سینٹ: کم عمری کی شادی، غیرت کے نام قتل پر سخت سزا، مساوی حقوق کی قرارداد منظور
اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT
اسلام آباد (خبر نگار) سینٹ نے یوم نسواں کی مناسبت سے خواتین کے حقوق کے لیے قراداد متفقہ طور پر منظور کر لی۔ جس میں کم عمری کی شادی پر پابندی لگانے، خواتین کو مساوی حقوق دینے اور غیرت کے نام پر قتل کی سزائیں سخت کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ سینٹ کا اجلاس چیئرمین یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ یوم نسواں پر سینٹ میں قرارداد پیش کی گئی جو کہ سینیٹر شیری رحمان نے پیش کی۔ قرارداد میں کہا گیا کہ خواتین کی معاشی ترقی کے لیے حکومت کردار ادا کرے، خواتین کی کم عمری میں جبراً شادی کو روکا جائے۔ خواتین کو ملازمتوں میں برابر کی تنخواہیں اور مواقع دئیے جائیں، خواتین کو زراعت سے متعلق سہولیات دی جائیں، خواتین کو ہنر کی تعلیم فراہم کی جائے، خواتین کو کاروبار سے متعلق سہولیات فراہم کی جائیں، خواتین کو اپنی صحت سے متعلق فیصلوں کا حق دیا جائے۔ قرارداد میں کہا گیا کہ خواتین کو قانونی حقوق اور انصاف کی بروقت فراہمی یقینی بنائی جائے۔ صنفی بنیاد پر تشدد اور کام کی جگہ پر ہراسانی کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ غیرت کے نام پرجرائم پر ملزموں کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے اور سخت سزائیں دی جائیں۔ خواتین کی قیادت، کاروبار میں شمولیت بڑھانے کے لیے سکالرشپ اور رہنمائی پروگرام متعارف کرائے جائیں، خواتین کے لیے محفوظ ٹرانسپورٹ، چائلڈ کیئر اور ڈیجیٹل وسائل کی دستیابی یقینی بنائی جائے۔ خواتین کو زراعت اور خوراک کی پیداوار میں شامل کرنے کے لیے زمین کے حقوق اور مالی معاونت دی جائے۔ بعد ازاں سینٹ میں یوم خواتین پر قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
خواتین کے عالمی دن پر مارچ، ریلیاں، مظاہرے، صنفی تشدد قومی جرم قرار دیا جائے: منتظمین
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) وفاقی دارالحکومت میں ڈی چوک، پریس کلب سمیت مختلف جگہوں پر عورتوں کے عالمی دن کے حوالے سے سماجی تنظیموں کا مارچ ریلیاں، مظاہرے، عورت مارچ منتظمین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ8 مارچ کوعورتوں کے عالمی دن کے موقع پر سرکاری سطح پر قومی تعطیل کا اعلان کیا جائے۔ صنفی تشدد کو قومی ایمرجنسی قرار دیتے ہوئے پدر شاہانہ تشدد کی تمام اشکال کے خلاف زیرو ٹالرنس کے شعار کو اپناتے ہوئے ریاست سے کم عمری کی شادیوں کے خاتمے، تشدد کے خلاف قوانین کے نفاذ اور ٹرانس جینڈر کے حقوق کے تحفظ کے ایکٹ پر مکمل عملدرآمد کو یقینی بنایاجائے، مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے ساتھ انہیں ایک باوقار زندگی گزارنے کے لئے روزگار، تعلیم اور صحت کے مساوی مواقع فراہم کرے۔ عورت مارچ کی سرگرمیوں کے لئے این او سی جاری کیا جائے۔ دریں اثناء عورت مارچ کی منتظمین ڈاکٹر فرزانہ باری، ہدی بھرگڑی، نشاعت مریم، زینب جمیل، جیا جگی و دیگر نے پریس کانفرنس میں کہا کہ عورت مارچ کی منتظمین نے انسانی حقوق سماجی انصاف اور ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے جامع مطالبات پیش کئے اور پرامن اجتماع اور عوامی نظم و ضبط کے قانون2024ء کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہاکہ عورت مارچ ایک آزاد و خود مختار، غیر جانبدار، انٹر سیکشنل فیمنسٹ اکٹھ ہے، پیکاآزادی اظہار اجتماع کی آزادی اور تنظیم سازی کے آئینی حق پر ریاستی حملے کے مترادف ہے، اسے فی الفور منسوخ کیا جائے۔ ماحولیاتی بحران کا فوری اور سنجیدہ نوٹس لینے اور گرین پاکستان جیسی ماحول دشمن پراجیکٹ کو فی الفور روکنے، ریاست سے کم عمری کی شادیوں کے خاتمے، تشدد کے خلاف قوانین کے نفاذ اور ٹرانس جینڈر کے حقوق کے تحفظ کے ایکٹ پر مکمل عملدرآمد کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا، ہمارے پرامن اجتماع کے حق کو تسلیم کرنے سے انکار کیا جا رہا ہے، ہر سال مارچ کے موقع پر ہمیں ہر اسانی دھمکیوں اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔علاوہ ازیں اسلام آباد میں عورت مارچ اس وقت اختتام پذیر ہوا جب پولیس نے مارچ کے شرکاء کو ڈی چوک کی طرف بڑھنے سے روک دیا۔ عورت مارچ کے شرکاء نیشنل پریس کلب کے باہر پلے کارڈز، بینرز اور لاؤڈ سپیکرز کے ساتھ جمع ہوئے۔ شرکاء کی جانب سے احتجاج کے مقام پر خالی چارپائیاں رکھی گئیں جن پر ’خواتین کے حقوق‘ اور ’جمہوریت‘ کے پلے کارڈ لگائے گئے، یعنی ان کا اشارہ ملک میں خواتین کے حقوق اور جمہوریت کی غیر موجودگی کی جانب تھا، جب کہ مارچ کے شرکاء نے ڈھول بجاتے ہوئے نعرے بازی بھی کی۔ عورت مارچ کے شرکاء نے جیسے ہی این پی سی سے ڈی چوک کی طرف بڑھنے کی کوشش کی تو پولیس نے اہم سڑکیں بند کردیں جس کے باعث مارچ منسوخ کردیا گیا۔ فرزانہ باری کا کہنا تھا کہ منتظمین کو معمول کے مطابق این او سی نہیں ملا۔ جب بھی ہم خواتین کا دن مناتے ہیں تو ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ ہمارے مطالبات آج بھی وہی ہیں جو ہم گزشتہ کئی سالوں سے کرتے آرہے ہیں لیکن کبھی عمل درآمد نہیں ہوتا ہے۔
لاہور (لیڈی رپورٹر) یوم خواتین پر لاہور میں بھی مختلف تقریبات ‘ ریلیاں کانفرنسز ہوئیں۔ رکن پنجاب اسمبلی حنا پرویز بٹ کی جانب سے پنجاب اسمبلی میں قرارداد جمع کروائی گئی جس میں پاکستان کی جرات مند اور باہمت خواتین کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ قرارداد میں محترمہ فاطمہ جناح، بیگم کلثوم نواز، بے نظیر بھٹو اور مریم نواز شریف کی جمہوریت کے لیے بے مثال خدمات کو سراہا گیا۔ پاپولیشن ویلفیئر ڈپارٹمنٹ پنجاب کے زیر اہتمام خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ایک سیمینار کا انعقاد ہوا‘ ثمن رائے نے کلیدی خطاب میں کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب خواتین کی صحت، تعلیم اور معاشی طور پر انہیں بااختیار بنانے کے لیے پر عزم ہیں۔ ممبر صوبائی اسمبلی پنجاب اور چیئرپرسن چائلڈ پروٹیکشن بیورو سارہ احمد نے کہا کہ خواتین کا عالمی دن خواتین کے حقوق، ان کی کامیابیوں اور ہمارے اجتماعی عزم کی تجدید کا دن ہے۔ مسلم لیگ ق شعبہ خواتین پنجاب کی صدر تاشفین صفدر ایم پی اے نے مختلف تقریبات سے خطاب میں کہا کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے عورت کو حقوق دئیے باقی کے حالات سب کے سامنے ہیں۔ جماعت اسلامی حلقہ خواتین کے زیراہتمام ریلی سے خطاب میں ڈاکٹر حمیرا طارق نے کہا کہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے جماعت اسلامی پاکستان کا لائحہ عمل یہ ہے کہ خواتین کو ان کے شرعی، قانونی اور سماجی حقوق ان کی دہلیز پر ملنے چاہیئں۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے کہا کہ حلقہ خواتین جماعت اسلامی خواتین کی متحرک تنظیم ہے جو سارا سال خواتین کے حقوق اور فلاح و بہبود کے لیے سرگرم عمل رہتی ہے۔ ڈپٹی سیکرٹری ثمینہ سعید نے کہا کہ آج کا دن فلسطین اور کشمیر کی مظلوم عورت کے لیے آواز بلند کرنے کا دن ہے۔ صدر ضلع لاہور عظمی عمران نے کہا کہ یوم خواتین پر دنیا بھر میں خواتین کے حقیقی مسائل پر بات کرنی چاہیے۔ منہاج القرآن ویمن لیگ کے ذیلی ادارے (وائس) کے زیر اہتما م خواتین کے عالمی دن کے موقع پر’’ وقارِ نسواں و خاندانی استحکام‘‘ کے موضوع پر منعقدہ کانفرنس میں مقررین نے خواتین کے اقتصادی استحکام اور ویمن امپاورمنٹ سے متعلق موجودہ قوانین پر سختی سے عمل درآمد کا مطالبہ کیا ہے۔ ڈاکٹر فرح ناز نے کہا کہ خواتین کو محفوظ ماحول فراہم کرنا اور انہیں عملی زندگی میں مساوی مواقع دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ صباحت رضوی ایڈووکیٹ نے کہا کہ ورک پلیس پر خواتین کو ہراسانی سے بچانے کے لیے موجودہ قوانین پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے۔ جہاں آرا وٹو نے کہا کہ معاشرے میں خواتین کو برابر کے شہری کے طور پر تسلیم کیے بغیر ترقی کا خواب ادھورا رہے گا۔ تعلیم اور شعور ہی خواتین کو ان کے جائز حقوق کی پہچان دلا سکتا ہے۔ عائشہ مبشر نے کانفرنس کے اغراض و مقاصد بیان کئے۔ عائشہ شبیر، کرن محبوب، کنزیٰ کمال خان، نوشابہ ستار، تسابے ربیکا زینب، ڈاکٹر سعدیہ سالار، قرۃ العین شعیب، ام حبیبہ اسماعیل، انیلہ الیاس، ڈاکٹر شاہدہ مغل، میری جیمز گل، عمارہ رندھاوا سمیت دیگر خواتین رہنمائوں نے بھی خطاب کیا۔ وزیر تعلیم پنجاب نے مستحق خواتین میں راشن بیگز تقسیم کئے اور رینل کئیر فاؤنڈیشن میں ڈائیلاسز کے مریضوں کی عیادت کر کے خواتین ڈے منایا۔