Express News:
2025-03-09@12:17:31 GMT

بدلتے ادوار اور پرتشدد رویے

اشاعت کی تاریخ: 8th, March 2025 GMT

زینب خالہ نے بہت سے ادوار دیکھے تھے، ایک وقت وہ بھی تھا جب اماں منہ اندھیرے اسے آواز لگاتیں’’ زینب بیٹا، اب اٹھ جاؤ، شاباش! جلدی کرو‘‘ وقت کا پنچھی پلک جھپکتے ہی پرواز شروع کردیتا ہے اور پتا ہی نہیں چلتا ہے کہ کب فضاؤں میں گم ہوگیا ہے۔

اماں جب تیسری آواز لگاتیں تو جس میں کرختگی اپنی جگہ بنا لیتی، اماں کا ذرا سا غصہ ہی زینب کو گھر کے کاموں کی طرف مائل کر دیتا۔

مساجد سے قرآن پاک کی تلاوت کی سحر انگیزی ماحول کو نورانی بنا دیتی۔ زینب سحری بنانے کے لیے مٹی کے چولہے میں لکڑیاں ڈال کر ماچس لگاتی اگر لکڑیوں میں کچھ نمی باقی ہوتی تب وہ گھاسلیٹ کی بوتل کھولتی اور چند قطرے ڈالتی، دیکھتے ہی دیکھتے آگ بھڑکتی اور پھر سرخ، سرخ غضب ناک انگاروں کی صورت میں نظر آنے لگتی۔ وہ اصلی گھی کے پراٹھے اور انڈوں کا خواگینہ بنا کر دسترخوان پر سجا دیتی۔

اماں، ابا منہ ہاتھ دھوکر دسترخوان کے گرد بیٹھ جاتے، چھوٹا بھائی بھی جاگ جاتا اور دسترخوان پر آن دھمکتا۔ زینب مٹی کے نقشین اور خوب صورت رنگوں اور پھولوں سے مزین پیالوں میں چائے نکالتی اور پھر اماں، ابا کی دعاؤں کے حصار میں آ کر بیٹھ جاتی۔

افطاری بنانے کے لیے اماں بھی اس کی مددگار ہوتیں، قسم قسم کی مزے دار چیزیں بنائی جاتیں اور افطاری کے مزے لوٹے جاتے، ابا کی تنخواہ کم تھی لیکن برکت بہت تھی، کم پیسوں میں بھی گھر کا خرچ شان دار تھا۔ بجلی، گیس کے جھنجھٹ سے بھی آزادی میسر تھی۔

 گئے وقتوں میں مخلوط تعلیم اور محافل کو ہر شخص بری نگاہ سے دیکھتا ،اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی کمزور کردار کے مالک بن چکے ہیں،اور لوگ اپنی اولاد کے تحفظ کے لیے انھیں ایسے مکاتب و مدارس میں داخل کرواتے تھے جہاں حقیقی معنوں میں مولوی اور اساتذہ دین کا شعور رکھتے تھے۔ 

اپنی طالب علم بچیوں کی حفاظت اسی طرح کرتے تھے جس طرح اپنے بیٹے، بیٹیوں کے تحفظ کے لیے ہر لمحہ انھیں اپنی نگرانی میں رکھا جاتا ہے، ہر بات کی فکر، دیر سے کیوں آئے،کہاں گئے تھے، دوستی کن لوگوں سے ہے، کیا وہ اس قابل ہیں کہ ان سے دوستی کی جائے؟ وقت گزرتا گیا، قدریں بھی بدل گئیں، خیالات بدل گئے، حالات بدل گئے، اب رزق حلال کھانے والے آٹے میں نمک کے برابر رہ گئے ہیں، بے ایمانی عروج پر ہے،کسی نہ کسی طریقے سے ہر شخص کا ہیرا پھیری کرنا ایک عام سی بات بن گئی ہے۔

کل والی زینب ایک اسمارٹ اور ماڈرن لڑکی کے طور پر سامنے آئی ہے اور اب وہ افطاری اور سحری بنانے پر یقین نہیں رکھتی ہے اور چونکہ فوڈ پہنچانے والی کمپنیاں تمام ضرورتیں پوری کر دیتی ہیں، پیسے کی کمی نہیں ہے ناجائز ذرایع سے خوب دولت آ رہی ہے اور پورا کنبہ عیش کر رہا ہے۔ زینب کے اماں ابا بھی روشن خیال ہوگئے ہیں، مدارس، اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ کے ہاتھوں عزت و ناموس محفوظ نہ رہ سکی، اسمارٹ فون نے بچوں، بوڑھوں، جوانوں غرض سب کو ہی اتنا اسمارٹ بنا دیا ہے کہ اندھیرے اجالوں کی تمیز ختم ہو گئی ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گیس، بجلی نے گھرکی رونقوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ سب خوش ہیں، کسی کو کسی کی پرواہ نہیں ہے، بس اپنا بھلا چاہتے ہیں، تعیشات زندگی کا خواہاں انسان، غیرت اور انا کو داؤ پر لگا بیٹھا ہے، بس پیسہ آنا چاہیے خواہ وہ بھیک مانگ کر آئے یا کسی کی تجوری سے چوری کرکے، اپنے بھائی کا گلا کاٹ کے، یتیم کا مال کھا کے، والدین کو قتل کرکے، بہنوں کا شرعی حق غصب کر کے۔ 

آج محتاج خانے، ان ماں باپ اور بہنوں سے آباد ہیں جو کبھی اپنے بچوں کے ساتھ اپنے گھروں میں پرسکون زندگیاں گزار رہے تھے لیکن بچوں کے بالغ ہوتے ہوئے انھوں نے والدین پر حکم چلانا شروع کر دیا، بیویوں کی شکایت پر اپنی جنت کو اپنے ہی پیروں تلے روند ڈالا، اس پر بھی چین نہیں پڑا اور جب ماں باپ کانٹا بن گئے، بوجھ بن گئے، تب انھوں نے وہ راستہ اختیار کیا جو جہنم کی سمت جاتا ہے، گناہ کے بیج بونے کے پھل بھی کڑوے ہی ہوتے ہیں۔ 

انسان کے اندر درندگی پیدا کر دیتے ہیں، آج کا انسان حیوان بن چکا ہے، وہ عقل سے اندھا ہے، بہرہ ہے، حق بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی ہے، وہ باطل قوتوں کا اسیر ہے۔ اس کے صبح شام ایسے کام کرتے ہوئے گزرتے ہیں جن سے اللہ راضی نہیں ہے، وہ ناراض ہے، اسے منانے کا کسی کو ہوش نہیں۔ جب اللہ ناراض ہو جاتا ہے تو حادثات و حوادث اور قدرتی آفات انسان کے گرد گھیرا تنگ کر لیتی ہیں۔

سوچنے کی بات ہے کئی عشروں سے سانحات اور ظلم و تشدد نے معاشرے کا سکون غارت کر دیا ہے۔ معصوم بچیوں کا اغوا دوستوں کا ایک دوسرے پر فائرنگ کرنا اور بھیانک قتل و غارت کہ کل جو دل و جان تھے ہر معاملے میں ساتھ تھے آج اس کے ہی جسم کے ٹکڑے ایسے کر دیے جیسے سالگرہ کا کیک کاٹ رہے ہوں، سفاکیت کی انتہا کر دی، نہ اللہ کا خوف اور نہ قانون کا ڈر اور نہ ہی اپنی عزت اور والدین کی ناموس کا احساس۔ قاتل کی اللہ نے معافی نہیں رکھی ہے یہاں تک کہ اس کا بھی انجام ہلاکت خیز ہو یا پھر قصاص کی رقم ادا کر دے، اگر مقتول کے وارث اس بات کے لیے راضی ہو جائیں۔

یہ فتنہ گری نماز سے دوری اور اللہ کے احکام کی روگردانی کی وجہ سے اس قدر آگے بڑھ گئی ہے کہ روشن راستے اندھیروں میں بدل گئے ہیں۔لوگ اب برے کام کرکے شرمندہ نہیں ہوتے ہیں بلکہ سینہ تان کر اور نظر اٹھا کر چلتے ہیں، بے شک جس شخص کو اللہ کا ڈر نہیں اسے کسی کا خوف نہیں ہوتا ہے۔ 

وہ جانتا ہے کہ دولت کے انبار ہیں اس کے پاس، ہر بڑے سے بڑے عہدے پر فائز شخص کا منہ بند کرنے کے لیے کافی ہے۔وقتی طور پر پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے جب اللہ کی پکڑ اس کی عبرت ناک موت بن جاتی ہے۔

آج تک جن لوگوں نے مال و دولت لوٹا ہے، زندگی کو جنت بنایا ہے انھوں نے گویا جہنم میں تو جگہ بنا ہی لی ہے اس کے ساتھ ساتھ وہ چین کی دولت گنوا بیٹھے، قدرتی طور پر ایسی ایسی آزمائشوں میں ڈالے گئے کہ انھیں اس وقت خدا یاد آگیا، کہیں اولاد پر مصیبت نازل ہوگئی، کبھی گھر بار برباد ہو گیا، تو کبھی کسی اور مصیبت میں پھنس گئے۔ نیک اور صادق و باعزت لوگ بھی مسائل کا شکار اور دکھوں و غموں میں مبتلا ہوتے ہیں، یہ اللہ کی طرف سے ان کی آزمائش یا پھر دنیا کے مصائب کا اللہ کے پاس بہترین اجر ان کے لیے مختص کیا جاتا ہے۔

اللہ بڑا رحیم ہے جن کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں، ہمارا مہربان رب اس کے بدلے میں اسے بہترین صلے سے نوازتا ہے۔ جیسی کرنی ویسی بھرنی، ضرورت اس بات کی ہے کہ صرف اور صرف اللہ کی مانی جائے تو زندگی و موت قبر و حشر کی منزلیں آسان تر ہو جائیں گی۔ انشاء اللہ۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جاتا ہے ہے اور کے لیے

پڑھیں:

پرویز خٹک کو وزیربنانے کا فیصلہ ہمارا نہیں، نقوی خود بتائینگے کہ کس پارٹی سے تعلق ہے؟راناثناء اللہ

اسلام آباد :وزیراعظم کے مشیربرائے سیاسی امورراناثناء اللہ نے کہاہے کہ پرویز خٹک کو وزیربنانے کا فیصلہ ن لیگ کا نہیں،وزیرداخلہ محسن نقوی خود بتائیں گے کہ ان کا کس پارٹی سے تعلق ہے؟سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل(ر)فیض حمیدنے ایک بریفنگ میں کہاتھاکہ طالبان کو واپس آنےکا موقع دیاجائے ،وہ یہ بات اس وقت کے آرمی چیف جنرل (ر)قمرجاویدباجوہ کی منظوری کے بغیرنہیں کرسکتے تھے۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے راناثناء اللہ نے کہاکہ پی ٹی آئی دورحکومت میں پارلیمنٹ ہاوس میں ان کیمرہ بریفنگ ہوئی تھی،اجلاس میں تمام جماعتوں کی نمائندگی موجود تھی ،صوبائی وزرائے اعلیٰ بھی موجود تھے ،اس بریفنگ میں اس وقت کے آرمی چیف قمرجاویدباجوہ موجود تھے ،اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے آنامناسب نہیں سمجھاکیونکہ انہوں نے ہمیشہ ایسی میٹنگزمیں آنے سے گریزکیاجس میں اپوزیشن موجود ہو،فیض حمید نے بریفنگ دی کہ جو لوگ افغانستان میں ہتھیاراٹھائے ہیں ان کی تعداد8سے 10ہزارہے وہ اتنے عرصے سے وہاں گئے ہوئے ہیں ان کی بیویاں اور بچے ہیں، یہ لوگ جب تک وہاں رہیں گےہمارے دردسربنے رہیں گے کیوں نہ ان کواس شرط پر واپس آنے دیاکہ ہتھیارچھوڑکرآئیں اورملک کے آئین وقانون کو تسلیم کریں۔راناثناء اللہ نے کہاکہ پنجاب ،سندھ اورخاص طور پر بلوچستان اور خیبرپختونخواسے تعلق رکھنے والے بعض ارکان نے اس پر اعتراض کیاکہ بھلے یہ لوگ خالی ہاتھ واپس آئیں لیکن ان کو کوئی اورکام تو آتانہیں وہ واپس آکروہیں کریں گے جو پہلے کرتے رہے ،تاہم طالبان کی واپسی کے حوالے سے فیض حمید کی بریفنگ اتمام حجت تھی ،اس حوالے سے فیصلہ ہوچکاتھا۔
پرویزخٹک کی کابینہ میں شمولت سے متعلق راناثناء اللہ نے کہاکہ پرویز خٹک کو وزیربنانے کا فیصلہ ن لیگ کا نہیں ،صرف ن لیگ کی حکومت ہوتی تو پرویز خٹک کابینہ کا حصہ نہ ہوتے ،پرویزخٹک کا ن لیگ سے کوئی تعلق نہیں۔اسی طرح عون چوہدری بھی ہیں انہیں بھی مسلم لیگ ن نے تو نہیں وزیربنایا۔
ایک سوال پر راناثناء اللہ نے کہاکہ محسن نقوی کی پارٹی ہے کیاوہ بغیرپارٹی کے ہیں؟تاہم انہوں نے کہاکہ نقوی خود بتائیں گے کہ ان کا کس پارٹی سے تعلق ہے؟ بطورسینیٹر ق لیگ اورآصف زرداری نے محسن نقوی کو سپورٹ کیا۔

متعلقہ مضامین

  • پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک کی کوئی فکر نہیں: عطا اللہ تارڑ
  • ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے امریکا سے مذاکرات کے دباﺅ قبول کرنے سے انکار کردیا
  • آیت اللہ سید علی خامنہ ای کا میزائل پروگرام پر پابندی کو قبول نہ کرنے کا اعلان
  • توکل
  • ’اپنا میزائل پروگرام ختم نہیں کرینگے‘، ٹرم کے خط پر ایرانی سپریم لیڈر کا جواب
  • ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کا ٹرمپ کے خط پر ردعمل
  • ٹرمپ کا آیت اللہ علی خامنہ ای کو خط‘جوہری پروگرام کو محدود کرنے اور نیا معاہدہ کرنے کی پیشکش
  • شہناز گل کی وائرل ویڈیو نے سوشل میڈیا صارفین کو مشتعل کردیا
  • پرویز خٹک کو وزیربنانے کا فیصلہ ہمارا نہیں، نقوی خود بتائینگے کہ کس پارٹی سے تعلق ہے؟راناثناء اللہ