شامی صدر نے عوام سے پر امن رہنے کی اپیل کر دی
اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 مارچ 2025ء) سکیورٹی فورسز اور بشار الاسد کے حامیوں کے درمیان جھڑپوں میں اب تک ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں۔
بدترین فرقاورانہ فسادات کے نتیجے میں سینکڑوں ہلاکتوں کے بعد شام کے عبوری صدر احمد الشراع نے آج بروز اتوار عوام سے پر امن رہنے کی اپیل کی ہے۔
انہوں نے عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ہمیں قومی اتحاد اور امن کا مظاہرہ کرنا ہے اور ہم سب مل جل کر رہ سکتے ہیں۔
شامی صدر کی دمشق کی ایک مسجد میں بات کرتے ہوئے ایک ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں وہ شامی عوام سے مخاطب ہیں اور کہہ رہے ہیں، "اس ملک میں اپنی بقا قائم رکھنے کی خصوصیات موجود ہیں۔ جو اس وقت ملک میں ہورہا ہے وہ ہمیں در پیش ان متعدد چیلنجز میں سے ایک ہے جن کا ہمیں پہلے ہی ادراک تھا۔(جاری ہے)
"
ملک کے ساحلی علاقے الاذقیہ میں عبوری حکوت اور معزول صدر بشار الاسد کے حامیوں کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں جن میں اب تک ہلاکتوں کی تعداد کم از کم ایک ہزار بتائی جا رہی ہے۔
شام کے سکیورٹی ذرائع کے مطابق رواں ہفتے جمعرات کو ملک کی علوی اقلیت کے اکثریتی ساحلی قصبے جبلہ کے علاقے میں معزول صدر بشار الاسد کے حامی سابق فوجی اہلکاروں کے ساتھ جھڑپوں میں ان کے دو سو کے قریب اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔
شام سے جمعرات کو موصول ہونے والی رپورٹوں کے مطابق معزول صدر کی حامی فورسز نے گھات لگا کر ایک پولیس ٹیم پر حملہ کیا تھا اور 16 پولیس اہلکاروں کو ہلاک کر دیا تھا۔
اس کے بعد شامی سکیورٹی فورسز کی طرف سے جوابی کارروائی کے نتیجے میں جھڑپیں شروع ہوئیں اور اب تک جاری اس لڑائی میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔شام کے ایک سکیورٹی ذرائع نے اتوار کو روئٹرز کو بتایا کہ کئی قصبوں میں رات بھر جھڑپیں جاری رہیں جہاں مسلح گروہوں نے سکیورٹی فورسز پر فائرنگ کی اور ساحلی علاقے کے اہم شہروں کی طرف جانے والی شاہراہوں پر کاروں پر حملے کیے۔
اب تک ایک ہزار افراد ہلاک
وار مانیٹرنگ گروپ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس (ایس او ایچ آر) کے مطابق، شامی سکیورٹی فورسز اور اتحادی افواج اور معزول صدر بشار الاسد کے حامیوں کے درمیان دو روز سے جاری جھڑپوں میں اب تک ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
برطانیہ میں قائم ایس او ایچ آر نے ہفتے کے روز کہا کہ بحیرہ روم کے ساحلی علاقے میں تین دن کی لڑائی تقریباﹰ 14 سالہ خانہ جنگی میں برسوں جاری رہنے والےبدترین تشدد کے مترادف ہے۔
اس ادارے کے مطابق لطاکیہ، طرطوس اور حما گورنریوں میں 20 سے زائد مقامات پر ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں۔ آبزرویٹری نے بتایا کہ ہلاک ہونے والے زیادہ تر شہری ملک کی علوی مذہبی اقلیت سے تعلق رکھتے تھے۔
ر ب/ م ا (روئٹرز)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سکیورٹی فورسز بشار الاسد کے معزول صدر ایک ہزار کے مطابق عوام سے
پڑھیں:
شام: تشدد کے بدترین واقعے میں درجنوں افراد ہلاک
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 07 مارچ 2025ء) سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس (ایس او ایچ آر) نے جمعرات کے روز بتایا کہ شام کے صوبے لاذقیہ میں شامی سکیورٹی فورسز اور سابق صدر بشار الاسد کے حامی جنگجوؤں کے درمیان لڑائی میں کم از کم 48 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق معزول صدر بشار الاسد کی حامی فورسز نے گھات لگا کر ایک پولیس ٹیم پر حملہ کیا اور 16 پولیس اہلکاروں کو ہلاک کر دیا۔
اس کے بعد شامی سکیورٹی فورسز کی طرف سے جوابی کارروائی کے نتیجے میں جھڑپیں ہوئیں، جس میں اسد کے حامی 28 جنگجوؤں اور چار شہریوں کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔غزہ اور شام میں جنگ کے سائے تلے ماہِ رمضان
مانیٹرنگ باڈی ایس او ایچ آر نے ان جھڑپوں کو "بشار الاسد کے خاتمے کے بعد سے نئی حکومت کے خلاف سب سے پرتشدد حملہ" قرار دیا ہے۔
(جاری ہے)
صوبے لاذقیہ میں یہ جھڑپیں روس کے زیر کنٹرول ایئربیس کے قریب ہوئی ہیں، جہاں جمعہ کی صبح تک کرفیو کا اعلان کیا گیا تھا۔
گزشتہ دسمبر میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے یہ شام کی اسلام پسند حکومت سے منسلک فورسز پر سب سے طاقتور حملہ بتایا جاتا ہے۔
شام کانفرنس: ملک کے مستقبل کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش
لاذقیہ میں ہونے والی جھڑپوں کے بارے میں ہمیں مزید کیا معلوم ہے؟یہ واقعہ ساحلی صوبے لاذقیہ کے شہر جبلہ کے ارد گرد پیش آیا، جو شام کی علوی اقلیتی برادری کا مرکز ہے۔
شام کے معزول صدر اسد کا بھی اسی برادری سے تعلق ہے۔لاذقیہ میں ایک سکیورٹی اہلکار مصطفیٰ کنیفاتی نے کہا کہ "منصوبہ بند اور پہلے سے تیار کی گئی حکمت عملی کے تحت، اسد ملیشیا کے باقی ماندہ حامیوں کے کئی گروپوں نے جبلیہ کے علاقے میں ہماری پوزیشنوں اور چوکیوں پر حملہ کیا اور گشت کرنے والی ہماری ٹکڑیوں کو نشانہ بنایا۔"
شام کی اگلی حکومت یکم مارچ سے کام شروع کر دے گی، الشیبانی
ایس او ایچ آر نے اطلاع دی ہے کہ سکیورٹی فورسز نے گھات لگا کر حملہ کرنے والوں پر جوابی فائرنگ کے لیے ہیلی کاپٹر گن شپ کا استعمال کیا، جن میں مبینہ طور پر شامی فوج کے سابق جنرل سہیل الحسن کے وفادار جنگجو بھی شامل تھے۔
فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آیا حسن اس لڑائی میں ملوث تھے یا نہیں۔شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس اے این اے نے بتایا کہ سکیورٹی فورسز نے سابق سینیئر انٹیلیجنس اہلکار ابراہیم ہویجی کو گرفتار کر لیا ہے، جنہیں سن 1977 میں لبنانی دروز رہنما کمال جمبلات کے قتل کو منظم کرنے کے لیے ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔
ترکی، عراق، شام اور اردن کا داعش کے خلاف مشترکہ کارروائی کا فیصلہ
علوی فرقے کے مرکزی علاقوں میں فرقہ وارانہ تشددسرکاری نیوز ایجنسی کی اطلاعات کے مطابق ان حملوں کے بعد بڑی تعداد میں فوجی کمک علاقے میں تعینات کی گئی ہے اور علوی آبادی والے علاقوں بشمول قریبی طرطوس اور شام کے تیسرے شہر حمص میں رات بھر کے لیے کرفیو نافذ کر دیا گیا۔
مقامی میڈیا نے ایک سکیورٹی اہلکار سجاد الدیک کے حوالے سے بتایا کہ صورتحال اب قابو میں ہے۔ انہوں نے ایسی رپورٹوں کو مسترد کیا کہ حملے علوی لوگوں نے کیے تھے اور انہوں نے "فرقہ وارانہ جذبات کو ابھارنے سے پرہیز کرنے" پر زور دیا۔
اطلاعات ہیں کہ جن علاقوں میں علوی فرقے زیادہ آباد ہیں، ان علاقوں میں کشیدگی بڑھ رہی ہے کیونکہ سنی عسکریت پسند سابق غالب گروپ پر حملے کرتے ہیں۔
البتہ شام کی نئی حکومت نے اجتماعی سزا یا فرقہ وارانہ تشدد کے خلاف خبردار کیا ہے۔
شام: کار بم دھماکے میں کم از کم بیس افراد ہلاک
لیکن بعض اطلاعات کے مطابق رہائشیوں اور مبصرین نے سکیورٹی فورسز پر گھروں پر قبضہ کرنے، پھانسی دینے اور اغوا کرنے کا الزام لگایا ہے کیونکہ وہ اسد کے وفاداروں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں۔
بہر حال، حکومت نے ان خلاف ورزیوں کو "اکا دکا واقعات" قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرے گی۔
تدوین جاوید اختر