آسٹریلیا میں طوفان الفریڈ کی تباہی، لاکھوں افراد بجلی سے محروم
اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT
سڈنی: آسٹریلیا کے مشرقی ساحل پر طوفان الفریڈ کی تباہ کاریوں نے نظامِ زندگی درہم برہم کر دیا، جس کے باعث لاکھوں افراد بجلی سے محروم ہو گئے جبکہ درجنوں افراد زخمی ہو گئے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق، طوفان الفریڈ نے ریاست کوئنز لینڈ اور نیو ساؤتھ ویلز میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی۔ تیز ہواؤں کے باعث درخت جڑ سے اکھڑ گئے، کئی عمارتیں تباہ ہو گئیں اور 3 لاکھ سے زائد گھروں اور کاروباری مراکز کی بجلی معطل ہو گئی، جس سے ساڑھے 7 لاکھ افراد متاثر ہوئے۔
پولیس حکام کے مطابق، امدادی کارروائیوں کے دوران دو فوجی ٹرک آپس میں ٹکرا گئے، جس کے نتیجے میں 36 افراد زخمی ہو گئے۔
ایمرجنسی سروسز کے مطابق، نیو ساؤتھ ویلز میں 16 ہزار سے زائد افراد کو فوری طور پر نقل مکانی کے احکامات جاری کیے گئے ہیں، کیونکہ مزید بارشوں اور تیز ہواؤں کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
حکام نے شہریوں کو محتاط رہنے اور غیر ضروری نقل و حرکت سے گریز کرنے کی ہدایت کی ہے۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
شام میں تشدد کی لہر جاری، پانچ سو سے زائد افراد ہلاک
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 مارچ 2025ء) شام سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ملک کے ساحلی علاقے الاذقیہ میں عبوری حکوت اور معزول صدر بشار الاسد کے حامیوں کے درمیان جاری جھڑپوں میں آج آٹھ مارچ بروز ہفتہ ہلاکتوں کی تعداد پانچ سو سے زائد ہو چکی ہے۔
شامی امور پر نظر رکھنے والی برطانیہ میں قائم غیر سرکاری تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس (ایس او ایچ آر) کے مطابق ان لڑائیوں میں اب تک کم از کم 120 باغی اور 93 سرکاری فوجی مارے گئے ہیں۔
ایس او ایچ آر کا کہنا ہے کہ عبوری حکومت کی جوابی کارروائیوں میں کم از کم 340 شہری مارے گئے ہیں۔اس تنظیم نے شہریوں کی ہلاکتوں کو''قتل عام‘‘ قرار دیا۔ ایس او ایچ آر کے ایک ترجمان نے دعویٰ کیا کہ علوی شہریوں بشمول خواتین اور بچوں کو''قتل‘‘ کیا گیا اور'' ان کے ''گھروں اور املاک کو لوٹ لیا گیا۔
(جاری ہے)
‘‘ اس ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ علوی ''نوجوانوں کو اس طرح سے ختم کیا گیا جو سابقہ (اسد حکومت) کی سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں سے مختلف نہیں تھا۔
‘‘ شام میں تشدد کے پھیلنے کی وجہ کیا ہے؟شام میں جمعرات کو ملک کی علوی اقلیت کے اکثریتی ساحلی قصبے جبلہ کے ارد گرد پھوٹ پڑنے والا تشدد بحیرہ روم کے ساحل تک پھیل گیا۔ یہ علاقہ سابق صدر بشار الاسد کے ملک کی علوی قبیلے کا گڑھ مانا جاتا ہے۔ شام کی جنرل انٹیلی جنس سروس کے مطابق،''ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ ان جرائم کی منصوبہ بندی میں معزول حکومت کے فوجی اور سکیورٹی رہنما ملوث ہیں۔
‘‘وزارت دفاع کے ترجمان نے کہا کہ سرکاری فورسز نے تیزی سے زمینی کارروائی کی ہے اور ان علاقوں کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا ہے، جہاں سکیورٹی فورسز پر حملےکیے گئے تھے۔ شامی حکام نے ہلاکتوں کی تعداد شائع نہیں کی، لیکن سرکاری خبر رساں ایجنسی سانا نے ایک نامعلوم سکیورٹی اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ متعدد افراد سرکاری سکیورٹی فورسز پر حالیہ حملوں کا بدلہ لینے کے لیے ساحل پر گئے تھے۔
اہلکار نے کہا کہ حکومت ''کچھ انفرادی خلاف ورزیوں‘‘کی اطلاعات سے آگاہ ہے اور کہا کہ وہ ''ان کو روکنے کے لیے کام کر رہی ہے۔‘‘ عبوری صدر کی اسد کے حامی جنگجوؤں سے ہتھیار ڈالنے کی اپیلدریں اثناء شام کے عبوری صدر احمد الشراع نے سابق صدر بشار الاسد کے حامی جنگجوؤں پر زور دیا کہ وہ ''بہت دیر ہونے سے پہلے‘‘ ہتھیار ڈال دیں۔
میسجنگ ایپ ٹیلی گرام پر نشر ہونے والی ایک تقریر میں شامی عبوری صدر نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ ہتھیار صرف ریاستی اداروں تک محدود کر دینے کے لیے کام جاری رکھا جائے گا اور ملک میں مزید غیر قانونی ہتھیار نہیں رکھنے دیے جائیں۔خیال رہے کہ سابق حکومت سے روابط رکھنے والے مسلح گروہ پہاڑی ساحلی علاقے کے متعدد قصبوں اور دیہاتوں میں سرگرم عمل ہیں۔
جرمنی کا 'تشدد کی لہر‘ کے خاتمے کا مطالبہدریں اثناء جرمنی کی وزارت خارجہ نے شام میں جاری لڑائی کے تمام فریقوں سے مطالبہ کیا کہ وہ ''تشدد کے چکر‘‘ کو ختم کر دیں۔ جرمن وزارت خارجہ کی جانب سے جمعے کے روز جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا، ''ہم شام کے مغربی علاقوں میں تشدد سے بے شمار افراد کے متاثر ہونے سے صدمے میں ہیں۔
ہم تمام فریقوں سے پرامن حل، قومی اتحاد، جامع سیاسی مذاکرات اور انصاف کی تلاش اور تشدد پر قابو پانے کے لیے کہتے ہیں۔‘‘
جنوری میں شام کے دارالحکومت دمشق کے دورے کے دوران جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک نے اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنانے سمیت کچھ دیگر شرائط پوری کرنے پر شام کی عبوری حکومت کو حمایت کی پیشکش کی تھی۔
ش ر⁄ ع ب (میٹ فورڈ، دمیترو ہوبینکو، ڈی پی اے، اے ایف پی، اے پی)