زندگی مختصر ہے، معاف کرنا سیکھیں
اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT
وہ تھے ہی ایسے۔سمندرکوکوزے میں بندکر دینے والے۔کیسی خوب صورت اوردل کش بات کی تھی انہوں نے۔اورکوئی ایک بات،بس سنتے جائیں اور ان میں سے چندایک پرعمل کی توفیق مل جائے توکیاکہنے واہ۔ میرارب ان سے راضی تھا۔اسی لئے تووہ ایسی باتیں کرتے تھے۔یہ خوش نصیبی ہے،توفیق ہے،عطاہے۔بس جسے چاہے نوازدے،ہاں یہ تعلق ہے، ہاں یہ ہے خوشی، ہاں یہ ہے رب کااپنے بندے اوربندے کااپنے خالق سے رشتہ،تصویراور مصور،مخلوق اور خالق، جدھر دیکھتا ہوں میں،ادھرتوہی توہے۔ایک دن کہاکم ظرف انسان دوسروں کوخوش دیکھ کرہی غم زدہ ہوجاتاہے۔وہ یہ برداشت ہی نہیں کرسکتاکہ لوگ خوش رہیں۔وہ ان کی خوشیوں کوبرباد کرنے پرتل جاتاہے۔اس کی خوشی یہ ہے کہ لوگ خوشی سے محروم ہوجائیں۔وہ اپنے لئے جنت کو وقف سمجھتاہے اوردوسروں کو دوزخ سے ڈراتاہے۔
ایک بخیل انسان خوش رہ سکتاہے،نہ خوش کرسکتا ہے۔ سخی سدابہاررہتاہے۔سخی ضروری نہیں کہ امیرہی ہو۔ایک غریب آدمی بھی سخی ہوسکتا ہے، اگر وہ دوسروں کے مال کی تمناچھوڑ دے ۔جن لوگوں کاایمان ہے کہ اللہ کا رحم اس کے غضب سے وسیع ہے،وہ کبھی مغموم نہیں ہوتے۔وہ جانتے ہیں کہ غربت کدے میں پلنے والاغم اس کے فضل سے ایک دن چراغِ مسرت بن کردلوں کے اندھیرے دورکر سکتا ہے۔وہ جانتے ہیں کہ پیغمبربھی تکالیف سے گزارے گئے لیکن پیغمبرکاغم امت کی فلاح کے لئے ہے۔ غم سزاہی نہیں غم انعام بھی ہے۔یوسفؑ کنویں میں گرائے گئے،ان پرالزام لگاانہیں قیدخانے سے گزرناپڑا لیکن ان کے تقرب اورحسن میں کمی نہیں آئی۔ان کابیان احسن القصص ہے۔
دراصل قریب کردینے والاغم دورکردینے والی خوشیوں سے بدرجہابہترہے۔منزل نصیب ہو جائے توسفرکی صعوبتیں کامیابی کاحصہ کہلائیں گی اوراگر انجام محرومی منزل ہے تو راستے کے جشن ناعاقبت اندیشی کے سوا کیاہوسکتے ہیں۔ زندگی کاانجام اگرموت ہی ہے توغم کیااورخوشی کیا؟کچھ لوگ غصے کوغم سمجھتے ہیں،وہ زندگی بھرناراض رہتے ہیں۔کبھی دوسروں پرکبھی اپنے آپ پر، انہیں ماضی کاغم ہوتاہے۔حال کاغم ہوتاہے اورمستقبل کی تاریکیوں کاغم،ایسے غم آشنا لوگ دراصل کم آشناہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ گزرے ہوئے زمانے کاغم دل میں رکھنے والاکبھی آنے والی خوشی کااستقبال کرنے کے لئے تیار نہیں ہوسکتا۔ان کاغم امربیل کی طرح ان کی زندگی کو ویران کردیتاہے۔یہ غم،غم نہیں یہ غصہ ہے۔یہ نفرت ہے۔
غم تودعوتِ مژگاں ساتھ لاتاہے اورچشمِ نم آلودہی چشمِ بینابنائی جاتی ہے۔غم کمزورفطرتوں کاراکب ہے اورطاقتورانسان کامرکب۔خوشی کا تعاقب کرنے والاخوشی نہیں پاسکتا۔یہ عطا ہے مالک کی، جواس کی یاداوراس کی مقررکی ہوئی تقدیرپر راضی رہنے سے ملتی ہے۔نہ حاصل نہ محرومی،نہ غم،نہ خوشی نہ آرزو نہ شکست، آرزویہ بڑی خوش نصیبی ہے۔ اپنے نصیب پرخوش رہنا چاہئے۔اپنی کوششوں پرراضی رہناچاہئے اور کوششوں کے انجام پربھی راضی رہناچاہئے۔دوسرے انسانوں کے نصیب سے مقابلہ نہیں کرناچاہئے۔جوذرہ جس جگہ وہیں آفتاب ہے۔
ہے ناں کوزے میں دریا کوبندکرنا۔اس کے بعدرہ ہی کیاجاتاہے بات کرنے کو۔مگرہم انسان ہیں،کلام کئے بغیرکیسے رہ سکتے ہیں اورکرنابھی چاہیے۔ دیکھئے آپ ماہ رمضان المبارک میں بھوک پیاس برداشت کررہے ہیں،آپ کی اپنی راتیں رب کاکلام سننے اور پڑھنے میں گزررہی ہیں۔ کس لئے؟اس لئے ناں کہ ہم سب کارب ہم سے راضی ہو جائے ۔ ہم سب نے اپنی حیثیت کے مطابق خلقِ خدا کی خبرگیری کی، دادرسی کی۔سب کچھ دیا بھی رب کاہے اورہم نے پھر اسے لوٹایابھی۔جب سب کچھ اس کاہے توپھرہم نے کیاکمال کیا۔ لیکن میرارب کتنا بلندوبالاعظمت وشان والاہے کہ آپ نے مخلوق کی خدمت کی اوروہ آپ کا نگہبان بن گیا۔اورجس کاوہ نگہبان بن جائے پھراسے کسی اورکی ضرورت نہیں رہتی،قطعانہیں رہتی۔
نبی کریم ﷺکی تعلیمات سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ روزے دارکواپنے اعمال،قول وفعل کی عام دنوں سے زیادہ احتیاط کرنی چاہیے۔ جیسے چغلی، غیبت، جھوٹ،لڑائی جھگڑے،کسی کوبرابھلاکہنے سے اجتناب برتنا چاہیے۔نبی کریم ﷺنے فرمایاکہ اگرکوئی روزے کی حالت میں تم سے لڑائی کرے،توبس اتنا کہہ دوکہ میں روزے سے ہوں ۔ایک اورجگہ فرمایا کہ اللہ کوتمہارے بھوکاپیاسا رہنے کی ضرورت نہیں۔احادیث کی روسے پتاچلتاہے کہ چاہے کوئی کتناہی برابرتاؤکیوں نہ کرے،مگرروزے دارکواپنے غصے پرضبط رکھنا چاہیے۔ درحقیقت روزہ توباطنی بیماریوں جیسے غیبت، بداخلاقی، بدکلامی وغیرہ کاخاتمہ کرتا اور نفس کو پاک کرتاہے۔ نبی محترم ﷺ کی ایک حدیث ہے کہ بہت سے لوگ ہیں،جن کوروزے سے محض بھوک وپیاس ملتی ہے۔یعنی انہیں روزے کی اصل روح، صبروبرداشت،تحمل،سکون اوراللہ کاقرب حاصل نہیں ہوتا۔
صدقِ دل سے بتائیے کہ ہمارے کسی عمل یا زندگی کے کسی شعبے سے بھی یہ اندازہ ہوتاہے کہ ہم میں سے کتنے لوگ ماہِ رمضان کے احترام میں برے کاموں ،بدزبانی،غصے،چیخ پکار اور گالم گلوچ وغیرہ سے اجتناب کرتے ہیں؟فقط ایک لمحے کے لئے سوچیے کہ روزہ ہمیں کیاسبق دیتاہے؟وہ توہم پراللہ کااحسان ہے،جو ہمیں رمضان کے ذریعے ضبط،صبروبرداشت، تحمل،درگزر، خوش اخلاقی،صلہ رحمی اورنیکی کی ترغیب دی گئی۔یہ ماہ ِمبارک صرف بھوکاپیاسارہنے کانام نہیں،بلکہ اس کا مقصدانسانی کردارکاسنوارونکھارہے۔تاہم،روزے کی حالت میں اگرصبروبرداشت کاسبق نہیں سیکھا، جھوٹ بولنا، غیبت کرنا،ظلم کرنا، دوسروں کا حق مارنانہیں چھوڑا، تو اللہ تعالیٰ کواس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ ہم کھاناپیناچھوڑکر بھوکے پیاسیرہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں ایسیفاقوںکی کوئی اہمیت یاقدرنہیں۔
اچھاچلیں،صرف کل کے روزے کامحاسبہ کرکے بتائیں کہ کیاآپ کاضمیرمطمئن ہے؟ آپ نے واقعی روزے کاحق اداکردیا؟اپنے والدین، بیوی، بچوں، ماتحتوں،ساتھیوں ، رشتے داروں، پڑوسیوں کے ساتھ نرمی سے پیش آئے؟اپنے ماتحت کی معمولی غلطی پرچراغ پا تونہیں ہوئے، پکوڑوں میں نمک کی کمی زیادتی پربیوی کوکھری کھری تونہیں سنائیں؟ ایک ذرا سی چپقلش پرخاوند پرلعن طعن تونہیں کی،صفائی میں کوتاہی پرکام والی کوتنخواہ کاٹنے کی دھمکی تونہیں دی؟صدقہ خیرات کے نام پرپھٹے پرانے،بوسیدہ کپڑے،جوتے ہی تو نہیں نکالے؟گرمی،بھوک پیاس کاغصہ ٹریفک میں گالم گلوچ کے ذریعے تونہیں نکلا ؟ میراروزہ نہ ہوتاتو میراروزہ نہ ہوتاتوکی گردان تونہیں کرتے رہے؟ اگران تمام سوالوں کا جواب ہاںہے،تویقین جانیے آپ روزہ نہیں،فاقہ کررہے ہیں۔
یاد رہے کہ روزہ صرف بھوکاپیاسارہنے کانام نہیں،بلکہ یہ ایک روحانی ورزش ہے جس کے ذریعے انسان اپنے دل،زبان،اور اعضاکوگناہوں سے بچاتاہے۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:جو شخص جھوٹ بولنااوربرے کام کرنا نہیں چھوڑتا، تواللہ کواس کے بھوکاپیاسارہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔(صحیح بخاری:1903)گویاروزے کا مقصدصرف کھانے پینے سے پرہیزنہیں،بلکہ اخلاقی پاکیزگی اورتقویٰ ہے۔قرآن کریم میں تقویٰ کی تعریف یوں ہے،اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ (لحجرات:13)۔ تقوی کی تعریف تویہ ہے کہ ہرحال میں اللہ کی ناراضگی سے ڈرنا،ہرحال میں اس کی رضاکو ترجیح دینا،ہرقسم کے گناہوں (چھوٹے یابڑے)سے بچنا،اورروزہ انسان کو بھوک، پیاس،اورجنسی خواہشات جیسی بنیادی ضرورتوں پرقابوپاناسکھاتاہے۔یہی قابوتقویٰ کی پہلی سیڑھی ہے اورروزہ ان تمام پہلوؤں کومضبوط کرتاہے ۔
روزے میں کھانے، پینے اور نفسانی خواہشات کو ترک کیا جاتا ہے، جو اللہ کی رضا کے لیے ہوتا ہے ۔ روزہ محض ایک رسمی عبادت نہیں بلکہ ایک تربیتی نظام ہے جوانسان میں تقویٰ پیدا کرتاہے۔قرآن وحدیث کی روشنی میں یہ واضح ہوتاہے کہ جوشخص روزے کواس کی روح کے مطابق رکھے،وہ حقیقی معنوں میں متقی بن جاتاہے،جوروزے کااصل مقصدہے۔روزہ انسان کو اپنی خواہشات کوکنٹرول کرنے کی تربیت دیتاہے،جوکہ تقویٰ کی بنیادہے۔ روزہ انسان میں صبراورشکرکی خوبیاں پیداکرتاہے، جوتقوی کا لازمی جزوہیں۔روزہ صرف بھوک پیاس کانام نہیں بلکہ ہرقسم کے گناہ سے بچنے کاذریعہ ہے،جوکہ متقی بننے کی راہ ہموارکرتا ہے۔
اس ذاتِ باری تعالیٰ کی عبادت،حمدوثنا، تعظیم وتکریم کے لئے توفرشتے ہی کافی ہیں،لیکن یہ اس کاہم گناہ گاروں پر احسان ہے کہ ہمیں کینہ وبغض ،جوشِ انتقام ونفرت میں ڈوبے،اپنے گناہوں میں لتھڑے دل بدلنے کاموقع عطاکیا۔ارے!ہماری کیااوقات کہ کسی کی مدد کرسکیں، یہ تواللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ وہ صدقہ، خیرات و زکوٰۃ کے ذریعے ہمارے مال کوپاک کرتاہے۔ہمارے دنیاکی چکاچونداور بے حسی سے متاثرہ سخت دل روزے کی وجہ سے نرم پڑنے لگتے ہیں کہ اس طرح ہمیں ان لوگوں کی تکلیف کااحساس ہوتاہے،جنہیں عام دنوں میں توکیا،تہواروں پربھی دووقت کی روٹی نصیب نہیں ہوتی۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ضرورت نہیں نہیں بلکہ کے ذریعے روزے کی ہیں کہ کے لئے
پڑھیں:
3بچوں کی ماں کا طلاق کے بعد جشن،ویڈیوسامنے آگئی
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) طلاق عام طور پر دو خاندانوں اور خاص طور پر مرد اور عورت کیلئے انتہائی تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے۔ لیکن آج کل اس رشتے سے چھٹکارا پانا ایک سوگ نہیں بلکہ خوش نصیبی سمجھی جاتی ہے جسے بھرپور طریقے سے منایا جارہا ہے۔
تفصیلات کے مطابق ایسے میں ایک اور ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں ایک خاتون کو اپنی طلاق کا دھوم دھام سے جشن مناتے دیکھا گیا۔
سوشل میڈیا پر وائرل کنٹینٹ کریئیٹرعظیمہ احسان نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو شیئر کی جس میں انہیں ان دقیانوسی تصورات کو توڑ کراپنی زندگی کو ایک نیا موقع دینے کی خوشی میں جشن مناتے دیکھا گیا۔
وائرل ویڈیو میں اس خاتون کو خوب سج دھج کر کوک اسٹوڈیو کے گانے پر رقص کرتے دیکھا گیا اورساتھ ہی انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ وہ طلاق یافتہ ہونے کے باوجود خوش اور کامیاب زندگی گزار رہی ہیں۔
A post shared by Λzima (@azima_ihsan)
غرارا اور لانگ شرٹ زیب تن کیے خاتون نے اپنے فینز کو بتایا کہ،’پاکستانی معاشرے میں طلاق کو عام طور پر موت کی سزا سمجھا جاتا ہے، خاص طور پر خواتین کے لیے۔ مجھے بھی کہا گیا تھا کہ میری زندگی ختم ہو چکی ہے اور مجھے اس فیصلے پر پچھتاوا ہوگااور میری زندگی برباد ہو جائے گی اور یہاں تک کہ خوشی نام کی چیز کو تو بالکل بھول ہی جاؤ!’۔
عظیمہ مزید لکھتی ہیں کہ،’آج بھی لوگ مجھے جج کرتے ہیں، لیکن پتہ ہے کیا؟ میں اس پر رقص کرتی ہوں۔ میں ہنستی ہوں۔ زندگی ویسی نہیں ہے جیسی مجھے ڈرایا گیا تھا، بلکہ اس کے برعکس ہے’۔
انہوں نے اپنی دلی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے مزید لکھا کہ،‘ہم طلاق کو ایک گناہ یا برا لفظ سمجھتے ہیں، جبکہ اسے ایک نئے آغاز کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ ہاں، یہ مشکل ہوتا ہے، دل توڑ دینے والا بھی ہوتا ہے۔ ہاں، کبھی کبھار تنہائی بھی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن ایسے رشتے میں قید رہنا جہاں آپ سانس نہ لے سکیں، وہ اس سے کہیں زیادہ بدتر ہے۔’
ناکام شادی پر بات کرتے ہوئے وہ مزید لکھتی ہیں کہ،’ایک ناخوشگوار شادی میں زندگی گزارنا طلاق یافتہ ہونے سے زیادہ اذیت ناک ہے۔ میں نے یہ فیصلہ ہلکے میں نہیں لیا، بلکہ میں نے کبھی نہیں چاہا تھا کہ میری شناخت ایک طلاق یافتہ عورت کے طور پر ہو۔ لیکن میرے لیے اور میرے تین بچوں کے لیے یہ آزادی تھی۔ یہاں تک کہ میرے سابق شوہر کے لیے بھی یہ بہترین فیصلہ ثابت ہوا۔’
شادی کو کامیاب بنانے والے عناصر پر بات کرتے ہوئے تین بچوں کی والدہ نے مزید یہ بھی لکھا کہ،‘شادی محبت اور عزت پر قائم ہونی چاہیے، نہ کہ معاشرتی بدنامی کے خوف پر۔ میں بہت سی پاکستانی خواتین کو دیکھتی ہوں جو صرف ’ طلاق یافتہ’ کا لیبل لگنے کے ڈر سے اپنی زندگی قربان کر دیتی ہیں تو ان سے میں کہنا چاہتی ہوں کہ،’تمہاری خوشی اہم ہے، سکون (سکونِ قلب) اہم ہے، زندگی چلتی رہتی ہے۔ خوفزدہ مت ہو!’۔
طلاق کے تجربے پر بات کرتے ہوئے عظیمہ احسان نے طویل کیپشن کا کچھ اسطرح اختتام کیا کہ،‘دو سال بعد، میں جیتی جاگتی مثال ہوں،آپ ایک ساتھ رو سکتے ہیں، ٹھیک ہو سکتے ہیں، اور پھر یوں ناچ سکتے ہیں جیسے کوئی دیکھ نہیں رہا (سوائے انسٹاگرام کے، جو کہ… ہاں سب دیکھ رہا ہے! میں اپنا کماتی ہوں۔ اپنا کھاتی ہوں۔ اپنے آپ کو سنبھالتی ہوں۔ اپنے نخرے خود اٹھاتی ہوں۔ اپنے آپ کی فیورٹ ہوں۔ کوئی مرد کی ٹینشن نہیں ہے۔
تاہم انٹرنیٹ پر کچھ لوگوں نے تنقید کی،مگر اکثریت نے ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور دعا کی کہ وہ ہمیشہ خوش رہیں۔
مزیدپڑھیں:سابق وزیراعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس کا آئی پی پی چھوڑنے کا فیصلہ