اسلام آباد:

وزیراعظم شہباز شریف نے پورٹ قاسم اتھارٹی کی قیمتی زمین کے اسکینڈل کی تحقیقات کیلیے تین رکنی انکوائری کمیٹی تشکیل دیدی۔

سینیٹر فیصل واوڈا کی جانب سے پورٹ قاسم اتھارٹی کی قیمتی زمین کے موجودہ حکومت کے دور میں اونے پونے دام دیئے جانے کے انکشاف کیا گیا تھا۔

وزیر اعظم آفس کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق پورٹ قاسم اتھارٹی زمین چھوٹے اور درمیانے انڈسٹریل پارک کیلئے دی گئی، زمین کی لیزنگ میں مالی بے ضابطگیوں کی تحقیقات تین رکنی کمیٹی کریگی۔

چیئرمین وزیراعظم انسپیکشن کمیشن کمیٹی کے کنوینر مقررکردیٔے گئے جبکہ ڈائریکٹر آئی بی سراج الدین امجد اور ڈائریکٹر ایف آئی اے سید شاہد حسین تحقیقاتی کمیٹی کا حصہ ہونگے۔

کمیٹی کو خصوصی ٹاسک بھی سونپ دیا گیا جس کے تحت کمیٹی لیز کی منسوخی کے خلاف حکم امتناعی کو ختم  کرنے کیلئے پورٹ قاسم اتھارٹی کی قانونی حکمت عملی کا جائزہ لے گی اور پورٹ قاسم اتھارٹی بورڈ کی طرف سے مدعی کے ساتھ عدالت سے باہر تصفیہ کرنے کے فیصلہ کرنے میں غور کئے جانے والے عوامل کی تحقیقات کی مجاز ہوگی۔

کمیٹی بشمول دیگر تمام قانونی آراء جو عدالت سے باہر تصفیہ کی حمایت کرتی ہوں کا بھی جائزہ لے گی۔

ٹی او آرز کے مطابق کمیٹی چھان بین کرے گی کی آیاپورٹ قاسم اتھارٹی نے تصفیہ سے پہلے زمین کی قیمت کا از سر نو جائزہ لیا اور تحقیقات کرے گی کہ کیا موجودہ مارکیٹ قیمتوں کو فیصلے میں شامل کیا گیا۔

ٹی او آرزکے مطابق  کمیٹی اس بات کا تعین کرے گی کہ عدالت سے باہر تصفیہ کی پیشکش مدعی کے انکار پر فوری  واپس کیوں نہیں لی گئی۔ کمیٹی تاخیر میں معاون ثابت ہونے والے  گورننس کے مسائل کی نشاندہی کرے گی۔

کمیٹی تحقیقات میں معاونت کیلئے ضرورت کے مطابق کسی دوسرے ممبر کو شریک کر سکتی ہے۔ وزارت سمندری امور سیکرٹریل معاونت فراہم کرے گی۔ انکوائری کمیٹی دو ہفتوں کے اندر وزیر اعظم کو اپنی رپورٹ پیش کریگی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پورٹ قاسم اتھارٹی کے مطابق کرے گی

پڑھیں:

ایف بی آر نے کلکٹر آف کسٹمز کو ریگولیٹری اتھارٹی قرار دے دیا

اسلام آباد:

فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) نے آئرن اور اسٹیل اسکریپ کی درآمد پر متعدد پابندیاں عائد کرتے ہوئے مصنوعات کے سیمپل لینے کا نیا نظام متعارف کروا دیا اور کلکٹر آف کسٹمز کو ریگولیٹری اتھارٹی قرار دے دیا ہے۔

ایف بی آر سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق کسٹمز رولز 2001 میں اہم ترامیم کردی گئی ہے اور ان ترامیم کا مقصد تجارتی سہولیات میں بہتری، شفافیت اور صنعتی ترقی کو فروغ دینا ہے۔

کسٹمز رولز میں کی گئی ترامیم میں انجینئرنگ ڈیویلپمنٹ بورڈ (ای ڈی بی) کی منظوری سے متعلق متعدد شقوں کو حذف کر دیا گیا ہے جبکہ آئرن اور اسٹیل سکریپ کی درآمد پر بعض پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔

ترامیم کے تحت ریگولیٹری اتھارٹی کی نئی تعریف کئی گئی ہے، جس کےمطابق متعلقہ کلکٹر آف کسٹمز جس کی حدود میں درخواست دہندہ کا کاروباری یا پیداواری یونٹ واقع ہو، اسے ریگولیٹری اتھارٹی تسلیم کیا جائے گا۔

نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی درخواست دہندہ کے متعدد پیداواری یونٹس مختلف دائرہ اختیار میں ہوں تو اس کے ہیڈ آفس یا بنیادی پیداواری یونٹ کے دائرہ اختیار میں آنے والا کلکٹر ریگولیٹری اتھارٹی ہوگا۔

ایف بی آرکے نوٹیفکیشن کے مطابق ناقص کارکردگی پر فوری کارروائی ہوگی اور ترمیم شدہ قواعد کے تحت وہ درخواست گزار جو ماضی میں کسی بھی قسم کی قانونی خلاف ورزیوں میں ملوث پایا گیا ہو یا جس پر کوئی وصولی یا فوجداری کارروائی زیر التوا ہو اس کا اجازت نامہ فوری طور پر معطل کیا جا سکے گا۔

مزید کہا گیا کہ ریگولیٹری کلکٹر نہ صرف اس کے اجازت نامے کی منسوخی کی کارروائی شروع کر سکتا ہے بلکہ دیگر قانونی کارروائیاں بھی عمل میں لا سکتا ہے، اسی طرح آئی او سی او کو  بھی 60 دن میں درخواست پر کارروائی کا پابند بنا دیا گیا  ہے۔

نئی ترامیم کے مطابق درخواست موصول ہونے کے بعد متعلقہ کیس کو فوری طور پر ان پٹ آؤٹ پٹ کوایفیشنٹ آرگنائزیشن (آئی او سی او) کے کلکٹریٹ بھیجا جائے گا جو 60 دن کے اندر پیداواری صلاحیت اور ان پٹ آؤٹ پٹ تناسب کا تعین کرے گا۔

اسی طرح اگر آئی او سی او مقررہ مدت میں فیصلہ نہ کر سکے تو درخواست گزار کو عارضی بنیادوں پر 25 فیصد تک ان پٹ گڈز درآمد کرنے کی اجازت دی جا سکے گی، جس کے لیے بینک گارنٹی جمع کروانا ہوگی۔

ایف بی آر نے مصنوعات کے سیمپل لینے کا نیا نظام بھی متعارف کروایا ہے تاکہ مصنوعات کے معیار کو یقینی بنایا جائے، جس کے تحت امپورٹ اور ایکسپورٹ کے وقت تین نمونے لیے جائیں گے، ایک نمونہ صارف یا اس کے نمائندے کو دیا جائے گا، دوسرا متعلقہ کلکٹریٹ میں محفوظ رکھا جائے گا اور تیسرا ریگولیٹری کلکٹریٹ کو بھیجا جائے گا۔

نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی بھی مرحلے میں بے ضابطگی پائی گئی تو متعلقہ ادارے کو مطلع کیا جائے گا۔

ایف بی آر کے مطابق ایکسپورٹ فسیلیٹیشن اسکیم  کے تحت جو درخواست گزار اپنی مصنوعات کی تیاری کے لیے کسی وینڈر کے پاس خام مال بھیجنا چاہے گا، اسے پہلے ہی وینڈر کی تفصیلات فراہم کرنا ہوں گی، اس دوران مصنوعات کی ترسیل، گاڑی کا رجسٹریشن نمبر اور دیگر تفصیلات آن لائن سسٹم میں اپ لوڈ کرنا لازمی ہوگا۔

نئےقواعد کے مطابق درآمد شدہ ان پٹ گڈز کو زیادہ سے زیادہ 9 ماہ میں استعمال کرنا ہوگا، اگر غیر معمولی حالات میں توسیع درکار ہو تو اس کا فیصلہ ایف بی آر کی تشکیل کردہ کمیٹی کرے گی۔

ترمیمی قواعد کے تحت بی گریڈ مصنوعات کی پیداوار 5 فیصد سے زیادہ ہونے کی صورت میں انہیں درآمد شدہ معیار کے مطابق تصور کیا جائے گا اور اس پر عائد محصولات ادا کرنا ہوں گے۔

ایف بی آر کے مطابق ان ترامیم کا مقصد تجارتی ماحول کو بہتر بنانا، صنعتوں کو درپیش مشکلات کم کرنا اور ایکسپورٹ سیکٹر کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرنا ہے، ان ترامیم کے نفاذ کے بعد کاروباری برادری کو ایک شفاف اور مؤثر نظام میسر آئے گا، جس سے ملکی معیشت کو فروغ ملے گا۔

متعلقہ مضامین

  • خیبر پختونخوا میں ترقیاتی فنڈز کے صحیح استعمال کیلئے اہم فیصلہ
  • پی ٹی آئی کے دور حکومت میں مالی بد عنوانی کی تحقیقات 20 مارچ تک مکمل کرنے کی ہدایت
  • پورٹ قاسم اراضی اسکینڈل، وزیراعظم نے تحقیقات کیلیے 3 رکنی کمیٹی قائم کر دی
  • مردان میں اراضی کا تنازع، فائرنگ سے باپ بیٹے سمیت 3 افراد جاں بحق
  • ایف بی آر نے کلکٹر آف کسٹمز کو ریگولیٹری اتھارٹی قرار دے دیا
  • ملتان کے تاریخی قلعہ کہنہ قاسم باغ کی بحالی کا کام شروع
  • وزیراعظم رمضان پیکیج کے شفاف نفاذ اور موثر مانیٹرنگ کیلیے خصوصی کنٹرول روم قائم
  •  مختلف ممالک سے مزید 37پاکستانی ڈی پورٹ
  • باپ کی چھوڑی گئی نشست پر بیٹا سینیٹر منتخب، نوٹیفکیشن جاری