؟ آرمی ایکٹ میں درج جرائم کرنے پر اس کا دائرہ اختیار سویلینز تک بڑھایا جاسکتا ہے یا نہیں؟
حامد خان نے بتایا کہ آرمی ایکٹ میں شامل وہ شقیں جن کے تحت سویلین کا ٹرائل کیا جاتا ہے وہ غیر آئینی ہیں، فوجی عدالتوں کے حق میں دلائل دینے والوں کا انحصار آئین کے آرٹیکل 8(3) پر ہے۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: ا رمی ایکٹ میں درج جرائم جسٹس جمال
پڑھیں:
عدلیہ کو ایگزیکٹو سے الگ کرنے کی ذمہ داری کس کی تھی؟ جسٹس جمال مندوخیل
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیخلاف کیس میں لاہور بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد نے کہاکہ آئین کے آرٹیکل 175(3)میں عدلیہ کی ایگزیکٹو سے علیحدگی واضح ہے،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ عدلیہ کو ایگزیکٹو سے الگ کرنے کی ذمہ داری کس کی تھی؟عدالت نے کہاکہ کیا آرٹیکل 175(3)کے تحت عدلیہ خودبخود ایگزیکٹو سے الگ تصور ہو گی؟
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق سپریم کورٹ آئینی بنچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیخلاف کیس کی سماعت جاری ہے، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں بنچ سماعت کر رہا ہے،دوران سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ ایگزیکٹو سے الگ ہونے کا اعلان عدلیہ کرے گی یا پارلیمان؟جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ فوجی عدالتیں آرٹیکل 175(3)کے زمرے میں نہیں آتیں، سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو تاریخی تناظر میں دیکھا، عدالت نے کہاکہ عدلیہ خود ایگزیکٹو سے الگ تصور ہوگی تو 14سال بعد فوجی عدالتیں قائم نہیں رہ سکتیں،حامد خان نے کہاکہ فوجی عدالتیں صرف فوج کے ممبران کیلئے قائم رہ سکتی ہیں،جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ فوجی عدالتیں متوازی عدالتی نظام کے زمرے میں آتی ہیں،آرٹیکل 175(3)کی وضاحت بہت ضروری ہے،لاہور بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان کے دلائل مکمل ہو گئے،کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔
طورخم گزرگاہ پر پاک افغان جرگہ، 11 مارچ تک سیز فائر پر اتفاق
مزید :