Daily Ausaf:
2025-03-09@20:59:41 GMT

3بچوں کی ماں کا طلاق کے بعد جشن،ویڈیوسامنے آگئی

اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT

اسلام آباد(نیوز ڈیسک) طلاق عام طور پر دو خاندانوں اور خاص طور پر مرد اور عورت کیلئے انتہائی تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے۔ لیکن آج کل اس رشتے سے چھٹکارا پانا ایک سوگ نہیں بلکہ خوش نصیبی سمجھی جاتی ہے جسے بھرپور طریقے سے منایا جارہا ہے۔

تفصیلات کے مطابق ایسے میں ایک اور ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں ایک خاتون کو اپنی طلاق کا دھوم دھام سے جشن مناتے دیکھا گیا۔

سوشل میڈیا پر وائرل کنٹینٹ کریئیٹرعظیمہ احسان نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو شیئر کی جس میں انہیں ان دقیانوسی تصورات کو توڑ کراپنی زندگی کو ایک نیا موقع دینے کی خوشی میں جشن مناتے دیکھا گیا۔
وائرل ویڈیو میں اس خاتون کو خوب سج دھج کر کوک اسٹوڈیو کے گانے پر رقص کرتے دیکھا گیا اورساتھ ہی انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ وہ طلاق یافتہ ہونے کے باوجود خوش اور کامیاب زندگی گزار رہی ہیں۔

View this post on Instagram

A post shared by Λzima (@azima_ihsan)


غرارا اور لانگ شرٹ زیب تن کیے خاتون نے اپنے فینز کو بتایا کہ،’پاکستانی معاشرے میں طلاق کو عام طور پر موت کی سزا سمجھا جاتا ہے، خاص طور پر خواتین کے لیے۔ مجھے بھی کہا گیا تھا کہ میری زندگی ختم ہو چکی ہے اور مجھے اس فیصلے پر پچھتاوا ہوگااور میری زندگی برباد ہو جائے گی اور یہاں تک کہ خوشی نام کی چیز کو تو بالکل بھول ہی جاؤ!’۔

عظیمہ مزید لکھتی ہیں کہ،’آج بھی لوگ مجھے جج کرتے ہیں، لیکن پتہ ہے کیا؟ میں اس پر رقص کرتی ہوں۔ میں ہنستی ہوں۔ زندگی ویسی نہیں ہے جیسی مجھے ڈرایا گیا تھا، بلکہ اس کے برعکس ہے’۔

انہوں نے اپنی دلی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے مزید لکھا کہ،‘ہم طلاق کو ایک گناہ یا برا لفظ سمجھتے ہیں، جبکہ اسے ایک نئے آغاز کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ ہاں، یہ مشکل ہوتا ہے، دل توڑ دینے والا بھی ہوتا ہے۔ ہاں، کبھی کبھار تنہائی بھی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن ایسے رشتے میں قید رہنا جہاں آپ سانس نہ لے سکیں، وہ اس سے کہیں زیادہ بدتر ہے۔’

ناکام شادی پر بات کرتے ہوئے وہ مزید لکھتی ہیں کہ،’ایک ناخوشگوار شادی میں زندگی گزارنا طلاق یافتہ ہونے سے زیادہ اذیت ناک ہے۔ میں نے یہ فیصلہ ہلکے میں نہیں لیا، بلکہ میں نے کبھی نہیں چاہا تھا کہ میری شناخت ایک طلاق یافتہ عورت کے طور پر ہو۔ لیکن میرے لیے اور میرے تین بچوں کے لیے یہ آزادی تھی۔ یہاں تک کہ میرے سابق شوہر کے لیے بھی یہ بہترین فیصلہ ثابت ہوا۔’

شادی کو کامیاب بنانے والے عناصر پر بات کرتے ہوئے تین بچوں کی والدہ نے مزید یہ بھی لکھا کہ،‘شادی محبت اور عزت پر قائم ہونی چاہیے، نہ کہ معاشرتی بدنامی کے خوف پر۔ میں بہت سی پاکستانی خواتین کو دیکھتی ہوں جو صرف ’ طلاق یافتہ’ کا لیبل لگنے کے ڈر سے اپنی زندگی قربان کر دیتی ہیں تو ان سے میں کہنا چاہتی ہوں کہ،’تمہاری خوشی اہم ہے، سکون (سکونِ قلب) اہم ہے، زندگی چلتی رہتی ہے۔ خوفزدہ مت ہو!’۔
طلاق کے تجربے پر بات کرتے ہوئے عظیمہ احسان نے طویل کیپشن کا کچھ اسطرح اختتام کیا کہ،‘دو سال بعد، میں جیتی جاگتی مثال ہوں،آپ ایک ساتھ رو سکتے ہیں، ٹھیک ہو سکتے ہیں، اور پھر یوں ناچ سکتے ہیں جیسے کوئی دیکھ نہیں رہا (سوائے انسٹاگرام کے، جو کہ… ہاں سب دیکھ رہا ہے! میں اپنا کماتی ہوں۔ اپنا کھاتی ہوں۔ اپنے آپ کو سنبھالتی ہوں۔ اپنے نخرے خود اٹھاتی ہوں۔ اپنے آپ کی فیورٹ ہوں۔ کوئی مرد کی ٹینشن نہیں ہے۔

تاہم انٹرنیٹ پر کچھ لوگوں نے تنقید کی،مگر اکثریت نے ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور دعا کی کہ وہ ہمیشہ خوش رہیں۔
مزیدپڑھیں:سابق وزیراعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس کا آئی پی پی چھوڑنے کا فیصلہ

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: طلاق یافتہ کرتے ہوئے کے لیے

پڑھیں:

پانی مافیا

’’ہمارے گھرکل پھر ٹینکر ڈلوایا گیا اور ساڑھے چھ ہزار روپے لگے تھے۔ کیا تمہارے گھر پانی آیا تھا؟‘‘

یہ سوال اس علاقے کی مکین کا تھا جن کے گھر اس پچھلے برس سے پانی کی قلت کم ہونے میں نہیں آ رہی تھی، شہر کا مہنگا علاقہ اور پانی کی حالت اس قدر دگرگوں۔

ابھی چند مہینے پہلے کی ہی بات ہے جب ریڈلائن منصوبے کے لیے کھدائی کا کام زور و شور سے جاری تھا جب گلشن ٹاؤن میں پانی کی بڑی پائپ لائن متاثر ہوئی اور علاقے میں پانی کی قلت ہوئی۔

اس بڑی پائپ لائن کے ٹوٹنے کی وڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ اخبارات میں بڑی بڑی خبریں لگیں۔ لوگوں نے واویلا کیا، بیانات نظر آئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پانی کی لائن کی مرمت تو کیا اورکیسے ہوتی اس کی بھرائی کا کام خدا جانے کون سے انداز میں کیا گیا کہ کنکریٹ بھری گئی کیوں کب کیسے، پتا نہیں، لیکن علاقے میں جہاں چھوٹے بڑے پوش علاقے کے گھر متاثر ہیں اور پانی پراسرار حسینہ کی مانند روپوش۔

’’پتا چلا کہ پانی کیوں نہیں آ رہا؟‘‘

’’ہاں کہہ تو رہے تھے کہ دھابیجی میں بجلی کی وجہ سے شاید پمپ خراب ہے۔‘‘

’’مطلب۔۔۔؟‘‘

’’سیدھی سی بات ہے کہ ان کا اب پانی دینے کا ارادہ نہیں، ہمارے پورے بلاک میں پانی کے ٹینکر نظر آ رہے ہیں، چھ ہزار، آٹھ ہزار اپنی من مانی قیمت ، جس کا دل چاہ رہا ہے وصول کر رہے ہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں۔

اس لیے اب ہم لوگ بورنگ کا سوچ رہے ہیں۔ کیا کریں پانی تو اہم ضرورت ہے۔‘‘ رمضان المبارک میں پانی کی تنگی کی یہ صدائیں کراچی کے ایک پوش علاقے سے ابھر رہی ہیں۔ ٹینکر مافیا کا راج سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ دن رات بڑے بڑے ٹینکر لوگوں کی ضرورتیں پوری کرتے گھومتے پھرتے ہیں اور واٹر بورڈ والوں کے نلکے بنجر کنوؤں کی مانند خشک۔

کہتے ہیں وقت لوٹتا ہے ابھی پاکستان کو قائم ہوئے صدیاں نہیں گزریں، ترقی کے سفر میں نوزائیدہ ہی ٹھہرے کہ بار بار ترقی کے پہیے پر کسی دشمن ملک کا کالا جادو چال روک دیتا ہے۔ کہتے ہیں پرانے زمانے میں پانی کے حصول کے لیے کنوؤں کا راج تھا۔

پھر زمانے نے ترقی کی، ہمارے ملک میں آزادی کے بعد نہروں کا جال بچھایا گیا (کتابوں میں یہی پڑھا تھا) پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیمز بنائے گئے۔ (کالا باغ ڈیم آج بھی مسئلہ کشمیر کی مانند نجانے کون سی کیل میں اٹکا ہے) یہ سب پانی کی فراہمی یعنی عوام کی آسانی کے لیے ہوا کرتے تھے اور ترقی یافتہ ممالک میں آج بھی ہوتے ہیں، لیکن ہمارے یہاں۔۔۔۔

ورلڈ بینک نے 2021 میں ایک رپورٹ شایع کی جس کے مطابق پاکستان کی ستر فی صد گھریلو اور پچاس فی صد سے زائد ضروریات زیر زمین پانی کے استعمال سے پوری ہو رہی ہیں اور اس مقصد کے لیے روزانہ کروڑوں لیٹر پانی زمین سے نکالا جا رہا ہے۔

ویسے تو پرانے زمانے میں بہت سے تصورات کا سوال ہی نہ تھا لیکن گزرتے وقت نے روئے زمین پر جس انداز سے تبدیلیاں ظاہر کیں وہ خطرناک ہے جس نے انسان کو سمجھا دیا کہ کیا سود مند ہے اور کیا خطرے کا سگنل ہے۔

زیر زمین پانی قدرتی اور بہ ظاہر آسان طریقہ ہے لیکن پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کے مطابق ’’ لاہور شہر میں اٹھارہ سو سے زائد سرکاری اور نجی ٹیوب ویل روزانہ تقریباً پینتیس سو (3500) ایکڑ فٹ پانی نکال رہے ہیں (چار سو کروڑ لیٹر) جس سے زیر زمین پانی کی سالانہ سطح اوسطاً ساڑھے تین فٹ کم ہوتی جا رہی ہے۔‘‘

زیر زمین پانی استعمال کرنے کے سلسلے میں پاکستان کا شمار تیسرے نمبر پر ہے۔ 1960 میں پانی کے تیس ہزار کے قریب ٹیوب ویل تھے جن کی تعداد آج لاکھوں میں ہے، جن سے جتنا پانی نکالنے پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ دنیا بھر میں زیر زمین پانی کی سطح میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں زیر زمین پانی کی کمی خشک ماحول میں زیادہ تیزی سے ہوتی ہے۔ ایران میں یہ صورت حال تشویش ناک حد تک ہو گئی ہے۔

زیر زمین پانی کو نکالتے رہنے سے پانی کی سطح گر جاتی ہے جس سے زراعت متاثر ہوتی ہے۔ زراعت انسانی خوراک کے لیے اشد ضروری ہے، پانی کی ضرورت سے انکارکرنا ممکن نہیں لیکن اس کے خطرناک ذرایع انسانی زندگی کے لیے مفید نہیں۔

پانی کے استعمال میں پاکستانی قوم ویسے بھی خاصی کھلی ثابت ہوئی ہے۔ چاہے گھریلو ہو یا کمرشل اس کا استعمال جی بھر کر کیا جاتا ہے اور جہاں اس میں تعطل پیدا ہو، بورنگ کا سہارا لیا جاتا ہے۔ زیر زمین پانی آسمان سے برسنے والے پانی کے مقابلے میں خاصا نمکین اور استعمال میں بھاری ہے۔ کھانا پکانے، نہانے دھونے میں کنوئیں کا پانی دریائی پانی کے مقابلے میں ہمیشہ ناپسندیدہ رہا ہے لیکن ذرا ان لوگوں کے بارے میں بھی سوچیے جن کے پاس پانی حاصل کرنے کا سوائے کنوئیں کے کوئی اور سورس ہی نہیں ہے۔

کنوئیں کی کھدائی، پانی ٹینکر مافیا کا رجحان جہاں ایک جانب خاص طبقے کی جیب بھر رہا ہے وہیں ملک کی زمین پر منفی اثرات بڑھا رہا ہے، خطرے کی گھنٹی مستقل بج رہی ہے، اب بھی سڑکوں پر ٹوٹے ہوئے پائپوں سے پانی نہریں بہا رہا ہے۔

عوام کے گھروں کو جاتے پائپ کبھی گیس تو کبھی بجلی، کبھی سڑکوں کی مرمت کے بہانے ٹوٹتے بکھرتے چھوٹی سڑکوں سے لے کر بڑی شاہراہوں کو پانی پانی کرتے نظر آتے ہیں۔ بارش تو رب العزت کا تحفہ ہے جو آسمان سے انسانوں کے لیے صاف شفاف پانی لے کر اترتی ہے، پر ہمارے یہاں انھیں محفوظ کرنے کے سارے وسائل زیر ہوتے رہتے ہیں۔

درخت تو پھر بھی بڑے توجہ سے کٹوا دیے جاتے ہیں کہ اس سلسلے میں بھی مختلف طبقات ہاتھ رنگنے میں دیر نہیں لگاتے، لیکن بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے ٹینشن کی ضرورت ہی کیا ہے۔

پانی کو گھروں میں دینے سے پانی کے بل کی مد میں چند سو جب کہ پانی ٹینکر مافیا کی جیبوں میں ایک ہی مہینے میں چار سے پانچ ٹینکر ہزاروں روپے کا سامان کرتے ہیں، اب کون سوچے کہ دس سال بعد اس دھرتی کے زیر زمین پانی کی سطح کس حال پر ہوگی کہ کاغذ کے نوٹ بڑے خوشبودار اور کرارے ہوتے ہیں۔ خدارا! قوم کا نہیں تو اپنی آیندہ آنے والی نسلوں کا ہی سوچ لیں کہ اس دنیا سے چلتے یہ نوٹ ہمارے کسی کام نہیں آئیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • شعیب ملک کی شادی شدہ زندگی ’’سنی سنائی باتوں‘‘ نے برباد کی؟ کرکٹر نے مشورہ دے دیا
  • ہمارااولین مسئلہ اپنی سانسیں برقرار رکھنا ہے!
  • پانی مافیا
  • خوشی کا حصول
  • خواتین کو مرکزی دھارے میں لاکر ہی پاکستان کو عظیم ملک بنا سکتے ہیں، وزیراعظم
  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن آج منایا جارہا ہے
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • صنفِ نازک، ایک تحفہ نایاب ہے!
  • ’اپنا کماتی ہوں، اپنا کھاتی ہوں‘، طلاق یافتہ خاتون کی جشن مناتے ڈانس ویڈیو وائرل