شام: سکیورٹی فورسز اور معزول صدربشار الاسد کے حامیوں میں شدید جھڑپیں جاری، 500 سے زائد افراد ہلاک WhatsAppFacebookTwitter 0 9 March, 2025 سب نیوز

دمشق: شامی سکیورٹی فورسز کی معزول صدربشار الاسد کے حامیوں کےساتھ مسلح جھڑپیں جاری ہیں جن میں اب تک 500 سے زائد افراد کی ہوچکے ہیں۔

غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق 2 روز قبل شامی سکیورٹی فورسز کی معزول صدربشار الاسد کے حامیوں کےساتھ شروع ہونے والی مسلح جھڑپیں تاحال جاری ہیں جن میں213 سکیورٹی اہلکار اور جنگجووں سمیت524 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ساحلی ریجن میں جاری جھڑپوں میں سکیورٹی فورسز اوراتحادی گروپوں کےحملوں میں 311 عام شہری مارےگئے جبکہ جھڑپوں کے بعد شمال مغربی ساحلی شہر لاذقیہ اور طرطوس میں کرفیو برقرار ہے۔

شامی سکیورٹی فورسز نے معزول صدربشار الاسد کے 28 حامیوں کو ہلاک کر دیا

عرب میڈیا کےمطابق گزشتہ دنوں معزول شامی صدربشارالاسد کے حامیوں کی طرف سے گھات لگا کر حملے کیے گئے تھے، یہ حملے مربوبط اور منصوبہ بندی کے تحت کیے گئے۔

شامی سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ خطے میں استحکام بحال کرکے عوام کی جان اور املاک کا تحفظ کریں گے۔

یاد رہے یہ 8 دسمبر 2024 کو بشارالاسد حکومت کے خاتمے کے بعد سے نئی اتھارٹی کے خلاف اب تک کے سب سے زیادہ پرتشدد حملے ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: سکیورٹی فورسز

پڑھیں:

شام میں تشدد کی لہر جاری، پانچ سو سے زائد افراد ہلاک

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 مارچ 2025ء) شام سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ملک کے ساحلی علاقے الاذقیہ میں عبوری حکوت اور معزول صدر بشار الاسد کے حامیوں کے درمیان جاری جھڑپوں میں آج آٹھ مارچ بروز ہفتہ ہلاکتوں کی تعداد پانچ سو سے زائد ہو چکی ہے۔

شامی امور پر نظر رکھنے والی برطانیہ میں قائم غیر سرکاری تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس (ایس او ایچ آر) کے مطابق ان لڑائیوں میں اب تک کم از کم 120 باغی اور 93 سرکاری فوجی مارے گئے ہیں۔

ایس او ایچ آر کا کہنا ہے کہ عبوری حکومت کی جوابی کارروائیوں میں کم از کم 340 شہری مارے گئے ہیں۔

اس تنظیم نے شہریوں کی ہلاکتوں کو''قتل عام‘‘ قرار دیا۔ ایس او ایچ آر کے ایک ترجمان نے دعویٰ کیا کہ علوی شہریوں بشمول خواتین اور بچوں کو''قتل‘‘ کیا گیا اور'' ان کے ''گھروں اور املاک کو لوٹ لیا گیا۔

(جاری ہے)

‘‘ اس ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ علوی ''نوجوانوں کو اس طرح سے ختم کیا گیا جو سابقہ (اسد حکومت) کی سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں سے مختلف نہیں تھا۔

‘‘ شام میں تشدد کے پھیلنے کی وجہ کیا ہے؟

شام میں جمعرات کو ملک کی علوی اقلیت کے اکثریتی ساحلی قصبے جبلہ کے ارد گرد پھوٹ پڑنے والا تشدد بحیرہ روم کے ساحل تک پھیل گیا۔ یہ علاقہ سابق صدر بشار الاسد کے ملک کی علوی قبیلے کا گڑھ مانا جاتا ہے۔ شام کی جنرل انٹیلی جنس سروس کے مطابق،''ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ ان جرائم کی منصوبہ بندی میں معزول حکومت کے فوجی اور سکیورٹی رہنما ملوث ہیں۔

‘‘

وزارت دفاع کے ترجمان نے کہا کہ سرکاری فورسز نے تیزی سے زمینی کارروائی کی ہے اور ان علاقوں کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا ہے، جہاں سکیورٹی فورسز پر حملےکیے گئے تھے۔ شامی حکام نے ہلاکتوں کی تعداد شائع نہیں کی، لیکن سرکاری خبر رساں ایجنسی سانا نے ایک نامعلوم سکیورٹی اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ متعدد افراد سرکاری سکیورٹی فورسز پر حالیہ حملوں کا بدلہ لینے کے لیے ساحل پر گئے تھے۔

اہلکار نے کہا کہ حکومت ''کچھ انفرادی خلاف ورزیوں‘‘کی اطلاعات سے آگاہ ہے اور کہا کہ وہ ''ان کو روکنے کے لیے کام کر رہی ہے۔‘‘ عبوری صدر کی اسد کے حامی جنگجوؤں سے ہتھیار ڈالنے کی اپیل

دریں اثناء شام کے عبوری صدر احمد الشراع نے سابق صدر بشار الاسد کے حامی جنگجوؤں پر زور دیا کہ وہ ''بہت دیر ہونے سے پہلے‘‘ ہتھیار ڈال دیں۔

میسجنگ ایپ ٹیلی گرام پر نشر ہونے والی ایک تقریر میں شامی عبوری صدر نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ ہتھیار صرف ریاستی اداروں تک محدود کر دینے کے لیے کام جاری رکھا جائے گا اور ملک میں مزید غیر قانونی ہتھیار نہیں رکھنے دیے جائیں۔

خیال رہے کہ سابق حکومت سے روابط رکھنے والے مسلح گروہ پہاڑی ساحلی علاقے کے متعدد قصبوں اور دیہاتوں میں سرگرم عمل ہیں۔

جرمنی کا 'تشدد کی لہر‘ کے خاتمے کا مطالبہ

دریں اثناء جرمنی کی وزارت خارجہ نے شام میں جاری لڑائی کے تمام فریقوں سے مطالبہ کیا کہ وہ ''تشدد کے چکر‘‘ کو ختم کر دیں۔ جرمن وزارت خارجہ کی جانب سے جمعے کے روز جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا، ''ہم شام کے مغربی علاقوں میں تشدد سے بے شمار افراد کے متاثر ہونے سے صدمے میں ہیں۔

ہم تمام فریقوں سے پرامن حل، قومی اتحاد، جامع سیاسی مذاکرات اور انصاف کی تلاش اور تشدد پر قابو پانے کے لیے کہتے ہیں۔‘‘

جنوری میں شام کے دارالحکومت دمشق کے دورے کے دوران جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک نے اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنانے سمیت کچھ دیگر شرائط پوری کرنے پر شام کی عبوری حکومت کو حمایت کی پیشکش کی تھی۔

ش ر⁄ ع ب (میٹ فورڈ، دمیترو ہوبینکو، ڈی پی اے، اے ایف پی، اے پی)

متعلقہ مضامین

  • شام میں 2روز سے جاری جھڑپوں میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک
  • شامی صدر نے عوام سے پر امن رہنے کی اپیل کر دی
  • شام میں خونریز جھڑپیں جاری: دو دن میں ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ گئی
  • شام میں 2 روز سے جاری جھڑپوں میں 1 ہزار سے زائد افراد ہلاک
  • شام میں شدید جھڑپیں جاری، 500 سے زائد افراد ہلاک
  • سکیورٹی فورسز کا ضلع ٹانک میں آپریشن ، 3 خوارج دہشتگردوں کو ہلاک کردیا گیا
  • شام میں تشدد کی لہر جاری، پانچ سو سے زائد افراد ہلاک
  • شام میں خوفناک جھڑپیں، 70 سے زائد ہلاک، حکومت اور اسد حامیوں میں جنگ شدت اختیار کر گئی
  • شام: تشدد کے بدترین واقعے میں درجنوں افراد ہلاک