شام میں 2روز سے جاری جھڑپوں میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک
اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT
شام میں 2روز سے جاری جھڑپوں میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک WhatsAppFacebookTwitter 0 9 March, 2025 سب نیوز
دمشق(سب نیوز)شام میں حکومتی فورسز اور معزول شامی صدر بشار الاسد کے حامیوں کے درمیان دو روز تک جاری رہنے والی جھڑپوں میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
غیر ملکی خبر ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق جھڑپوں کے نتیجے میں انتقامی ہلاکتیں بھی ہوئیں، جس میں تقریبا 750 شہری، 125 سرکاری سکیورٹی اہلکار، اور اسد سے منسلک 148 عسکریت پسند مارے گئے۔رپورٹ کے مطابق ساحلی ریجن میں جاری جھڑپوں میں سکیورٹی فورسز اوراتحادی گروپوں کے حملوں میں 311 عام شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ جھڑپوں کے بعد شمال مغربی ساحلی شہر لاذقیہ اور طرطوس میں کرفیو برقرار ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق گزشتہ دنوں معزول شامی صدر بشارالاسد کے حامیوں کی جانب سے گھات لگا کر حملے کیے گئے تھے، جو مربوط اور منصوبہ بندی کے تحت کیے گئے۔شامی سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ خطے میں استحکام بحال کرکے عوام کی جان اور املاک کا تحفظ کریں گے۔یاد رہے یہ 8 دسمبر 2024 کو بشارالاسد حکومت کے خاتمے کے بعد سے نئی اتھارٹی کے خلاف اب تک کے سب سے زیادہ پرتشدد حملے ہیں۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: جھڑپوں میں
پڑھیں:
شام: تشدد کے بدترین واقعے میں درجنوں افراد ہلاک
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 07 مارچ 2025ء) سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس (ایس او ایچ آر) نے جمعرات کے روز بتایا کہ شام کے صوبے لاذقیہ میں شامی سکیورٹی فورسز اور سابق صدر بشار الاسد کے حامی جنگجوؤں کے درمیان لڑائی میں کم از کم 48 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق معزول صدر بشار الاسد کی حامی فورسز نے گھات لگا کر ایک پولیس ٹیم پر حملہ کیا اور 16 پولیس اہلکاروں کو ہلاک کر دیا۔
اس کے بعد شامی سکیورٹی فورسز کی طرف سے جوابی کارروائی کے نتیجے میں جھڑپیں ہوئیں، جس میں اسد کے حامی 28 جنگجوؤں اور چار شہریوں کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔غزہ اور شام میں جنگ کے سائے تلے ماہِ رمضان
مانیٹرنگ باڈی ایس او ایچ آر نے ان جھڑپوں کو "بشار الاسد کے خاتمے کے بعد سے نئی حکومت کے خلاف سب سے پرتشدد حملہ" قرار دیا ہے۔
(جاری ہے)
صوبے لاذقیہ میں یہ جھڑپیں روس کے زیر کنٹرول ایئربیس کے قریب ہوئی ہیں، جہاں جمعہ کی صبح تک کرفیو کا اعلان کیا گیا تھا۔
گزشتہ دسمبر میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے یہ شام کی اسلام پسند حکومت سے منسلک فورسز پر سب سے طاقتور حملہ بتایا جاتا ہے۔
شام کانفرنس: ملک کے مستقبل کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش
لاذقیہ میں ہونے والی جھڑپوں کے بارے میں ہمیں مزید کیا معلوم ہے؟یہ واقعہ ساحلی صوبے لاذقیہ کے شہر جبلہ کے ارد گرد پیش آیا، جو شام کی علوی اقلیتی برادری کا مرکز ہے۔
شام کے معزول صدر اسد کا بھی اسی برادری سے تعلق ہے۔لاذقیہ میں ایک سکیورٹی اہلکار مصطفیٰ کنیفاتی نے کہا کہ "منصوبہ بند اور پہلے سے تیار کی گئی حکمت عملی کے تحت، اسد ملیشیا کے باقی ماندہ حامیوں کے کئی گروپوں نے جبلیہ کے علاقے میں ہماری پوزیشنوں اور چوکیوں پر حملہ کیا اور گشت کرنے والی ہماری ٹکڑیوں کو نشانہ بنایا۔"
شام کی اگلی حکومت یکم مارچ سے کام شروع کر دے گی، الشیبانی
ایس او ایچ آر نے اطلاع دی ہے کہ سکیورٹی فورسز نے گھات لگا کر حملہ کرنے والوں پر جوابی فائرنگ کے لیے ہیلی کاپٹر گن شپ کا استعمال کیا، جن میں مبینہ طور پر شامی فوج کے سابق جنرل سہیل الحسن کے وفادار جنگجو بھی شامل تھے۔
فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آیا حسن اس لڑائی میں ملوث تھے یا نہیں۔شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس اے این اے نے بتایا کہ سکیورٹی فورسز نے سابق سینیئر انٹیلیجنس اہلکار ابراہیم ہویجی کو گرفتار کر لیا ہے، جنہیں سن 1977 میں لبنانی دروز رہنما کمال جمبلات کے قتل کو منظم کرنے کے لیے ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔
ترکی، عراق، شام اور اردن کا داعش کے خلاف مشترکہ کارروائی کا فیصلہ
علوی فرقے کے مرکزی علاقوں میں فرقہ وارانہ تشددسرکاری نیوز ایجنسی کی اطلاعات کے مطابق ان حملوں کے بعد بڑی تعداد میں فوجی کمک علاقے میں تعینات کی گئی ہے اور علوی آبادی والے علاقوں بشمول قریبی طرطوس اور شام کے تیسرے شہر حمص میں رات بھر کے لیے کرفیو نافذ کر دیا گیا۔
مقامی میڈیا نے ایک سکیورٹی اہلکار سجاد الدیک کے حوالے سے بتایا کہ صورتحال اب قابو میں ہے۔ انہوں نے ایسی رپورٹوں کو مسترد کیا کہ حملے علوی لوگوں نے کیے تھے اور انہوں نے "فرقہ وارانہ جذبات کو ابھارنے سے پرہیز کرنے" پر زور دیا۔
اطلاعات ہیں کہ جن علاقوں میں علوی فرقے زیادہ آباد ہیں، ان علاقوں میں کشیدگی بڑھ رہی ہے کیونکہ سنی عسکریت پسند سابق غالب گروپ پر حملے کرتے ہیں۔
البتہ شام کی نئی حکومت نے اجتماعی سزا یا فرقہ وارانہ تشدد کے خلاف خبردار کیا ہے۔
شام: کار بم دھماکے میں کم از کم بیس افراد ہلاک
لیکن بعض اطلاعات کے مطابق رہائشیوں اور مبصرین نے سکیورٹی فورسز پر گھروں پر قبضہ کرنے، پھانسی دینے اور اغوا کرنے کا الزام لگایا ہے کیونکہ وہ اسد کے وفاداروں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں۔
بہر حال، حکومت نے ان خلاف ورزیوں کو "اکا دکا واقعات" قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرے گی۔
تدوین جاوید اختر