مولانا حامد الحق حقانیؒ کی شہادت میں دینی حلقوں کے لیے سبق
اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT
مولانا حامد الحق حقانیؒ کی شہادت نے پورے ملک کی دینی فضا کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور ملک و قوم کے لیے فہم و شعور کے ساتھ جدوجہد کرنے والے علماء کرام اور دینی کارکن خود کو ایسے ماحول میں محسوس کرنے لگے ہیں جس میں نگاہوں کے سامنے تا حدِ نظر گہری دھند، قدموں کے نیچے ہر طرف دلدل اور سامنے اندھے موڑ ہیں۔ مولانا حامد الحق حقانیؒ ملک کی عظیم درسگاہ دارالعلوم حقانیہ کے نائب مہتمم اور دین و سیاست کے محاذ کے ایک سرگرم راہنما تھے جنہوں نے درسگاہ، پارلیمنٹ اور پبلک اجتماعات میں دین و ملت کی ترجمانی اور ملک و قوم کے دفاع میں یکساں خدمات سرانجام دیں اور اپنے عقیدہ، مشن اور جدوجہد کے لیے بالآخر جان کا نذرانہ پیش کر دیا۔ مگر ان کا اصل تعارف ان کے والد گرامی مولانا سمیع الحق شہیدؒ، دادا بزرگوار حضرت مولانا عبد الحقؒ اور عظیم دینی ادارہ دارالعلوم حقانیہ کے حوالہ سے ہے جو پاکستان کی دینی، تعلیمی اور تحریکی تاریخ میں ایک مستقل کردار کی حیثیت رکھتے ہیں جبکہ جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے دینی و تہذیبی ماحول میں انہیں ایک سنگم اور پل کی حیثیت حاصل ہے جسے اس خطہ کی تاریخ کبھی نظر انداز نہیں کر سکے گی۔
دارالعلوم حقانیہ کو اس خطہ کا دارالعلوم دیوبند ثانی کہا جاتا ہے اور میں نے ایک موقع پر عرض کیا تھا کہ وسطی ایشیا کے دروازے پر بیٹھ کر ایک مردِ حُر حضرت مولاناعبد الحق رحمہ اللہ تعالیٰ نے دارالعلوم دیوبند کے فکر و علم کو وسطی ایشیا کے دور دراز علاقوں تک وسعت دی حتیٰ کہ تاریخ نگار حضرات دیوبندیت کو صرف جنوبی ایشیا کی علمی، تہذیبی اور ملی جدوجہد کے دائرے میں محدود نہ رکھ سکے اور اس کے اثرات آج وسطی ایشیا بلکہ بعض حوالوں سے پوری دنیا میں پھیلے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ بالخصوص افغانستان اور اس کے ملحقہ علاقوں میں روسی کمیونزم کی یلغار اور پیش قدمی کا راستہ روکنے میں اس ادارہ اور خاندان نے وہ کردار ادا کیا جو یورپ اور امریکہ میں لامذہبیت، لبرل ازم اور جمہوریت کے فروغ میں آکسفورڈ اور کیمبرج کا بیان کیا جاتا ہے۔
مجھے بحمد اللہ تعالیٰ دارالعلوم حقانیہ کی اس فکری اور تہذیبی جدوجہد کے ساتھ تین نسلوں سے نیازمندی، رفاقت اور ہم آہنگی کا شرف حاصل چلا آ رہا ہے، حضرت مولانا عبد الحقؒ جب پاکستان کی پارلیمنٹ میں نفاذِ اسلام کو دستور و قانون اور قومی نظام کا حصہ بنانے کی مساعی میں قائدانہ کردار ادا کر رہے تھے، مجھے ان کی نیازمندی اور ان کا کارکن ہونے کا اعزا حاصل تھا۔ حضرت مولانا سمیع الحق شہیدؒ جب ان کے بعد ملک میں نفاذِ شریعت اور روسی استعمار کے گوادر کی طرف بڑھتے ہوئے قدم روکنے کی جنگ لڑ رہے تھے، میں ان کے دست و بازو کے طور پر ان کے ساتھ کھڑا تھا۔ اور پھر مولانا حامد الحق حقانی شہیدؒ نے جب اپنے والد گرامی اور دادا بزرگوار کا پرچم سنبھالا تو میری دعائیں اور مشاورت ان کے شریکِ حال رہیں۔ اس لیے میں دارالعلوم حقانیہ میں ہونے والے اس المناک سانحہ اور مولانا حامد الحق حقانیؒ کی دیگر رفقاء سمیت شہادت کو اپنا ذاتی اور ناقابلِ تلافی صدمہ و نقصان سمجھتا ہوں۔ اللہ پاک ان کے درجات جنت الفردوس میں بلند سے بلند تر فرمائیں اور اس ادارے اور خاندان کی مسلسل قربانیوں کو پوری ملت اسلامیہ بالخصوص وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے بہتر مستقبل اور نتائج کا باعث بنا دیں، آمین یا رب العالمین۔
اس موقع پر اس خطہ کی نازک، پیچیدہ اور مسلسل بدلتی ہوئی صورتحال کے حوالہ سے یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ملت ِاسلامیہ کی ایمانی و تہذیبی شناخت اور مسلم ممالک و اقوام کی آزادی و خودمختاری کا تحفظ ہی ہماری تمام تر جدوجہد کے اصل اہداف ہیں اور انہی دو امور کو عالمی، علاقائی اور داخلی طور پر سب سے زیادہ مداخلت اور خطرات درپیش ہیں، اس لیے حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ، حضرت سید احمد شہیدؒ اور شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی جدوجہد کے شعوری راہنماؤں اور کارکنوں کو اپنی صف بندی، ترجیحات اور اہداف کا ایک بار پھر سنجیدگی سے جائزہ لے لینا چاہیے تاکہ یہ قافلہ اس عظیم جدوجہد میں اپنا کردار صحیح رخ پر، صحیح اسلوب سے اور صحیح رفتار کے ساتھ ادا کر سکے، اللہم ربنا آمین۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: مولانا حامد الحق حقانی دارالعلوم حقانیہ حضرت مولانا وسطی ایشیا جدوجہد کے ایشیا کے کے ساتھ کے لیے
پڑھیں:
عظمت و وقار نسواں کا استعارہ حضرت فاطمہ زہرا ؓ
باپ بیٹیوں کی باہمی محبت ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے لیکن باپ بیٹی کی محبت کی معراج کا جو منظر انسانیت نے حضرت محمد مصطفی ﷺ اور خاتون جنّت حضرت فاطمہ زہراؓ کی صورت دیکھا تاریخ انسانیت اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
جہاں باپ بیٹی کی یہ محبت سنت رسول ﷺ کی شکل میں مسلمانوں کے لیے تا ابد باعث تقلید بن گئی وہیں خداوند عالم نے ان دونوں ہستیوں کے مقام کو عظمت و رفعت کے درجۂ کمال تک پہنچا دیا۔ والد گرامی اگر شافع محشر ﷺ ہیں تو بیٹی خاتون جنّت ٹھہریں، والد گرامیؐ اگر فخر موجوداتؐ ہیں تو بیٹی سیدۃ النساء العالمینؓ ہیں، والد گرامی ﷺ کا اسوۂ اخلاق حسنہ کا نمونہ ہیں تو بیٹی کو خواتین کے لیے اسوہ کامل کہا گیا، والد گرامی ﷺ نے احد و خندق میں زخم کھائے تو بیٹی ان زخموں کا مرہم بنتی رہیں، باباؐ نے کفر و بت پرستی کے شکار انسانوں کو مرکز توحید پر جمع کیا تو بیٹی کی عظمت و ہیبت دیکھ کر باطل کے پیروکار اسلام کے سامنے سر جھکانے پر مجبور ہوگئے۔
والد گرامی ﷺ کی نصرت کے لیے بدر میں فرشتے اترے تو بیٹی کے ایثار و قربانی کے صلے میں آسمانوں سے خوان اترتے رہے، والد گرامی ﷺ کی تعظیم حضرت آدم سے عیسیؑ تک ہر نبی پر واجب تھی تو بیٹی کی تعظیم کے لیے نبیوں کے سردار ﷺ خود ایستادہ ہوجاتے، بابا ﷺ پر درود بھیجنا عبادتوں کی قبولیت کی سند ٹھہرا تو بیٹی کے دروازے پر خیر البشرؐ سلام کی صدائیں بلند کرتے رہے، والد گرامیؐ نے دنیا سے کفر و شرک کی کثافتوں کو دور کیا تو بیٹی کساء اوڑھ کر طہارتوں کا مرکز بن گئیں، والد گرامیؐ اگر آگ اور خون کے دریا عبور کرکے انسانیت کی نجات کا لازوال چارٹر اسلام دنیا میں لائے تو بیٹی نے بابا کے لائے ہوئے دین کے تحفظ کی خاطر ایسی اولاد پروان چڑھائی جو قیامت تک کربلا بسا کر دین کا حصار بن گئی۔
عورت ہر زمانے میں استحصال کا شکار رہی ہے اور قبل از اسلام تو عورت ذلت کی اس پاتال اس قدر گر چکی تھی جس کا اندازہ قرآن کے سورہ نحل ان آیات سے ہوتا ہے:
’’اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خوش خبری دی جائے تو اس کا منہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غمگین ہوتا ہے ۔ بیٹی کی خبر کی عار سے قوم سے چھپا پھرتا ہے (سوچتا ہے) آیا اس کو اپنی ذلت پر رہنے دے یا اس کو خاک میں گاڑ دے۔‘‘ (سورہ نحل)
اسلام نے عورتوں کو استحصال سے نجات دلانے اور ان کی منزلت بتانے کے لیے دختر رسول کریم ؐ خاتون جنت حضرت فاطمہ زہراؓ کا انتخاب کیا، اس قدر منزلت تھی حضرت فاطمہ زہراؓ کی کہ تمام انسانیت کے تاج دار اور انبیاء و رسلؑ کیے سردار نبی کریم ﷺ کی زندگی کی بہار بن گئیں، کفار کے چہرے بیٹی کی خبر سن کر سیاہ ہوتے تو نبی کریمؐ کا چہرہ کھل اٹھتا، نبی کریمؐ مدینہ سے باہر جاتے تو سب سے آخر میں بیٹی سے ملتے اور واپس آکر سب سے پہلے بیٹی فاطمہؓ سے ملتے۔ دنیا کی نسل بیٹوں سے چلتی تھی تو نبی کریم ؐ نے اپنی نسل کا ذریعہ اپنی بیٹی کو قرار دیا، کفار کے مقطوع النسل ہونے کے طعنوں کا جواب حضرت فاطمہ زہراؓ بنیں۔
حضرت جابر ابن عبداﷲ انصاریؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’ہر عورت کی اولاد کا نسب اس کے باپ کی طرف ہوتا ہے سوائے اولاد فاطمہ کے ، میں ہی ان کا نسب ہوں اور میں ہی ان کا ولی ہوں۔‘‘
حضرت ابُوہریرہ ؓروایت کرتے ہیں نبی اکرم ؐ نے فرمایا: ’’ہر نبی قیامت کے دن اپنی سواری کے جانوروں پر سوار ہو کر اپنی قوم میں سے ایمان والوں کے ساتھ میدان محشر میں تشریف لائیں گے، حضرت صالحؑ اپنی اونٹنی پر لائے جائیں گے اور مجھےؐ براق پر لایا جائے گا جس کا قدم اس کی منتہائے نگاہ پر پڑے گا اور میرے آگے فاطمہؓ ہوگی۔‘‘ (مستدرک الحاکم)
جس بیٹی کو دنیا و آخرت اور زمین و آسمان پر اﷲ اور نبی کریم ﷺ نے اتنا مقام عطا کیا وہ بیٹی اپنے بابا کی جدائی برداشت نہ کرسکیں، نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد حضرت فاطمہ زہراؓ کا گھر بیت الحزن بن گیا۔
ام المومنین حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے: ’’اپنے وصال کے وقت رسول اﷲ ﷺ نے فاطمہؓ کو نزدیک بلا کر ان کے کان میں کچھ کہا جس پر وہ رونے لگیں۔ اس کے بعد آپؐ نے پھر سرگوشی کی تو آپؓ مسکرانے لگیں۔ حضرت عائشہ ؓفرماتی ہیں کہ میں نے سبب پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ پہلے میرے بابا ﷺ نے اپنی رحلت کی خبر دی تو میں رونے لگی۔ اس کے بعد انہوں نے بتایا کہ سب سے پہلے میں ان سے جاملوں گی تو میں مسکرانے لگی۔‘‘ (بخاری، مسلم، احمد بن حنبل)
جب حضرت فاطمہؓ آقائے دو جہاں حبیب خدا ﷺ کے مزارِ اَقدس پر حاضر ہوتیں تو فریاد کرتی تھیں، قبرِ اَنور کی مبارک مٹی اٹھا کر آنکھوں پر لگا لیتیں اور حضور ﷺ کی یاد میں رو رو کر یہ اَشعار پڑھتیں، مفہوم:
’’جس شخص نے آپ ﷺ کے مزارِ اَقدس کی خاک کو سونگھ لیا ہے اسے زندگی میں کسی دوسری خوش بُو کی ضرورت نہیں۔ آپ ﷺ کے وِصال کی وجہ سے مجھ پر جتنے عظیم مصائب آئے ہیں اگر وہ دنوں پر اُترتے تو وہ راتوں میں بدل جاتے۔‘‘ (ذھبی، روح المعانی)
حضرت فاطمہ زہراؓ نبی کریمؐ کی قمیص سونگھتیں اور گریہ کرتیں۔ بحار الانوار میں روایت ہے کہ جب پیغمبرؐ وفات پاگئے تو موذن رسول ﷺ حضرت بلالؓ نے اذان دینی بند کردی تھی۔ ایک دن جناب فاطمہؓ نے انہیں پیغام بھیجا کہ میری خواہش ہے کہ میں ایک دفعہ اپنے باپؐ کے موذن کی اذان سنوں۔ بلالؓ نے جناب فاطمہؓ کے حکم پر اذان دینی شروع کی اور اﷲ اکبر کہا۔ جناب فاطمہؓ کو اپنے باپ ﷺ کے زمانے کی یاد آگئی اور رونے پر قابو نہ پاسکیں اور جب بلالؓ نے اشہد ان محمداً رسول اﷲ کہا تو جناب فاطمہؓ نے باپ کے نام سننے پر ایک چیخ ماری اور غش کرگئیں۔ (بحار الانوار)
پیغمبر اسلام ﷺ کی رحلت کے بعد کسی نے حضرت زہراؓ کو کبھی ہنستے ہوئے نہیں دیکھا۔ جب آپؓ دنیا سے رخصت ہونے والی تھیں تو بے حد مغموم و فکر مند تھیں۔ حضرت فاطمہ زہرا کا فرمان ہے کہ بہترین عورت وہ ہے کہ جس کی آواز نامحرم نہ سنے اور وہ بھی کسی نامحرم کی آواز نہ سنے۔
جس طبقہ خواتین کو اسلام نے ذلت کی پاتال سے حضرت فاطمہ زہراؓ کی مسیحائی کے ذریعے نکالا تھا، جن کی گردنیں ذلت کے خوف سے اڑا دی جاتی تھیں، ان کے قدموں تلے جنّت کو قرار دیا گیا۔ آج ایک بار پھر اس عورت کا مقام شیطانی حملوں کی زد میں ہے جس کی تقدیس کے سامنے گردنیں خم ہوجاتی تھیں، اسے پھر بازار کی جنس بنانے پر زور ہے۔
اس گم راہی اور بے راہ روی کے طوفان کا مقابلہ سیرت حضرت فاطمہ زہراؓ کو اپنا کر ہی کر سکتی ہیں۔ کیا وہ میرا جسم میری مرضی کے نعروں کے جال میں دوبارہ اپنے آپ کو اسی ذلت کے قید خانے میں محبوس کردینا چاہتی ہیں جس سے اسلام نے انہیں نکالا تھا۔ خواتین عالم کو یہ ادراک کرنا ہوگا کہ ان کی آزادی، عزت، حرمت اور دنیا و آخرت میں سرفرازی و کام رانی اسلام کی بتائی ہوئی راہوں پر چلنے میں ہے جن کی نشان دہی خاتون جنت سید النساء العالمین حضرت فاطمہ زہراؓ نے کی تھی۔ اسی لیے ارمغان حجاز میں حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ نے خواتین کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
بتولےؓ باش و پنہاں شو ازیں عصر
کہ در آغوش شبیرےؓ بگیری
ترجمہ: ’’اگر تُو یہ چاہتی ہے کہ تیری آغوش سے کوئی امام حسینؓ جیسا پروان چڑھے لے تو انہیں دامن فاطمہ زہرا ؓسے وابستگی اختیار کرنا ہوگی۔‘‘
چلو سلام کریں ایسے آستانے کو
حسینؓ پال کے جس نے دیا زمانے کو
خواتین عالم کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کے مصائب کا خاتمہ، حقیقی آزادی اور حقوق کی بازیابی سیرت خاتون جنّت کی پیروی سے ہی ممکن ہے۔ خداوند عالم قوم کی ماؤں بہنوں بیٹیوں کو سیرت فاطمہ زہراؓؓ پر چلنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین