مسلمانوں کے درمیان مشترکات اختلافات سے کہیں زیادہ ہیں، مولانا فضل الرحمان
اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT
سعودی عرب میں کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہمیں آپس میں قربت، باہمی افہام و تفہیم، اور اختلافی مسائل کو حل کرنے کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ طاقت اتحاد میں ہے اور کمزوری اختلاف اور تفرقہ میں، اختلاف ایک فطری حقیقت اور رحمت ہے اگر اسے صحیح طریقے سے سنبھالا جائے۔ اسلام ٹائمز۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے سعودی عرب میں اتحاد بین المسالک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اس بابرکت کانفرنس میں اس عظیم ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے جمع ہوئے ہیں کہ امت میں اتحاد و یگانگت کی ثقافت کو فروغ دیا جائے اور ہر اس چیز سے بچا جائے جو تنازعہ اور اختلاف کا باعث بنے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا "وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا" (آل عمران: 103)، "وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ" (الأنفال: 46)۔ انہوں نے کہا کہ آج امت مسلمہ کو سب سے زیادہ ایک متفقہ کلمے کی ضرورت ہے، جو اسے جوڑے، اس کی صفوں کو متحد کرے اور اس کے مقدسات کی حفاظت کرے۔ سعودی عرب میں کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہمیں آپس میں قربت، باہمی افہام و تفہیم، اور اختلافی مسائل کو حل کرنے کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ طاقت اتحاد میں ہے اور کمزوری اختلاف اور تفرقہ میں، اختلاف ایک فطری حقیقت اور رحمت ہے اگر اسے صحیح طریقے سے سنبھالا جائے، ہمارے سلف صالحین مختلف مسائل میں اختلاف کرتے تھے، مگر ان کے دل آپس میں جُڑے ہوتے تھے، ان کے درمیان اختلاف کے باوجود صفوں میں دراڑ نہیں آتی تھی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ہمارا مؤقف درست ہے، مگر اس میں غلطی کا امکان ہے، اور دوسرے کا مؤقف غلط ہے، مگر اس میں درست ہونے کا امکان ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اسلامی اتحاد ایک مضبوط عمارت ہے، جس کی جڑیں گہری اور بنیادیں مستحکم ہیں، اس کی سب سے اہم بنیاد عقیدہ و مقصد کی وحدت ہے، اللہ اور اس کے رسول پر ایمان، ایک کتاب، ایک قبلہ، اور امت کے اعلیٰ مقاصد، سب وہ عوامل ہیں جو مسلمانوں کو جوڑتے اور ان کے درمیان بھائی چارے کو مضبوط کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سچا مکالمہ، مختلف آراء کو سننا، اور خیالات کا تبادلہ اختلاف کے اسباب کو ختم کرنے اور قربت پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، مسلمانوں کے درمیان جو چیزیں مشترک ہیں وہ اختلافات سے کہیں زیادہ ہیں، جس چیز پر اتفاق ہو، اس پر تعاون ہی عزت اور قوت کا راستہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ معزز علما و مشائخ، مظلوموں کی مدد کرنا ایک انسانی فریضہ اور شرعی واجب ہے، اس کی سب سے بڑی مثال زخم خوردہ فلسطین ہے، جہاں صیہونی جارحیت نے ظلم کی تمام حدیں پار کر دی ہیں، جب کہ عالمی برادری شرمناک خاموشی اور مجرمانہ بے حسی کا شکار ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی صفوں کو متحد کریں، مظلوموں کی مدد کریں، مقدسات کا دفاع کریں، اور کمزوروں، بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی حمایت کریں، جو نہ کوئی چارہ رکھتے ہیں اور نہ ہی کوئی راستہ پاتے ہیں، آخر میں، میں رابطہ عالم اسلامی کے معالی الامین العام، ہمارے محترم بھائی، شیخ ڈاکٹر محمد العیسی کا شکریہ ادا کرتا ہوں، جنہوں نے اتحاد و یگانگت کے فروغ میں عظیم خدمات سرانجام دی ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ میں خادم حرمین شریفین، شاہ سلمان بن عبد العزیز آل سعود اور ان کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبد العزیز کا تہہ دل سے شکریہ اور قدر دانی کرتا ہوں، جو اسلام کی نصرت، مسلمانوں کے اتحاد کو مضبوط کرنے، حرمین شریفین کی خدمت، امت مسلمہ کے جائز مسائل کے دفاع، دین کی خدمت، مقدس مقامات کے تحفظ، اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی دیکھ بھال کے لیے عظیم کوششیں کر رہے ہیں، انہوں نے امت مسلمہ کے لیے ایک جامع وژن پیش کیا ہے، جس کے تحت مسلمان ایک جھنڈے تلے متحد ہوں، اور اقوام عالم میں اپنا جائز مقام حاصل کریں۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ کرتے ہوئے کے درمیان
پڑھیں:
وسطی جمہوریہ افریقہ میں مسلمانوں اور پناہ گزینوں پر مظالم کا انکشاف
وسطی جمہوریہ افریقہ (سی اے آر) میں مسلح گروہوں کے ہاتھوں مسلمان آبادیوں اور سوڈانی پناہ گزینوں پر وحشیانہ حملوں اور ان کے حقوق کی سنگین پامالیوں کے واقعات پیش آرہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) اور ملک میں تعینات امن مشن (مینوسکا) کی جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کرنے، جنسی زیادتی اور تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ قیدیوں سے ظالمانہ اور توہین آمیز سلوک، جبری مشقت اور املاک کی لوٹ مار جیسے جرائم کی اطلاعات بھی آرہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسلاموفوبیا: دو سیکولر ریاستیں مگر کہانی ایک!
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کئی دہائیوں سے عدم استحکام اور مذہبی و نسلی بنیادوں پر فرقہ وارانہ تشدد کا سامنا کرنے والے ملک میں 20 فیصد آبادی اندرون و بیرون ملک بے گھر ہو گئی ہے اور پرتشدد واقعات میں اسکولوں اور اسپتالوں کو بھی نقصان پہنچایا جارہا ہے۔
دہشت کا ماحولرپورٹ کے مطابق اکتوبر 2024 اور جنوری 2025 میں صوبہ مبومو میں کم از کم 24 افراد کو ہلاک کیا گیا۔ یہ حملے ملکی فوج کے اتحادی مسلح گروہ ویگنر ٹی آزندے (ڈبلیو ٹی اے) نے کیے۔ 2 مزید علاقوں میں کیے گئے ایسے حملوں میں گلہ بان آبادی فولانی سمیت مسلمان گروہوں اور سوڈانی پناہ گزینوں کے کیمپ کو نشانہ بنایا گیا۔
ایک اور واقعے میں ڈبلیو ٹی اے سمیت 2 گروہوں نے فولانی برادری کے ایک شخص کو سرعام قتل کرکے دہشت پھیلانے کی کوشش کی جبکہ سات دیگر افراد کو دریا میں پھینک کر ہلاک کردیا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حملہ آور مسلح گروہوں نے بڑے پیمانے پر جنسی تشدد کا ارتکاب بھی کیا جس میں 14 خواتین اور 7 لڑکیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، 21 جنوری کو ایک حملے میں فولانی برادری کے 12 افراد ہلاک کردیے گئے۔
احتساب کا مطالبہاقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے اس تشدد کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملکی فوج اور ڈبلیو ڈی اے کے مابین تعلقات کی وضاحت ہونی چاہیے اور اس گروہ کے اقدامات سے متعلق مکمل شفافیت سامنے آنا ضروری ہے، ایسا نہ کرنے کی صورت میں اسے غیرمسلح کرنا ہو گا۔
رپورٹ کے مطابق فولانی کیمپ پر حملوں کے بعد ڈبلیو ٹی اے کے کم از کم 14 ارکان کی گرفتاری بھی عمل میں آئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تشدد سے متاثرہ علاقوں میں محدود ریاستی موجودگی کے باعث جرائم کا بلا روک و ٹوک ارتکاب ہورہا ہے۔
مینوسکا کی سربراہ ویلنٹائن روگوابیزا نے خبردار کیا ہے کہ حکومت اور مشن کی متواتر کوششوں کے باوجود حالات تشویشناک ہیں، ایسے سنگین جرائم پر قابو پانے میں ناکامی کی صورت میں سلامتی کے حوالے سے اب تک کڑی محنت سے حاصل کردہ فوائد زائل ہو جائیں گے اور سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچے گا۔
امن مشن کی کاوشیںمشن نے تشدد پر قابو پانے کے لیے شہریوں کو تحفظ دینے اور متاثرہ علاقوں میں ریاستی رٹ بحال کرنے سے متعلق اقدامات بھی کیے ہیں۔ اکتوبر 2024 کے بعد اس نے ڈیمبیا میں اپنی فورس تعینات کر کے وہاں عارضی ٹھکانہ قائم کیا۔ جنوری میں اس نے ملکی مسلح افواج کے اہلکاروں کی تعداد میں اضافے اور سلامتی کی صورتحال کو مضبوط بنانے کی حمایت کی۔
اقوام متحدہ کے مشن نے نومبر میں علاقائی گورنر کو ڈیمبیا کے دورے میں سہولت دی اور مقامی لوگوں کے مابین بات چیت اور مفاہمت کو فروغ دینے میں مدد فراہم کی۔
ملکی حکومت نے بھی تشدد سے نمٹنے کے اقدامات اٹھائے ہیں اور متاثرہ لوگوں کو انصاف تک رسائی دینے اور جرائم کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کے لیے ٹریبونل بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اقوام متحدہ مسلمان وسطی افریقہ یو این ایچ سی آر