کاکروچ کا دودھ گائے کے دودھ سے زیادہ مفید قرار
اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT
ہم سب گائے یا بکری کا دودھ پینے کے عادی ہیں لیکن اگر ہم آپ کو بتائیں کہ مستقبل میں کاکروچ کا دودھ دستیاب ہو سکتا ہے تو آپ کا ردعمل کیا ہوگا؟
حالیہ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ سپر فوڈ کے زمرے میں ایک غیر متوقع طور پر نیا دعویدار ہوسکتا ہے جو کہ کاکروچ کا دودھ ہے۔
اگرچہ یہ عجیب لگتا ہے تاہم سائنسدانوں نے پایا ہے کہ کاکروچ کا دودھ گائے کے دودھ سے تین گنا زیادہ غذائیت بخش ہو سکتا ہے۔
اس دریافت نے ماہرینِ غذائیت میں دلچسپی پیدا کر دی ہے جن کا ماننا ہے کہ کاکروچ کا دودھ صحت کے لیے قابل ذکر فوائد کا حامل ہو سکتا ہے۔
محققین نے روشنی ڈالی ہے کہ یہ دودھ پروٹین، چکنائی اور شکر سے بھرپور ہوتا ہے جو اسے کرہ ارض پر سب سے زیادہ غذائیت سے بھرپور مادوں میں سے ایک بناتا ہے۔
جرنل آف دی انٹرنیشنل یونین آف کرسٹالوگرافی میں شائع ہونے والی 2016 کی ایک تحقیق میں دودھ کی طرح کے سیال کا تجزیہ کیا گیا جو مادہ کاکروچ اپنے بچوں کو کھانا کھلانے کے لیے تیار کرتی ہے۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
ڈنکی، خوابوں ، سرابوں اور موت کا سفر
تین دہائیاں قبل ’’ڈنکی‘‘محض ایک جانور کا انگریزی نام سمجھا جاتا تھا ۔ پھر اچانک یہ لفظ کسی پر اسرار مہم کے لئے استعمال ہونے لگا ۔ جوں جوں اس نے زور پکڑا تو ہر خاص و عام کو اس کی پہچان ہو گئی۔ غیر قانونی طریقے سے، چھپ چھپا کر، جان جوکھم میں ڈال کر کسی دوسرے ملک میں داخل ہونے کو ڈنکی لگانا کہتے ہیں۔ اس کا آغاز نوے کی دہائی میں ہوا ۔جب آسانی سے لوگ یورپ پہنچنے لگے تو اس طرز ہجرت کا رحجان اور مقبولیت بڑھنے لگی۔ جب گائوں کے نوجوانوں نے دیکھا کہ ایک شخص باہر جا کر چند سالوں میں عالی شان گھر بنا لیتا ہے، قیمتی گاڑی خرید لیتا ہے، تو سب اس سے بہت متاثر ہوئے ۔ ان کے دل میں بھی باہر جانے کی خواہش تڑپنے لگی بس کسی طرح یورپ پہنچنا ہے، چاہے جان پر ہی کیوں نہ کھیلنا پڑے۔ یہ رحجان زیادہ تر وسطیٰ پنجاب کے اضلاع گجرات، منڈی بہائو الدین، گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کے نوجوانوں تک محدود رہا ۔ دلچسپ امر یہ ہے مذکورہ اضلاع کسی طور بھی پسماندہ اور نہ غریب ہیں ۔ زراعت، صنعت اور کاروبار کے کئی مواقع یہاں موجود ہیں ۔دیگر پسماندہ علاقوں کی نسبت یہاں بیروزگاری بھی کم ہے۔ اس کے باوجود یہاں کے نوجوان ’’باہر‘‘ جانے کے جنون میں مبتلا رہتے ہیں ۔ وجہ صرف غم روزگار نہیں، بلکہ یورپ کا پر کشش طرزِ زندگی، آزادی اور بہتر مستقبل کی خواہش ہے۔ وہ سمجھتے ہیں یورپ پہنچ کر ہی ان کے خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتے ہیں۔ یہی امید اور اشتیاق انہی ڈنکی جیسے پر خار اور خطرناک راستے پر چلنے کی ترغیب دیتے ہیں ۔
ڈنکی کا سفر کسی فلمی کہانی سے کم نہیں، مگر اس کہانی کا انجام اکثر بھیانک ہوتا ہے۔ جو لوگ اس سفر پر نکلتے ہیں، وہ پہلے ایک انسانی سمگلر سے رابطہ کرتے ہیں، جو ان سے لاکھوں روپے لیتا ہے ، سبز باغ دکھاتا ہے، یقین دلاتا ہے کہ سفر آسان ہوگا، چند ہی روز میں یورپ پہنچ کر وہ گلچھڑے اڑا رہے ہوں گے۔ مگر جیسے ہی سفر شروع ہوتا ہے تلخ اور بھیانک حقائق کے پرت کھلنے لگتے ہیں ۔خوابوں کے آبگینے ٹوٹنے لگتے ہیں ۔ آرمانوں سے دھواں اور دل سے آہوں اور سسکیوں کی درد ناک صدائیں فلک چاک کرنے لگتی ہیں ۔خواب اک بھیانک حقیقت میں بدل جاتا ہے۔ پہلا مرحلہ ایران کی سرحد پار کرنا ہوتا ہے جہاں ایجنٹ بھیڑ بکریوں کی طرح درجنوں لوگوں کو ایک ساتھ کسی خچر گاڑی یا چھوٹے ٹرک میں ٹھونس دیتے ہیں۔ گرمی، دم گھٹنے اور خوف کی شدت کے باعث کئی لوگ بے ہوش ہو جاتے ہیں، مگر کوئی رکنے کا نام نہیں لیتا۔ بعض اوقات ایرانی سیکورٹی فورسز انہیں پکڑ کر جیلوں میں ڈال دیتی ہیں، جہاں کئی کئی مہینے اذیت سہنی پڑتی ہے۔ جو خوش نصیب یہاں سے بچ نکلتے ہیں، وہ ترکی کے پہاڑی علاقوں میں ایجنٹوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔یہ پہاڑی راستے سب سے زیادہ جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔ مسافر کئی کئی دن بھوکے پیاسے چلتے رہتے ہیں، تھکن سے نڈھال ہو جاتے ہیں، مگر رکنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ جو گر جائے، وہ پیچھے رہ جائے۔ بعض اوقات برفانی علاقوں میں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے چلا جاتا ہے، اور کئی لوگ شدید سردی کے باعث راستے میں ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ کچھ خوش نصیب ترکی پہنچ جاتے ہیں، مگر یہاں ان کے لیے ایک اور خطرہ انتظار کر رہا ہوتا ہے قبائلی گینگ اور انسانی اسمگلرز۔ یہ گروہ مسافروں کو اغوا کر کے تاوان کا مطالبہ کرتے ہیں، اور اگر پیسہ نہ ملے تو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں، یا کسی اور مافیا کے ہاتھوں فروخت کر دیتے ہیں۔ ترکی اور لیبیا وہ مقامات ہیں جہاں سے آگے جانے والے یا تو یورپ پہنچ جاتے ہیں، یا پھر سمندر کی بے رحم موجوں میں دفن ہو جاتے ہیں۔ ترکی سے یونان کا سفر انتہائی خطرناک ہوتا ہے۔
ایجنٹ مسافروں کو کسی خفیہ مقام پر رکھتے ہیں، اور موقع ملتے ہی انہیں کشتی میں سوار کروا دیتے ہیں۔ زیادہ تر کشتیوں میں حد سے زیادہ لوگ ٹھونس دیے جاتے ہیں، جنہیں کھانے پینے کا مناسب سامان بھی فراہم نہیں کیا جاتا۔ کئی کئی دن سمندر میں بے یار و مددگار رہنے کے بعد، کچھ کشتیاں یونان پہنچ جاتی ہیں، جبکہ کچھ طوفانی لہروں کی نذر ہو جاتی ہیں۔ جو لوگ زندہ بچ جاتے ہیں، انہیں یا تو یونانی سیکورٹی فورسز پکڑ کر ڈی پورٹ کر دیتی ہیں، یا وہ کسی نہ کسی طرح دوسرے ملکوں میں داخل ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔لیبیا کا راستہ اس سے بھی زیادہ ہولناک ہے۔ یہاں کے سمگلرز کسی بھی انسانی جان کی قیمت نہیں سمجھتے۔ مسافروں کو ایک جگہ جمع کر کے ان پر بے رحمانہ تشدد کیا جاتا ہے، ان کے لواحقین کو تاوان کے لیے وڈیو بھیجی جاتی ہے، اور جو رقم نہ دے سکے، اسے جانوروں سے بدتر سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیبیا کے ساحل سے روانہ ہونے والی کشتیاں سب سے زیادہ حادثات کا شکار ہوتی ہیں۔ جب سمندری طوفان آتا ہے، یا کشتی کا انجن خراب ہو جاتا ہے، تو مسافر بے بسی سے موت کا انتظار کرتے ہیں۔ یہ سوال ہمیشہ اٹھایا جاتا ہے کہ اس المیے کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ سب سے پہلے تو والدین، جو خود اپنے بچوں کو غیر قانونی راستوں پر بھیجنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ جب ایک گائوں کا نوجوان یورپ جا کر پیسے کمانے لگتا ہے، تو باقی والدین بھی اسی خواب میں کھو جاتے ہیں اور اپنے بچوں کو ڈنکی کے راستے پر دھکیل دیتے ہیں۔دوسری بڑی ذمہ داری سوسائٹی پر عائد ہوتی ہے، جو بیرون ملک جانے والے ہر شخص کو ’’ہیرو‘‘بنا دیتی ہے، چاہے وہ غیر قانونی طریقے سے ہی کیوں نہ گیا ہو۔ معاشرے میں یہ سوچ عام ہو گئی ہے کہ باہر جانے والا شخص کامیاب ہے، چاہے وہ وہاں کتنی ہی مشکل زندگی گزار رہا ہو۔ تیسری ذمہ داری قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ہے، جو انسانی سمگلنگ کے نیٹ ورکس کے خلاف سخت کارروائی نہیں کر رہے۔ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی اور دیگر اداروں کو چاہیے کہ وہ ان ایجنٹوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں جو معصوم لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔اگر اس مسئلے کو جڑ سے ختم کرنا ہے، تو سب سے پہلے نوجوانوں کی ذہن سازی کرنا ہوگی۔ انہیں بتایا جائے کہ یورپ کوئی جادوئی زمین نہیں، جہاں پیسہ درختوں پر لگتا ہے۔ انہیں اس حقیقت سے روشناس کرانا ہوگا کہ غیر قانونی راستے ان کی زندگی کو دا پر لگا سکتے ہیں۔حکومت کو چاہیے کہ ایسے پروگرامز متعارف کرائے، جو نوجوانوں کو پاکستان میں ہی بہتر روزگار فراہم کریں۔ جو سرمایہ لوگ ڈنکی کے لئے خرچ کرتے ہیں، اگر وہی کاروبار یا تعلیم پر لگائیں، تو ان کے لیے زیادہ محفوظ اور مستحکم راستے کھل سکتے ہیں۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کو انسانی سمگلرز کے خلاف سخت کارروائیاں کرنی چاہئیں۔ بین الاقوامی سطح پر ایسے ممالک سے تعاون کیا جائے، جہاں پاکستانی غیر قانونی طور پر جانے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ یہ سلسلہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو سکے۔یورپ کا خواب زندگی سے بڑھ کر نہیں۔ ’’ڈنکی‘‘صرف ایک غیر قانونی سرحد پار کرنا نہیں، بلکہ ایک خودکشی کا راستہ ہے، جو زیادہ تر مسافروں کے لئے ’’خوابوں کے قبرستان‘‘ میں بدل جاتا ہے۔ اگر واقعی ایک بہتر مستقبل چاہیے، تو اس کے لیے قانونی اور محفوظ راستے تلاش کریں، ورنہ یہ راستہ صرف بربادی کی طرف لے جاتا ہے۔