شادی ایک خوبصورت زندگی کا سفر یا بندھن ہے اور میاں بیوی کی لازوال محبت کا شاخسانہ بھی ہے اپنا گھر بسانے اور گھر کے آنگن میں پھول جیسے ننھے منے بچوں کے ساتھ زندگی کی شروعات کرنے کا شرعی طریقہ بھی ہے اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کو ایک دوسرے کے لئے پیدا کیا ہر مذہب کے ماننے والوں کے لئے شادیوں کے لئے کچھ اصول وضع کیے گئے ہیں میں نے زندگی کے تقریباً ابتدائی 26-27 سال کشمیر پاکستان کے دیہاتی اور شہری ماحول میں گزارنے کے بعد برطانیہ و یورپ مڈل ایسٹ اور امریکہ تک کے طویل سفر کئے ہر مذہب کا دین اسلام سے تقابلی جائزہ، پاکستانی کلچر کو دوسری تہذیبوں اور ثقافتوں سے موازنہ بھی کیا ہر مذہب رنگ و نسل کے لوگوں سے ملنے اور ان کی تقریبات میں شرکت کرنے کا موقع ملا لیکن الحمدللہ دین اسلام نے شادی بیاہ کے لئے سادہ اور بہترین طریقے جو وضع کئے ہیں ہم مسلمان ان پر عملدرآمد کرکے نہ صرف کامیاب ازدواجی زندگی گزار سکتے ہیں بلکہ اللہ کی خوشنودی، رحمتیں اور برکتیں بھی سمیٹ سکتے ہیں لیکن اس سلسلے میں ہم میں سے اکثریت نے بدقسمتی سے جانے انجانے میں دین اسلام کے رہنما اصولوں اور مروجہ طریقہ کار کو چھوڑ کر ایسی بدعات اور رسم و رواج کو شادیوں کا حصہ بنا لیا ہے کہ جوڑے اور خاندان کے لئے اللہ کی خوشنودی کا حصول تو درکنار ہم بہت ساری اخلاقی اور معاشرتی برائیوں میں مبتلا ہوچکے ہیں
لندن کے نواحی ٹائون کی مدینہ مسجد کے امام مولانا اقبال اعوان سے جب میں نے شادی یا نکاح کے بارے میں شرعی احکامات جاننے کی کوشش کی تو مولانا صاحب نے سیدھا سیدھا ایک لائن میں جواب دے دیا یعنی ’’اسلامی تعلیمات و احکامات کے مطابق دو گواہوں کی موجودگی میں مہر کے تعین کے ساتھ ایجاب و قبول کرنے سے نکاح ہوجاتا ہے‘‘ اس کے بعد حسب توفیق ولیمے کے ذریعے دوسرے لوگوں کو اطلاع دینی ہے کہ فلاں شخص کے بیٹے یا بیٹی یا جوڑے یا مرد اور عورت کا نکاح یا شادی ہوگی ہے۔ ولیمہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے اور اطلاع عام یا منادی کا سبب ہے نکاح کے بعد اسلامی نظامِ معاشرت یا خاندانی نظام میں نان و نفقہ یعنی بیوی کی رہائش اور کھانے پینے کا پورا بندوبست یا ذمہ داری مرد کی ہے والد ، بھائی یا دیگر رشتہ دار عزیز و اقارب تحفے تحائف دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں جہیز کی ڈیمانڈ کرنا اسلام میں ممانعت ہے مثال کے طور پر دلہا یا لڑکے کے والدین یا سرپرست یہ مطالبہ کریں کہ لڑکی کے والدین اتنا جہیز دیں اس کی قطعاً اجازت نہیں آج کل اسلامی تعلیمات کے مطابق نکاح کرنا آسان ہے لیکن ہماری رسم و رواج لالچ ریاکاری اور دکھاوے نے نکاح کو مشکل بنادیا ہے جس کی وجہ سے نوجوان بچے بچیاں اپنی عمریں شادی کے بغیر گزار دیتے ہیں جہیز میں لڑکے والے اتنی زیادتی یا بے غیرتی کرتے ہیں کہ سوئی سلائی سے لے کر گھر کا سارا سامان لڑکی والوں سے تقاضا کرتے ہیں اسلامی تعلیمات کے مطابق احسن طریقہ یہی ہے کہ شوہر اور بیوی کا نکاح آزادانہ ہو کوئی زبردستی نہ ہو لالچ کی بنیاد پر نہ ہو رشتہ طے کرتے وقت یعنی برابری کا جو تصور ہے اس میں تعلیم و تربیت معاشرتی پس منظر میں بھی برابری کو اہمیت حاصل ہے لڑکی یا لڑکے کا رشتہ طے کرتے وقت ذات پات قبیلے کے فرق کی وجہ سے جوڑے کی خواہشات کے برعکس رکاوٹیں کھڑی کرنا بھی نامناسب ہے اصولی طور پر ہر بالغ نامحرم مسلمان مرد و عورت کا آپس میں نکاح ہوسکتا ہے۔
یاد رہے کہ کوئی بھی سرپرست جبر یا زبردستی اور دھونس دھبے کے ذریعے نکاح نہیں کرواسکتا جس طرح جہیز کی ڈی مانڈ لڑکے والے نہیں کرسکتے ویسے ہی دلہن کے والدین یا سرپرست مہر کی ڈیمانڈ نہیں کرسکتے ہاں البتہ مرد اپنی توفیق کے مطابق مہر زیادہ سے زیادہ دینا چاہئے تو دے سکتا ہے پاکستانی مسلمانوں کی شادی بیاہ کی تقریبات اسلامی سے زیادہ متحدہ ہندوستان کے قدیم ہندو مذہب کی طرز پر ہوتی ہیں زیادہ تر بے حیائی کی آمیزش جدت اور شدت آگئی ہے جس میں لڑکی کے والدین جہیز کے لئے اس کی پیدائش سے ہی خرید و فروخت شروع کردیتے ہیں ڈھول باجے، ڈانس مانیاں، تیل،مہندی اور گانا بجانا شامل ہے مسلمانوں کی شادیوں کی تقریبات میں سادگی اس لئے ضروری ہے کہ اسلام سادگی اور میانہ روی کی تلقین کرتا ہے شادی میں خوشی منانا بالکل جائز ہے آج کل دیکھا گیا ہے کہ پہلے منگنی کی جاتی ہے اس کے لئے ایک دن مختص کیا جاتا ہے پھر ایک دن مانیاں ایک دن تیل مہندی پھر ایک دن نکاح ایک دن رخصتی اور ایک دن ولیمہ ہوتا ہے دلہا کو الگ اور دلہن کا ولیمہ الگ ہوتا ہے یہ پیسے اور وقت کا ضیاع ہے۔ مشاہدہ میں یہ بھی آیا ہے کہ نکاح کرکے دلہا دلہن کو کئی سال تک ازدواجی زندگی کا انتظار کرنا پڑتا ہے چونکہ ان کے ماں باپ ان کی رخصتی نہیں کرسکتے ظالمو جب نکاح ہوجاتا ہے تو میاں بیوی اپنی ازدواجی زندگی ایک ساتھ کیوں نہیں گزار سکتے اگر شادی کی تقریب ایک دن ہی ہو جائے تو دولہا اور دلہن والے مل کر اخراجات کر لیں تو دونوں خاندانوں کے لیے آسانیاں پیدا ہوسکتی ہیں شادیوں کی تقریبات پر بے جا اخراجات کرتے وقت امیر زادوں کو اپنے اردگرد کے غریب بچے بچیوں کا بھی خیال رکھنا چاہئے کہ کس طرح وہ کسمپرسی کی حالت میں زندگیاں گزار رہے ہیں میرا ایمان ہے کہ ایسی شادیاں جن میں دکھاوا ریاکاری فضول خرچی لغویات ہوں ان سے اللہ کی رحمتیں اور برکات اٹھ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ کامیاب ازدواجی زندگی کے لئے ضروری ہے کے میاں بیوی کے درمیان احترام اعتماد بھروسہ اور باہم ہم آہنگی ضروری ہے ہم بیویوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ گھر کے سارے کام کریں کما کر بھی لائیں بچے پالیں مردوں کی چوہدراہٹ بھی قائم رہے گویا ہم بیویوں کو نوکرانیاں سمجھتے ہیں اسلام میں کسی جگہ بھی گھر کی صفائی ستھرائی یا کھانا پکانے کی مردوں کو ممانعت نہیں ۔عورت ماں بہن بیٹی ہے اپنی بیویوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک روا رکھنے کا حکم ہے جیسے تم دوسروں سے اپنی بہن بیٹی سے نیک اور اچھا سلوک پسند کرتے ہو۔ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کے دعویدار تو ہیں لیکن نبی کریم کے بتائی ہوئی سنت پر چلنا نہیں چاہتے۔ ارشادِ نبویﷺ ہے تم میں بہترین وہ شخص ہے جو اپنی بیویوں کے ساتھ حسن سے پیش آئے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ازدواجی زندگی کی تقریبات کے والدین کے مطابق کے ساتھ ایک دن کے لئے
پڑھیں:
نیلم منیر کا شوبز چھوڑنے کی افواہوں پر ردعمل
معروف اداکارہ نیلم منیر نے شادی کے بعد شوبز چھوڑنے سے متعلق گردش کرنے والی افواہوں پر خاموشی توڑ دی اور ان خبروں کو بےبنیاد قرار دے دیا سوشل میڈیا پر یہ خبریں زیر گردش تھیں کہ نیلم منیر نے شادی کے بعد شوبز انڈسٹری سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے تاہم اداکارہ نے ان افواہوں کی تردید کرتے ہوئے واضح کیا کہ وہ اپنے کام سے بےحد محبت کرتی ہیں اور اداکاری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں نیلم منیر نے انسٹاگرام اسٹوری کے ذریعے مداحوں کو آگاہ کیا کہ ان سے متعلق پھیلنے والی خبروں میں کوئی حقیقت نہیں انہوں نے لکھا میری شادی ہو چکی ہے لیکن میں شوبز نہیں چھوڑ رہی یہ میرا جنون ہے اور میں ایسی چیز کو کیسے چھوڑ سکتی ہوں جس سے مجھے بےحد لگاؤ ہو؟ اداکارہ کے اس بیان کے بعد مداحوں میں پھیلی بےیقینی ختم ہو گئی اور انہوں نے نیلم منیر کے فیصلے کو سراہا