WE News:
2025-03-10@08:01:14 GMT

کیا اسٹیٹ بینک شرح سود میں پھر سے کمی کرنے جارہا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT

کیا اسٹیٹ بینک شرح سود میں پھر سے کمی کرنے جارہا ہے؟

خبر رساں ادارے روئٹرز نے پاکستان کی معیشت کے حوالے سے ایک سروے کیا ہے، جس میں 14 تجزیہ کار جواب دہندگان میں سے اکثریت کی رائے ہے کہ پیر کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان ملک کی نئی مانیٹری پالیسی میں شرح سود میں مزید کمی کرےگا۔

واضح رہے کہ اس سے قبل 6 بار شرح سود میں کمی ہو چکی ہے، اب اگر دوبارہ ایسا ہوتا ہے تو یہ مسلسل ساتویں بار ہوگا کہ اسٹیٹ بینک شرح سود میں کمی کرےگا۔

یہ بھی پڑھیں شرح سود میں کمی کے بعد قومی بچت اسکیموں کا منافع بھی کم ہوگیا

یاد رہے کہ گزشتہ برس جون میں شرح سود 22 فیصد کی ریکارڈ سطح پر تھی۔

اس سروے کے امکانات کے حوالے سے جاننے کے لیے وی نیوز نے معاشی ماہرین سے بات کی اور جانا کہ کیا واقعی اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں مزید کمی کا امکان ہے؟ اور اس کے کیا اثرات ہوں گے؟

اسٹیٹ بینک کے پاس ساڑھے 10 فیصد کی گنجائش موجود ہے، شہباز رانا

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے معاشی ماہر شہباز رانا نے کہاکہ اس وقت اسٹیٹ بینک کا پالیسی ریٹ 12 فیصد ہے، جبکہ فروری میں جو مہنگائی کی شرح آئی ہے وہ ڈیڑھ فیصد ہے۔ کم از کم بھی ساڑھے 10 فیصد کی اس وقت اسٹیٹ بینک کے پاس گنجائش ہے۔

انہوں نے کہاکہ اسٹیٹ بینک کو اصولی طور پر تو یہ کرنا چاہیے کہ وہ 3 سے 4 فیصد شرح سود میں کمی کرے، لیکن فی الحال ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا کیونکہ اب تک اسٹیٹ بینک احتیاطی تدابیر کو اپناتے ہوئے چل رہا یے۔

شہباز رانا نے کہاکہ شرح سود میں کمی ممکن ہے لیکن اس دفعہ مارکیٹ کی توقع کے مطابق بہت زیادہ کمی نظر نہیں آرہی، اگر شرح سود میں کمی ہوئی بھی تو وہ بہت ہی معمولی سی ہوگی جو آدھے سے ایک فیصد تک ہوسکتی ہے، جس سے کاروبار پر اتنا زیادہ اثر نہیں پڑے گا، اور اس وقت تک جب تک شرح سود سنگل ڈیجیٹ (8 یا 9 فیصد) میں نہیں آجاتی اس وقت تک کاروباری افراد کے لیے کچھ خاص مواقع نہیں ہوں گے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگر شرح سود 8 فیصد تک آجائے اور اس کے ساتھ بجلی کی قیمتوں میں کمی کر دی جائے، جبکہ ٹیکسز میں بھی کمی ہو جاتی ہے تو مجموعی طور پر کاروباری افراد کو فائدہ ہوگا، اور کاروبار مثبت رجحان پکڑے گا ورنہ معمولی کمی سے مجموعی طور پر کاروبار کی دنیا میں اس کا کوئی اثر نہیں پڑےگا۔

شرح سود میں کمی سے کاروبار کرنے والوں کے آسانیاں ہوں گی، خاقان نجیب

معاشی ماہر ڈاکٹر خاقان نجیب نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان میں افراط زر توقع سے بھی زیادہ نیچے آ چکی ہے، اسی وجہ سے پالیسی ریٹ میں بھی کمی ہوئی ہے، شرح سود 22 فیصد سے 12 فیصد پر آئی جس میں مزید کمی متوقع ہے۔

انہوں نے کہاکہ پالیسی ریٹ میں کمی سے کاروبار کرنے میں آسانیاں ہوں گی اور لانگ ٹرم کے لیے ملک میں سرمایہ کاری بڑھے گی۔ توقع ہے کہ اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹیاں بغور جائزہ لے کر شرح سود مزید کم کریں گی، جس کا انفراسٹرکچر، میکانزم آف ایگریکلچر اور انڈسٹریز کو فائدہ ہوگا۔

گزشتہ برسوں میں روپے کی قوت خرید بری طرح متاثر ہوئی، راجا کامران

معاشی ماہر راجا کامران نے کہاکہ افراط زر میں مسلسل کمی دیکھی گئی ہے، مئی 2023 میں قیمتوں میں اضافہ سالانہ یا ماہانہ بنیادوں پر 30 یا 38 فیصد کے حساب سے ہو رہا تھا، اور اب وہ قیمتوں کا اضافہ کم ہوکر سالانہ بنیادوں پر ایک فیصد رہ گیا ہے، یعنی جو 100 روپے کی چیز تھی۔ وہ ایک سال کے دوران 138 روپے کی ہو رہی تھی، لیکن اب وہ 100 روپے کی چیز ایک سال میں 101 روپے کی ہورہی ہے۔

انہوں نے کہاکہ اب ضروری ہے کہ مرکزی بینک ملک میں مہنگائی اور افراط زر کو کنٹرول میں رکھے تاکہ لوگوں کی قوت خرید برقرار رہے۔

انہوں نے مزید کہاکہ گزشتہ کچھ برسوں میں پاکستانی روپے کی قوت خرید بڑی طرح سے متاثر ہوئی ہے، جس کو ہم بھگت رہے ہیں اور اسے ایڈجسٹ ہونے میں مزید کئی سال لگیں گے۔

انہوں نے مزید کہاکہ افراط زر اور مہنگائی کی شرح میں کمی ہونے سے بہت سے کاروبار خاص طور پر چھوٹے کاروبار کو فائدہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اب مزید شرح سود میں کمی سے کنزیومر فنانسنگ پر بہت مثبت نتائج مرتب ہوں گے۔ اس سے لوگ اپنی گاڑیاں آپ گریڈ کریں گے، اس کے علاوہ ریئل اسٹیٹ کا کاروبار مثبت طریقے سے بڑھے گا، اور لوگ کم شرح سود پر بینکوں سے قرض لے کر کاروبار کر سکیں گے۔

یہ بھی پڑھیں شرح سود میں کمی سے پرانی گاڑیوں کی قیمتوں میں کتنا فرق پڑا؟

شرح سود میں ایک فیصد سے زیادہ کمی نہیں کی جائےگی، عابد سلہری

معاشی ماہر عابد سلہری کا کہنا تھا کہ گوکہ اس وقت پالیسی ریٹ میں زیادہ کمی کی گنجائش موجود ہے لیکن میرے خیال میں اسٹیٹ بینک ایک محتاط حد تک کمی کرےگا، شرح سود میں ایک فیصد سے زیادہ کمی نہیں کی جائےگی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews اسٹیٹ بینک افراط زر پالیسی ریٹ سرمایہ کاری شرح سود کاروباری سرگرمیاں گورنر اسٹیٹ بینک معاشی ماہرین مہنگائی وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسٹیٹ بینک افراط زر پالیسی ریٹ سرمایہ کاری کاروباری سرگرمیاں گورنر اسٹیٹ بینک معاشی ماہرین مہنگائی وی نیوز اسٹیٹ بینک ا معاشی ماہر سے کاروبار پالیسی ریٹ زیادہ کمی ایک فیصد افراط زر نے کہاکہ انہوں نے روپے کی کمی ہو اور اس کے لیے

پڑھیں:

وفاقی کابینہ میں توسیع: ’وفاقی حکومت عدم توازن کا شکار ہوگئی ہے‘

وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کی جانب سے وفاقی کابینہ میں 27 نئے وزرا، وزرائے مملکت اور مشیروں کو شامل کیا گیا ہے، کابینہ میں مسلم لیگ ن، ایم کیو ایم، بلوچستان عوامی پارٹی، پی ٹی آئی کے سابق رہنما پرویز خٹک، سابق سینیئر بیوروکریٹ ڈاکٹر توقیر شاہ، آزاد رکن اسمبلی مبارک زیب، صحافی حذیفہ رحمان، مختار بھرت، شذرہ منصب، وجیہہ قمر، معین وٹو، جنید انور، پیر عمران شاہ، اورنگزیب کھچی، رانا مبشر، رضا حیات ہراج سمیت دیگر نئے چہروں کو شامل کیا گیا ہے۔

حکومت کے اس فیصلے پر مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ وی نیوز نے تجزیہ کاروں سے جاننے کی کوشش کی کہ حکومت کی جانب سے کابینہ میں توسیع کا فیصلہ کتنا درست ہے؟

یہ بھی پڑھیں وفاقی کابینہ میں توسیع: کچھ وزیروں کے پاس نصف درجن وزارتیں اور بعض کے پاس ایک بھی نہیں

کابینہ میں شامل چہروں میں سے اکثر کی سفارش ہے، ماجد نظامی

تجزیہ کار ماجد نظامی نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہاکہ حکومتی حلقوں کی جانب سے کابینہ میں توسیع اس چیز کا اظہار ہے کہ اب حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے، اس لیے وہ اپنی کابینہ میں توسیع کررہے ہیں، اور اپنی حکومت کا دوسرا مرحلہ شروع کرنے جارہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ جب ہم کابینہ میں شامل ناموں پر نظر دوڑاتے ہیں تو مخلتف امتزاج نظر آتے ہیں، جن میں اکثر کی سفارش ہے۔ جیسے عون چوہدری اور پرویز خٹک ہیں، دوسری جانب کچھ ایسے نام ہیں جن کی سیاسی طور پر ن لیگ کی جانب سے جگہ بنائی گئی ہے، ان ناموں میں جنید انوار، حذیفہ رحمان اور مبارک زیب وغیرہ شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی ایڈجسٹمنٹ کی وجہ ان کا مسلم لیگ ن کے ساتھ پرانا تعلق ہے، اور کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کے ساتھ سیاسی جوڑ توڑ کے دوران وعدے کیے گئے تھے۔

انہوں نے مزید کہاکہ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کی وزارتوں کو تبدیل کیا گیا ہے، حکومت کی جانب سے ایسا پیکج بنایا گیا ہے جس میں سب کو راضی کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ حکومت کا اختیار ہے کہ وہ کابینہ میں کس حد تک توسیع کرتی ہے اور کتنے لوگوں کو اپنے ساتھ ملانا چاہتی ہے۔

’قابل اعتراض بات یہ ہے کہ پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں سے کم لوگ شامل ہیں‘

ماجد نظامی نے کہاکہ یہ بات درست ہے کہ کابینہ کی تعداد میں اضافے سے آنے والے اخراجات پر سوالیہ نشان اٹھتا ہے، اس کو اپوزیشن تنقید کا نشانہ بناتی ہے، لیکن اگر ملک درست سمت میں چل رہا ہو، اور ترقی کی جانب گامزن ہو تو کابینہ کی توسیع میں کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ اعتراضات تب ہوتے ہیں جب معاملات خراب ہوں اور معاشی صورتحال درست نہ ہو۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ ایک قابل اعتراض بات یہ بھی ہے کہ کابینہ میں وفاقی وزرا اور وزرائے مملکت کی تعداد دیکھیں تو اس میں خیبرپختونخوا، بلوچستان اور سندھ سے انتہائی کم تعداد میں لوگ شامل ہیں، جو کہ 10 سے بھی کم ہیں۔

انہوں نے کہاکہ حکومت کو اس معاملے پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ جب ایک حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ وہ وفاق کی جماعت ہے اور وہ ایک وفاقی حکومت ہے تو پھر اس میں یہ عدم توازن نہیں ہونا چاہیے کہ پنجاب سے دو تہائی وزرا ہوں اور باقی 3 صوبوں سے نمائندگی بہت کم ہو۔

پیپلزپارٹی کے کابینہ میں شمولیت سے انکار پر شہباز شریف نے دیگر لوگ شامل کیے، رانا عثمان

سیاسی امور پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار رانا عثمان نے کہا کہ شہباز شریف کی کابینہ مختصر تھی لیکن اب انہوں نے اپنے لوگوں کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے اس میں اضافہ کیا ہے۔ جب کابینہ میں مزید لوگوں کو شامل کیا جاتا ہے اور عہدے دیے جاتے ہیں قومی خزانے پر بوجھ بڑھ جاتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ تقریباً ہر حکومت کے دور میں کابینہ میں توسیع کی جاتی ہے، عمران خان کے دور میں بھی ایسا ہوا تھا لیکن جب حکومتیں آتی ہیں تو کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی کابینہ کو مختصر رکھیں گے لیکن اس کے بعد وہی ہوتا ہے جو اب شہباز شریف نے کیا۔

رانا عثمان نے کہاکہ شہباز شریف نے اتحادی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کو کابینہ میں شامل کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن وہ اس میں ناکام رہے، کیوں کہ پیپلزپارٹی کابینہ میں شامل ہوکر حکومت کا بوجھ نہیں اٹھانا چاہتی۔

یہ بھی پڑھیں وفاقی کابینہ میں توسیع کی 3 وجوہات سامنے آگئیں

انہوں نے کہاکہ جب پیپلزپارٹی نے کابینہ میں شمولیت سے انکار کردیا تو ن لیگ نے اپنی ہی پارٹی کے اہم رہنماؤں کو کابینہ میں شامل کیا، جن میں سینیئر رہنما حنیف عباسی اور سب سے حیران کن حذیفہ رحمان ہیں، جو صحافی رہ چکے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews ایڈجسٹمنٹ شہباز شریف کابینہ میں اضافہ وزارتیں تبدیل وزیراعظم پاکستان وفاقی کابینہ وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • مارک کارنی کینیڈا کے نئے وزیراعظم منتخب، ٹرمپ کو کھلا چیلنج دے دیا
  • یوکرین اب اسلحہ درآمد کرنے والے ملکوں میں سرفہرست
  • اسٹیٹ بینک آج مانیٹری پالیسی کا اعلان کرے گا
  • مانیٹری پالیسی کمیٹی کا اجلاس آج ہوگا، شرح سود میں کمی کا امکان
  • اسٹیٹ بینک کل مانیٹری پالیسی کا اعلان کرے گا
  • چیمپئنز ٹرافی فائنل میں نیوزی لینڈ کا بھارت کیخلاف ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ
  • وفاقی کابینہ میں توسیع: ’وفاقی حکومت عدم توازن کا شکار ہوگئی ہے‘
  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن آج منایا جارہا ہے
  • سارہ ٹنڈولکر کے بعد شبمن کا نام کیساتھ جوڑا جارہا ہے؟