اسلام آباد: وزیر اعظم شہباز شریف کے مشیر اور مسلم لیگ نواز کے سینئر رہنما رانا ثنا ءاللہ سے امریکی سفارتخانے کے پولیٹیکل قونصلر زیک ہارکنرائیڈر نے ملاقات کی ہے جس کے دوران دوطرفہ تعاون، انسداد دہشت گردی اور باہمی تعلقات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
امریکی سفارتخانے کے پولیٹیکل قونصلر زیک ہارکنرائیڈر سے ملاقات کے دوران رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ امریکا تاریخی طور پر پاکستان کا اسٹریٹجک پارٹنر رہا ہے اور دونوں ممالک مختلف شعبوں میں تعاون جاری رکھے ہوئے ہیں۔
رانا ثناء اللہ نے پاکستانی حکومت اور سیکیورٹی اداروں کے لیے انتہائی مطلوب دہشت گرد کی گرفتاری کو باعث فخر قرار دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیاں قابل تحسین ہیں۔
انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستانی سیکیورٹی اہلکاروں اور عوام کی قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جانے دی جائیں گی۔
انکا کہنا تھا کہ پاکستان خطے میں انسداد دہشت گردی کے لیے ہمیشہ امریکا سے تعاون کے لیے تیار ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی معیشت اور خارجہ تعلقات مستحکم ہو رہے ہیں اور پاکستان امریکا کے ساتھ عوامی روابط پر مبنی خوشگوار تعلقات چاہتا ہے۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

افغانستان، دہشت گردوں کی آماجگاہ

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ امریکا اپنے چھوڑے گئے ہتھیار افغانستان سے واپس لے لیتا ہے تو اس سے خطے میں امن بحال ہوگا جب کہ آرمی چیف سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ دشمن عناصرکے ایما پرکام کرنے والے خوارج اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف جنگ اپنے منطقی انجام تک جاری رہے گی۔ گزشتہ روز امریکی کانگریس سے خطاب میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے پاکستان کے تعاون سے کابل ایئرپورٹ پر دہشت گرد حملے میں مطلوب شریف اللہ کی گرفتاری اور اس کی امریکا واپسی پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا گیا ہے۔

 پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے ڈانڈے بلاشبہ افغانستان سے جا ملتے ہیں جہاں طالبان حکومت اپنے پاکستانی ساتھیوں کو جو تحریک طالبان پاکستان کے نام سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں ملوث ہیں، مسلسل سرپرستی فراہم کر رہی ہے اور پاکستان کے ساتھ تعاون پر آمادہ نہیں ہے۔ اسی بنیاد پر پیدا ہونے والے اختلاف کے اثرات دوسرے شعبوں میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں جن میں سرحدی تجارت اور چیک پوسٹوں کے قیام پر اختلافات شامل ہیں، حالانکہ پاکستان نے دو جنگوں میں افغان عوام کے حقوق کے لیے ہر طرح کی قربانی دی اور کئی لاکھ افغان پناہ گزینوں کو سال ہا سال پاکستان میں آباد رکھا گیا۔

 پاکستان کو اس وقت دہشت گردی کی صورت میں ایک سنگین مسئلہ کا سامنا ہے۔ گلوبل ٹیرر ازم انڈیکس 2025 کی رپورٹ میں دہشت گردی سے متاثرہ ممالک میں پاکستان 163 ممالک کی فہرست میں دوسرے نمبر پر پہنچ گیا ہے۔ یعنی پاکستان اس وقت دہشت گردانہ کارروائیوں کا سامنا کرنے والا دوسرا ملک ہے۔ ملک میں روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے حملوں اور ان میں سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی ہلاکتوں کے اعداد و شمار سے بھی صورت حال کی سنگینی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

 کابل میں طالبان کی حکومت کے عناصر ماضی میں پاکستان کے تعاون و سرپرستی کے محتاج تھے اور اسی تعاون کی وجہ سے وہ اتحادی فوجوں کی موجودگی کے باوجود افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے اور عسکری قوت بڑھانے میں کامیاب ہوئے تھے، لیکن اقتدار پر قبضہ کے بعد یہ خوشگوار تعلقات جاری نہیں رہ سکے۔ اب نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ پاکستان، افغانستان سے امریکی اسلحہ کی واپسی چاہتا ہے اور دوسری طرف کابل حکومت مسلسل تحریک طالبان پاکستان کی سرپرستی کے ذریعے پاکستان میں عدم استحکام کا سبب بنی ہوئی ہے۔

 اگست 2021میں ہونے والے ایک حملے میں 170 افغان باشندے جاں بحق ہوئے تھے جو امریکی افواج کی واپسی کے ساتھ ہی افغانستان چھوڑنے کے لیے ایئرپورٹ پر جمع تھے۔ اس خود کش دھماکے میں 13 امریکی فوجی بھی ہلاک ہوئے تھے۔ امریکا اس شدید حملے کی منصوبہ بندی کرنے والوں کی تلاش میں تھا اور پاکستانی حکام نے منصوبہ سازکو پاک افغان سرحدی علاقے سے گرفتار کرکے امریکا کے حوالے کردیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اسے دہشت گردی کے خلاف بڑی امریکی کامیابی کے طور پر پیش کیا اور تعاون کرنے پر حکومت پاکستان کا شکریہ ادا کیا ہے۔

پاکستان ٹرمپ کے اس بیان کو امریکا کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے ایک امکان کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ یہ امید ظاہرکی جا رہی ہے کہ پاکستان ایک بار پھر امریکا کے ساتھ سیکیورٹی کے معاملات پر تعاون کرتے ہوئے اس علاقے سے دہشت گردوں کے خاتمے میں کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس طرح ایک طرف پاکستان خود کو درپیش دہشت گردی کے چیلنج سے نجات پا سکے گا اور اس کے ساتھ ہی امریکا کے ساتھ ایک بار پھر قربتیں بحال ہو سکیں گی۔

پاکستان صدر ٹرمپ کی طرف سے افغانستان میں چھوڑے ہوئے اسلحہ کو واپس لینے کے بیانات کو اسی تناظر میں دیکھتا ہے۔ افغانستان میں امریکی حملہ اور دو دہائی سے زیادہ مدت تک وہاں ’جمہوریت‘ کے قیام اور انسانی حقوق کی بحالی کے لیے اتحادی افواج کی کارروائی کا مقصد دہشت گردی کے خاتمے کے علاوہ افغانستان میں امریکا نواز حکومت کا قیام تھا تاکہ مستقبل میں اس کی سلامتی کو اس طرف سے کوئی خطرہ لاحق نہ ہو، البتہ امریکا اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوا۔

کثیر امریکی امداد کے بل بوتے پر بہت بڑی افغان فوج استوارکی گئی تھی، تاہم وہ کابل پر طالبان کے ہلے میں ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ امریکی افواج، کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد بدحواسی کی کیفیت میں افغانستان سے فرار ہوئیں۔ دنیا کے سب سے طاقتور ملک کی فوج بھاگتے ہوئے اپنا اسلحہ اور قیمتی ساز و سامان تک پیچھے چھوڑ گئی۔ اس موقع پر امریکی فوجی قیادت غیر منظم اور کمزور دکھائی دیتی تھی جو صرف اس بات پر خوش تھی کہ وہ اپنے تمام فوجیوں کو وہاں سے زندہ سلامت نکالنے میں کامیاب ہوگئی۔

ڈونلڈ ٹرمپ البتہ اب اسے سابق امریکی حکومت کی ناکامی قرار دے کر یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلا توہین آمیز طریقے سے کیا گیا اور اس کی ذمے داری سابق صدر جوبائیڈن پر عائد ہوتی ہے۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ بگرام کا فوجی اڈہ خالی کرنا بہت بڑی غلطی تھی کیوں کہ اسے امریکا کے قبضے میں رہنا چاہیے تھا، لیکن امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد یہ اڈہ اب چین کے قبضے میں آ گیا ہے۔ بیشتر دوسری باتوں کی طرح بگرام کے بارے میں ٹرمپ کا دعویٰ بھی کسی واضح ثبوت کے بغیر دائر کیا گیا ہے۔

اسی لیے کابل حکومت نے ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے بتایا ہے کہ بگرام کا کنٹرول افغان فوجیوں کے پاس ہے۔ اسی تناظر میں ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان سے امریکی اسلحہ واپس لینے کی بات بھی کی ہے۔ پاکستان میں اس بیان کو امریکا کے ساتھ تعلقات کے ایک نئے دورانیہ کی نوید کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ افغانستان میں امریکا کا چھوڑا ہوا اسلحہ پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں اضافے کا سبب بنا ہے۔

اس وقت خیبرپختونخوا اور بلوچستان دہشت گردوں کا خاص ٹارگٹ بنے ہوئے ہیں۔ دہشت گردوں کا نیٹ ورک تہہ در تہہ ہے۔ اس نیٹ ورک کا ایک حصہ خود کش اسکواڈز پر مشتمل ہے۔ ان کے ٹریننگ کیمپ پاکستان کی حدود سے باہر خصوصاً افغانستان میں ہیں۔ یہ اسمگلنگ، ڈرگز ،اغوا برائے تاوان اور دیگر جرائم کرنیوالوں پر مشتمل ہیں۔ یہ لوگ سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتے ہیں۔ 2020کے قریب پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے ملک میں دہشتگردی پر قابو پالیا تھا لیکن 15اگست 2021 کو افغانستان میں افغان طالبان کو اقتدار کی کرسی سونپ دی گئی۔

اس کے بعد ہزاروں کی تعداد میں جنگجو قیدیوں کو افغانستان کی جیلوں سے رہا کر دیا گیا جنھوں نے واپس پاکستان آکر اپنے آپ کو منظم کرنے کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ دوبارہ دھماکے شروع کر دیے۔ اسی دوران حکومت پاکستان نے اس تنظیم کے ساتھ مذاکرات کیے اور سیز فائر کرنے کا معاہدہ کیا۔ اس میں شک نہیں کہ پاکستان میں دہشتگردی کے پیچھے بیرونی ہاتھ ہیں جس میں افغانستان اور بھارت ملوث ہیں لہٰذا ملک کے خلاف بیرونی سازشوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان تنازعے یا نفرت کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ پاکستان نے افغانستان پر کبھی حملہ نہیں کیا اور نہ ہی اس کے علاقے پر زبردستی قبضہ کیا ہے۔ پاکستان نے افغان ٹریڈ کو بھی قانون کے مطابق جاری رکھا ہے۔ پاکستان کی ہر حکومت نے افغانستان کا ساتھ دیا ہے۔ چالیس برس گزر جانے کے باوجود لاکھوں افغان باشندوں کو اپنے ملک میں پناہ بھی دے رکھی ہے۔

پاکستان افغانستان میں امن کا خواہاں ہے، دہشتگردی کے حل کے لیے سیکیورٹی ایکشن پلان اداروں کی استعداد اور کارکردگی بہتر بنانے کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔ دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے قوانین کے نفاذ کو یقینی بنانا ضروری ہے۔بدقسمتی یہ ہے کہ دہشت گردوں کی دراندازی کو روکنے میں افغان حکومت کا تعاون نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلسل کوششوں کے باوجود خطرات کا دباؤ کم ہونے میں نہیں آ رہا۔ دوسری جانب افغانستان سے انخلا کے وقت امریکا کے چھوڑے گئے ہتھیار بھی پاکستان کی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ بن کر سامنے آئے ہیں۔

یہ حقیقت اب ڈھکی چھپی نہیں رہ گئی کہ طالبان کی اس حکومت میں بھی افغانستان کے حالات اسی طرف جا رہے ہیں جہاں یہ عالمی اور علاقائی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ بن کر سامنے آرہا ہے۔ اس سے پہلے کہ صورتحال شدت اختیار کر جائے دنیا‘خاص طور پر علاقائی ممالک کو اس خطرے سے متنبہ ہو جانا چاہیے۔ افغانستان کی سرزمین کا جو استعمال سامنے آرہا ہے یہ پورے خطے کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔

پاکستان کے لیے یہ بڑی تشویش کی بات اس لیے ہے کہ طویل سرحد سے دراندازی کو مکمل روکنا خاصا مشکل کام ہے۔ افغانستان کی جانب سے دہشت گردوں کی سہولت کاری اور لاجسٹک سپورٹ پاکستان کے لیے تو سنگین خطرہ ہے مگر خطے کے دیگر ممالک بھی اس سے محفوظ نہیں، ان خطرات سے نمٹنے کے لیے علاقائی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اسحاق ڈار کی ہاکان فیدان سے ملاقات، تازہ ترین جغرافیائی صورتحال پر تبادلہ خیال
  • اسحاق ڈار کی او آئی سی کے سیکرٹری جنرل حسین ابراہیم طحہ سے ملاقات
  • اسحاق ڈار کی ترکیہ کے وزیر خارجہ سے ملاقات، تازہ ترین جغرافیائی صورتحال پر تبادلہ خیال
  • رانا ثناء کی امریکی سیاسی سفارتکار سے ملاقات، دو طرفہ تعاون پر تبادلہ خیال 
  • چیف جسٹس پاکستان سے آزاد کشمیر کے چیف جسٹس کی ملاقات، باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال
  • افغانستان، دہشت گردوں کی آماجگاہ
  • بلاول بھٹو زرداری سے امریکی ناظم الامور اور فرانس کے سفیر کی ملاقاتیں ،  تجارتی و معاشی تعلقات بڑھانے پر اتفاق
  • بلاول سے امریکی ناظم الامور کی ملاقات، پاک امریکا تعلقات کے فروغ پر بات چیت
  • رانا ثنااللہ کی امریکی پولیٹیکل قونصلر سے ملاقات، انتہائی مطلوب دہشتگرد کی گرفتاری بڑی کامیابی قرار