کتابیں دو قسم کی ہوتی ہیں، ایک وہ جو آپ کو مجبوراً پڑھنا پڑتی ہیں اور دوسری وہ جو آپ کو پڑھنے پر مجبور کرتی ہیں۔ ظفر مسعود کی کتاب ’سیٹ ون سی‘ کا شمار مؤخر الذکر کتابوں میں ہوتا ہے۔
ظفر مسعود پیشے کے اعتبار سے بینکر لیکن مورثی اعتبار سے فلسفی، نفسیات دان اور دانشور ہیں۔ ان کا تعلق اس خانوادے سے ہے جس کی رگوں میں نانا سید محمد تقی، رئیس امرہوری اور جون ایلیا کا خون رواں ہے۔ ان کے والد پاکستان کے نامور اداکار منور سعید ہیں۔ جو ٹی وی فلم اور اسٹیج کا ایک معتبر نام ہے۔
ان کے نانا تقی صاحب وہی ہیں جنہوں نے 1961 میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کے کہنے ہر کارل مارکس کی کتاب داس کیپٹل کا ترجمہ عربی زبان میں کیا تھا۔
ہر وہ شخص جس کو ادب اور صحافت سے رتی بھر بھی علاقہ ہے وہ رئیس امرہوی کے نام اور کام سے واقف ہے۔ جون ایلیا آج بھی نوجوانوں کے دلوں میں دھڑکتے ہیں۔ ان کی شاعری کے تو بہت معترف مل جائیں گے مگر میری رائے میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ ’شائد‘ کا دیباچہ ہے۔ جس نے وہ پڑھا، سمجھا اور سیکھا ہے وہ پھر وہ نہیں رہا۔ جون کا مرید ہو گیا۔ فلسفہ، جون کی نثر کا وصف رہا ہے یا پھر یہ کہیے کہ یہ میراث ہے جو آج کی نسل میں بھی تقسیم کی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ہیرے | عمار مسعود کا کالم
ایک مدت تک ہم یہ سمجھتے رہے کہ بینکر ’بورنگ‘ ہوتے ہیں۔ روٹین کے کام کرکے ان کے اندر تخلیقی صلاحیتیں مفقود ہو جاتی ہیں اور ہندسوں سے آگے سوچنا ان کے بس میں نہیں رہتا۔ لیکن مشتاق احمد یوسفی نے ان تمام خیالات کو فاسد ثابت کیا۔ وہ 4 بینکوں کے صدر اور بینکنگ کونسل کے چیئرمین رہے۔ نہ کبھی اپنے پیشے کو اپنے فن کی راہ میں حائل ہونے دیا نہ کبھی اپنے شوق کو بینکنگ کی راہ میں روکاوٹ بننے دیا۔ جملہ فرسودہ ہو چکا ہے کہ ’ہم اردو فکاہیہ ادب کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں‘۔ اب بات یوں بنتی ہے کہ اردو نثر کی آبرو یوسفی ہی ہیں اور ان سا نثر نگار اردو ادب میں کوئی اور نہیں۔ اور یوسفی ایک لاجواب نثر نگار کے علاوہ ایک باکمال بینکر بھی تھے، یعنی
ہم جیتے جی مصروف رہے
کچھ عشق کیا کچھ کام کیا
ظفر مسعود نے کبھی اپنے خاندان کے حوالے سے خود کو متعارف نہیں کیا، لیکن ’سیٹ ون سی‘ میں اس خانوادے کو ذکر ضرور ہے جس نے ظفر مسعود کی ذہنی تربیت کی ہے۔ پیشے کےا عتبار سے ظفر مسعود ایک گھاگ بینکر ہیں۔ بینکر بھی ایسے کہ بینک آف پنجاب جیسے معروف ادارے کے سی ای او ہیں۔ دنیا بھر کی بینکوں کا پانی انہوں نے پیا ہوا ہے۔ ہر جگہ اپنے علم و ہنر کا لوہا منوا چکے ہیں۔
’سیٹ ون سی‘ 22 مئی 2020 کے ایک لمحے کی کہانی ہے۔ اس ایک لمحے میں ظفر مسعود کی زندگی ہی نہیں دنیا بھی بدل گئی۔ ان کا جہاز لاہور سے اڑا اور کراچی ایئرپورٹ پر اترنے سے پہلے نزدیکی عمارتوں پر جا رہا۔ یہ پی آئی اے کی پرواز فلائٹ 8303 تھی۔ طیارے میں کل 99 لوگ سوار تھے، ان میں سے 97 اس حادثے کا شکار ہوئے۔ 2 مسافر ظفر مسعود اور محمد زبیر اس جان لیوا حادثے میں زندہ بچ گئے۔
اس قدر شدید حادثے میں بچ جانے پر کسی نے اس واقعے کو اتفاق مانا، کسی نے کرشمہ کہا اور کسی نے معجزہ قرار دیا۔ ہم نے بھی خوش قسمتی کو کیا کیا نام دیئے ہوئے ہیں۔ شدید زخمی حالت میں زندہ بچ جانے والے بینک آف پنجاب کے سی ای او ظفر مسعود کی جہاز میں نشست کا ’نمبر ون سی‘ تھا۔ یہ کتاب اس لمحے کی داستان ہے۔ اسکے لمحے کے گزر جانے کے بعد کی زندگی کا احوال ہے۔ جو اس ایک لمحے کی یاد میں پیوست ہے۔
یہ درست ہے کہ اس طرح کے حادثے میں بچ جانا بہت خوش بختی کی بات ہے اور اس پر ایک لاجواب کتاب لکھنا بڑے حوصلے کا کام ہے۔ لیکن میں اس تمام کتاب کو اس خدشے کے ساتھ پڑھتا رہا ہوں کہ کہیں صاحب کتاب اس حادثے میں بچ جانے کو اپنی کرامات کا نتیجہ تو قرار نہیں دے رہے۔ ایسے میں بندہ خود کو کم از کم ولی یا صوفی تو ضرور سمجھ سکتا ہے۔ لیکن ظفر مسعود اس خوش گمانی سے تمام کتاب میں بال بال بچتے رہے۔ اگر وہ اس واقعے کو کوئی ذاتی کرامت یا پارسائی کا نتیجہ قرار دیتے تو پھر اس کتاب کی نہج مخلتف ہوتی۔ پھر اس میں معجزے اور کرشمے پر بحث ہوتی۔ ما بعد الطبیعات کے فلسفے بتائے جاتے مگر اس حادثے کی عقلی توجیہات تحریر میں میسر نہ آتیں۔
یہ کتاب منطق اور دانش کو بروئے کار لا کر لکھی گئی ہے۔ اس میں اس لمحے کا بارہا ذکر ہے جس میں یہ حادثہ ہوا، مگر اس حوالے سے اپنے حق میں نعرہ لگانے سے گریز کیا گیا ہے۔ اور آپ بیتی کے بہانے جہاں بھر کی نیکیوں کی تہمت پر لگوانے سے گریز کیا گیا ہے۔
اپنے ہاں سانحوں کے بارے اس پر سطحی جذباتیت سے ماورا ہو کر عقلی بنیادوں پر بحث کرنا سہل کام نہیں۔ اس واقعے کو بنیاد بنا کر سماج کا کتھارسس کرنا آسان مرحلہ نہیں۔ حادثوں پر ماتم کی ہمارے ہاں روایت ہے، مگر ان حادثوں سے سبق سیکھنا ہم نے سیکھا ہی نہیں۔ یہ کتاب آپ کو اشکبار نہیں کرتی بلکہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے سمجھنے کی صلاحیت عطا کرتی ہے۔
کسی نے کہا کتاب پڑھنا ریل کی سفر کی طرح ہوتا ہے۔ کتاب کے ابواب رستے میں آئے اسٹیشنز کی طرح ہوتے ہیں۔ اہمیت رستے میں آئے اسٹیشنز کی نہیں ہوتی بلکہ منزل کی ہوتی ہے۔ لیکن عجب لطف کی بات ہے اس کتاب کا ہر باب آپ کو منزل تک رسائی دیتا ہے۔ ہرباب ایک واقعے کے حوالے سے دانش، فلسفے، نفسیات اور سماجیات کا نیا پہلو سامنے لاتا ہے۔ ہر باب اتنا مکمل ہے کہ اس پر کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ پھر بات سمجھائی بھی گئی، کبھی معروف فلسفی کانٹ سے لفظ مستعار لیے گئے، کبھی کارل مارکس کا حوالہ دیا گیا اور کبھی رئیس امروہوی کے اشعار کے توسط سے مدعا بیان کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:جیل سے آن لائن
پہلا باب ’تکبر‘ اس مصنوعی احساس تفاخر پر بات کرتا ہے جو بدقسمتی سے ہم میں بحیثیت قوم بلاوجہ در آیا ہے۔ دوسرا باب ’واجبات‘ کا ہے، جو اس لمحے کے سکون اور سکوت پر بات کرتا ہےکہ جب موت یقینی ہو۔ اس لمحے میں کون سے قرض یاد آتے ہیں جنہیں اتارنے کی فرصت سانسیں نہیں دیتیں۔ تیسرا باب ’نیکی‘ ہے جس میں اس سیاح کی بات کو دہرایا گیا ہے کہ جس نے پیدل دنیا بھر کا سفر کیا، کہیں جنگل میں قیام کیا، کسی سے مانگ کر پیٹ بھرا، کسی رستے میں لُٹ گیا لیکن اس کے دنیا بھر کے سفر کا نتیجہ یہ رہا کہ ’انسان مجموعی طور پر اچھے ہوتے ہیں‘۔ چوتھا باب ’خلوص‘ ہے۔ اس باب میں اخلاص کی فلسفیانہ توجہیات بھی موجود ہیں اور ادبی تلمحیات بھی اس کا حصہ ہیں۔ یہ خلوص کبھی ایک بینک کے سی او کی جانب سے ان کے عملے کے لیے محبت کے پیغام کی صورت میں سامنے آتا ہے اور کبھی 1857 کی جنگ آزادی کے قصے دہراتا ہے۔ پانچواں باب ’معجزات‘ ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ کس طرح اس واقعے پر معجزے کے گمان سے مفر کیا گیا ہے۔ حادثے کو حادثہ رکھا اور خود کو نام نہاد صوفی، بزرگ بنانے سے اجتناب کیا گیا۔ چھٹا باب ’قوت ارادی‘ ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ قوت ارادی بہت بڑی چیز ہے مگر سب کچھ نہیں۔ کچھ اختیار میں ہے اور بے شمار جگہ آدمی بے اختیار ہے۔ یہی کائنات ہے اور یہی انسان کی فطرت اور جبلت ہے۔ ساتواں باب ’رسومات‘ کے نام سے ہے۔ یہ سماجی رسومات کا ذکر ہے جہاں فرد خدا بننے سے باز نہیں آتا۔ حقیقت کو اپنے افسانوں پردوں میں پنہاں کر کے اس کو رسم کہنے کی قبیح عادت اس سماج میں پرانی ہے۔ لیکن اس کا منطقی موازنہ کم کم ہوتا ہے۔ حقیقت کسی بھی رسم سے بڑی ہوتی ہے۔ آٹھواں باب ’دلیرانہ اقدام‘ ہے، اس میں کسی افسانوی ہیرو کا ذکر نہیں، بلکہ ایک ایسے انسان کی سچی کہانی ہے جو طیارے کے حادثے میں زخمی ہوا اور اپنی نفسیاتی صحت کے لیے ماہر نفسیات سے ببانگ دہل مشورہ کرنے کو بہادری بتایا۔
نواں باب ’ابلاغ‘ کی بات کرتا ہے۔ ایک بات کو ایک ذہن سے دوسرے ذہن تک منتقل کرنے کے مروج طریقوں پر بحث کرتا ہے۔ اس باب کو میں نے بہت حیرت سے پڑھا اور دیر تک خوشگوار حیرت میں یہ سوچ کر مبتلا رہا کہ کوئی اور بھی ہے اس زمانے میں جو اس طرح سوچتا ہے۔ کوئی اور بھی ہے جو کہتا ہے کہ فنون کی ترویج سے معاشرہ سدھر سکتا ہے ۔شعر کی تحسین سے سے، پینٹنگ کے اسٹروکس کی توصیف سے، نغمے کی دھن سے کی داد سے، رقص کی جوش کی تعریف سے، کہانی لکھنےوالوں کی حوصلہ افزائی سے یہ سماج سدھر سکتا ہے۔ اس سے مجموعی شدت اور نفرت میں کمی کی جاسکتی ہے۔ معاشرے کو متوازن اور معتدل بنایا جا سکتا ہے۔ میری ساری عمر کی ریاضت اور تربیت کا ثمر یہی سبق ہے اور اس کتاب کے آخری باب کو پڑھ کر بے انتہا خوشی ہوئی کہ کوئی اور بھی ہے اس روئے زمین پر جس کو اس بات کا ادراک ہے۔
نواں باب ’ورثہ یا ترکہ‘ ہے۔ یہ اس خیال کو موضوع بناتا ہے کہ اگر زندگی نے موقع دیا تو ہم ترکے میں کیا چھوڑے جا رہے ہیں؟ آنے والی نسلوں کو کیسا سماج دے کر جارہے ہیں؟ اس سوال کا تعلق حیثیت اور نسب سے نہیں بساط سے ہے۔ کیا ہم اپنی بساط کے مطابق ایک بہتر معاشرے کی تخلیق کر رہے ہیں یا پھر اس بے نام ہیجان اور انتشار کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ ہم اپنی بساط کے مطابق اس عہد کی جھولی میں کیا ڈال رہے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جو سب کو سوچنا ہے بلکہ یہی ایک قابل فکر سوال ہے، باقی تو سب آموختہ ہے۔ آخری باب ایک بہتر معاشرے ایک متوازن دنیا ور معتدل سماج کی امید کی جانب اشارہ کرتا ہے جس کے لیے کل نہیں بلکہ آج سے کام شروع کرنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:الف سے اللہ، ب سے بلوچستان، پ سے پاکستان
کسی حادثے کا شکار ہو کر لوگ س حادثے کے تمام تر محرکات اور امکانات سے تمام عمر خوفزدہ رہتے ہیں۔ یہ ظفر مسعود کا ہی حوصلہ ہے کہ وہ نہ صرف اب بھی پی آئی اے سے سفر کرتے ہیں بلکہ بالاصرار اپنی نشست ’سیٹ نمبر ون سی‘ کی ہی درخواست کرتے ہیں۔ یہ صرف خود اعتمادی کا قصہ نہیں اس نظام قدرت پر اعتبار کی بھی بات ہے۔
یہ کتاب پڑھ کر عجب طمانیت کا احساس ہے کہ کتنی خوش نصیبی کی بات ہے کہ طیارے کے حادثے میں کوئی جانبر ہو جائے اور شاید یہ بات اس سے بھی زیادہ معتبر بات یہ ہے کہ وہ بچ جانے والا شخص ایسی کتاب لکھے جو حادثے کی سنسنی سے گریز کرے اور اس کے محرکات کو منطقی طور پر سمجھے اور اس واقعے کی ذریعے معاشرے کی خیر کے پہلو سوچے۔ یہ بات اس کتاب کو اور اس کے مصنف کو بہت معتبر بناتی ہے۔ یہ کتاب صرف حادثے کی تفصیلات نہیں بتاتی بلکہ زندگی کرنے کا ہنر بھی سکھاتی ہے:
تمنّا آبرو کی ہو اگر گلزارِ ہستی میں
تو کانٹوں میں اُلجھ کر زندگی کرنے کی خو کر لے
میری ظفر مسعود سے کوئی ملاقات نہیں۔2 دفعہ ایک نابینا دوست کی سفارش کے لیے انہیں فون کیا، جس کا جواب نہایت خندہ پیشانی سے ملا۔ لیکن اس کتاب کو پڑھنے کے بعد ملاقات کی خواہش ہے۔ لفظ ادھوری ملاقات ضرور ہوتے ہیں مگر پوری ملاقات ادھار نہیں رہنا چاہیے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔
بینک بینک آپ پنجاب پی آئی اے جون ایلیا رئیس امروہوی سید تقی ظفر مسعود کارل مارکس۔.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پی ا ئی اے کارل مارکس ظفر مسعود کی سیٹ ون سی مسعود کا اس واقعے ہوتے ہیں کوئی اور ہیں اور سکتا ہے اس کتاب کیا گیا یہ کتاب کرتا ہے رہے ہیں ہے اور کے لیے گیا ہے خود کو کی بات بات ہے اور اس
پڑھیں:
خیالات کی تجسیم یا نفسیات کا مرض
شائد یہ تجربہ آپ کو بھی ہوا ہو کہ بعض دفعہ آپ کو ایسی آوازیں سنائی دیتی ہیں یا ایسا کچھ دکھائی دیتا ہے، جو کسی خاص موقعہ پر آپ کے علاوہ کسی دوسرے کو سنائی دےرہاہوتا ہےاورنہ ہی دکھائی دے رہاہوتا ہے۔ عام طور پرانگریزی زبان میں اسے “ہالوسینیشن” (Hallucinations) کہتے ہیں جس کا اردو زبان میں ترجمہ “ہذیان” سے کیا جاتا یے جبکہ بار بار واقع ہونے والے ایسے تجربے کو “شیزوفرینیا” (Schizophrenia) کی نفسیاتی بیماری کہا جاتا ہے جس میں آپ ایسی کچھ چیزوں کو نہ صرف دیکھتے اور سنتے ہیں بلکہ انہیں چھوتے اور محسوس وغیرہ بھی کرتے ہیں، جو درحقیقت آپ کے اردگرد موجود نہیں ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود کہ ہذیان کو اگرچہ نفسیاتی بیماری یا فریب نظر کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے، تاہم فریب نظر بھی دو قسم کی ہوتی ہے جسے مثبت اور منفی ہذیان کہتے ہیں۔ اگر ہذیان کو نفسیاتی بیماری ہی کے طور پر سمجھا اور پرکھا جائے تو اسے “جن چمٹنا” بھی کہتے ہیں۔
ممکن ہے آپ یہ جانتے ہیں یا نہیں کہ آج تک ایسا کوئی کیس سامنے نہیں آیا جس میں کسی اندھے آدمی کو جن چمٹے ہوں یا نظر آئے ہوں۔ دراصل، اس کی وجہ یہ ہے کہ جن چمٹنا یا جن لگ جانا نامی بیماری حقیقتاً ایک نفسیاتی بیماری ہے جسے شیزوفرینیا کے نام سے جاناجاتا ہے جس میں ہمارے دماغ کا کیمیکل لیول غیرمتوازن ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے ہمارا دماغ خیالات کو صحیح طریقے سے “پراسیس” (Process) نہیں کر پاتا ہے اور ہم ظاہری دنیا کے بارے میں غلط ادراک کرنا شروع کر دیتے ہیں یا ہمارے اندر کچھ مبہم اور غلط خیالات و تصورات فریب نظر” یعنی Hallucinations کی شکل میں ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ لیکن اس غلط ادراک کے لئے ہمارے دماغ کے پاس دنیا کے بارے میں پہلے سے موجود ڈیٹا یا مواد وغیرہ کا ہونابہت ضروری ہے اور اندھےشخص کے پاس یہ ڈیٹا اور مواد سرے سے موجود ہی نہیں ہوتا ہے لہذا اس ڈیٹا کی کمی کی وجہ سے اندھے لوگوں کا دماغ دنیا کے بارے میں غلط ادراک یا Perception قائم نہیں کرسکتا اور یوں اندھے لوگ شیزوفرینیا یا پھر عرف عام میں جن چمٹنے کی بیماری سے بچ جاتے ہیں۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہذیان یعنی شیزوفرینیا یا پھر جن چمٹنا کیا ہے؟ یہ وہ بیماری ہے جس میں انسان کو ایسی چیزیں دکھائی دیتی ہیں جو حقیقت میں وجود نہیں رکھتی ہیں۔ یہ چیزیں انسان سے باتیں کرتی ہیں اسے حکم دیتی ہیں اور کبھی کبھار اس کی بات مانتی بھی ہیں(اسے یہی لگتا ہےکہ میری بات مانی جا رہی ہے جبکہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوتا ہے)۔
اس نفسیاتی بیماری کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ انسان اپنے دماغ میں بننے والے شبہات یا مغالطے(یعنی اپنے ہی فریب نظر)کے تابع ہوجاتا ہے اور اس مرض کو بیماری نہ سمجھنے والا اور اسکے گھر والے ایسے غیرمنطقی کام کرنے لگتے ہیں جو ان کی بیماری ان سے کروانا چاہتی ہے۔ میڈیکل سائنس میں اس بیماری کا کسی حد تک علاج ممکن تو ہے لیکن بہت ہی مشکل ہے کیونکہ اس بیماری میں دو باتیں خاص ہیں کہ ایک تو یہ کہ انسان اس سے مکمل طور پرکبھی بھی نکل نہیں پاتا ہے یعنی آسان لفظوں میں یہ بیماری ناقابل علاج ہے۔ لیکن ڈاکٹر سالوں کی محنت سے شییزوفرینیا سے متاثرہ انسان کو اس قابل بنا دیتے ہیں کہ وہ حقیقی اور غیرحقیقی افعال میں تمیز کرسکے، اس بیماری کی دوسری خاص بات یہ ہے کہ اس کے کسی بھی مریض کا ذاتی تجربہ اسی بیماری کے شکار دوسرے تمام مریضوں سے مختلف ہوتا ہے اور یہ چیز اس کے علاج کو اور بھی مشکل بنا دیتی ہے کیونکہ ڈاکٹرز کو ہر مریض پر بیماری کے اثرات کا تعین کر کے ایک بالکل نئے طریقے سے ڈیل کرنا پڑتا ہے۔
معروف ماہر معاشیات اور ریاضی دان جان نیش کو بھی اس بیماری کا سامنا کرنا پڑ گیا تھا۔ زمانہ طالب علمی میں وہ ایک ایسے شخص سے دوستی کرتے ہیں جو کہ نہایت ہی ذہین و فطین ہوتا ہے اور بعد میں وہ شائد ہاورڈ یونیورسٹی میں پروفیسر لگ جاتا ہے۔ ایسے میں جان کی اہلیہ اسے اس دوست سے ملوانے کا مطالبہ کرتی ہیں اور جان اسکو بلاتا ہے مگر اسکی اہلیہ کو وہ دوست نظر ہی نہیں آتا جبکہ جان کو وہ اپنی بیٹی کے ساتھ نظر آتا ہے۔ یہاں آ کرجان نیش کی اہلیہ کو پتا چلتا ہے کہ وہ نارمل نہیں ہے۔یاد رہے کہ جان نیش نے اپنے تصوراتی ایجنٹس کو بہت سے کوڈ توڑ کردئیے جن کی مدد سے امریکہ نے انٹیلی جنس کی جنگیں جیتی تھی لیکن ان کے بارےمیں بعد میں پتا چلا کہ وہ وجود ہی نہیں رکھتے تھے۔ جان نیش نے انہیں کئی سو خط بھی لکھے تھے جو کہ بعد میں لیٹر باکس میں ایسے ہی پڑے ملے تھے۔ جان نیش اس بیماری سے تاعمر لڑتے رہے اور صحت یاب نہ ہو سکے۔ آج تک کی تحقیقات کے مطابق جن چمٹنے کی بنیادی وجوہات میں جینیٹکس کا بھی بہت عمل دخل ہے یعنی یہ بیماری ایک ہی خاندان کے کئی افراد کو بھی ہو سکتی ہے اور نسل در نسل بھی چل سکتی ہے جبکہ اس بیماری سے چھٹکارہ پانا مکمل طور پر ممکن نہیں ہے کیونکہ اس بیماری کے علاج کے طور پرمریض کو اس بات کا ادراک کرانا ضروری ہے کہ کیا چیزیں حقیقی ہیں اور کیا نہیں ہیں۔ شیزوفرینیا کے موضوع پر بہت سی فلمیں بھی بنی ہیں جن میں ایک “ایک خوبصورت زہن” (A Beautiful Mind) سب سے زیادہ مشہور ہے جو ایک سچے واقعہ پر مبنی ہے جس نے چار آسکر ایوارڈز جیتے۔ البتہ مثبت فریب نظر کا ایک کمال یہ ہے کہ اس کے ذریعے انسان کے اندر مافوق الفطرت” صلاحیتوں کے بیدار ہونے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے یعنی آپ ان چیزوں کو دیکھ سکتے ہیں، سن سکتے ہیں اور محسوس کرسکتےہیں جو درحقیقت موجود نہیں ہوتی ہیں۔ہالوسینیشن یا شیزوفرینیا اور فریب نظر کا یہ تجربہ ایسا ہی ہے کہ آپ اپنے دماغ سے چیزوں کو مجسم کرنے کا تجربہ کرتے ہیں یا اپنے خیالات کو اپنے ہی سامنے، دیکھتے، سنتے اور محسوس کرتے ہیں۔ آپ بے شک اسے نفسیاتی بیماری قرار دیں جیسا کہ بعض انتہائی غیرمعمولی انسانیت نوازشخصیات پر بھی یہ الزام لگایا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسان ابھی اپنے دماغ کی بہت سی مخفی صلاحیتوں کو سمجھنے سے قاصر نظر آتا یے جن میں اپنے ہی خیالات و چیزوں کی تجسیم اور غائب کو اپنے سامنے حاضر کرنا بھی شامل یے۔