خوشی کا حصول ہر انسان کی زندگی کا ایک بنیادی مقصد ہے۔ کوئی اسے دولت میں تلاش کرتا ہے،کوئی شہرت میں،کوئی محبت میں اورکوئی اقتدار میں تلاش کرتا ہے، لیکن جب ہم حقیقی زندگی کے تجربات پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ تمام چیزیں جنھیں ہم خوشی کا ذریعہ سمجھتے ہیں، درحقیقت سب عارضی ہیں۔
دولت، شہرت، تعلقات اور کامیابی وقتی طور پر خوشی تو دے سکتی ہیں، لیکن ان میں وہ دیرپا سکون نہیں جو دل کی گہرائیوں سے محسوس ہو۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے سب سے زیادہ مالدار، طاقتور اور مشہور لوگ بھی اکثر افسردہ، بے چین اور پریشان دکھائی دیتے ہیں، اگر خوشی کا دار و مدار صرف مادی وسائل پر ہوتا تو یہ لوگ سب سے زیادہ خوشحال ہوتے، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔
خوشی ایک اندرونی کیفیت ہے، جو دل و دماغ کے سکون سے جنم لیتی ہے۔ یہ باہر سے حاصل ہونے والی کوئی چیز نہیں، بلکہ ہمارے طرزِ فکر، طرزِ عمل اور طرزِ زندگی پر منحصر ہے، اگر ہم اپنی زندگی میں حقیقی خوشی چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا، اپنی توقعات کو محدود کرنا ہوگا اور اپنی زندگی کو ان اصولوں کے مطابق گزارنا ہوگا جو سکون اور طمانیت کی ضمانت دیتے ہیں۔
سب سے پہلی چیز جو حقیقی خوشی کے لیے ضروری ہے، وہ قناعت اور شکرگزاری ہے۔ دنیا میں وہ شخص کبھی خوش نہیں رہ سکتا جو ہر وقت دوسروں سے اپنا موازنہ کرتا رہے اور اپنی زندگی کو دوسروں کے معیار پر پرکھے۔ جو شخص یہ سوچے کہ فلاں کے پاس بڑا گھر ہے، فلاں کی گاڑی زیادہ اچھی ہے، فلاں کے پاس مجھ سے زیادہ دولت ہے، وہ کبھی بھی دل کی خوشی محسوس نہیں کر سکتا۔
حسد اور بے جا مقابلہ بازی انسان کے سکون کو برباد کر دیتے ہیں۔ اس کے برعکس، جو شخص اپنی موجودہ حالت پر مطمئن ہو، جو کچھ اس کے پاس ہے اس کی قدر کرے، زیادہ بہتر کی کوشش کرے اور ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرے، وہی حقیقی خوشی حاصل کر سکتا ہے۔
خوش رہنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ماضی کے بوجھ سے آزاد ہو جائیں۔ اکثر لوگ اپنی زندگی کے تلخ تجربات، ناکامیوں اور دکھوں کو بار بار یاد کرتے رہتے ہیں، جس سے ان کے اندر افسردگی اور مایوسی جنم لیتی ہے جو گزر چکا، اسے یاد کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، اگر کوئی شخص اپنی پرانی غلطیوں پر پچھتاتا رہے اور اپنی ناکامیوں کو سوچ کر خود کو کوستا رہے تو وہ کبھی خوش نہیں رہ سکتا۔
ہمیں چاہیے کہ ہم ماضی سے سبق سیکھیں، حال میں جئیں اور مستقبل کے لیے مثبت سوچ رکھیں۔ زندگی میں خوشی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم دوسروں سے اپنی توقعات کم کر دیں۔ اکثر لوگ اس لیے ناخوش رہتے ہیں کہ وہ دوسروں سے زیادہ امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں اور جب وہ امیدیں پوری نہیں ہوتیں تو دل ٹوٹ جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر شخص اپنی زندگی میں مصروف ہے، ہر کسی کو اپنی پریشانیاں لاحق ہیں اور کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ ہر وقت ہماری توقعات پر پورا اتر سکے۔
جو شخص دوسروں سے کم توقع رکھے گا، وہ کم مایوس ہوگا اور جو کم مایوس ہوگا، وہ زیادہ خوش رہے گا۔ خوش رہنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنی زندگی کو سادگی اور قناعت کے اصولوں پر گزاریں۔ جو شخص اپنی ضروریات کو محدود کر لیتا ہے، وہ زیادہ سکون میں رہتا ہے۔ ایک مفکرکا قول ہے کہ ’’ اگر تم اپنی خواہشات کو محدود کر لو گے تو تمہارے پاس ہمیشہ کفایت ہوگی، لیکن اگر تم اپنی خواہشات کو بڑھاتے جاؤ گے تو تم ہمیشہ محرومی کا شکار رہو گے۔‘‘
دنیا میں وہی لوگ سب سے زیادہ ناخوش ہوتے ہیں جو ہر وقت مزید حاصل کرنے کی دوڑ میں لگے رہتے ہیں اور جوکبھی یہ سوچ کر مطمئن نہیں ہوتے کہ جو کچھ ان کے پاس ہے وہ کافی ہے۔ حقیقی خوشی کا ایک اور راز دوسروں کے ساتھ حسن سلوک ہے۔ جو لوگ دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں، ان کے چہروں پر مسکراہٹ لاتے ہیں، ان کی مدد کرتے ہیں، وہ ہمیشہ زیادہ خوش رہتے ہیں۔
تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ جب ہم کسی ضرورت مند کی مدد کرتے ہیں، کسی یتیم کے سر پر ہاتھ رکھتے ہیں، یا کسی غمزدہ شخص کو تسلی دیتے ہیں تو ہمیں اپنے اندر ایک عجیب قسم کی خوشی اور سکون محسوس ہوتا ہے۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کیونکہ دوسروں کے لیے اچھائی کرنا ہماری روح کو تسکین دیتا ہے اور یہی تسکین حقیقی خوشی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
اچھے دوست اور مثبت ماحول بھی خوشی کے لیے بہت اہم ہیں، اگر ہم ایسے لوگوں کے ساتھ وقت گزاریں جو ہر وقت شکایتیں کرتے ہیں، مایوسی پھیلاتے ہیں اور ہمیں نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم کبھی خوش نہیں رہ سکتے۔
اس کے برعکس اگر ہم ایسے لوگوں کے ساتھ وقت گزاریں جو ہمیں حوصلہ دیتے ہیں، مثبت سوچ سکھاتے ہیں اور زندگی کو بہتر بنانے کے طریقے بتاتے ہیں تو ہم زیادہ خوش رہیں گے۔ اس لیے ہمیں اپنے دوستوں اور تعلقات کو بہت سوچ سمجھ کر منتخب کرنا چاہیے، کیونکہ ہمارا ماحول ہماری خوشی پر براہِ راست اثر ڈالتا ہے۔
خوشی کا ایک اور اہم ذریعہ صحت مند طرزِ زندگی ہے۔ ایک صحت مند جسم ہی ایک خوشحال دماغ کو جنم دیتا ہے، اگر ہم اپنی صحت کا خیال نہ رکھیں، بے تحاشا جنک فوڈ کھائیں، ورزش نہ کریں اور اپنی نیند پوری نہ کریں تو ہم جسمانی اور ذہنی طور پر کمزور ہو جائیں گے اور خوشی محسوس نہیں کر سکیں گے۔
ورزش، متوازن خوراک اور اچھی نیند نہ صرف ہماری جسمانی صحت کو بہتر بناتی ہے، بلکہ ہمارے مزاج کو بھی خوشگوار رکھتی ہے، لیکن سب سے بڑھ کر حقیقی خوشی اللہ کی رضا میں ہے، جو شخص اللہ پر بھروسا کرتا ہے، اس کی رضا پر راضی رہتا ہے اور اس کے ذکر سے اپنے دل کو آباد رکھتا ہے، وہی حقیقی خوشی محسوس کر سکتا ہے۔ارشاد ربانی ہے۔ ترجمہ’’ جان لو! اللہ کے ذکر میں ہی دلوں کا سکون ہے۔‘‘
جو شخص اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتا ہے، وہ دنیا کی مشکلات میں بھی پرسکون رہتا ہے،کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ ہر چیز اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہی سب کچھ بہتر کرنے والا ہے۔ نماز، دعا اور توبہ وہ ذرایع ہیں جو انسان کو اللہ کے قریب کرتے ہیں اور حقیقی خوشی کا احساس دلاتے ہیں۔
حقیقی خوشی کسی مادی شے،کسی مقام یا کسی انسان میں نہیں، بلکہ ہمارے اندر ہے، اگر ہم اپنی سوچ کو مثبت بنا لیں، قناعت اور شکرگزاری کو اپنا لیں، دوسروں کی مدد کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا میں سکون تلاش کریں تو ہمیں خوشی خود بخود مل جائے گی۔ خوشی ایک ایسی روشنی ہے جو اندر سے آتی ہے اور جب یہ روشنی دل میں موجود ہو، تو باہر کے حالات جیسے بھی ہوں، ہم ہمیشہ خوش اور مطمئن رہ سکتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اپنی زندگی دوسروں کے زیادہ خوش ہیں تو ہم زندگی کو شخص اپنی ضروری ہے اور اپنی دیتے ہیں سے زیادہ رہتے ہیں کرتے ہیں ہم اپنی خوشی کا ہوتا ہے ہیں اور کے پاس اگر ہم کے لیے ہے اور
پڑھیں:
کراچی میں کل سے گرمی کی لہر کا امکان، ہیٹ ویو کا خطرہ ہے یا نہیں؟ محکمہ موسمیات کا بیان سامنے آگیا
کراچی:شہر قائد میں کل سے گرمی کی جزوی لہر کے باعث درجہ حرارت میں اضافہ متوقع ہے۔
محکمہ موسمیات کے مطابق ہفتہ اور اتوار کو زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 38 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ سکتا ہے۔
ہوا میں نمی کا تناسب 15 سے 25 فیصد کے درمیان رہنے کا امکان ہے، تاہم محکمہ موسمیات نے واضح کیا ہے کہ اس دوران ہیٹ ویو کا کوئی امکان نہیں۔
ہیٹ ویو عام طور پر سمندری ہواؤں کی مسلسل بندش، زیادہ نمی اور درجہ حرارت 40 ڈگری سے تجاوز کرنے جیسے عوامل سے بنتی ہے جو موجودہ موسمی حالات میں متوقع نہیں۔