پاکستان میں دہشت گردی، مسلح تصادم کے خدشات ، امریکی شہریوں کو پاکستان جانے سے گریز کی ہدایت
اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT
دہشت گرد کسی وارننگ کے بغیر نقل و حمل کے مراکز، بازاروں، شاپنگ مالز، فوجی تنصیبات، ہوائی اڈوں، یونیورسٹیوں، سیاحتی مقامات، اسکولوں، ہسپتالوں، عبادت گاہوں اور سرکاری تنصیبات کو نشانہ بنا سکتے ہیں
امریکی شہری دہشت گردی کی وجہ سے بلوچستان اور خیبرپختونخوا صوبوں بشمول ضم شدہ قبائلی اضلاع (سابقہ فاٹا) کا سفر نہ کریں، پاک ، بھارت سرحد اور لائن آف کنٹرول کے قریبی علاقوں میں سفر سے گریز کریں
امریکی محکمہ خارجہ قونصلر امور کے بیورو نے کہا ہے کہ امریکی شہریوں کو ’دہشت گردی اور مسلح تصادم کے خدشات کی وجہ سے ‘ پاکستان جانے پر نظر ثانی کرنا چاہیے ۔واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد غیر قانونی امیگریشن کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا گیا، جبکہ رائٹرز نے رپورٹ کیا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے نئی سفری پابندی ممالک کی سیکیورٹی اور جانچ کے خطرات کے بارے میں حکومتی جائزے کی بنیاد پر اگلے ہفتے افغانستان اور پاکستان کے لوگوں کو امریکا میں داخلے سے روک سکتی ہے ۔صدر ٹرمپ نے 20 جنوری کو ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا تھا، جس میں قومی سلامتی کے لیے امریکا میں داخلے کے خواہشمند کسی بھی غیر ملکی کی سیکیورٹی جانچ کی ہدایت کی گئی تھی۔7مارچ کو امریکی محکمہ خارجہ نے جائزے میں کہا ہے کہ امریکی شہریوں کو اپنے پاکستان کے سفر پر نظر ثانی کرنی چاہیے کیونکہ ملک میں دہشت گردی اور مسلح تصادم کے خدشات موجود ہیں۔جائزے میں کہا گیا تھا کہ کچھ علاقوں میں خطرات بڑھ گئے ہیں۔امریکی محکمہ خارجہ نے شہریوں کو مشورہ دیا کہ وہ دہشت گردی کی وجہ سے بلوچستان اور خیبرپختونخوا صوبوں بشمول ضم شدہ قبائلی اضلاع (سابقہ فاٹا) کا سفر نہ کریں۔شہریوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ دہشت گردی اور مسلح تصادم کے خدشات کی وجہ سے پاک۔بھارت سرحد اور لائن آف کنٹرول کے قریبی علاقوں میں سفر کرنے سے گریز کریں۔ویب سائٹ پر ملکی سمری میں امریکا کا کہنا تھا کہ پُرتشدد انتہا پسند گروپ حملوں کی منصوبہ بندی جاری رکھے ہوئے ہیں، مزید کہا گیا کہ حملے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں تواتر کے ساتھ ہو رہے ہیں۔خطے میں دہشت گردی کے حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے جائزے میں کہا گیا کہ دہشت گردی اور انتہا پسند عناصر کی طرف سے شہریوں کے ساتھ ساتھ مقامی فوجی اور پولیس پر حملے کیے جا رہے ہیں۔جائزے میں مزید کہا گیا ہے کہ دہشت گرد بہت کم یا بغیر کسی وارننگ کے حملہ کر سکتے ہیں، اور وہ نقل و حمل کے مراکز، بازاروں، شاپنگ مالز، فوجی تنصیبات، ہوائی اڈوں، یونیورسٹیوں، سیاحتی مقامات، اسکولوں، ہسپتالوں، عبادت گاہوں اور سرکاری تنصیبات کو نشانہ بنا سکتے ہیں، قونصلر امور کے بیورو کا مزید کہنا تھا کہ ماضی میں دہشت گردوں نے ماضی میں امریکی سفارتی سہولیات کو نشانہ بنایا۔اس میں کہا گیا ہے کہ مقامی حکومت نے پاکستان میں کام کرنے والے امریکی حکومتی اہلکاروں کے سفر کو محدود کر دیا ہے ، اور یہ کہا ہے کہ امریکا خیبرپختونخوا، بلوچستان، اور اسلام آباد، لاہور اور کراچی سے باہر کے بیشتر علاقوں میں امریکی شہریوں کو خدمات فراہم کرنے کی محدود صلاحیت ہے ۔مزید کہا گیا کہ خطرات کی وجہ سے پاکستان میں کام کرنے والے امریکی حکومتی حکام کو اسلام آباد، لاہور اور کراچی سے باہر زیادہ تر علاقوں میں سفر کرنے کے لیے خصوصی اجازت حاصل کرنی ہوگی۔جائزے میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکی سفارت خانے اور قونصل خانے کے اہلکار سرکاری اور ذاتی سفر کے لیے ملک کے بعض حصوں میں سفر کرتے وقت مسلح دستوں اور بکتر بند گاڑیوں کا استعمال کریں۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: مسلح تصادم کے خدشات امریکی شہریوں کو دہشت گردی اور مزید کہا گیا ہے کہ امریکی علاقوں میں گیا ہے کہ کی وجہ سے میں کہا تھا کہ
پڑھیں:
پاکستان میں بڑھتی دہشتگردی
تجزیہ ایک ایسا پروگرام ہے جسمیں تازہ ترین مسائل کے بارے نوجوان نسل اور ماہر تجزیہ نگاروں کی رائے پیش کیجاتی ہے۔ آپکی رائے اور مفید تجاویز کا انتظار رہتا ہے۔ یہ پروگرام ہر اتوار کے روز اسلام ٹائمز پر نشر کیا جاتا ہے۔ متعلقہ فائیلیںہفتہ وار تجزیہ انجم رضا کے ساتھ
موضوع: پاکستان میں بڑھتی ہو ئی دہشت گردی کی لہر
The Growing Wave of Terrorism in Pakistan
مہمان: سید کاشف رضا (صحافی، تجزیہ نگار)
میزبان و پیشکش: سید انجم رضا
تاریخ: 9 مارچ 2025
پاکستان نے حالیہ مہینوں میں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں تیز اضافہ دیکھا ہے،
جو قومی سلامتی، معاشی استحکام، اور علاقائی امن کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔
خیبر پختونخوااور خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں عسکریت پسندی کی بحالی نے سیکیورٹی اداروں اور پالیسی سازوں میں تشویش پیدا کر دی ہے۔ دہشت گردی کی اس بڑھتی ہوئی لہر کو مختلف عوامل سے جوڑا جا رہا ہے
اہم نکات و خلاصہ گفتگو
پاکستان میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے جامع اور موثر پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے
دہشت گردی کے خلاف پالیسیوں تسلسل بہت ضروری ہے
دہشت گردی کا عفریت جامع اور موثر پالیسیوں کے ذریعے ہی ختم ہوسکتا ہے
سیاسی عدم استحکام نے بھی دہشت گردوں دوبارہ مضبوط ہونے کا موقع دے دیا ہے
بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں امن عامہ کی صورت بہت خوفناک ہوچکی ہے
پاکستان میں خوش فہمی تھی کہ أفغانستان میں تبدیلی بہتری پیدا کرے گی، مگر ایسا نہ ہوا
اٖفغانسان میں بھارتی قونصلیٹ بھی پاکستان میں کاروائیوں کے حوالے سے سرگرم ہیں
دہشت گردی خلاف ردِ عمل کی حکمت عملی کے بجائے پیشگی کاراوئی کا انداز اپنا نابہت ضروری ہے
دنیا بھر میں دہشت گردی سے نمٹنے کے انٹیلی جینس سرگرمیوں سے کام لیا جاتا ہے
پاکستان میں بھی انٹیلی جنس اداروں کا مزید فعال اور پرو ایکٹوو ہونا ضروری ہے
نیکٹا کو دوبارہ فعال اور متحرک کرنا بہت ضروری ہے
افغان ط ا ل ب ان حکومت دہشت گردوں کے سامنے بے بس نظر آتی ہے
جیو پولیٹکل وجوہات کی بنا بھی پہ افغان حکومت دہشت گروں کے خلاف اقدام کرنے سے گریزاں ہے
پاکستان میں اندرونی طور پہ بھی سیکورٹی ادارے اور پولیس، انٹیلی جینس ادارے ایک پیج پہ ہونا ضروری ہیں
شریف اللہ کی گرفتاری سے کستان اور امریکہ درمیان دہشت گردی کے خلاف اقدامات میں تعاون کا اظہار ہے
ٹرمپ انتظامیہ نے فروری کے اواخر میں خصوصی استثنا کے ذریعے تین سو ملین ڈالر کی خصوصی امداد جاری کی ہے
لگتا ہے ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کو سیکورٹی ڈومین خصوصی اسٹیٹس دیا ہے