یوکرین پر مزید 100 سے زائد روسی ڈرون حملےہوئے، کییف
اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 مارچ 2025ء) یوکرین نے روس پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ اس نے ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب کییف پر ایک سو سے زائد ڈرون حملے کیے ہیں۔
یہ حملے یوکرین کو امریکی جنگی امداد کی فراہمی میں تعطل کے بعد کیے گئے ہیں، جس کی وجہ سے کییف کی مشکلات میں اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس سے قبل روس کی جانب سے یوکرین پر جمعے اور ہفتےکو ہونے والے حملوں کے نتیجے میں درجن بھر سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اب تازہ حملوں کے بعد یوکرین کی فضائیہ نے بتایا کہ روس نے راتوں رات 119 ڈرون حملے کیے جن میں سے 71 کو کییف اور دیگر علاقوں میں مار گرایا گیا، جب کہ 37 دیگر ڈرونز نامعلوم مقامات پر گرے۔ یوکرینی حکام نے مزید کوئی بھی تفصیلات جاری کیے بغیر اتنا بتایا کہ ان ڈرون حملوں میں چھ مختلف علاقوں میں نقصان ہوا ہے۔
(جاری ہے)
یوکرین اگلے ہفتے منگل کو سعودی عرب میں امریکی حکام کے ساتھ بات چیت کرے گا۔
واشنگٹن کی جانب سے یہ امید کی جارہی ہے کہ ان مذاکرات کے ذریعے جنگ بندی اور امن معاہدے کے لیے "فریم ورک" پر اتفاق ہوجائے گا۔ اس تمام تر صورتحال کے دوران امریکہ کی جانب سے کییف کو ہتھیاروں کی ترسیل اور اس کی انٹیلی جنس رپورٹس اور سیٹلائٹ کی تصاویر تک رسائی روک دی گئی ہے۔دوسری جانب ماسکو کا یہ کہنا ہے کہ یوکرین کے ایک ڈرون نے راتوں رات روس کے وولگا ندی کے علاقے میں ایک صنعتی تنصیب کو نشانہ بنایا۔
چوواشیا کے گورنر اولیگ نکولائیف نے ٹیلی گرام میسجنگ ایپ پر ایک بیان میں کہا کہ اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس علاقے میں ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایمرجنسی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا تھا۔ انہوں نے اس حملے سے متعلق مزید کوئی تفصیلات جاری نہیں کیں۔روسی حکام نے اس سے قبل کہا تھا کہ ملک کی فضائی دفاعی یونٹس نے راتوں رات 88 یوکرینی ڈرونز کو تباہ کیا، جو روس کے مختلف علاقوں میں مار گرائے گئے ہیں۔
روس کے غیر سرکاری ذرائع نے یہ دعوی بھی کیا ہے کہ یوکرین نے یہ حملے ماسکو کی آئل ریفانریز کو نشانہ بنانے کے لیے کیے تھے۔روس کی جانب سے یوکرینی علاقوں پر قبضے
روس نے آج ایک سرحدی جھڑپ کے دوران یوکرین کے علاقے سومی کے ایک گاؤں پر قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ روسی وزارت دفاع نے ایک بریفنگ میں کہا کہ اس کی افواج نے ایک جوابی کارروائی میں کرسک علاقے کی سرحد کے قریب سومی علاقے میں نووینکے کے چھوٹے سے گاؤں کو "آزاد" کرالیا ہے۔
روس کا بیان ان اطلاعات کی تصدیق کرتا ہے کہ روسی فوجیوں نے سومی کے علاقے میں ایک اہم حملہ کیا ہے۔ یوکرین کے ہزاروں فوجیوں نے گزشتہ سال اگست میں روس کے کرسک علاقے کے تقریباً 1,300 مربع کلومیٹر پر قبضہ کر لیا تھا، جس کے بارے میں کییف نے کہا تھا کہ مستقبل میں ہونے والے مذاکرات میں ایک اہم پہلو اور روس کو مشرقی یوکرین سے فوجی دستے منتقل کرنے پر مجبور کرنے کی ایک کوشش ثابت ہوگا۔
تاہم اب اطلاعات کے مطابق روسی فوجیں اس علاقے میں دوبارہ داخل ہو چکی ہیں۔
ر ب/ م ا (ایجنسیاں)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کی جانب سے علاقے میں کیا ہے روس کے
پڑھیں:
تم تیسری عالمی جنگ کا جوا کھیل رہے ہو
امریکا فی الوقت دنیا کی سب سے بڑی معیشت اور طاقتور ترین فوجی قوت ہے۔اسی لیے کہا گیا ہے کہ امریکا دنیا کے ہر ملک کا پڑوسی ہے۔جناب ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی دوسری مدت صدارت کے پہلے 40 سے کچھ اوپر دنوں میں تہلکہ مچا دیا ہے۔
20جنوری کو عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہی انھوں نے یہ کہہ کر تلاطم برپا کر دیا کہ کینیڈا کو اپنی آزاد ریاستی حیثیت ختم کر کے امریکا کی ایک ریاست بن جانا چاہیے۔جناب ٹرمپ نے گرین لینڈ پر زورِ بازو سے قبضہ کرنے کا بھی عندیہ دیا ۔اس کے ساتھ ہی پانامہ کینال کو امریکی عملداری میں لینے کا بھی اعلان کیا۔یہ سب تو ہو ہی رہا تھا لیکن ٹرمپ اور پیوٹن کی اعلانیہ دوستی کی وجہ سے یوکرین جو کہ امریکا کے ایما اور شہہ پر روس سے جنگ لڑ رہا ہے اس کے منتخب صدر کو نشانے پر لے لیا گیا۔
جناب ٹرمپ نے یوکرینی صدر زیلنسکی کو ڈکٹیٹر کہا اور یہ کہ وہ ایک درمیانے درجے کے کامیڈین ہیں۔امریکی صدر نے یہ بھی کہا کہ یورپین یونین بنائی ہی اس لیے گئی کہ امریکا کو exploitکر کے فائدے حاصل کیے جائیں۔ انھوں نے یورپین یونین پر ٹیرف عائد کرنے کا بھی عندیہ دیا۔
جناب ڈونلڈ ٹرمپ کے یہ اعلانات و اقدامات بہت بڑا تلاطم ہیں۔یہ وہ تبدیلی ہے جس سے 1945سے قائم نام نہاد ورلڈ آرڈر تل پٹ ہو سکتا ہے۔دوسری عالمی جنگ میں یورپ کی تباہی کے بعد امریکا نے مارشل پلان کے تحت برطانیہ، فرانس، جرمنی اور دوسرے تباہ حال یورپی ممالک کو ان کے پاؤں پر کھڑا کیا۔امریکا یورپ کی سلامتی کا ضامن اور نیٹو اتحاد کا روحِ روان بنا۔1945سے لے کر امریکا یورپ کے لیے دفاعی چھتری ہی نہیں بنا رہا بلکہ تمام بین الاقوامی فورمز پر امریکا اور یورپ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے رہے۔
یورپ نے تمام توجہ معیشت بحالی پر رکھی۔اسے دفاع پر کچھ زیادہ خرچ نہیں کرنا پڑا۔یہ غالباً پہلی بار ہو رہا ہے کہ امریکا یورپ سے کہہ رہا ہے کہ اپنے دفاع پر زیادہ خرچ کرتے ہوئے ذمے داری اُٹھاؤ۔پچھلی تمام امریکی حکومتیں نیٹو اتحاد میں نئے یورپی ممالک کو شامل کر کے روسی سرحدوں کے قریب سے قریب ہونے کی کوشش کرتی نظر آئیں۔یوکرین کی سرحدیں روس سے ملتی ہیں۔اگر یوکرین نیٹو اتحاد کا ممبر بن جائے تو نیٹو افواج روس کی سرحدوں پر پہنچ جاتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جب یوکرین نے امریکی اشارے پر نیٹو اتحاد کا ممبر بننے کے لیے درخواست کی تو پہلے تو روس خبردار کرتا رہا اور پھر فروری2022کو یوکرین پر چڑھائی کر دی۔ایسے میں امریکا اور یورپ یوکرین کی پشت پر کھڑے ہو گئے۔اسی پشت پناہی کی بدولت یوکرین اس جنگ کو تین سالوں تک جاری رکھنے میں کامیاب ہوا۔نیٹو ممبرشپ بہرحال نہ ہو سکی اور اب ٹرمپ نے اس تجویز کو سرد خانے میں ڈال دیا ہے۔
جناب ٹرمپ اور ان کی ٹیم نے شاید یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ روس کو اپنا ہمنوا بنانا ہے۔سرد جنگ سے اب تک امریکا اور یورپ ایک مضبوط بلاک کی طرح متحد رہے ہیں اور روس کو انھوں نے ایک دشمن کے روپ میں دیکھا ہے لیکن جناب ٹرمپ ماضی کی سوچ کو دفن کرتے نظر آتے ہیں۔
بظاہر تو وہ یہ اقدام چین کے خلاف نہیں اٹھا رہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ حالیہ عشروں میں چین ہی امریکا کے نشانے پررہا ہے اور چین کو ہی اصلی حریف گردانا جاتا ہے۔روس،یوکرین جنگ میں چین کی حمایت کا طلب گار رہا ہے۔شمالی کوریا چین ہی کی وجہ سے روس کو فوجی افرادی قوت مہیا کر رہا ہے۔امریکا چاہتا ہے کہ روس اور چین اکٹھے نہ ہوں،ان دونوں بڑے ممالک کے درمیان دوری پیدا ہو تاکہ چین روس بلاک ٹوٹ جائے۔چین کو ہر حال میں Containکرنا امریکا کی پہلی ترجیح ہے۔
28فروری2025 سے پہلے فرانس اور برطانیہ کے حکمرانوں نے واشنگٹن کا دورہ کر کے جناب ٹرمپ اور ان کی ٹیم کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ امریکا یوکرین کی فوجی اور مالی امداد کو جاری رکھتے ہوئے سیکیورٹی گارنٹی دے۔ان دونوں کے دورے کے بعد یوکرین کے صدر زیلنسکی جناب ٹرمپ سے ملنے وائٹ ہاؤس پہنچے۔ چونکہ صدر ٹرمپ،زیلنسکی کے خلاف بولتے رہے تھے۔
اس لیے زیلنسکی کو بہت حد تک مشکلات کا علم تھا لیکن اوول آفس کی پریس کانفرنس میں جو کچھ ہوا اس کا کسی کو بھی ادراک نہیں تھا۔امریکی نائب صدر نے زیلنسکی کو باور کرایا کہ صدر ٹرمپ یوکرین کو انتہائی تباہ کن ہتھیار مہیا نہ کرتے تو یوکرین چند دنوں میں ہی ڈھیر ہو جاتا۔ صدرٹرمپ نے کہا کہ آپ جنگ بندی سے انکار کر رہے ہیں۔یہ بھی کہا کہ آپ جنگ جاری رکھ کر تیسری عالمی جنگ کا جوا کھیل رہے ہیں۔
صدر زیلنسکی تھوڑی ہی دیر میں سمجھ گئے کہ ماحول انتہائی ناخوشگوار اور Hostile ہے،کہ اب انھیں اسی پریس کانفرنس کے حوالے سے یاد رکھا جائے گا۔اس لیے انھوں نے بہادری دکھائی اور جھکے نہیں۔آخر کار یہ کانفرنس بد مزگی پر ختم ہو گئی۔یوکرین کے صدر کے اعزاز میں ظہرانے کا اہتمام تھا جسے کینسل کر دیا گیا۔یوکرین اور امریکا کے مابین نایاب معدنیاتRare earth minerals کی ڈیل پر دستخط ہونے تھے،یہ ڈیل بھی نہیں ہوئی اور یوکرین کے صدر کو کہہ دیا گیا کہ وہ وائٹ ہاؤس سے چلے جائیں۔کسی مہمان صدر کے ساتھ یہ بہت ہی انوکھا اور غیر معمولی پہلا واقعہ ہے۔
واشنگٹن میں صدر زیلنسکی کی بہت سبکی ہوئی لیکن اس سے یہ ہوا کہ سارے یورپی ممالک یوکرین کی حمایت میں اکٹھے ہو گئے۔یوکرینی صدر بتدریج عوامی مقبولیت کھوتے جا رہے تھے۔جنگ شروع ہونے کے چند مہینے بعد ان کی مقبولیت 78فیصد تھی جو دسمبر2024میں گھٹ کر صرف57فیصد رہ گئی۔امریکا کے دورے کے فوراً بعد یوکرینی عوام اپنے صدر کے ہمنوا بن گئے ہیں۔ان کے خیال میں صدر زیلنسکی نے وائٹ ہاؤس میں یوکرینی مفادات پر کوئی سودا نہیں کیا۔
امریکا،یورپ اور یوکرین تینوںکے لیے ایک پیچیدہ اور مشکل صورتحال ہے۔امریکا یوکرین اور مشرقِ وسطیٰ سے جلد از جلد فارغ ہوکر اپنی تمام تر توجہ اور قوت بحرِ ہند و ساؤتھ چائنا سی کی طرف کرنا چاہتا ہے تاکہ تمام تر وسائل اور فراغت کے ساتھ چین کی روز افزوں قوت و اثر کے سامنے بند باندھ سکے۔امریکا اپنے نیٹو اتحادیوں کو بھی نہیں گنوانا چاہے گالیکن یورپی ڈیمانڈ کو پورا کرنابھی مشکل ہے۔
یورپ کے لیے امریکا کے بغیر یورپی سلامتی اور یوکرین کی جنگ میں کامیابی صرف ایک خواب ہے۔یوکرین جنگ تو ختم کرنا چاہے گا لیکن امریکی سیکیورٹی گارنٹی کے بغیر نہیں۔امریکی حمایت کے بغیر نیٹو کا مستقبل بھی سوالیہ نشان ہو گا۔نیٹو کے بغیر یورپی ممالک کو روس امن سے محروم رکھے گا۔
اطلاعات کے مطابق امریکا نے یوکرین کی فوجی امداد روک دی ہے۔ یوکرین امریکی فوجی مدد کے بغیر اگلے کچھ ماہ جنگ تو جاری رکھ سکتا ہے لیکن اس کے بعداسلحے کے بغیر خوب پتائی ہوگی۔تمام یورپی ممالک یوکرین کے ساتھ ہیں لیکن یہ سب مل کر بھی سیکیورٹی گارنٹی نہیں دے سکتے۔یہ بھی نظر آ رہا ہے کہ یہ یورپی اتحاد جلدی کمزور ہو جائے گا۔
یوکرینی صدر سبکی کے باوجود وائٹ ہاؤس واپس جا کر نایاب معدنیات ڈیل پر دستخط کے لیے تیار ہیں لیکن امریکا شاید پھر بھی یوکرین کو سیکیورٹی گارنٹی نہ دے۔ساری صورتحال میں صدر پیوٹن شاداں و فرحاں ہونگے۔آنے والے دنوں میںشطرنج کا یہ کھیل انتہائی دلچسپ ہو گا۔