امریکی سیکرٹ سروس نے وائٹ ہاؤس کے قریب مسلح شخص کو گولی مار دی
اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT
امریکی سیکرٹ سروس نے اتوار کی صبح وائٹ ہاؤس کے باہر ایک مسلح شخص کو گولی مار کر زخمی کردیا جس کے بعد اس مشکوک شخص کو اسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔
امریکی میڈیا کے مطابق اس واقعے کے وقت صدر ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں نہیں تھے۔
یہ بھی پڑھیے: وائٹ ہاؤس کے سامنے خون سے لتھڑی ہوئی گڑیوں کی بارش
تفصیلات کے مطابق امریکی صدر کی سیکیورٹی کے ذمہ دار ادارے ’سیکرٹ سروس‘ کے اہلکاروں کو ہفتے کے روز مقامی حکام کی جانب سے ایک اطلاع ملی تھی کہ ایک مشکوک شخص امریکی شہر انڈیانا سے واشنگٹن کی طرف سفر کر رہا ہے، بعد میں اس کی گاڑی وائٹ ہاؤس کے قریب کھڑی پائی گئی۔
سیکرٹ سروس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ جب اہلکاروں نے اس شخص کے قریب پہنچنے کی کوشش کی تو اس نے ایک آتشیں اسلحہ نکالا، جس کے بعد سکرٹ سروس نے مذکورہ شخص پر فائر کھول دیا۔
بعدازاں، زخمی ہونے پر مشکوک شخص کو ایک مقامی اسپتال منتقل کیا گیا، تاہم، اس کی حالت کے بارے میں کوئی معلومات نہیں دی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: وائٹ ہاؤس میں دعوت افطار پر آئے دلیر فلسطینی ڈاکٹر نے صدر بائیڈن کو سب کے سامنے کھری کھری سنادی
واشنگٹن پولیس نے کہا کہ اس کے ماہر تفتیش کار اس واقعے کی تحقیقات کر رہے ہیں، تاہم انہوں نے اس پر مزید تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔
واضح رہے کہ امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس امریکی صدر کی رہائش گاہ اور دفتر ہونے کی وجہ سے نہایت سخت سیکیورٹی زون مانا جاتا ہے تاہم ماضی میں کئی دفعہ مسلح یا مشکوک افراد نے اس کا سیکیورٹی حصار توڑنے کی کوشش کی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: وائٹ ہاؤس کے سیکرٹ سروس شخص کو
پڑھیں:
امریکا میں 15 سال بعد پہلی بار گولی مار کر سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا
امریکی ریاست ساؤتھ کیرولینا کی ایک جیل میں ایک مجرم کو موت کی سزا دیدی گئی۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکا میں 15 برسوں میں پہلی بار کسی قیدی کو کرسی پر بٹھا کر باندھا گیا اور چہرہ کپڑے سے ڈھانپ کر گولی ماری گئی۔
سزائے موت کے 67 سالہ مجرم کو پولیس کے 3 اہلکاروں نے براہ راست گولیاں ماریں۔ موت کی تصدیق کے بعد لاش ورثا کے حوالے کردی گئی۔
سزائے موت پر عمل درآمد کا یہ طریقہ قیدی سیگمن کی درخواست پر اپنایا گیا تھا۔ امریکا میں عمومی طور پر سزائے موت زہریلہ انجکشن دے کر دی جاتی ہے۔
قیدی سیگمن کے وکیل نے بتایا کہ ان کے مؤکل کو خدشہ تھا کہ موت کا انجکشن زیادہ تکلیف کا باعث ہوگا اور اس سے جان نکلنے میں وقت بھی زیادہ لگے گا۔
سیگمن پر 2001 میں اپنی خاتون دوست کے والدین کو بی سبال کے بلّے سے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بناکر قتل کرنے کا الزام تھا۔