Daily Ausaf:
2025-03-09@19:50:38 GMT

خیالات کی تجسیم یا نفسیات کا مرض

اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT

شائد یہ تجربہ آپ کو بھی ہوا ہو کہ بعض دفعہ آپ کو ایسی آوازیں سنائی دیتی ہیں یا ایسا کچھ دکھائی دیتا ہے، جو کسی خاص موقعہ پر آپ کے علاوہ کسی دوسرے کو سنائی دےرہاہوتا ہےاورنہ ہی دکھائی دے رہاہوتا ہے۔ عام طور پرانگریزی زبان میں اسے “ہالوسینیشن” (Hallucinations) کہتے ہیں جس کا اردو زبان میں ترجمہ “ہذیان” سے کیا جاتا یے جبکہ بار بار واقع ہونے والے ایسے تجربے کو “شیزوفرینیا” (Schizophrenia) کی نفسیاتی بیماری کہا جاتا ہے جس میں آپ ایسی کچھ چیزوں کو نہ صرف دیکھتے اور سنتے ہیں بلکہ انہیں چھوتے اور محسوس وغیرہ بھی کرتے ہیں، جو درحقیقت آپ کے اردگرد موجود نہیں ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود کہ ہذیان کو اگرچہ نفسیاتی بیماری یا فریب نظر کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے، تاہم فریب نظر بھی دو قسم کی ہوتی ہے جسے مثبت اور منفی ہذیان کہتے ہیں۔ اگر ہذیان کو نفسیاتی بیماری ہی کے طور پر سمجھا اور پرکھا جائے تو اسے “جن چمٹنا” بھی کہتے ہیں۔
ممکن ہے آپ یہ جانتے ہیں یا نہیں کہ آج تک ایسا کوئی کیس سامنے نہیں آیا جس میں کسی اندھے آدمی کو جن چمٹے ہوں یا نظر آئے ہوں۔ دراصل، اس کی وجہ یہ ہے کہ جن چمٹنا یا جن لگ جانا نامی بیماری حقیقتاً ایک نفسیاتی بیماری ہے جسے شیزوفرینیا کے نام سے جاناجاتا ہے جس میں ہمارے دماغ کا کیمیکل لیول غیرمتوازن ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے ہمارا دماغ خیالات کو صحیح طریقے سے “پراسیس” (Process) نہیں کر پاتا ہے اور ہم ظاہری دنیا کے بارے میں غلط ادراک کرنا شروع کر دیتے ہیں یا ہمارے اندر کچھ مبہم اور غلط خیالات و تصورات فریب نظر” یعنی Hallucinations کی شکل میں ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ لیکن اس غلط ادراک کے لئے ہمارے دماغ کے پاس دنیا کے بارے میں پہلے سے موجود ڈیٹا یا مواد وغیرہ کا ہونابہت ضروری ہے اور اندھےشخص کے پاس یہ ڈیٹا اور مواد سرے سے موجود ہی نہیں ہوتا ہے لہذا اس ڈیٹا کی کمی کی وجہ سے اندھے لوگوں کا دماغ دنیا کے بارے میں غلط ادراک یا Perception قائم نہیں کرسکتا اور یوں اندھے لوگ شیزوفرینیا یا پھر عرف عام میں جن چمٹنے کی بیماری سے بچ جاتے ہیں۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہذیان یعنی شیزوفرینیا یا پھر جن چمٹنا کیا ہے؟ یہ وہ بیماری ہے جس میں انسان کو ایسی چیزیں دکھائی دیتی ہیں جو حقیقت میں وجود نہیں رکھتی ہیں۔ یہ چیزیں انسان سے باتیں کرتی ہیں اسے حکم دیتی ہیں اور کبھی کبھار اس کی بات مانتی بھی ہیں(اسے یہی لگتا ہےکہ میری بات مانی جا رہی ہے جبکہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوتا ہے)۔
اس نفسیاتی بیماری کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ انسان اپنے دماغ میں بننے والے شبہات یا مغالطے(یعنی اپنے ہی فریب نظر)کے تابع ہوجاتا ہے اور اس مرض کو بیماری نہ سمجھنے والا اور اسکے گھر والے ایسے غیرمنطقی کام کرنے لگتے ہیں جو ان کی بیماری ان سے کروانا چاہتی ہے۔ میڈیکل سائنس میں اس بیماری کا کسی حد تک علاج ممکن تو ہے لیکن بہت ہی مشکل ہے کیونکہ اس بیماری میں دو باتیں خاص ہیں کہ ایک تو یہ کہ انسان اس سے مکمل طور پرکبھی بھی نکل نہیں پاتا ہے یعنی آسان لفظوں میں یہ بیماری ناقابل علاج ہے۔ لیکن ڈاکٹر سالوں کی محنت سے شییزوفرینیا سے متاثرہ انسان کو اس قابل بنا دیتے ہیں کہ وہ حقیقی اور غیرحقیقی افعال میں تمیز کرسکے، اس بیماری کی دوسری خاص بات یہ ہے کہ اس کے کسی بھی مریض کا ذاتی تجربہ اسی بیماری کے شکار دوسرے تمام مریضوں سے مختلف ہوتا ہے اور یہ چیز اس کے علاج کو اور بھی مشکل بنا دیتی ہے کیونکہ ڈاکٹرز کو ہر مریض پر بیماری کے اثرات کا تعین کر کے ایک بالکل نئے طریقے سے ڈیل کرنا پڑتا ہے۔
معروف ماہر معاشیات اور ریاضی دان جان نیش کو بھی اس بیماری کا سامنا کرنا پڑ گیا تھا۔ زمانہ طالب علمی میں وہ ایک ایسے شخص سے دوستی کرتے ہیں جو کہ نہایت ہی ذہین و فطین ہوتا ہے اور بعد میں وہ شائد ہاورڈ یونیورسٹی میں پروفیسر لگ جاتا ہے۔ ایسے میں جان کی اہلیہ اسے اس دوست سے ملوانے کا مطالبہ کرتی ہیں اور جان اسکو بلاتا ہے مگر اسکی اہلیہ کو وہ دوست نظر ہی نہیں آتا جبکہ جان کو وہ اپنی بیٹی کے ساتھ نظر آتا ہے۔ یہاں آ کرجان نیش کی اہلیہ کو پتا چلتا ہے کہ وہ نارمل نہیں ہے۔یاد رہے کہ جان نیش نے اپنے تصوراتی ایجنٹس کو بہت سے کوڈ توڑ کردئیے جن کی مدد سے امریکہ نے انٹیلی جنس کی جنگیں جیتی تھی لیکن ان کے بارےمیں بعد میں پتا چلا کہ وہ وجود ہی نہیں رکھتے تھے۔ جان نیش نے انہیں کئی سو خط بھی لکھے تھے جو کہ بعد میں لیٹر باکس میں ایسے ہی پڑے ملے تھے۔ جان نیش اس بیماری سے تاعمر لڑتے رہے اور صحت یاب نہ ہو سکے۔ آج تک کی تحقیقات کے مطابق جن چمٹنے کی بنیادی وجوہات میں جینیٹکس کا بھی بہت عمل دخل ہے یعنی یہ بیماری ایک ہی خاندان کے کئی افراد کو بھی ہو سکتی ہے اور نسل در نسل بھی چل سکتی ہے جبکہ اس بیماری سے چھٹکارہ پانا مکمل طور پر ممکن نہیں ہے کیونکہ اس بیماری کے علاج کے طور پرمریض کو اس بات کا ادراک کرانا ضروری ہے کہ کیا چیزیں حقیقی ہیں اور کیا نہیں ہیں۔ شیزوفرینیا کے موضوع پر بہت سی فلمیں بھی بنی ہیں جن میں ایک “ایک خوبصورت زہن” (A Beautiful Mind) سب سے زیادہ مشہور ہے جو ایک سچے واقعہ پر مبنی ہے جس نے چار آسکر ایوارڈز جیتے۔ البتہ مثبت فریب نظر کا ایک کمال یہ ہے کہ اس کے ذریعے انسان کے اندر مافوق الفطرت” صلاحیتوں کے بیدار ہونے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے یعنی آپ ان چیزوں کو دیکھ سکتے ہیں، سن سکتے ہیں اور محسوس کرسکتےہیں جو درحقیقت موجود نہیں ہوتی ہیں۔ہالوسینیشن یا شیزوفرینیا اور فریب نظر کا یہ تجربہ ایسا ہی ہے کہ آپ اپنے دماغ سے چیزوں کو مجسم کرنے کا تجربہ کرتے ہیں یا اپنے خیالات کو اپنے ہی سامنے، دیکھتے، سنتے اور محسوس کرتے ہیں۔ آپ بے شک اسے نفسیاتی بیماری قرار دیں جیسا کہ بعض انتہائی غیرمعمولی انسانیت نوازشخصیات پر بھی یہ الزام لگایا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسان ابھی اپنے دماغ کی بہت سی مخفی صلاحیتوں کو سمجھنے سے قاصر نظر آتا یے جن میں اپنے ہی خیالات و چیزوں کی تجسیم اور غائب کو اپنے سامنے حاضر کرنا بھی شامل یے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: نفسیاتی بیماری کرتے ہیں یہ ہے کہ ہوتا ہے ہیں اور جاتا ہے ہیں جو ہے اور

پڑھیں:

اسٹیبلشمنٹ کیساتھ رابطوں پر کوئی شرمندگی نہیں کیونکہ یہ ہمارے اپنے ادارے ہیں، جنید اکبر

اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے صوبائی صدر پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ عوام اور اداروں کے بیچ فاصلے نہیں بڑھنے چاہئیں، ہم کسی کے ساتھ ٹکراؤ نہیں چاہتے لیکن ہمیں سیاسی سرگرمیاں نہیں کرنے دی جارہیں، ہمارے لوگوں کو گرفتار کیا جاتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) خیبر پختونخوا (کے پی) کے صدر جنید اکبر نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کیساتھ رابطوں پر کوئی شرمندگی نہیں کیونکہ یہ ہمارے اپنے ادارے ہیں۔ اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جنید اکبر کا کہنا تھا کہ عوام اور اداروں کے بیچ فاصلے نہیں بڑھنے چاہئیں، ہم کسی کے ساتھ ٹکراؤ نہیں چاہتے لیکن ہمیں سیاسی سرگرمیاں نہیں کرنے دی جارہیں، ہمارے لوگوں کو گرفتار کیا جاتا ہے۔ جنید اکبر نے کہا کہ کبھی نہیں کہوں گا کہ پی ٹی آئی کے اسٹیبلشمنٹ سے رابطے نہیں، بالواسطہ اور بلاواسطہ  رابطے ہوتے ہیں، رابطوں پر کوئی شرم نہیں، یہ اپنے ہی ادارے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی کسی ادارے سے لڑائی نہیں، اگر ریاست ایک قدم آگے بڑھے گی تو ہم دو قدم آگے بڑھیں گے لیکن سب کو آئین کی حدود میں رہنا پڑے گا۔ پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں امن امان کی صورت حال پر صوبائی حکومت ذمہ دار نہیں، صوبے میں حالات افغان پالیسی اور خارجہ پالیسی کی وجہ سے خراب ہیں، دہشت گردی کا مسئلہ افغانستان سے جڑا ہوا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • توبہ کا دروازہ کھلا ہے، دیر نہ کریں!
  • عمران خان، شہباز شریف اور دیسی نسخہ
  • امریکا کسی کا دوست نہیں، خطےمیں موجود تمام ممالک کے اپنے مفادات ہیں، لیاقت بلوچ
  • صاحبزادے کے مشاغل اور کاروبار
  • کیا صحیفہ جبار کسی پریشانی کا شکار ہیں؟ سوشل میڈیا اکاؤنٹ بھی ڈیلیٹ کردیا
  • ہمارااولین مسئلہ اپنی سانسیں برقرار رکھنا ہے!
  • توکل
  • اسٹیبلشمنٹ کیساتھ رابطوں پر کوئی شرمندگی نہیں کیونکہ یہ ہمارے اپنے ادارے ہیں، جنید اکبر
  • ’اپنا کماتی ہوں، اپنا کھاتی ہوں‘، طلاق یافتہ خاتون کی جشن مناتے ڈانس ویڈیو وائرل