غزہ، گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران صیہونی جارحیت میں 5 فلسطینی شہید
اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT
فلسطینی وزارت صحت نے گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران غزہ کی پٹی کے ہسپتالوں میں 5 نئے شہداء اور 37 زخمیوں کے لائے جانے کا اعلان کیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غزہ کی پٹی میں گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران صیہونی جارحیت میں پانچ فلسطینی شہید ہو گئے۔ فلسطینی وزارت صحت نے گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران غزہ کی پٹی کے ہسپتالوں میں 5 نئے شہداء اور 37 زخمیوں کے لائے جانے کا اعلان کیا ہے۔ وزارت صحت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ 7 اکتوبر 2023ء سے اب تک اسرائیلی جارحیت سے شہید ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر 48,458 ہوگئی ہے جب کہ 111,897 زخمی ہوئے ہیں۔ وزارت صحت نے کہا کہ ملبے کے نیچے اور سڑکوں پر اب بھی متعدد شہداء موجود ہیں اور ایمبولینس اور شہری دفاع کا عملہ ان تک نہیں پہنچ سکتا۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: گھنٹوں کے دوران
پڑھیں:
غزہ کی تعمیر نو اور صیہونی عزائم
اسلامی تعاون تنظیم نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر قبضے اور اس کے باشندوں کو بے گھر کرنے کے منصوبے کے خلاف عرب لیگ کی جوابی تجویزکو باضابطہ طور پر منظورکر لیا، او آئی سی نے عالمی برادری سے منصوبے کی حمایت کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے، دوسری جانب فرانس، جرمنی، اٹلی اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ نے ہفتے کو غزہ کی تعمیر نو کے عرب منصوبے کی حمایت کا اعلان کردیا ہے، جس پر 53 ارب ڈالر لاگت آئے گی۔
فلسطینیوں کو اپنی سرزمین سے بے دخل کر کے یہودیوں کی بھاری اکثریت کے ساتھ ایک یہودی ریاست قائم کرنے کا خیال بہت پرانا ہے لیکن تمام ترکوششوں، سازشوں اور جنگوں کے باوجود اسرائیل اور اس کے سب سے بڑے حمایتی امریکا کو منہ کی کھانا پڑی،کیونکہ دنیا میں کسی بھی ملک نے اس کی حمایت نہیں کی حتیٰ کہ جرمنی اور فرانس نے بھی اس تجویز کو ناقابلِ عمل اور ایک خطرناک مثال قرار دے کر مسترد کردیا۔
غزہ میں جنگ بندی کے بعد مغربی کنارے پر آباد فلسطینی باشندوں پر یہودی آباد کاروں اور اسرائیلی فوج کے حملے، اس ایجنڈے کا حصہ ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے غیرقانونی قرار دیے جانے کے باوجود اسرائیل نے دریائے اُردن کے مغربی کنارے اور دیگر مقبوضہ عرب علاقوں میں سات سے آٹھ لاکھ یہودیوں پر مشتمل بستیاں تعمیرکر رکھی ہیں۔
ان یہودی بستیوں کی تعمیر سے اسرائیل کی سخت گیر دائیں بازو کی حکومت نے فلسطین میں ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے قیام کی راہ روکنے کی کوشش کی ہے۔ غزہ کے بعد اب مغربی کنارے میں بھی اسرائیل فلسطینی آبادیوں کو حملوں کو نشانہ بنا رہا ہے تاکہ مغربی کنارے میں بھی غزہ جیسے حالات پیدا کرکے فلسطینیوں کے انخلا کا جواز پیش کیا جاسکے۔ صدر ٹرمپ سے بائیڈن انتظامیہ نے بھی غزہ کے فلسطینیوں کو اُردن منتقل کرنے کا خیال ظاہر کیا تھا اور یہ اُردنی اور قطری حکام کے ساتھ سابق سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن کی ملاقاتوں کے دوران پیش کیا گیا تھا مگر اُردن کے شاہ عبداللہ دوم نے گزشتہ سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا تھا۔
اب بھی اُردن، مصر اور قطر نے اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے فلسطین کے مسئلے کو صرف دو ریاستوں کے فارمولے کی بنیاد پر حل کرنے پر زور دیا ہے۔ ’گریٹر اسرائیل‘ کو اکثر سازشی نظریات رکھنے والوں اور یوٹیوب کی پیداوارکہہ کر مسترد کردیا جاتا ہے۔ پھر بھی حقیقت یہ ہے کہ اپنی زمین کو وسعت دینا اور دیگر لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کرنا، سیاسی صیہونیت کے ڈی این اے میں موجود ہے۔
اسی طرح اسرائیلی اخبار نے انکشاف کیا ہے کہ تل ابیب واشنگٹن اور حماس کے درمیان ممکنہ مذاکرات کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہا ہے، کیونکہ حالیہ مغربی میڈیا رپورٹس میں انکشاف ہوا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے غزہ جنگ کے معاملے پر حماس سے رابطہ کیا تھا، جس پر اسرائیلی حکام سخت ناراض ہیں۔ اسرائیلی حکام کو خدشہ ہے کہ اگر واشنگٹن نے حماس کے ساتھ مذاکرات کیے تو اسرائیل پر سفارتی دباؤ بڑھ جائے گا۔
اگرچہ یہ مذاکرات اسرائیل کی ناراضگی کا باعث بنے ہیں، لیکن واشنگٹن میں طاقتور صیہونی لابی مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسی کوکنٹرول کر رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق، یہ ممکن نہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ حماس کے حوالے سے اسرائیل کی مرضی کے خلاف کوئی قدم اٹھائے۔ امریکی پالیسی عموماً تل ابیب کے مفادات کو مدنظر رکھتی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کی جانب سے دباؤ بڑھایا جا رہا ہے۔
غزہ میں سوا سال سے اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ، جس میں صہیونی افواج نے سنگین جنگی جرائم کا ارتکاب کرتے ہوئے شہری آبادی کو وحشیانہ فضائی اور زمینی حملوں کا نشانہ بنا کر عورتوں بچوں سمیت پچاس ہزار نہتے فلسطینی مسلمانوں کو شہید اور اسپتالوں اور تعلیمی اداروں سمیت رہائشی بستیوں کو ملبے کا ڈھیر بنادیا، بالآخر ایک معاہدے کے نتیجے میں بند ہوئی۔ درحقیقت صہیونی ریاست کی سرپرست عالمی طاقتوں نے پندرہ ماہ تک اسے غزہ میں بدترین خوں ریزی جاری رکھنے کا کھلا موقع دیے رکھا تاکہ وہ فلسطینی مزاحمت کا جڑ سے قلع قمع کرکے پورے علاقے پر بلاشرکت غیرے حکمرانی کرسکے لیکن حماس کی سخت جان مزاحمت اور غزہ کے شہریوں کی بے مثال قربانیوں نے یہ خواہش پوری نہ ہونے دی۔
اسرائیل اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا جب کہ حماس نے مختلف عرب ریاستوں سمیت دنیا کے متعدد ملکوں کی جانب سے اسرائیل کو جائز ریاست تسلیم کیے جانے اور یوں تنازع فلسطین کو ردی کی ٹوکری کی نذر کردیے جانے کے ابھرتے ہوئے خدشات کے آگے بند باندھ دیا۔ اس لازوال اور بے مثال مزاحمت نے خطے میں پائیدار امن کے حوالے سے مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہنے دیا ہے۔
اس لیے اسلامی تعاون تنظیم کے 57ملکوں سمیت دنیا کی تمام انصاف پسند طاقتوں کو اب جلد از جلد اس تنازع کے انصاف کے تقاضوں پر مبنی مستقل حل کے لیے یکسو ہو کر پیش رفت کرنا ہوگی۔ اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کو لگام دینا عالمی امن کے لیے ناگزیر ہے جس نے حال ہی میں عظیم تر اسرائیل کا نقشہ جاری کر کے متعدد عرب ریاستوں پر قبضے کے مکروہ عزائم کا اظہار کیا ہے۔
ایک نیوز ایجنسی نے انکشاف کیا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے لیے ایلچی اسٹیون وٹکوف نے جنگ بندی کے معاہدے کا اعلان کرنے سے قبل صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سے شمالی غزہ پٹی میں تعمیر نو کو روکنے کے وعدے کیے تھے۔ انھوں نے غزہ پٹی کے شمالی علاقوں میں (جو کہ صہیونی بستیوں کے قریب واقع ہیں)، پہلے سے تیار شدہ مکانات (کانکس) کے داخلے کے عمل کو اس وقت تک ملتوی کرنے کا بھی وعدہ کیا ہے جب تک ان بستیوں سے متعلق حفاظتی منصوبوں پر کوئی معاہدہ طے نہیں پاتا۔ امریکی صیہونی گٹھ جوڑ میں وہ حفاظتی منصوبے شامل ہیں جو غزہ پٹی اور اس کے آس پاس کی غاصب صہیونی آبادکار بستیوں کے درمیان بفر زون میں امریکا اور خلیج فارس کے ممالک کی مالی معاونت سے انجام دیے جائیں گے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ مستقبل میں قابضین کی بستیوں کو غزہ پٹی میں مقیم فلسطینی باشندوں سے محفوظ رکھا جاسکے۔
نیتن یاہو کو جنگ بندی کے معاہدے پر مجبور کرنے کے پیچھے امریکی وعدے ہیں جن کا مقصد فلسطینیوں کو بے گھر کرنا، تعمیرنو کے عمل کو سبوتاژ کر کے آبائی فلسطینی باشندوں کو غزہ پٹی سے نکلنے پر مجبور کرنا اور شمالی غزہ کو محفوظ بنانے کے بہانے طویل مدت تک ناقابل رہائش رکھنا ہے۔
سیاسی صہیونیت کے بانی تھیوڈور ہرزل نے اپنی ڈائریز میں لکھا تھا کہ اسرائیل کی سرحدیں ’’ مصر کے دریا سے فرات تک‘‘ پھیلنی چاہئیں جب کہ دیگر صہیونی مفکرین نے لبنان، شام اور اردن کے کچھ حصوں کو بھی ریاست میں شامل کرنے کا خواب دیکھا تھا۔ یقینی طور پر جدید اسرائیل میں صہیونیت کے وارث اپنے بزرگوں کے وژن پر عمل کررہے ہیں پھر خواہ وہ مقبوضہ علاقوں میں بستیوں کے قیام کے ذریعے ہو جسے عالمی برادری غیر قانونی سمجھتی ہے یا پھر شام (گولان کی پہاڑیوں) اور لبنان (شیبا فارمز) کے علاقوں پر قبضے سے۔
درحقیقت 1973کی جنگ میں امریکا نے اپنے فوجی اور ہتھیار اسرائیل بھیجے تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ اسرائیلی، عربوں کے حملوں سے محفوظ رہیں۔ اس مضبوط دفاع میں اس وقت بھی کمی نہ آئی جب اسرائیل نے 7 اکتوبر کے حملوں کے بعد 13 ہزار سے زائد فلسطینیوں کا سفاکانہ قتل کیا۔ حماس کے حملوں کے بعد یورپی اور امریکی رہنماؤں نے اسرائیل کے لیے صف بندی کی، بن یامین نیتن یاہو کو گلے لگایا اور اسرائیلیوں کو یقین دہانی کروائی کہ ’ہم‘ ’ان‘ کے خلاف ’آپ‘ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ غزہ میں قتلِ عام سے ثابت ہوچکا کہ مغربی ممالک اسرائیل کی حمایت ترک نہیں کریں گے۔
اگرچہ تاریخ کو بدلا نہیں جاسکتا لیکن اگر ہم چاہیں تو اس سے سیکھ ضرور سکتے ہیں۔ غیرمنصفانہ طریقے سے حالات کو معمول پر لانے سے فلسطینیوں کے مصائب ختم نہیں ہوں گے اور نہ ہی عرب مردوں، خواتین اور بچوں کو بے رحمی سے نشانہ بنا کر ان میں آزادی اور باوقار زندگی گزارنے کی امنگ کو کم کیا جاسکتا ہے۔ درحقیقت فلسطینیوں کو انصاف فراہم کرکے ہی اس مظلوم سرزمین پر امن قائم کیا جاسکتا ہے۔