خواتین کی ترقی میں حائل مخصوص سوچ کو بدلنا ہوگا!!
اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT
8مارچ کو ہر سال خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد خواتین کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرنا اور ان کے حوالے سے ریاستی سطح پر اٹھائے جانے والے اقدامات کا جائزہ لے کرمستقبل کا لائحہ عمل طے کرنا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ ہر سال خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے پروگرامز منعقد کرتا ہے، اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے رواں برس بھی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اس دن کے حوالے سے خصوصی نشست کا اہتمام کیا جس میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی خواتین کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
نبیلہ حاکم علی خان
(صوبائی خاتون محتسب پنجاب)
خواتین کے حوالے سے جتنا کام اب ہو رہا ہے ماضی میں نہیں ہوا۔ آج بڑے عہدوں پر خواتین فائز ہیں۔ خواتین کے حقوق و تحفظ کے لیے خصوصی قوانین اور ادارے موجود ہیں۔ ہیلپ لائنز قائم ہوچکی ہیں، ڈیجیٹلائزیشن کے ذریعے خواتین کو تحفظ اور کم وقت میں زیادہ سے زیادہ سہولیات دینے پر کام ہو رہا ہے جو خوش آئند ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں زیادہ قوانین موجود ہیں، میرے نزدیک یہ کہنا درست نہیں بلکہ یہاں خصوصی قوانین موجود ہیں تاکہ ہر جہت میں کام ہوسکے اور لوگوں کے مسائل حل ہوں۔
اسی سوچ کے تحت خاتون محتسب کا ادارہ بھی قائم کیا گیا تھا جو خواتین کے حقوق و تحفظ میں پیش پیش ہے۔ گزشتہ برسوں میں ہمارے پاس کام کی جگہ پر ہراسمنٹ کی پانچ ہزار سے زائدجبکہ وراثت کے حق کے حوالے سے ہزاروں شکایات موصول ہوئیں۔ ہم شکایات کے ازالے کے لیے ہر ممکن کام کر رہے ہیں، میرے دور میں سزا کی شرح 80 فیصد ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ خواتین کے لیے قائم خصوصی اداروں کو سسٹم کی وجہ سے مسائل درپیش ہیں، انہیں دور کرنا ہوگا۔ ملک میں 52 فیصد سے زائد خواتین ہیں لیکن مالکانہ حقوق صرف چند خواتین کو حاصل ہیں، یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے۔ ہم خواتین کا وراثتی حق یقینی بنانے میں پیش پیش ہیں لیکن چند ماہ سے ہم کام نہیں کر رہے، اس کی کچھ وجوہات ہیں جنہیں دور کرنے کیلئے ریاست کو اپنا کردار ادا رکرنا ہوگا تاکہ مل کر خواتین کے مسائل حل کیے جاسکیں۔
خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ہم اپنے باپ، بھائی اور خاوندکی سپورٹ کا شکریہ ادا رکرتے ہیں۔ آج خواتین جس مقام پر ہیں یہ ان کی اپنی جدوجہد اور ظلم و زیادتی کے خلاف کھڑے ہونے کی وجہ سے ہے۔
بے شمار مسائل ایسے ہیں جو خواتین اپنے باپ، بھائی اور خاوند کو بھی نہیں بتاتی لیکن وہ خود اس ظلم کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہوتی ہیں۔اس عالمی دن کے موقع پر ہم تمام خواتین کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ریاست اور معاشرہ ساتھ ساتھ چلتے ہیں، ریاستی اقدامات سے خواتین کو تقویت ملتی ہے۔ ہمیں زیادہ توجہ بنیادی انسانی حقوق پر دینی چاہیے، لوگوں کو تعلیم، صحت، روزگار، تحفظ و دیگر حقوق فراہم کرنا ہوںگے۔میرے نزدیک ہمیں اپنی ترجیحات بدلنا ہونگی۔
صبیحہ شاہین
(ایگزیکٹیو ڈائریکٹر برگد)
ہمیں مایوسی کی بات نہیں کرنی چاہیے۔ یہ درست ہے کہ مسائل موجود ہیں مگر ماضی کی نسبت صورتحال بہتر ہے اور ملک میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ اس وقت صوبہ پنجاب کی وزیراعلیٰ خاتون ہیں۔ اسی طرح پنجاب کی سینئر وزیر، وزیر اطلاعات ، چیف جسٹس، محتسب سمیت اہم عہدوں پر خواتین موجود ہیں۔
عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم کا تعلق بھی پاکستان سے ہے۔ یہ سب خواتین کے حوصلہ افضاء ہے اور انہیں آگے بڑھنے کیلئے توانائی فراہم کرتا ہے۔ خواتین کو درپیش مسائل میں ایک بڑا مسئلہ آمد و رفت کا ہے۔ اگرچہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اس حوالے سے بھی کام کر رہی ہیں لیکن یہ مسئلہ خواتین کی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
اس کے علاوہ ہراسمنٹ بھی خواتین کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ تعلیم کے شعبے میں خواتین آگے آئی ہیں۔ ہائر ایجوکیشن میں لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے ،یہ خوش آئند بھی ہے اور الارمنگ بھی۔ ہمیں لڑکے، لڑکیوں کو برابر لے کر چلنا ہے۔ ہمارے ہاں اب غیر روایتی شعبوں میں بھی خواتین کام کرر ہی ہیں اور اپنی قابلیت کا لوہا منوا رہی ہیں مگر بدقسمتی سے ایک مخصوص سوچ خواتین کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے۔
کسی بھی عہدے یا کام پر موجود خاتون کی کردار کشی کی جاتی ہے، ان پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے جو افسوسناک ہے۔ مخالفت جنس کی بنیاد پر نہیں ہونی چاہیے۔ بدقسمتی سے خاتون کے کردار کو محدود کر دیا گیا اور اسے بطور انسان نہیں دیکھا جاتا۔ جب تک خاتون کو انسان کے طور پر نہیں دیکھا جائے گا، اس وقت تک مسائل حل نہیں ہوں گے، اس کیلئے معاشرتی سوچ میں تبدیلی لانا ہوگی۔
ہمارا نظام تعلیم ایک خاص مائنڈ سیٹ کو فروغ دیتا ہے جس میں عورت کو گھریلو دکھایا جاتا ہے اور مرد کو گھر سے باہر۔ ہمیں اس سوچ کو بدلنا ہے، اس کیلئے سکول کی سطح پر نصاب میں تبدیلی لانا ہوگی۔ خواتین کے حوالے سے سوچ بدلنا آسان نہیں، حکومت، ریاست، والدین، اساتذہ سمیت معاشرے کے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
عظمیٰ یعقوب
(ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ایف ڈی آئی)
پاکستان میں خواتین کی صورتحال دھوپ اور چھاؤں کی مانند ہے۔ یہاں کبھی ٹھنڈی چھاؤں ہے تو کبھی کڑی دھوپ۔ آج بھی خواتین سے جنسی زیادتی، ہراسمنٹ، غیرت کے نام پر قتل جیسے جرائم ہو رہے ہیں جن سے تمام خواتین کو تکلیف پہنچتی ہے۔ خواتین کی صورتحال دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ابھی بہت کام باقی ہے۔ رواں برس خواتین کے عالمی دن کا موضوع Accelerate Action ہے یعنی ہم جو بھی کام کر رہے ہیں، جس سطح پر بھی کام ہو رہا ہے، اسے مزید تیز کرنا ہے۔
پاکستان کا جائزہ لیں تو اس وقت پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی وزیراعلیٰ خاتون ہیں، خاتون چیف جسٹس ہیں، اہم عہدوں پر بھی خواتین موجود ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ کافی ہے؟ ملکی آبادی کا 51 فیصد خواتین ہیں کیاان کی درست نمائندگی ہو رہی ہے؟ پاکستان میں قانون سازی بہت ہوچکی، مسئلہ عملدرآمد کا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ قانون سازی کے عمل میں سٹیک ہولڈرزمشاورت نہیں کی جاتی اور اگر کی جاتی ہے تو یہ مخصوص ہوتی ہے۔ اگر قانون سازی کے عمل کو بہتر کیا جائے تو اس کے عملدرآمد میں بھی آسانی ہوگی۔ افسوس ہے کہ 2025ء میں بھی لوگ بیٹے، بیٹی سے سلوک میں تفریق کرتے ہیں۔
آج بھی خواتین اپنے وراثتی حق سے محروم ہیں۔ انہیں ان کے بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم رکھا جا رہا ہے۔ ایسے میں خواجہ سراء خواتین، خواتین باہم معذوری اور اقلیتی خواتین کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ خصوصی خواتین کیلئے تربیت، روزگار اور آگے بڑھنے کے مواقع نہیں ہیں، جو میسر ہیں وہ انتہائی کم ہیں۔اگر حکومت نے ان خواتین کیلئے اقدامات نہ کیے تو یہ قومی دھارے سے نکل جائیں گی، ہمیں معاشرے کی تمام خواتین کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔ معاشرہ اور ریاست ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
جب ریاست کی رٹ ہو تو معاشرے میں بہتری آتی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنی پہلی تقریر میں واضح پیغام دیا کہ خواتین میری ریڈ لائن ہیں ۔ ماضی کی نسبت خواتین کی حالت میں بہتری اور جرائم کی شدت میں کمی آئی ہے۔ آج خواتین ہر شعبے میں اپنی قابلیت منوا رہی ہیں۔ میرے نزدیک خواتین جہاں تک پہنچی ہیں اس کا کریڈٹ صرف اور صرف خواتین کو جاتا ہے۔ تمام تر نامسائد حالات اور مشکلات کے باوجود خواتین نے ہمت نہیں ہاری اور آگے بڑھتی جا رہی ہیں، میں تمام خواتین کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: تمام خواتین کو کے حوالے سے بھی خواتین خواتین کے موجود ہیں خواتین کا خواتین کی ہیں لیکن عالمی دن جاتا ہے رہی ہیں کام کر ہے اور رہا ہے
پڑھیں:
خواتین کو بااختیار بنائے بغیر ترقی ممکن نہیں، اسپیکر قومی اسمبلی
اسلام آباد (نیوز ڈیسک) اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر اپنے خصوصی پیغام میں کہا ہے کہ کسی بھی ترقی پسند معاشرے کی تشکیل کے لیے خواتین کو بااختیار بنانا ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین نے تعلیم، صحت، کھیل اور دیگر شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں، جنہیں ہر سطح پر سراہا جانا چاہیے۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ خواتین کے حقوق سے متعلق منفی رویوں کو تبدیل کرنا ہوگا اور انہیں قومی دھارے میں شامل کیے بغیر ملکی ترقی ممکن نہیں۔ انہوں نے پاکستان کی تاریخ میں خواتین کے نمایاں کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ محترمہ بینظیر بھٹو کا مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم کے طور پر انتخاب، ملک میں صنفی مساوات کے فروغ کا مظہر ہے۔
انہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی جانب سے خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی بھی تعریف کی اور کہا کہ یہ اقدامات خواتین کو معاشی اور سماجی طور پر مضبوط بنانے میں معاون ثابت ہوں گے۔ سردار ایاز صادق نے تحریک پاکستان میں محترمہ فاطمہ جناح، بیگم رعنا لیاقت علی خان، بیگم جہاں آرا شاہنواز اور بیگم شائستہ اکرام اللہ کے کردار کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ ان عظیم خواتین کی جدوجہد ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ وومنز پارلیمانی کاکس اور خصوصی کمیٹی برائے جینڈر مین سٹریمنگ ملک میں خواتین کے حقوق کے تحفظ اور صنفی مساوات کے فروغ کے لیے فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے مزید کہا کہ قانون سازی کے عمل میں خواتین اراکین موثر اور نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں اور پاکستان کی پارلیمان خواتین کو ان کا جائز مقام دلانے کے لیے پر عزم ہے۔
Post Views: 1