تیسری عالمی جنگ تیار(دوسرا حصہ)
اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT
ولادی میر زیلنسکی کی بدتمیزی کی دوسری وجہ اس کی ناتجربہ کاری‘ حماقت اور نالائقی تھی‘ یہ اسکرین کے ذریعے اقتدار میں آ گیا‘اس نے 2018 میں ’’سرونٹ آف دی پیپل‘‘پارٹی رجسٹرڈ کرائی اور یہ 2019 میں براہ راست صدر تھا‘ یہ بالکل ایسے ہے جیسے آپ دس سال کے بچے کے حوالے 300 مسافروں کا جہاز کر دیں‘ اس کا جو نتیجہ نکلتا ہے وہی نتیجہ یوکرائن میں نکلا۔
اس نے تقریریں کر کے قوم کو تقسیم کر دیا‘ سرکاری افسروں کی لائیو بے عزتی شروع کر دی اور ’’ہماری رگوں میں عظیم لوگوں کا لہو ہے‘‘ جیسے نعرے لگا کر قوم کے جذبات ابھار دیے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا اس نے روس جیسے اس بم کو لات مار دی جسے آج تک امریکا اور یورپ نے بھی چھیڑنے کی غلطی نہیں کی تھی۔
پیوٹن اس کا باپ تھا‘ اس نے 24 فروری 2022 کو اپنی فوجیں یوکرائن میں داخل کر دیں اور اس کے بعد یوکرائن ملبے کا ڈھیر بن گیا‘ اب تک یوکرائن میں ہزاروں لوگ ہلاک‘لاکھوںزخمی اور 70لاکھ نقل مکانی کر چکے ہیں‘ چھ بڑے شہروں کی سڑکیں‘ پل‘ائیرپورٹس‘ ڈیمز اور عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں۔
آج اگر یوکرائن کو دوبارہ 2022 پر واپس لانا ہو تو اس کے لیے ہزار ارب ڈالر چاہییں‘ یوکرائن کیوں کہ یورپ کی فوڈ باسکٹ تھا‘ پورے یورپ کے لیے گندم‘ کوکنگ آئل‘ فروٹس اور سبزیاں یوکرائن سے آتی تھیں لہٰذا یورپ میں خوراک کا بحران پیدا ہو گیا۔
یورپ کی 40 فیصد گیس روس سے آتی ہے‘ جنگ کی وجہ سے یہ بھی مہنگی ہو گئی جس کے نتیجے میں یورپ میں بجلی اور گیس دونوں نایاب ہو گئیں اور یہ افراط زر کا شکار ہو گیا‘ دوسرا یورپ پر جنگ کے بادل بھی منڈلانے لگے یوں یورپ زیلنسکی کی حمایت پر مجبور ہو گیا۔
امریکا نیٹو کی وجہ سے پھنسا ہوا تھا‘ یہ بھی یوکرائن آنے پر مجبور ہو گیا‘ امریکا اب تک یوکرائن میں ساڑھے تین سو ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے جب کہ زیلنسکی سینہ چوڑا کر کے کبھی یورپ اور کبھی امریکا میں دندناتا پھر رہا ہے‘ اسے اپنے ملک اور اپنے لوگوں کی کوئی پرواہ ہے اور نہ دنیا کی‘کیوں؟ کیوں کہ یہ جنگ اسے سوٹ کرتی ہے‘ اس نے جنگ کی وجہ سے ملک میں مارشل لاء لگا رکھا ہے۔
اگر جنگ ختم ہو جاتی ہے تو اسے مارشل لاء ختم کرنا پڑے گا جس کے بعد اس کے اختیارات ختم ہو جائیں گے اور دوسرا یہ صرف جنگ کے خاتمے تک یوکرائن کا صدر ہے اگر جنگ ختم ہو گئی تو الیکشن ہوں گے اور یوں اقتدار اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور یہ اس کے لیے تیار نہیں ہے‘ اس سیناریو میں یوکرائن کاکیا بنے گا؟ ہمیں اس طرف آنے سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ کی فلاسفی سمجھنا ہوگی۔
جمی کارٹر امریکا کے 39 ویں صدر تھے‘ یہ 1977سے 1981تک صدر رہے‘ کارٹر کا 2024 میں 100سال کی عمر میں انتقال ہوا‘ یہ آخری عمر میں اپنے گاؤں پلین کے چرچ میں ہر اتوارکو لیکچر دیا کرتے تھے‘ پوری دنیا سے لوگ لیکچر سننے پلین آتے تھے۔
جمی کاٹر نے ڈونلڈ ٹرمپ کے پچھلے دور حکومت کے ایک لیکچر میں بتایا ’’مجھے صدر ٹرمپ کا فون آیا تھا‘ ٹرمپ نے مجھ سے پوچھا‘ امریکا چین کا مقابلہ کیسے کر سکتا ہے؟ میں نے صدر کو جواب دیا‘ ہم چین کا مقابلہ نہیں کر سکتے‘ ٹرمپ نے پوچھا‘ ہم جب پوری دنیا کا مقابلہ کر رہے ہیں توپھر چین کا کیوں نہیں کر سکتے؟ میں نے بتایا‘ ہم اور چین میں ایک فرق ہے‘ ہم نے پوری دنیا میں محاذ کھول رکھے ہیں‘ دنیا کا کوئی ایسا خطہ نہیں جہاں ہمارے فوجی اور ہتھیار نہ ہوں‘ اس وجہ سے ہمارا دفاعی بجٹ بہت زیادہ ہے۔
جب کہ چین پچھلے 75 برسوں میں کسی ملک سے نہیں لڑا‘ یہ اپنے سارے وسائل صنعتی گروتھ اور لوگوں کی ڈویلپمنٹ پر خرچ کر رہا ہے لہٰذا ہمارے پاس اب دو آپشن ہیں‘ ہم اپنی ساری جنگیں ختم کر دیں اور یہ رقم اپنے لوگوں پر خرچ کریں یا پھر ہم چین کو کسی بڑی جنگ میں دھکیل دیں تاکہ اس کے وسائل بھی ضایع ہوں اور یہ بھی اپنی صنعت اور ہیومین ڈویلپمنٹ پر توجہ نہ دے سکے‘‘۔
یہ مشورہ جمی کارٹر نے ٹرمپ کو اس کے پچھلے دور اقتدار میں دیا تھا‘ مجھے محسوس ہوتا ہے یہ آئیڈیا اس کو کلک کر گیا تھا اور یہ اس دور میں اس پر عمل نہیں کر سکا لیکن اس بار یہ اس نیت سے اقتدار میں آیا ہے اور اس نے پہلے دن سے اس پر کام شروع کر دیا ہے۔
یہ امریکا کو جنگوں اور دفاعی اخراجات سے نکال رہا ہے‘ ٹرمپ نے پہلے دن امریکا کو نہ صرف غزہ سے نکال لیا بلکہ تمام اخراجات بھی اسرائیل پر ڈال دیے اور قبضے کی دھمکی دے کر عربوں کو غزہ سے ملبہ اٹھانے اور اس کی دوبارہ تعمیر پر لگا دیا۔
مصر میں چند دن قبل عرب کانفرنس ہوئی اور عرب ملکوں نے فنڈ پول کر کے غزہ کی تعمیر کا فیصلہ کر لیا‘ آپ تصور کریں اگر ڈونلڈ ٹرمپ نیتن یاہو کے ساتھ بیٹھ کر غزہ پر قبضے کا اعلان نہ کرتا تو کیا عرب آگے بڑھتے‘کیا یہ غزہ کی ذمے داری اٹھاتے اور کیا موجودہ صورتحال میں امریکا کو غزہ کی بحالی کے لیے فنڈز جاری نہ کرنا پڑتے؟
ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک دھمکی دی اور امریکا کے اربوں ڈالرز بچ گئے‘ اسی طرح اس نے حلف اٹھاتے ہی افغانستان کی امداد بند کر دی‘ امریکا سے نیروبی کے ذریعے ہر منگل کو 40 ملین ڈالر کابل آتے تھے‘ یہ ماہانہ 160 ملین ڈالر اور سالانہ دوبلین ڈالر بنتے ہیں اور امریکا انخلاء کے بعد اب تک اس مد میں افغانستان کو 18 بلین ڈالر ادا کر چکا ہے‘ ٹرمپ نے یہ رقم بھی بچا لی اور الٹا اپنا اسلحہ مانگ کر افغان حکومت کے پاؤں میں آگ بھی لگا دی۔
امریکا کو داعش سے خطرہ تھا چناں چہ کابل میں سی آئی اے کا باقاعدہ دفتر قائم تھا‘ اس پر بھی اربوں ڈالر خرچ ہو رہے تھے‘ ٹرمپ نے یہ ذمے داری اب پاکستان کو تھوپ دی ہے‘ اس نے پاکستان کو کولڈ شولڈر دے کر اور رچرڈ گرنیل سے عمران خان کے حق میں ٹویٹس کرا کر پہلے پاکستان کو خوف زدہ کیا اور پھر اس سے داعش کے کمانڈر محمد شریف اللہ عرف جعفر کی گرفتاری کے لیے مدد مانگ لی۔
پاکستان کے پاس ہاں کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا‘ ہم جب راضی ہو گئے تو نہ صرف رچرڈ گرنیل کی ٹویٹس بند ہو گئیں بلکہ اس نے پرانی ٹویٹس ڈیلیٹ بھی کر دیں۔ ’’فری عمران خان‘‘ ایک ڈھکوسلہ تھا اور اس کا مقصد بکرے کو اگلی قربانی کے لیے تیار کرنا تھا‘ ہم نے جوں ہی ڈونلڈ ٹرمپ کو اس کی پہلی تقریر کے لیے مصالحہ دے دیا۔
اس نے پاکستان کا شکریہ ادا کر دیا اور ہم اب آنے والے دنوں میں ٹی ٹی پی کے ساتھ ساتھ داعش کا ٹارگٹ بھی ہوں گے جب کہ امریکا افغانستان سے مکمل طور پر نکل جائے گا جس سے کابل میں سی آئی اے کے دفتر کے اخراجات بھی بچ جائیں گے‘ ٹرمپ اسی طرح یوکرائن روس جنگ سے بھی امریکا کو نکالنا چاہتا ہے۔
اس کا خیال ہے یہ یورپ کی جنگ ہے‘ امریکی بلاوجہ اس میں گھسے اور 350 بلین ڈالر خرچ کر دیے‘ ہمیں یہ رقم بھی وصول کرنی چاہیے اور مزید رقم بھی خرچ نہیں کرنی چاہیے چناں چہ اس نے 350 بلین ڈالر کے عوض یوکرائن سے معدنیات مانگ لیں اور ساتھ ہی اسے جنگ بندی کا حکم بھی دے دیا۔
جنگ بندی ولادی میر زیلنسکی کو سوٹ نہیں کرتی کیوں اس کے بعد یہ نہ صرف اقتدار سے فارغ ہوجائے گابلکہ پوری دنیا کا ولن بھی بن جائے گا اور یہ بھی عین ممکن ہے ڈونلڈ ٹرمپ اس کے خلاف کوئی بین الاقوامی تفتیش بھی اسٹارٹ کرا دے چناں چہ یہ جنگ جاری رکھنا چاہتا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کیا یہ امریکا کے بغیر ایسا کر سکے گا‘ کیا یورپ اکیلا اس جنگ کا بوجھ اٹھا سکے گا؟ اگر برطانیہ اور اس کے اتحادی دوسری جنگ عظیم میں امریکا کے بغیر جنگ کا بوجھ نہیں اٹھا سکے تھے تو یہ آج یہ وزن کیسے برداشت کریں گے لہٰذا یورپ اور یوکرائن کے پاس صرف ایک آپشن ہے‘ یہ ٹرمپ کی بات مانیں اور روس کے مطالبات مان کر جنگ ختم کر دیں اور یہ جورقم جنگ پر خرچ کر رہے ہیں وہ اسے یوکرائن کی بحالی اور ری کنسٹرکشن پر خرچ کردیں۔
لیکن یہاں دو ایشوز ہیں‘ اس وقت دنیا کی زیادہ تر پاورز یہودیوں کے ہاتھ میں ہیں‘ آپ اگر روس کی طرف سے یوکرائن پر حملے کی پلاننگ کرنے والے لوگوں کے بارے میں تحقیق کریں گے تو آپ کو معلوم ہو گا‘ یہ یہودی ہیں‘ یوکرائن کا صدر بھی یہودی اور فوج کے اہم ترین آفیسرز بھی اور دوسری طرف یورپ کے زیادہ تر اختیارات بھی یہودیوں کے ہاتھ میں اور امریکا کو اس جنگ میں دھکیلنے والے امریکی بھی یہودی اور یہ سب لوگ مل کر تیسری عالمی جنگ چاہتے ہیں‘ یہ باز نہیں آئیں گے‘ یہ زمین کو آگ لگا کر رہیں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ ان حالات میں کیا کر رہا ہے؟ یہ کیا چاہتا ہے؟ یہ جنگیں بند کر کے‘ امریکی وسائل اور سرمایہ بچا کر چین کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے‘ یہ دیکھ رہا ہے چین ٹیکنالوجی‘ انڈسٹری‘ پیداوار اور سڑکوں کے ذریعے تیزی سے سپرپاور بن رہا ہے‘ چین کی قیادت نے 2049ء تک خود کو ہر صورت سپرپاور ڈکلیئر کرنا ہے جب کہ ٹرمپ چین کو روکنا چاہتا ہے‘یہ اس کا ہر فیلڈ میں مقابلہ کرنا چاہتا ہے۔
یہ ہے اس کا منصوبہ اور آپ یہ بھی یاد رکھیں یہ شخص جانے کے لیے نہیں آیا‘ یہ کوشش کرے گا یہ بھی چین کے صدر شی چن پھنگ اور روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کی طرح تاحیات صدر بن جائے‘ یہ ورلڈ آرڈر میں اپنا ویٹ بھی مستقل کر دے اور یہ اس ’’نیک کام‘‘ کے لیے کیا کیا کرتا ہے یہ آنے والے دنوں میں نظر آ جائے گا۔
تاہم یہ حقیقت ہے اس شخص میں کچھ بھی کرنے کی صلاحیت موجود ہے‘ اسے اگر اپنے اہداف کے لیے امریکا کا آئین بھی بدلنا پڑا تو یہ بدل دے گا اگر آپ کو یقین نہ آئے تو آپ اس کے گرد جمع میڈیا اور سوشل میڈیا ٹائیکون دیکھ لیجیے‘ ٹرمپ نے یہ لوگ اپنے گرد صرف اس لیے جمع کیے ہیں کہ یہ ان لوگوں کو استعمال کر کے امریکی عوام کویقین دلا دے امریکا دنیا اورٹرمپ امریکا کے لیے ناگزیر ہے اور یہ سوشل میڈیا کی طاقت سے چند ماہ میں پورے امریکا کو یہ یقین دلا دے گا اور اس کے بعد کیا ہوگا؟ اللہ ہی خیر کرے‘ دنیا اگرزیلنسکی سے بچ گئی تو یہ ٹرمپ سے نہیں بچ سکے گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: یوکرائن میں ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے پوری دنیا کا مقابلہ امریکا کو چاہتا ہے جائے گا نہیں کر اور یہ ہو گیا رہا ہے اور اس کے لیے دی اور چین کا یہ بھی کے بعد
پڑھیں:
امریکا سے ڈی پورٹ پاکستانیوں کو لیکر دوسرا جہاز آئندہ ہفتے پاکستان پہنچنے کا امکان
امریکا سے ڈی پورٹ پاکستانیوں کو لیکر دوسرا جہاز آئندہ ہفتے پاکستان پہنچنے کا امکان WhatsAppFacebookTwitter 0 8 March, 2025 سب نیوز
نیویارک(سب نیوز )امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی کی پالیسی پر عملدرآمد کا آغاز ہوچکا ہے، پاکستانی غیر قانونی تارکین وطن کو لیکر دوسرا جہاز آئندہ ہفتے پاکستان پہنچنے کا امکان ہے۔ امریکا میں پاکستانی سفارتخانے کے ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی جہاز میں 8 مزید پاکستانی غیر قانونی تارکین وطن ملک واپس پہنچیں گے،
آئندہ ہفتے ڈی پورٹ ہونے والے صرف 2 پاکستانیوں کا مجرمانہ ریکارڈ موجود ہے۔غیرقانونی طور پر مقیم ملک بدر کیے جانے والے افراد کی دستاویزات کے مطابق 6 پاکستانی شہریوں کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہے، 2 پاکستانی شہریوں کا ریپ اور منشیات کا ریکارڈ ہے، غیر قانونی تارکین وطن میں رحمان، سلیم، نواز، سلمان، عظیم، خان، خالد مسیح بھی شامل ہیں۔
ان شہریوں کو خصوصی امریکی طیارے سے پاکستان کے نور خان ایئربیس پر پہنچایا جائے گا۔امریکا نے پاکستانی شہری کو غیر قانونی قرار دے کر ملک بدر کر دیا۔ 56 سالہ سید رضوری کو امریکا سے 25 فروری کو ملک بدر کیا گیا تھا، امریکی خفیہ ادارے فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن نے ملک بدر کیے گئے پاکستانی شہری کی تصویر بھی شیئر کردی۔2017 میں امریکا میں داخل ہونے والے سید رضوری امریکی شہر ڈیلاس میں رہائش پذیر تھے، ان کی گرفتاری 31 جنوری کو عمل میں لائی گئی تھی۔