مذہبی سیاسی اہداف، معاشرتی تقسیم کا نقطہ آغاز(1)
اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT
اسلام ٹائمز: یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 1901ء میں آج کے خیبر پختونخوا کے علاقوں کو پنجاب سے جدا کرکے این ڈبلیو ایف پی کے نام سے الگ صوبہ بنایا گیا تھا۔ مولوی مانسہروی، مانسہرہ سے بے دخل ہونے کے بعد راولپنڈی آیا اور باغ سرداراں کی جامعہ مسجد کا امام بن گیا۔ مولوی مانسہروی تحریک خلافت کا سرگرم رکن تھا، اسی طرح مجلس احرار تحریک میں بھی فعال تھا اور شہید گنج کمیٹی کا بھی رکن تھا۔ عزیز ملک کے مطابق مولوی مانسہروی رمضان کے ایام میں ہندو دکان داروں کو کھاتا پیتا دیکھ کر گھوڑے سمیت دکانوں میں گھس جاتا تھا اور ہر چیز کو تہ و بالا کر دیتا تھا۔ تحریر: سید اسد عباس
برصغیر کے معاشرے میں ہندو، سکھ اور مسلمان صدیوں سے مل جل کر رہ رہے تھے۔ ان کے مابین اگرچہ مذہبی عقائد پر اختلاف موجود تھا اور معاشرتی رہن سہن میں بھی ان کے مذہبی عقائد کے سبب فرق تھا، تاہم اس کے باوجود دیگر مشترکات جیسا کہ نسل، زبان، ثقافت، لباس، رہن سہن، مشترکہ خطہ وہ چیزیں تھیں، جس کی وجہ سے وہ اختلافات کے ساتھ بھی مل جل کر زندگیاں گزار رہے تھے۔ سکھوں کے مذہبی اجتماعات کے موقع پر مسلمان پانی کی سبیلیں لگاتے تھے اور مسلمانوں کے اجتماعات میں سکھ اور ہندو شرکت کرکے عقیدت و محبت کا اظہار کیا کرتے تھے۔ بعض علاقائی مناسبتیں تو مکمل طور پر مشترکہ جوش و جذبہ سے منائی جاتی تھیں جیسے بیساکھی کے میلے، بسنت، جیٹھ ہاڑ کے میلے، کبڈی کے مقابلے، نیزہ بازی، بیلوں کی ریس وغیرہ وغیرہ۔
انگریز حکومت کے زیراہتمام ہونے والی 1941ء کی مردم شماری کے مطابق پنجاب کی آزاد ریاستوں کو ملا کر پورے پنجاب کی کل آبادی تین کروڑ انتالیس لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔ ان میں مسلمان 53.
ہندوستان میں معاشرتی تقسیم کا نقطہ آغاز
ہندوستان میں مسلمان، ہندو اور سکھ سینکڑوں برس ایک دوسرے کے ہمراہ زندگی کرتے رہے۔ مغل بادشاہوں کے درباروں میں تو کئی ایک ہندو اور سکھ بادشاہ کے مصاحب اور وزراء کے منصب پر بھی تعینات ہوئے۔ عالمگیر کے علاوہ ہمیں کسی بھی مغل بادشاہ کے دور میں ایسا کوئی واقعہ نظر نہیں آتا، جس میں کسی بھی مذہب یا مسلک کے ماننے والے کے ساتھ اس کے مذہب کی وجہ سے امتیازی رویہ رکھا گیا ہو۔ ہندوؤں کے دل و دماغ میں یہ درد ضرور تھا کہ مسلمان باہر سے آکر ہم پر مسلط ہوئے ہیں، تاہم عوام نے برصغیر میں موجود بندوبست کو قبول کیا ہوا تھا۔ انگریز کی آمد کے بعد تینوں مذاہب کے پیروکاروں نے مل کر انگریز کے خلاف جنگ آزادی لڑی اور اس میں قربانیاں پیش کیں۔ ہندو اور سکھ قائدین نے جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد اپنی حکمت عملی کو بدلا اور انگریز کے قریب ہونے لگے، جبکہ مسلمان اپنی سابقہ روش پر قائم رہے۔
مسلمانوں نے انگریز تعلیمی اداروں، حکومتی مناصب کا بائیکاٹ کیا اور اپنی جدوجہد کو جاری رکھا۔ اسی دوران خلافت عثمانیہ پر حملہ اور اس کے خاتمے کی خبریں آنے لگیں، جس نے مسلمانوں کو بہت دکھ دیا۔ مغلوں کی نام نہاد اسلامی حکومت کا خاتمہ، خلافت عثمانیہ کا خاتمہ مسلمانان برصغیر بالخصوص مذہبی قائدین کے لیے ناقابل تحمل صدمے تھے۔ برصغیر میں تحریک خلافت کی بنیاد رکھی گئی، جس میں کانگریس نے مسلمانوں کا ساتھ دیا۔ تحریک ترک موالات کے تحت فیصلہ کیا گیا کہ انگریز حکومت کے خطابات واپس کیے جائیں، کونسلوں کی رکنیت سے استعفی دیا جائے، سرکاری ملازمتوں سے علیحدگی اختیار کی جائے، تعلیمی ادارے امداد لینا بند کریں، سرکاری عدالتوں کے بجائے ثالثی عدالتوں میں مقدمات پیش کیے جائیں، انگریز مال کا بائیکاٹ کیا جائے۔ یہ تقریباً ایک طرح کی سول نافرمانی تحریک تھی اور اس کا سربراہ گاندھی کو بنایا گیا۔
تحریک ہجرت اور کانگریس کی تحریک سے علیحدگی
تحریک خلافت، تحریک ترک موالات میں ناکامی کے بعد ہندوستان کے علماء نے فیصلہ کیا کہ مسلمان برصغیر کو ترک کر دیں۔ تحریک خلافت کے دوران میں 1920ء میں مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، مولانا ابوالکلام آزاد، پیر مولانا دوست محمد بارکزئی صوابی حاص، مولانا ظفر علی خان اور عطاء اللہ شاہ بخاری سمیت کچھ علماء نے برصغیر کو دار الحرب قرار دے کر یہاں سے ہجرت کرنے کا فتویٰ جاری کر دیا، جس کے نتیجہ میں ہزاروں مسلمانوں نے اپنے گھربار چھوڑ کر ہمسایہ ملک افغانستان کی راہ لی۔ یہ ہجرت حکومت افغانستان کے عدم تعاون کے باعث ناکام ہوگئی اور مسلمانوں کو اس سے کافی جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
اتر پردیش میں ایک تھانے پر حملے کا بہانہ بناتے ہوئے گاندھی اس تحریک سے جدا ہوگئے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ تحریک خلافت، تحریک ترک موالات اور تحرک ہجرت خالصتاً اسلامی مقاصد اور اہداف کے لیے اٹھنے والی تحریکیں تھیں، جس سے کانگریس والے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ تاثر عام ہوا کہ کانگریس نے اس تحریک کی کامیابی کے وقت اس تحریک کو ناکام بنایا ہے۔ گاندھی نے اس وقت تحریک کے خاتمے کا اعلان کیا، جب پوری مسلمان قیادت جیل میں تھی۔ گاندھی کے ان اقدامات کے سبب انگریز کے خلاف پائی جانے والی نفرت کا رخ کانگریس اور ہندو کی جانب ہوگیا۔
برصغیر میں اسلامی ریاست و حکومت کا خواب، مذہبی خلیج کی ابتداء
ترک خلافت کے خاتمے کو سامنے رکھتے ہوئے تحریک خلافت سے منسلک علماء، دانشوروں، پیروں، گدی نشینوں نے برصغیر کی مسلمان آبادی کو خالص اسلامی ریاست کے فضائل اور تبرکات گنوانے شروع کیے۔ تحریک کے قائدین خلافت اور اسلامی ریاست کے قیام کے موضوع پر اس قدر متشدد تھے کہ انھوں نے ہندوستان کو دارالحرب قرار دیا اور یہاں سے مسلمانوں کو ہجرت کرنے پر اکسایا۔ یہ ہجرت افغان حکومت کے عدم تعاون کے باعث ناکامی کا شکار ہوئی۔ بہت سے مہاجرین جلد وطن لوٹ آئے اور خیبر پختونخوا اور شمالی پنجاب کے علاقوں بالخصوص راولپنڈی ڈویژن میں آباد ہونا شروع ہوئے۔ تحریک خلافت، تحریک ہجرت اور تحریک ترک موالات "خلافت عثمانیہ" کی تو حفاظت نہ کرسکی، تاہم برصغیر بالخصوص مسلم اکثریتی علاقوں میں اس نے ایک خالص اسلامی ریاست کے قیام کا تصور ضرور اجاگر کیا۔
مسلمان اس تصوراتی ریاست کو کوئی نام نہیں دے سکے، تاہم خواب اور اس کی تعبیر بالکل واضح تھی اور اس خواب کی راہ میں واحد رکاوٹ پنجاب اور برطانوی سرحد کے علاقے میں موجود ہندو اور سکھ آبادی تھی، جو کسی بھی صورت مذہب کی بنیاد پر ریاست کی تشکیل نہیں چاہتی تھی، یہی وجہ ہے کہ 1935ء تک پنجاب میں مسلم لیگ کے بجائے یونینسٹ پارٹی پنجاب کی نمائندہ جماعت تھی۔ تحریک خلافت کے واعظین جو علماء، گدی نشینوں، پیروں میں موجود تھے، انھوں نے معاشرے میں خلافت کی بنیاد پر ایک خالص اسلامی ریاست کے قیام کی ترویج شروع کر دی، اس سلسلے میں جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوئم سے فارغ ہوکر آنے والے تربیت یافتہ سپاہی ان کے لیے اچھا سرمایہ ثابت ہوئے۔ معاشرے میں مذہبی اختلاف کی لکیر گہری ہونی شروع ہوگی۔ سبیلیں، ایک دوسرے کے اجتماعات میں شرکت کم ہوگئی اور اس کی جگہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑوں نے لے لی۔
مسجد باغ سرداراں اور گرو ارجن کا جلوس
برطانوی دور میں راولپنڈی شہر کی آبادی 43 فیصد مسلمان، سترہ فیصد سکھ، تینتیس فیصد ہندو افراد پر مشتمل تھی۔ راولپنڈی شہر میں ہندو کاروباری اور سکھ جاگیردار تھے۔ اس شہر میں سوجان سنگھ ایک بااثر انسان تھا، جس نے اس شہر میں بہت سے فلاحی کام کیے اور لائبریری بھی قائم کی۔ 1896ء میں امان اللہ خان افغان بادشاہ کا بیٹا پنڈی آیا۔ امان اللہ خان نے مسلمانوں سے علاقے میں بڑی مسجد تعمیر کرنے کا کہا۔ اس مقصد کے لیے باغ سرداراں پنڈی میں اٹھارہ کنال زمین خریدی گئی، چونکہ اس مسجد کی جگہ کے بالکل پیچھے سکھوں کا ایک گردوارا تھا، لہذا اس مسجد کے حوالے سے سکھوں نے اعتراض کیا، بالخصوص سوجان سنگھ اس کا مخالف تھا۔ سکھوں کا کہنا تھا کہ مسجد اور گردوارے کے قریب ہونے کی وجہ سے آئندہ تنازعہ پیدا ہوسکتا ہے۔ پیر مہر علی گولڑوی نے سوجان سنگھ سے اس مسجد کے حوالے سے مذاکرات کیے کہ چونکہ ہمارا آج تک باہم کوئی تنازعہ نہیں ہوا، لہذا اس مسجد کے بننے سے آئندہ بھی کوئی تنازعہ نہیں ہوگا۔
سکھ چونکہ پیر مہر علی شاہ کا احترام کیا کرتے تھے، لہذا مسجد بنانے کی اجازت دے دی گئی۔ یہ مسجد 1901ء میں تعمیر ہوئی۔ 1926ء تک مسلمان اس مسجد کے سامنے ہندوؤں اور سکھوں کے قومی تہواروں کے موقع پر سبیلیں لگایا کرتے تھے۔ 1926ء میں مسجد کے پیچھے موجودہ خورشید سینما جو پہلے لکشمی سینما کہلاتا تھا، بنانے کی بات کی گئی۔ مسلمانوں نے اس سلسلے میں عدالت میں کیس کیا کہ مسجد کے قریب سینما نہیں ہونا چاہیئے، حالانکہ خورشید سینما جو آج بھی موجود ہے، اس کے درمیان اور مسجد میں کافی فاصلہ ہے۔ عدالت نے مسلمانوں کے خلاف فیصلہ کیا اور سینما گھر بن گیا۔ اسی دوران کلکتہ میں ایک تحریک چلی، جس میں کہا گیا کہ مسلمانوں کی مساجد کے سامنے سے ہندوؤں اور سکھوں کے جلوس نہیں گزرنے چاہییں، اگر گزریں گے بھی تو مذہبی وعظ نہیں کریں گے۔ یہ آواز پنڈی بھی پہنچی، اس آواز کے پیچھے سینما گھر والی ٹینشن بھی موجود تھی۔
سجاد اظہر کے بقول سکھوں کے پانچویں گرو، گرو ارجن کی یاد میں سکھ سالانہ ایک جلوس نکالتے تھے۔ اس حوالے سے گرو ارجن کا جلوس باغ سرداراں میں 13 جون 1926ء کو نکلنا تھا، جس کے حوالے سے مسلمانوں نے مطالبہ کیا کہ آپ یہ جلوس مسجد کے سامنے سے مت گزاریں اور اگر آپ کو مسجد کے سامنے سے گزرنا بھی ہے تو خاموشی سے گزریں۔ اس جلوس میں عموماً پانچ ہزار سکھ ہوتے تھے، اس روز چونکہ اتوار کا روز تھا تو سکھوں کی تعداد تقریباً دس ہزار سے زیادہ ہوگئی۔ مسلمانوں نے سمجھا کہ شاید ہمارے منع کرنے کے باوجود اتنی تعداد میں سکھوں کا آنا کسی خاص مقصد کے تحت ہے، لہذا جب وہ مسجد کے سامنے سے گزرے تو شام سات بجے مسجد سے ان پر پتھراؤ کیا گیا۔ جس سے پنڈی میں فسادات پھوٹ پڑے۔ گنج منڈی، غلہ منڈی میں 172 دکانیں جلا دی گئیں، گردوارے کا گھیراؤ ہوا، فائرنگ ہوئی۔ سینکڑوں لوگ قتل ہوئے، حتی سید پور گاؤں میں پانچ امیر ہندو اور سکھ قتل ہوئے۔
سجاد اظہر کی تحقیق کے مطابق ان فسادات کی وجہ ایک مولوی صاحب تھے، جن کا نام راولپنڈی کے معروف ادیب عزیز ملک نے اپنی 1970ء میں شائع ہونے والی کتاب "راول دیس" میں مولوی اسحاق مانسہروی لکھا ہے۔ اسحاق مانسہروی انگریز حکومت کا ناقد تھا اور جنگ عظیم اول کے لیے مانسہرہ میں ہونے والی بھرتیوں کے خلاف اس نے آواز بلند کی تھی۔ مولوی اسحاق کو انگریز حکومت نے گرفتار کیا اور اس کے بعد صوبہ بدر کر دیا گیا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 1901ء میں آج کے خیبر پختونخوا کے علاقوں کو پنجاب سے جدا کرکے این ڈبلیو ایف پی کے نام سے الگ صوبہ بنایا گیا تھا۔ مولوی مانسہروی، مانسہرہ سے بے دخل ہونے کے بعد راولپنڈی آیا اور باغ سرداراں کی جامعہ مسجد کا امام بن گیا۔ مولوی مانسہروی تحریک خلافت کا سرگرم رکن تھا، اسی طرح مجلس احرار تحریک میں بھی فعال تھا اور شہید گنج کمیٹی کا بھی رکن تھا۔ عزیز ملک کے مطابق مولوی مانسہروی رمضان کے ایام میں ہندو دکان داروں کو کھاتا پیتا دیکھ کر گھوڑے سمیت دکانوں میں گھس جاتا تھا اور ہر چیز کو تہ و بالا کر دیتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: تحریک ترک موالات اسلامی ریاست کے مسجد کے سامنے انگریز حکومت ہندو اور سکھ کے سامنے سے اس مسجد کے کہ مسلمان حوالے سے سکھوں کے کے مطابق تھا اور رکن تھا کے خلاف اور اس کے بعد کی وجہ کے لیے
پڑھیں:
اس سرزمین پر تمام مذہبی اور نسلی اقلیتوں کا بلاتفریق حق ہے، خواجہ آصف
وزیر دفاع خواجہ آصف نے سیالکوٹ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی بھی ملک کی عزت و آبرو اس بات سے جانی جاتی ہے کہ اس کی نسلی اور مذہبی اقلیتیں کس حال میں رہ رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں کہیں نہ کہیں امتیازی سلوک اور متشدد رویے سامنے آتے رہتے ہیں لیکن اس مٹی پر ہم سب کا بلاتفریق حق ہے۔
یہ بھی پڑھیے: تمام اقلیتیں آزادہیں، ہمیں رنگ و نسل، ذات پات سے بالا تر ہو کر آگےبڑھناہوگا، وزیراعظم شہبازشریف
وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ قائداعظم نے آئینی اسمبلی میں اپنے پہلے خطبے میں اقلیتوں کے حقوق پر گفتگو کی، ہمارے اسمبلی کے پہلے اسپیکر ہندو اور سپریم کورٹ کے ایک دیانتدار چیف جسٹس مسیحی تھے۔
انہوں نے کہا کہ کوشش ہونی چاہیے کہ اقلیتیں اس سرزمین پر ہنسی خوشی رہیں اور اس مٹی پر ان کا بھی اتنا حق ہو جتنا اکثریت کا ہے۔
خواجہ آصف نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے پنجاب حکومت کے اقدامات کو سراہتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت جس طرح اس عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے یہ ملک اور صحت مندانہ معاشرے کے قیام کے لیے خوش آئند ہے، ہماری ترجیح ہے کہ تمام پاکستانیوں کو یکساں حقوق میسر ہو اور کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہ ہو۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اقلیت اکثریت خواجہ آصف مذہب