Express News:
2025-03-09@12:19:34 GMT

زیلنسکی اور پاکستانی سیاست دان

اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT

یہ دنیا ہمیشہ سے طاقت کے توازن سیاست کے پیچ وخم اور اقتدار کے کھیل کی اسیر رہی ہے۔ کہیں بڑی طاقتیں اپنے مفادات کے لیے کمزور ریاستوں کو شطرنج کے مہروں کی طرح استعمال کرتی ہیں توکہیں کمزور ملک اپنی بقا کے لیے طاقتوروں کی چوکھٹ پر سر جھکانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کی حالیہ تلخ کلامی نے ایک بار پھر ان رویوں کو نمایاں کردیا ہے جو عالمی سیاست کا حصہ بن چکے ہیں۔ ایک سپر پاور کا رہنما جو سمجھتا ہے کہ دنیا اس کے اشاروں پر ناچنے کے لیے بنی ہے اور ایک چھوٹے ملک کا صدر جو اپنے ملک کے دفاع کی خاطر اپنی عزت نفس کو بھی داؤ پر لگانے کے لیے تیار نظر آتا ہے۔

یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ امریکی صدر نے کسی دوسرے ملک کے رہنما کے ساتھ اس طرح کا برتاؤکیا ہو۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں امریکا نے اپنے مفادات کی خاطر دوست اور دشمن کے ساتھ یکساں رویہ اختیار کیا۔ یوکرین جو ایک طویل عرصے سے روس اور مغرب کے درمیان سینڈوچ بنا ہوا ہے ،اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔

زیلنسکی جو ایک مزاحیہ اداکار سے سیاستدان بنے، اب ایک ایسے میدان میں کھڑے ہیں جہاں لفظوں کی جنگ کے ساتھ ساتھ ہتھیاروں کی جنگ بھی لڑی جا رہی ہے۔ ٹرمپ کی طرف سے ان کی قیادت پر کیے جانے والے طنزیہ وار اور زیلنسکی کی بے بسی کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ کمزور ممالک کے رہنماؤں کے پاس اکثر دو ہی راستے ہوتے ہیں یا تو وہ طاقتوروں کی خوشنودی حاصل کریں یا پھر مزاحمت کی راہ اپنائیں جس کے نتائج کی قیمت ان کے عوام کو چکانی پڑتی ہے۔

اگر ہم اس ساری صورتِ حال کو پاکستانی سیاست کے تناظر میں دیکھیں تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں نے ماضی کے ان تجربات سے کچھ سیکھا ہے یا نہیں۔ کیا ہم نے اپنی خارجہ پالیسی کو خود مختاری کی راہ پرگامزن کیا ہے یا ہم بھی اب تک طاقتور ممالک کے رحم وکرم پر ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی سیاست آج بھی انھی الجھنوں میں الجھی ہوئی ہے جہاں شخصیات اداروں سے زیادہ طاقتور نظر آتی ہیں اور قومی مفاد ذاتی مفاد کے نیچے دب کر رہ جاتا ہے۔

پاکستانی سیاست میں بھی کئی ایسے کردار موجود ہیں جو زیلنسکی کی طرح اقتدار میں تو آ گئے مگر انھیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ اقتدار کی کرسی کانٹوں سے بھری ہوتی ہے۔ انھیں بھی اندرونی اور بیرونی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے انھیں بھی طاقتور قوتوں کے اشاروں پر چلنا پڑتا ہے اور اگر وہ ان اشاروں کو نظر اندازکرنے کی کوشش کریں تو ان کے خلاف ایسی فضا ہموار کر دی جاتی ہے کہ انھیں اقتدار سے الگ ہونے میں دیر نہیں لگتی۔

تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں کئی رہنما عوامی حمایت کے ساتھ آئے مگر جب انھوں نے اپنے فیصلے خود کرنے کی کوشش کی تو یا تو انھیں عبرت کا نشان بنا دیا گیا یا پھر انھیں اپنی بقا کے لیے سودے بازی پر مجبور ہونا پڑا۔

ٹرمپ اور زیلنسکی کی گفتگو میں جو غرور اور بے بسی نظر آئی وہ پاکستان کی سیاست میں بھی عام ہے۔ طاقتور اورکمزورکا یہ کھیل ہمارے ہاں بھی جاری ہے۔ یہاں بھی کچھ سیاستدان خود کو ناقابلِ تسخیر سمجھتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے بغیر ملک کا نظام نہیں چل سکتا کہ عوام کی محبت ان کے ساتھ ہے اور انھیں کوئی چیلنج نہیں کرسکتا۔

دوسری طرف کچھ ایسے بھی ہیں جو ہرحال میں اقتدار میں رہنے کے لیے ہر قسم کی مصلحت اختیار کر لیتے ہیں۔ وہ یہ تسلیم کرچکے ہیں کہ انھیں کب بولنا ہے اور کب خاموش رہنا ہے کب سر اٹھانا ہے اور کب جھک جانا ہے۔ ان کے نزدیک سیاست نظریات کا نام نہیں بلکہ اقتدار حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔

پاکستان میں ایک عرصے سے سیاستدانوں کی وفاداریاں بدلنے اصولوں کی قربانی دینے اور وقتی فائدے کے لیے دیرپا نقصانات کو نظر انداز کرنے کی روایت قائم ہے۔ خارجہ پالیسی ہو یا داخلی معاملات یہاں فیصلے اکثر ان بنیادوں پر کیے جاتے ہیں جو عارضی طور پر فائدہ تو دے سکتی ہیں لیکن طویل المدتی نقصان کی بنیاد بھی رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بین الاقوامی محاذ پر اب تک کوئی مضبوط مقام حاصل نہیں کر سکے۔

پاکستان میں بھی کئی مواقع ایسے آئے جب قیادت کو ایک واضح موقف اختیار کرنا تھا مگر یا تو دباؤ میں آ کر فیصلے تبدیل کردیے گئے یا پھر وقتی فائدے کے لیے کمزور سودے بازی کر لی گئی۔ امریکا، چین، روس، سعودی عرب،ایران ان تمام ممالک کے ساتھ تعلقات میں ہمیں کئی بار ایسے لمحات کا سامنا کرنا پڑا جہاں خود مختاری اور مفادات میں توازن برقرار رکھنا ضروری تھا مگر اکثر ہم یہ توازن برقرار نہیں رکھ سکے۔

ہم کبھی ایک جانب جھک جاتے ہیں اورکبھی دوسری جانب اور اس دوران قومی مفاد پیچھے رہ جاتا ہے۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستانی سیاستدان ٹرمپ اور زیلنسکی کے حالیہ مکالمے سے کچھ سیکھیں گے؟ کیا وہ اس حقیقت کو تسلیم کریں گے کہ دنیا میں عزت صرف انھیں ملتی ہے جو اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہیں جو کمزور نہیں بلکہ مضبوط نظر آتے ہیں؟ کیا ہماری قیادت یہ سمجھ پائے گی کہ عالمی سیاست میں عزت مانگنے سے نہیں بلکہ اپنی پالیسیوں سے حاصل کی جاتی ہے؟

پاکستانی سیاستدانوں کے لیے سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ انھیں اپنے فیصلے خود کرنے کی عادت ڈالنی ہوگی، انھیں خارجہ پالیسی کو کسی اور کے اشاروں پر نہیں بلکہ قومی مفاد کے مطابق ترتیب دینا ہوگا۔ انھیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ وقتی فائدے کے لیے کی جانے والی سودے بازی آنے والے وقت میں نقصان کا سبب بنے گی۔

یہی وقت ہے کہ پاکستانی قیادت اپنی داخلی اور خارجی پالیسیوں پر از سرِ نو غور کرے وہ رویے بدلے جو ہمیں کمزور ظاہرکرتے ہیں وہ حکمتِ عملی اپنائے جو ہماری خود مختاری کو مضبوط کرے۔ اگر ہم نے تاریخ سے سبق نہ سیکھا اگر ہم نے ماضی کی غلطیاں دہرانا جاری رکھا تو ہمیں بھی ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جن کا سامنا آج زیلنسکی کررہے ہیں۔ ہم کب تک دوسروں کے فیصلوں پر اپنی سیاست کرتے رہیں گے؟ کب تک ہم طاقتوروں کے سامنے سر جھکانے کو سفارت کاری کا نام دیتے رہیں گے؟

یہ وقت فیصلہ کرنے کا ہے۔ ہمیں اپنی سیاست میں وہ شعور اور خود داری پیدا کرنی ہوگی جو ہمیں کمزور کے بجائے طاقتورکی صف میں کھڑا کر سکے۔ اگر ہم نے یہ نہ کیا تو ہماری سیاست بھی ہمیشہ ایسے ہی رہنماؤں کے گرد گھومتی رہے گی جو زیلنسکی کی طرح بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں اور ٹرمپ جیسے طاقتور ان پر اپنی مرضی تھوپتے رہیں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستانی سیاست زیلنسکی کی سیاست میں نہیں بلکہ کا سامنا کرنے کی کے ساتھ میں بھی ہے اور کے لیے اگر ہم ہیں جو

پڑھیں:

سیاست سے تعلیم تک، خواتین تبدیلی لا رہی ہیں اور مستقبل کی تشکیل کر رہی ہیں، شازیہ مری

اپنے پیغام میں رہنما پیپلز پارٹی نے کہا کہ حقیقی برابری کے لیے پورے معاشرے کو کردار ادا کرنا ہے، مردوں کو خواتین کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہوگا، آج کے دن ہمیں یہ عہد کرنا ہوگا کہ پاکستان کی ہر عورت آزاد، بااختیار اور مساوی ہوگی۔ اسلام ٹائمز۔ رہنما پاکستان پیپلز پارٹی شازیہ مری نے کہا ہے کہ سیاست سے تعلیم تک، خواتین تبدیلی لا رہی ہیں اور مستقبل کی تشکیل کر رہی ہیں، ایک عورت تعلیم حاصل کرتی ہے تو پورا گھر اور معاشرہ تعلیم یافتہ ہوتا ہے۔ شازیہ مری نے عالمی یومِ خواتین کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ خواتین کی معاشرے میں صلاحیتوں کو تسلیم کرنے کے لیے عالمی یومِ خواتین منایا جاتا ہے، اس سال خواتین کا عالمی دن ہر خاتون کے حقوق اور مواقع تک مساوی رسائی یقینی بنانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی خواتین نے ہر شعبۂ زندگی میں ثابت قدمی، بہادری اور قیادت کا مظاہرہ کیا ہے، خواتین کو بااختیار بنانا ہماری قومی ترقی کے لیے ناگزیر ہے، خواتین کو مساوی حقوق، مواقع دینے سے معاشرے زیادہ خوشحال، پُرامن اور پائیدار ہوتے ہیں۔

شازیہ مری کا کہنا ہے کہ خواتین کے تحفظ، تعلیم اور معاشی آزادی کے لیے پالیسیاں بہتر بنانے کے لیے سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے، معاشی ترقی کے لیے پاکستان کی لیبر فورس میں خواتین کی شراکت کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ شازیہ مری نے کہا کہ اکثر خواتین کو کام کرنے کے لیے سازگار ماحول میسر نہیں ہوتا، صنفی بنیادوں پر تشدد، امتیازی سلوک اور معاشی عدم مساوات کا خاتمہ ضروری ہے، کوئی قوم کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک اس کی نصف آبادی پیچھے رہ جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم مضبوط قوانین، مساوی تنخواہ، لڑکیوں کی تعلیم، اور صنفی تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ شازیہ مری نے یہ بھی کہا کہ حقیقی برابری کے لیے پورے معاشرے کو کردار ادا کرنا ہے، مردوں کو خواتین کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہوگا، آج کے دن ہمیں یہ عہد کرنا ہوگا کہ پاکستان کی ہر عورت آزاد، بااختیار اور مساوی ہوگی۔

متعلقہ مضامین

  • عمر شہزاد کی دل چھو لینے والی نعت خوانی
  • ہمارااولین مسئلہ اپنی سانسیں برقرار رکھنا ہے!
  • ٹرمپ کی روس سے مفاہمت… چال یا حقیقت
  • خوشی کا حصول
  • سیاست سے تعلیم تک، خواتین تبدیلی لا رہی ہیں اور مستقبل کی تشکیل کر رہی ہیں، شازیہ مری
  • زیلنسکی کیلئے تیسری عالمی جنگ کا خطرہ لاپرواہی ہے، فیصل محمد
  • یوکرین کا مزاحیہ اداکار ’ولادیمیر زیلنسکی‘ عہدہ صدارت تک کیسے پہنچا؟
  • بھارت فوری طور پر مقبوضہ کشمیر سے اپنی فوجیں نکالے ، پاکستانی دفترخارجہ
  • زاغوں کے تصرف میں عقابوں کا نشیمن