کراچی کے علاقے گلشن اقبال واقع رہائشی اپارٹمنمٹ کی دیوار کے قریب سےکٹا ہوا انسانی بازو ملنے پرعلاقے میں خوف وہراس پھیل گیا۔

تفصیلات کے مطابق اتوارکوعزیز بھٹی تھانے کے علاقے گلشن اقبال بلاک 19 میں واقع رہائشی اپارٹمنمٹ کی دیوار کے قریب سےکٹا ہوا انسانی بازو ملنے پرعلاقے میں خوف وہراس پھیل گیا۔

اطلاع ملنے پرایدھی فاؤنڈیشن کے رضا کارموقع پر پہنچ گئے، ایدھی رضا کارانسانی بازوں اٹھا کرعزیز بھٹی تھانے لے گئے جہاں عزیز بھٹی پولیس نے انسانی بازو کوجناح اسپتال منتقل کرنے کی ہدایت کردی۔

ایس ایس پی ایسٹ ڈاکٹر فرخ رضا کا کہنا ہے کہ ملنے والا بازو کس انسان کا ہے فنگر پرنٹس کےذریعے شناخت کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جائے وقوع سے لاش کے دیگر تکڑے نہیں ملے ہیں، شبہ ہے کہ انسانی بازو کو کہیں اورسے لاکر پبھینکا گیا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ  ملنے والے بازو کا فنگر پرنٹس لینے کے بعد نادرا حکام کو بھجوائے جائیں گےتاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ بازو کس کا ہے، اس حوالے سے مزید تفتیش کی جا رہی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

خطوط اکبر بنام اقبال!

اکبر الہٰ آبادی اور علامہ اقبال کے مابین بھرپور خط و کتابت رہی۔ طالب علم کی حیثیت سے کم از کم ناچیز کو اس بارے میں بالکل کوئی علم نہ تھا۔ مگر ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے ایک صدی کے بعد‘ ایک سو تینتیس(133) غیر مطبوعہ خطوط کا خزانہ کھول کر لوگوں کے سامنے رکھ دیا۔ زاہد منیر صاحب کی تحقیق کی داد نہ دینا ‘ زیادتی ہو گی۔

اگلہ جملہ رقم کرنے سے پہلے سوچ رہا ہوں کہ کون سے الفاظ مناسب ہوںگے۔ اس عظیم کام کو کتاب کی صورت میں ڈھالنے والے کا نام علامہ عبدالستار عاصم ہے جو قلم فاؤنڈیشن کے روح رواں ہیں۔ عاصم صاحب ‘ جس تندہی سے علمی کام چھاپ رہے ہیں۔ وہ اپنی جگہ بذات خود ایک خوبصورت کارنامہ ہے۔خطوط کے بارے میں عرض کرتا چلوں۔ یہ 1910اور 1921کے درمیان لکھے گئے ۔ ان تمام مکتوبات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اکبر الہ آبادی اور شاعر مشرق کو پردہ سے باہر نہ نکالتے‘ تو عام لوگوں کو معلوم ہی نہ پڑتا‘ کہ برصغیر کی دو عظیم ہستیاں ایک دوسرے سے کس درجہ احترام کے رشتہ میں منسلک تھیں۔علامہ اور اکبر کی تین ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ ان کا احوال بھی درج کروں گا۔

اب ذرا دل تھام کر پڑھیے کہ مصنف دونوںاکابرین کے تعلقات کو کس طرح موتیوں میں پروتا ہے: ۔ پہلی بار ان کی ملاقات جنوری 1913میں ہوئی جب اقبال ‘ اکبر سے ملنے کے لیے الہ آباد گئے۔ یہ ملاقات چند گھنٹوں کی تھی جسے اکبر نے ’’کرم اور نیک ولی‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’ڈاکٹر اقبال صاحب بلحاظ جملہ حالات کے اس وقت اس حلقے میں آیات الٰہی میں سے ہیں‘‘۔

اسی سال اقبال‘ اکبر سے ملنے کے لیے ایک بار پھر الہ آباد گئے۔ یہ دوسری ملاقات 7ستمبر 1913 کو ہوئی۔ اقبال نے ایک خط میں اس ملاقات کا حال بتاتے ہوئے ’’دو روز مولانا اکبر کی خدمت میں‘‘ رہنے کا ذکر کیا ہے۔ اس ملاقات میں رات کے کھانے کے بعد اقبال سے شکوہ اور جواب شکوہ کے اشعار بھی سنے گئے۔ اکبر نے اس ملاقات کا ذکر عبدالماجد دریا بادی کے نام خط میں بھی کیا ہے۔ ’’ڈاکٹر اقبال صاحب جو مجھ سے ملنے کے لیے تشریف لائے تھے‘ دہلی گئے‘‘۔

تیسری اور آخری ملاقات 29 فروری 1920کو ہوئی۔ اقبال کسی مقدمے کے سلسلے میں ضلع ’’گیا‘‘ گئے تھے‘ وہاں سے واپسی پر اکبر سے ملنے کے لیے الہ آباد رکے اور تین روز تک اکبر کا فیض صحبت اٹھایا۔ اکبر نے اس ملاقا ت کے دوران اقبال سے ’’بہت پولیٹیکل نشاط طبع پایا‘‘ اور اقبال نے کہا کہ ’’آپ کے ساتھ رہتا تو ایک مجموعہ مرتب کرتا‘‘۔اس ملاقات کے بعد اقبال نے لاہورآ کر 17 مارچ 1920 کو جو خط اکبر کو لکھا وہ اقبال نامہ میں موجود نہیں۔ اس میں اقبال نے اکبر کو لکھا:

’’میں اپنے آپ کو خوش نصیب جانتا ہوں کہ آپ سے ملاقات ہو گئی اور دوروز لطف صحبت رہا۔ آپ کی باتیں نظم ہوں یا نثر نوٹ کرنے کے قابل ہیں مگر افسوس ہے کہ کوئی ایسا آدمی آپ کے پاس نہیں ہے جو ان رموز و حقائق کو جو آپ کی زبان فیض ترجمان سے وقتاً فوقتاً نکلتے رہتے ہیں آیندہ نسلوں کے لیے محفوظ کرتا جائے۔

اگر میں الہ آباد میں ہوتا تو وہی کام کرتا جو باسول نے جانسن کے لیے کیا تھا۔ آپ کے پاس سے جدا ہونے کو دل تو نہ چاہتا تھا مگر لاہور واپس ہونا ضروری تھا۔ اب دیکھیے کب ملاقات ہوتی ہے؟ کیوں نہ آپ لاہور تشریف لائیں؟ پورا شہر آپ کی دید کا متمنی ہے۔ لاہور تک سفر کرنے اور الہ آباد بہ آرام واپس بھیجنے کی ذمے داری میری ہے۔ میں جانتا ہوں کہ آپ کی صحت درست نہیں رہتی اور میرا آپ کو اتنی دور مدعو کرنا بے معنی ہے۔ مگر کیا کروں دل جو نہیں مانتا۔ خیر انشاء اللہ پھر جلد ملاقات ہو گی۔ امید ہے آپ کا مزاج عالی اچھا ہو گا‘‘۔

اقبال کی دلی خواہش کے مطابق اکبر لاہور نہ آ سکے اور وقت کے دو نابغوں کی یہ ملاقات آخری ثابت ہوئی۔

یہ بھی اندازہ فرمائیے کہ ادب کی یہ دونوں قدآور شخصیات کی سنجیدگی سے ایک دوسرے کو کیسے متاثر کرتی تھیں:۔ ’’چونکہ جانبین کے تعلق کی بنا اخلاص پر استوار ہے اس لیے باہمی احترام و محبت‘ صادق خیالات کے اظہار کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتے۔ جہاں اختلاف ہوتا ہے دونوں جانب سے اس کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ اور یہ اظہار کسی طرح بھی باہمی تعلق کے آئینے میں بال نہیں آنے دیتا۔ اکبر کی شخصیت اور ان کے عمومی مجموعہ ٔ خطوط کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہمہ رابخوہی یاد کردن کے طریقہ پر عامل رہے۔

سینیئرز یا ہم عمر تو ایک طرف وہ اپنے خوردوں کی خوبیوں کے اعتراف میں بھی بہت فراخ دل واقع ہوئے ہیں۔ مغربی تہذیب کا یہ بہت بڑا نقاد اپنے دوستوں کے معاملے میں خردہ گیری نہیں کرتا‘ ان کی خوبیاں ہی اس کے پیش نظر رہتی ہیں لیکن اقبال کے بارے میں ایسے عالی خیالات رکھنے کے باوصف وہ اقبال پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ انھیں خود بھی اپنے اس رویے کا احساس ہے اور اس کا سبب بتاتے ہوئے وہ رقم طراز ہیں کہ ’’ آپ نے محبت و ارادت کا اظہار کر کے مجھ کو دلیر کر دیا ورنہ میرا ایسا کہنا بدتہذیبی ہے‘‘ اسی خط میں اپنا اور اقبال کا موازنہ کرتے ہوئے ان کے قلم سے یہ الفاظ بھی تراوش ہوتے ہیں۔

’’آپ چالیس برس کے ‘ میں پچھہتر برس کا‘ آپ جوش سے بھرے ہوئے ہیں دل شکستہ بجھا ہوا‘ آپ محفل سنوارنے کی فکر میں‘ میں لحد میں بستر لگانے کی فکر میں‘ میں بیگانوں سے گھبرایا ہوا‘ آپ کو یگانوں کی تادیب کا شوق‘‘۔

اب ذرا اکبر الہ آبادی کا علامہ کو ایک خط ملاحظہ فرمائیے۔

10فروری 1810۔ مکرمی ! بہت دن ہوئے۔ آپ کا ایک شعر فارسی سنا تھا۔ مضمون یہ تھا کہ پیمانہ گل معکوس ہو۔ یا کچھ ایسا ہی تھا۔ استغنا مقصود تھا۔ غیرت کا سبق تھا۔ شاید شبنم کا لفظ بھی تھا۔ اگر ذہن میں ہو۔ یاد آ سکے تو مطلع فرمایئے۔ مجھ کو بہت پسند آیا تھا۔(اکبر)

ذرا آگے چلیے !

لاہور۔28اکتوبر

مخدومی! السلام علیکم

نوازش نامہ دو تین روز ہوئے موصول ہوا۔ الحمدللہ کہ خیریت ہے۔ لاہور میں وبائے انفلوئنزا کی بہت شدت ہے۔ یہاں تک کہ گورکن میسر نہیں آتے۔ دوا سے بھی اس مرض کا مقابلہ نہیں ہو سکتا۔ اول تومعلوم ہی نہیں کہ اس کا علاج کیا ہے۔ دوسرا دوا موجود نہیں اور ڈاکٹر خود اس کا شکار ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنا فضل کرے۔

پنجاب میں اس وقت اس کا حملہ نہایت شدید ہے۔ لاہور میں قریباً ڈھائی سو اموات روزانہ ہیں اور ابھی کمی کے کوئی آثار نہیں ۔ امرت سر میں بھی یہی کیفیت ہے۔ امید کہ الہ آباد میں خیریت ہو گی۔ مسلمانوں پر خصوصیت سے زیادہ نظر عنایت ہے۔ دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحم فرمائے۔زمانہ میں ریویو دیکھا تھا۔ خیر اچھا ریویو تھا مگر آپ کی شاعری پر ریویو لکھنے کا حق آج تک کوئی دوسرا ادا نہیں کر سکا۔ زمانہ نے جو اشعار انتخاب کیے وہ دو چار روز ہوئے بارروم میں مزے لے لے کر پڑھے گئے ۔ وقت کی مصلحت نہیں ورنہ آپ کے اشعار پر کچھ نہ کچھ ضرور لکھتا اور زندگی رہی تو انشاء اللہ کچھ ضرور لکھوں گا۔مطلع آپ کا لا جواب ہے۔

کم ہیں جو سمجھتے ہیں کہ مقصود وہی ہے

سبحان اللہ والیہ المصیر

معارف میں کسی ہندو شاعر کا شعر نظر سے گزرا:

بسکہ از شرم تو در پر داز رنگ گلشن است

رشتہ نظارہ بندد‘ در ہواگلدستہ را

اور کچھ عرصہ ہوا اخبار الخلیل میں کسی نے ایک نہایت عمدہ شعر لکھا تھا۔

شب چو انداز ہم آغوشی او یاد کنم

خویش راتنگ بہ برگیر و فریاد کنم

للہ در من قال

زیادہ کیا عرض کروں امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔(مخلص‘ محمد اقبال)

اس دیدہ زیب کتاب کو پوری رات پڑھتا رہا اور سردھنتا رہا۔ واقعی‘ بڑے لوگ‘ بڑے ہی ہوتے ہیں!

متعلقہ مضامین

  • ہندوؤں کی جانب سے ممبئی میں اورنگ زیب کے مقبرے کی مسماری کا مطالبہ
  • کراچی میں کٹا ہوا انسانی بازو ملنے سے خوف و ہراس پھیل گیا
  • کراچی: گلشن اقبال سے ملنے والے انسانی بازو کا معمہ حل ہوگیا
  • گلشن اقبال سے ملنے والا انسانی ہاتھ کس کا؟ شناخت ہوگئی
  • معروف ٹک ٹاکر پر کار سواروں کی فائرنگ ، شدید زخمی حالت میں ہسپتال منتقل
  • لاہور: ٹک ٹاکر شمشیر بھٹی اور  ساتھی پر کارسواروں کی فائرنگ، شدید زخمی حالت میں اسپتال منتقل
  • کراچی؛ گلشن معمار میں مکان کی چھت گر گئی، جاں بحق افرد کی تعداد 6 ہوگئی
  • کراچی؛ گلشن معمار میں مکان کی چھت گرنے سے 3 بچوں سمیت 5 افراد جاں بحق
  • خطوط اکبر بنام اقبال!