ٹرمپ کی روس سے مفاہمت… چال یا حقیقت
اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT
کیا اب دنیا میں دائمی امن کا بول بالا ہونے والا ہے؟ اور بڑی طاقتوں کی باہمی جنگ اب ہمیشہ کے لیے ختم ہونے والی ہے؟ لگتا ہے اب ایسا ہی ہونے والا ہے کیونکہ امریکا جیسی اس وقت کی سپر پاور اور مضبوط فوجی طاقت جنگ سے گریزکی پالیسی اپنانے پر مائل نظر آتی ہے۔
دنیا میں اس وقت جدید فوجی ساز و سامان سے لیس تین ہی ممالک ہیں جن کے آپس میں ٹکراؤ سے دنیا پہلی اور دوسری عالمی جنگوں سے زیادہ تباہ و برباد ہو سکتی ہے۔ یہ تباہی اس لیے زیادہ خوفناک ہوگی کیونکہ اب پہلے سے کہیں زیادہ مہلک ہتھیار تیار ہو چکے ہیں۔
دنیا میں پہلے جو دو خوفناک عالمی جنگیں ہو چکی ہیں، وہ اس وقت کی بڑی طاقتوں کے درمیان باہمی چپقلش کا نتیجہ تھیں، ان دونوں جنگوں نے سوائے تباہی و بربادی کے انسانوں کو کچھ نہیں دیا۔
اسے قدرت کا کرشمہ ہی کہیے کہ اس نے انسانوں کو مزید جنگوں کی تباہی و بربادی سے بچانے کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ذہن میں یہ بات ڈال دی ہے کہ دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی تباہی سے بچایا جائے۔
کیا کوئی پہلے سوچ بھی سکتا تھا کہ کوئی امریکی صدر اپنے ملک کے دشمن نمبر ایک روس کی اقوام متحدہ میں حمایت کرے اور اپنے پرانے اتحادیوں کی پیش کردہ قرارداد سے روس کو جارح ملک کہنے کے الفاظ کو حذف کرا دے۔
پھر اپنے اتحادی یورپی ممالک کو یوکرینی صدر زیلنسکی کے بارے میں نرم رویہ اختیار کرنے اور روس کے خلاف اس کی کسی بھی قسم کی مدد کرنے سے منع کرے۔ گزشتہ دنوں زیلنسکی بڑی امیدوں کے ساتھ ٹرمپ سے ملنے گئے تھے کہ وہ دل کھول کر روس کے خلاف بول کر اور اپنے قیمتی نایاب معدنی ذخائر کا امریکا سے معاہدہ کر کے ٹرمپ سے نہ صرف خوب داد و تحسین وصول کریں گے بلکہ اپنے ملک کے لیے امریکی حمایت اور جدید اسلحے کے ساتھ ہی مالی امداد بھی حاصل کرلیں گے۔
مگر ہوا یہ کہ زیلنسکی کی تمام حسرتیں دل ہی میں گھٹ کر رہ گئیں۔ یوکرینی نایاب معدنیات پر سمجھوتہ ہوتا تو کجا نہ انھیں کسی قسم کی امداد کی پیش کش کی گئی اور نہ ان کی پذیرائی کی گئی بلکہ ٹرمپ اور ان کے نائب صدر نے انھیں ایسی کھری کھری سنائیں کہ وہ روس کے خلاف ساری ہی شکایتیں بھول گئے اور غصے میں اٹھ کر واپس چلے گئے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے پوتن کے خلاف بات کرنے پر انھیں اوول آفس سے باہر نکال دیا تھا۔
اب زیلنسکی کی اس توہین کے بعد بعض یورپی ممالک جن میں برطانیہ اور فرانس پیش پیش ہیں اسے سہارا دے رہے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم نے لندن میں اس سے خود بھی ملاقات کی ہے اور بادشاہ چارلس سے بھی ملاقات کرائی ہے جو ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ برطانوی وزیر اعظم نے زیلنسکی کو ہر طرح کی مدد کرنے کی پیش کش کی ہے۔
انھوں نے یوکرین میں اپنے 20 ہزار فوجی بھی بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ فرانس اور جرمنی بھی زیلنسکی کی مدد کرنے کے لیے تیار ہیں تاہم ان ممالک کا زیلنسکی کی مدد کرنا ٹرمپ کی نئی پالیسی کے خلاف ہے۔ جرمنی، برطانیہ اور فرانس صدر ٹرمپ کی زیلنسکی کی مدد نہ کرنے اور روس کی حمایت کرنے کو یورپ کے لیے خطرناک قرار دے رہے ہیں۔
ان کا موقف ہے کہ یوکرین پر روسی قبضے کے بعد یورپی ممالک روسی جارحیت کا نشانہ بن سکتے ہیں مگر انھیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ان کی حفاظت کی ذمے داری امریکا نے اٹھائی ہوئی ہے۔
دوسری جنگ عظیم میں امریکا کی طاقت کے بل بوتے پر ہی یورپ نے ہٹلر کے خلاف جنگ جیتی تھی، اب صدر ٹرمپ نے واضح طور پر اعلان کر دیا ہے کہ وہ یورپی ممالک کے دفاع کا خرچ برداشت نہیں کرسکتے، اب انھیں یا تو اس خرچ میں حصہ ڈالنا چاہیے یا پھر اپنی حفاظت کا خود انتظام کرنا چاہیے۔
صدر ٹرمپ اس وقت امریکی اخراجات کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ یو ایس ایڈ جیسی برسوں سے غریب ممالک کے لیے جاری امداد کو بھی بند کرچکے ہیں۔ وہ ملک میں کئی اداروں میں ملازمین کی چھانٹی بھی کر رہے ہیں۔
اس طرح انھیں یورپ کی سیکیورٹی پر خرچ ہونے والی رقم بھی بھاری پڑ رہی ہے۔ وہ رفتہ رفتہ نیٹو کو بھی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ زیلنسکی نے یورپی ممالک سے گہرے تعلقات قائم کر لیے ہیں تاکہ وہ اسے نیٹو کا ممبر بننے میں مدد کریں مگر یہ دراصل روس کے ساتھ یوکرین کے معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی کیونکہ روس نے اپنی تمام یورپ سے ملحق ریاستوں کو اس شرط پر آزادی دی تھی کہ وہ نیٹو کا ممبر نہیں بنیں گی مگر زیلنسکی اس معاہدے کی خلاف ورزی کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
تاہم امریکی پالیسی کی وجہ سے یوکرین کبھی بھی نیٹو کا ممبر نہیں بن سکے گا۔ زیلنسکی نے کمال ہوشیاری سے یورپ کے تمام ممتاز ممالک سے اس لیے تعلقات قائم کر لیے ہیں تاکہ اسے نیٹو کی ممبر شپ حاصل ہو جائے اور پھر نیٹو کی افواج اسے روسی حملوں سے بچا سکے۔ دراصل زیلنسکی کو قابل رحم بنانے والے سابق صدر بائیڈن تھے، انھوں نے روس کے خلاف یوکرین کی بھاری مالی امداد کی تھی، ساتھ ہی جدید اسلحہ بھی دیا تھا۔
اب بائیڈن کی اس دریا دلی پر ٹرمپ نے سخت ایکشن لیا ہے اور زیلنسکی سے امریکی امدادی رقم واپس کرنے کا مطالبہ کیا ہے جس کے بدلے میں زیلنسکی نے اپنے نایاب معدنی ذخائر کو امریکا کے حوالے کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
زیلنسکی صدر ٹرمپ سے اپنے مذاکرات کی ناکامی کے بعد بہت پریشان ہیں، وہ بائیڈن کے مقابلے میں ٹرمپ کو یورپ کا دشمن کہہ رہے ہیں مگر بات یورپ کی نہیں بلکہ یوکرین کی ہے جو روس سے کیے گئے اپنے معاہدے کو توڑنے کے در پے ہے۔
ٹرمپ زیلنسکی کو مشورہ دے چکے ہیں کہ وہ روس سے صلح کر لے، ورنہ وہ پورا یوکرین ہی کھو دیں گے مگر زیلنسکی اس خوش فہمی میں ہیں کہ وہ روس سے جنگ جاری رکھ کر اپنے مقبوضہ علاقے واپس لے لیں گے اور یوکرین کی آزادی کو کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ زیلنسکی کی ہمت بڑھانے میں برطانوی حکومت کا اہم کردار ہے۔
سابقہ برطانوی حکومتوں کا رویہ بھی منافقانہ رہا ہے۔ جرمنی سے دوسری جنگ عظیم میں امریکا کے ملوث ہونے کا سبب بھی اس وقت کی برطانوی حکومت تھی اب روس سے جنگ جاری رکھنے اور ٹرمپ کو اپنی امن پالیسی کو چھوڑ کر روس اور چین سے دشمنی جاری رکھنے کا خواہاں ہے مگر لگتا ہے ٹرمپ اب دنیا سے جنگ و جدل کو ختم کرانے کا ارادہ کر چکے ہیں۔
وہ غزہ کی جنگ کو پہلے ہی ختم کرا چکے ہیں اور امید ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کے قیام کو بھی ممکن بنا کر رہیں اور اس سلسلے میں نیتن یاہو کی تمام شیطانی چالوں کو خاک میں ملا دیں گے۔ پوری دنیا صدر ٹرمپ کے اس امن پسندانہ نئے رجحان کو سراہ رہی ہے اور ایک امن پسند دنیا کے خواب کی تعبیر کا سہرا صدر ٹرمپ کے سر بندھنے کے لیے وقت کا انتظار کر رہی ہے۔
دوسری جانب کچھ لوگ ٹرمپ کی یکایک امن پسندی اختیار کرنے کو ان کی ایک چال قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق وہ دراصل روس کو ضرورت سے زیادہ فیور دے کر اس کے چین کے ساتھ تعلقات کو خراب کرنے کی چال چل رہے ہیں مگر یہ ناممکن لگتا ہے کہ روس اور چین کے باہمی تعلقات خراب ہو سکیں۔ ٹرمپ سے پہلے سابق صدر رچرڈ نکسن بھی چین سے دوستی کرکے اس کے روس سے تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش کر چکے ہیں مگر ان کی چال کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: یورپی ممالک روس کے خلاف زیلنسکی کی ہیں مگر چکے ہیں کے ساتھ رہے ہیں کرنے کی ٹرمپ کی کے لیے کی مدد
پڑھیں:
اسلامی ممالک نے غزہ کی بحالی کے مصری منصوبے کی توثیق کر دی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 مارچ 2025ء) اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے آج آٹھ مارچ بروز ہفتہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر ممکنہ قبضے اور اس کے رہائشیوں کو بے گھر کرنے کے مجوزہ منصوبے کے متبادل عرب لیگ کی جوابی تجویز کی باضابطہ طور پر منظوری دیتے ہوئے عالمی برادری سے اس علاقائی اقدام کی حمایت کرنے کا مطالبہ کیا۔
اسلامی ممالک پر مشتمل 57 رکنی گروپ کا یہ فیصلہ سعودی عرب کے شہر جدہ میں ایک ہنگامی اجلاس میں کیا گیا۔ یہ ہنگامی اجلاس قاہرہ میں عرب لیگ کی طرف سے ایک سربراہی اجلاس میں غزہ سے متعلق منصوبے کی پردہ کشائی کے تین دن بعد منعقد کیا گیا۔
اجلاس کے بعد جاری کیے گئے ایک اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ او آئی سی نے ''غزہ کی جلد بحالی اور تعمیر نو کے منصوبے کو اپنایا ہے۔
(جاری ہے)
‘‘ مسلم دنیا کی نمائندگی کرنے والی اس تنظیم نے ''عالمی برادری اور بین الاقوامی اور علاقائی مالیاتی اداروں سے فوری طور پر اس منصوبے کے لیے ضروری تعاون فراہم کرنے‘‘ پر بھی زور دیا۔ٹرمپ کا حالیہ بیان اس وقت عالمی سطح پر غم و غصے کی وجہ بنا، جب انہوں نے امریکہ کو غزہ پر ''قبضہ‘‘ کرنے اور اسے ''مشرق وسطیٰ کے رویرا‘‘ یعنی ایک سیاحتی مقام میں تبدیل کرنے کا مشورہ دیا۔
ٹرمپ نے غزہ کے فلسطینی باشندوں کو مصر یا اردن منتقل کر دینے کا ارادہ بھی ظاہر کیا تھا۔مصری وزیر خارجہ بدرعبدا لعاطی نے او آئی سی کی توثیق کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ اب وہ امریکہ سمیت وسیع تر بین الاقوامی برادری کی حمایت حاصل کرنے کی امید رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''اگلا قدم یورپی یونین اور بین الاقوامی فریقین جیسے جاپان، روس، چین اور دیگر کی طرف سے اسے اپنائے جانے کے بعد غزہ کے لیے ایک بین الاقوامی منصوبہ بننا ہے۔
‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''یہ وہی ہے جس کے لیے ہم کو شش کریں گے اور ہم امریکہ سمیت تمام فریقین سے رابطے میں ہیں۔‘‘ تاہم غزہ کی تعمیر نو کے لیے مصری تجویز، جس میں غزہ کو کنٹرول کرنے والی عسکریت پسند تنظیم حماس کا ذکر نہیں، امریکہ اور اسرائیل دونوں پہلے ہی مسترد کر چکے ہیں۔امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے جمعرات کو صحافیوں کو بتایا تھا کہ یہ منصوبہ واشنگٹن کی ''توقعات پر پورا نہیں اترتا۔
‘‘ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف نے تاہم اس پر زیادہ مثبت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے ''مصریوں کی طرف سے نیک نیتی کا پہلا قدم‘‘ قرار دیا۔ٹرمپ کے غزہ کے لیے منصوبے کی مخالفت میں عرب ممالک متحد ہو گئے ہیں۔ قاہرہ میں قائم تھنک ٹینک الاحرام سینٹر فار پولیٹیکل اینڈ اسٹریٹیجک اسٹڈیز سے منسلک سیف عالم نے کہا کہ مصر اپنی تجویز کے لیے ''وسیع حمایت‘‘ کا خواہاں ہے۔ انہوں نے کہا، ''یہ ایک وسیع اتحاد بنانے کی مصری کوشش ہے جو غزہ سے فلسطینیوں کی نقل مکانی کے خلاف ہے۔‘‘
ش ر⁄ ع ب، ع س (اے ایف پی)