WE News:
2025-03-10@09:14:31 GMT

پل دو پل کا جاودانی شاعر

اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT

عبدالحئی نے اردو اور فارسی کی تعلیم مولانا فیاض ہریانوی سے حاصل کی، انہی کا فیض تھا کہ نہ صرف دونوں زبانوں پر عبور حاصل ہوا بلکہ شعر و ادب سے بھی رغبت پیدا ہوئی۔ پیدائش پر والدین نے کلام مجید دیکھ کر نام عبدالحئی رکھا تھا، شاعرانہ جنم پر تخلص کے لیے کلام اقبال سے رجوع کیا تو داغ دہلوی کے انتقال پر لکھی اقبال کی نظم ’داغ‘ کے ایک شعر پر نظر ٹھہر گئی:

’اس چمن میں ہوں گے پیدا بلبلِ شیراز بھی
سینکڑوں ساحر بھی ہوں گے صاحب اعجاز بھی‘

انہیں ساحر کا لفظ پسند آیا اور یوں 8 مارچ 1921 کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے عبدالحئی، ’ساحؔر لدھیانوی‘ بن گئے۔

ساحؔر کے نام اور کلام سے دنیا واقف ہے۔ 2 دن قبل ساحر کی 104ویں سالگرہ کی مناسبت سے ایک دوست نے ان کی نظم ’تاج محل‘ واٹس ایپ کی، تو پڑھ کر بہت لطف آیا۔ جواباً سخن فہم دوست کو سکندر علی وجؔد کی نظم ’تاج محل‘ واٹس ایپ کردی، یوں سرشار کر دینے والی گفتگو نے حصار میں لیے رکھا۔

سکندر علی 22 جنوری 1914 کو اورنگ آباد میں پیدا ہوئے۔ عثمانیہ یونیورسٹی سے بی۔ اے کیا اور سول سروس میں ڈسٹرکٹ سیشن جج کے منصب تک پہنچے۔ شاعری میں وجدؔ تخلص تھا۔ لہو ترنگ، آفتاب تازہ، اوراق مُصَوَّر، بیاض مریم، ان کے شعری مجموعے ہیں۔ 16 مئی 1983 کو دنیا چھوڑ گئے۔ ساحؔر 25 اکتوبر 1980 کو راہی اجل ہوئے تھے۔

بہت سے شعرا کرام نے ’تاج محل‘ کو موضوع سخن بنایا، لیکن سکندر علی وجؔد اور ساحؔر لدھیانوی کی معراج تک کوئی نہ پہنچ سکا۔ اگرچہ دونوں شعرا کی نظموں کا عنوان ’تاج محل‘ ہے لیکن دونوں کا زاویہ نگاہ مختلف اور قابل تحسین ہے۔

سکندر علی وجؔد کی نظم ’تاج محل‘ سراپا نگاری اور مدح سرائی کی پیکر میں ڈھلی تاثراتی نظم ہے۔ ان کی منظر کشی پڑھنے والوں کی آنکھوں کی سامنے تاج محل کھڑا کر دیتی ہے۔ نظم دیکھیے، ’تاج محل‘:

اے بارگاہ حسن ترا فیض عام ہے
دریائے مہر و لطف رواں صبح و شام ہے
تو کشته وفا کا سہانا پیام ہے
فانی زمیں پر نقشِ بقائے دوام ہے
جادو نگاہِ عشق کا پتھر پہ چل گیا
الفت کا خواب قالبِ مرمر میں ڈھل گیا
گلریز رنگِ خونِ دلِ حُسن کار ہے
اس باغِ بے خزاں میں ہمیشہ بہار ہے
پانی پہ عکس قلب صفت بے قرار ہے
جمنا ترے شباب کی آئینہ دار ہے
ہیبت سے تیری دلکشیِ بے پناہ کی
گنبد پہ کانپتی ہے کرن مہر و ماہ کی
یه زرد و نرم دھوپ یہ پُرکیف وقتِ شام
کندن بنے ہوئے در و دیوار و سقف و بام
خورشید کر رہا ہے تجھے آخری سلام
وہ قلبِ شرق چیر کے نکلا مہِ تمام
جوں ہی رواں سفینہ مہتاب ہوگیا
تو موج خیز قلزمِ سیماب ہوگیا
بہزادِ عصر ہیں تری گل کاریوں پہ دنگ
منظر کشِ بہارِ چمن ہے جبینِ سنگ
کلیوں کا وہ نِکھار وہ گلہائےِ رنگ رنگ
فانوسِ شمعِ کُشتہ سے لپٹے ہوئے پتنگ
رنگینیاں ہیں جوہرِ اہلِ کمال کی
چھنتی ہے جالیوں سے نزاکت خیال کی
تو نقشِ آرزو ہے مجسم زمین پر
آنکھوں نے تیرے حُسن کی مے پی ہے اس قدر
اِک سرخوشی ہے قلب میں سرشار ہے نظر
بیٹھا ہوں پائے وقت کی آہٹ سے بے خبر
ارزاں قدم قدم پر سکون حیات ہے
تیری حریم ناز میں دن ہے نہ رات ہے

سکندر علی وجؔد کی نظم ’تاج محل‘ پڑھنے کے بعد اگر ساحؔر کی نظم ’تاج محل‘ پڑھی جائے تو وہ ایسے عاشق کی فریاد ہے جو محبت کے جذبات میں شاہجہاں سے کسی طور کم نہیں لیکن وہ اپنے محبوب کو سمجھاتا ہے کہ عشقِ صادق کو نمود و نمائش اور دولت کی ضرورت نہیں۔ یقیناً یہ ساحؔر کا احساس کمتری نہیں، مگر ان کا زاویہ نگاہ سکندر علی وجؔد سے مختلف اور زندہ رہ جانے والا ہے۔ ساحؔر کی نظم ’تاج محل‘ دیکھیے:

تاج، تیرے لیے اک مظہرِ اُلفت ہی سہی
تُجھ کو اس وادئ رنگیں ‌سے عقیدت ہی سہی
میری محبوب! کہیں اور ملا کر مجھ سے
بزمِ شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی؟
ثبت جس راہ پہ ہوں سطوتِ شاہی کے نشاں
اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی؟
مری محبوب پسِ پردۂ تشہیرِ وفا
تونے سطوت کے نشانوں کو تو دیکھا ہوتا
مُردہ شاہوں کے مقابر سے بہلنے والی
اپنے تاریک مکانوں کو تو دیکھا ہوتا
ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے
کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے
لیکن ان کے لئے تشہیر کا سامان نہیں
کیونکہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے
یہ عمارات و مقابر، یہ فصیلیں، یہ حصار
مطلق الحکم شہنشاہوں کی عظمت کے ستوں
سینہ دہر کے ناسور ہیں کہنہ ناسور
جذب ہے ان میں ترے اور مرے اجداد کا خوں
میری محبوب! انہیں بھی تو محبت ہوگی
جن کی صناعی نے بخشی ہے اسے شکلِ جمیل
ان کے پیاروں کے مقابر رہے بے نام و نمود
آج تک ان پہ چلائی نہ کسی نے قندیل
یہ چمن زار، یہ جمنا کا کنارہ یہ محل
یہ منقش در و دیوار، یہ محراب، یہ طاق
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
میری محبوب! کہیں اور ملا کر مجھ سے

ساحؔر کی ’تاج محل‘ دراصل ان کے اشتراکی نظریات کا مؤثر اظہار ہے۔ حیرت انگیز اور دلچسپ بات یہ کہ ساحؔر نے جس وقت یہ نظم لکھی تھی، تب تک انہوں نے تاج محل دیکھا بھی نہیں تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مشکور علی

تاج محل ساحر لدھیانوی سکندر علی وجد مشکورعلی وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: تاج محل ساحر لدھیانوی سکندر علی وجد مشکورعلی وی نیوز سکندر علی وج د تاج محل کی نظم

پڑھیں:

یوسف رضا گیلانی کو کرپشن کیس میں بڑا ریلیف مل گیا

وفاقی اینٹی کرپشن عدالت چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کو ٹڈاپ کرپشن کیس میں 3 مقدمات میں بری کر دیا گیا۔

تفصیلات کے مطابق وفاقی اینٹی کرپشن کورٹ میں ٹڈاپ کرپشن کیس کی سماعت ہوئی، چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی وفاقی اینٹی کرپشن عدالت میں پیش ہوئے۔عدالت نے ٹڈاپ کرپشن کیس میں یوسف رضا کی جانب سے دائر بریت کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں تین مقدمات میں بری کردیا۔

چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کے وکیل فاروق ایچ نائیک دلائل جمع کرواچکے تھے، ملزموں پر فریٹ سبسڈی کی مد میں قومی خزانے کو 6 ارب سے زائد نقصان پہنچانے کا الزام ہے۔چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے میڈیاسے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کیس کا وعدہ معاف گواہ آج ملزم ہے اور ملک سے فرار ہے میں ہمیشہ قانون کے مطابق چلا ہوں مجھ پر کیس بنانیوالے ہماری اتحادی حکومت کا حصہ ہیں جو بھی کام کرتا ہوں آئین کے مطابق کرتا ہوں۔

یوسف رضاگیلانی کا کہنا تھا کہ میں نے ایک معزز رکن سینٹ کے پرڈکشن آرڈر جاری کئے تھے معزز رکن سینٹ کا آئینی حق ہے کہ وہ سیشن میں آئے کل جس معزز رکن سینٹ کو گرفتار کیاگیا ہے اسے بھی سینٹ میں لایا جائے، نہروں کا معاملہ میرٹ حل ہونا چاہیئے۔

متعلقہ مضامین

  • امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ علیہ
  • کینیڈا کے آئندہ وزیر اعظم مارک کارنی کون ہیں؟
  • تمام الائنس کی میٹنگ بلا رہے‘ جد و جہد تیز ہو گی: پی ٹی آئی
  • شاعر احمد فرہاد کی اہلیہ سعدیہ فرہاد کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری مسترد  
  • کس بھارتی فلم کے گانے کیلیے 500 ترک ڈانسروں کی خدمات حاصل کی جائیں گی؟ جانیے
  • رفح شہر میں صیہونی فوج کی دہشتگردی میں 3 فلسطینی شہید
  • خیبرپختونخوا: 14 روز میں گیسٹرو کے 19 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ
  • فلم سکندر کیلئے سلمان خان نے کتنا معاوضہ لیا؟ جان کر دنگ رہ جائیں گے
  • یوسف رضا گیلانی کو کرپشن کیس میں بڑا ریلیف مل گیا