Daily Ausaf:
2025-03-09@06:03:22 GMT

الحادی فتنے اور ہماری ذمہ داریاں

اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT

آج کے سائنسی و تحقیقی دور میں انٹرنیٹ زندگی کالازمی حصہ بن چکا ہے۔ اب تو مصنوعی ذہانت نے اس میدان میں ایک نیا تہلکہ مچا دیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے جہاں بے شمار تحقیقی کام ہو رہے ہیں اور شعور انسانی کو جلا مل رہی ہے، وہاں اس کے ذریعے الحاد اور لادینیت کی شورشیں بھی عروج پرہیں۔ اشکالات اور وساوس پیدا کرکے اسلام کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کو شکوک و شبہات میں مبتلا کر کے اسلام بیزار کرنے کی بھرپور کوششیں ہو رہی ہیں۔ سوشل میڈیا کے کئی’’ پلیٹ فارمز ‘‘الحادی افکار کو عام کرنے کے مکروہ دھندوں کیلئے استعمال کیے جا رہے ہیں جس میں ’’فیس بک‘‘ اور یوٹیوب کا اہم کردار ہے۔ فیس بک کا آغاز معاشرے میں ایک دوسرے کو جاننے پہچاننے والوں کے انٹر نیٹ کے ذریعے آسان رابطوں کیلئے ہوا تھا تاکہ لوگ اپنے خاندان اور دوست احباب کے ساتھ اپنے ذاتی معاملات، تصاویر اور وڈیوز شیئر کرلیا کریں۔ لیکن معاشرے میں جس طرح کے لوگوں کے رجحانات، مقاصد اور نظریات ہوتے ہیں اسی طرح انہیں زیر استعمال لاتے ہیں۔ اسلام دشمنی کوئی نئی بات نہیں بلکہ روز اول سے لے کرآج تک مختلف ادوار میں نئے نئے انداز میں سر اٹھاتی رہی اور کچلی بھی جاتی رہی۔ دور حاضر میں ان مذموم مقاصد کیلئے سوشل میڈیا کو بھی اسلام اور پاکستان کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ شاخسانہ ان ڈیسک و نادیدہ ہاتھوں کا ہے کہ جنہیں پاکستان کی ترقی و بقا ایک آنکھ بھاتی ہے اور نہ اسلام کا دنیا بھر کے معاشروں میں بڑھتا ہوا اثر و رسوخ اور پرچار راس آتا ہے۔ چونکہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور دنیا بھر میں مقیم پاکستانی اچھی طرح اس زبان کو بولتے اور سمجھتے ہیں۔ اس لئے اس نظریاتی جنگ میں زیادہ تر اردو زبان میں اکاؤنٹس، پیجزاور گروپس تشکیل دیئے جاتے ہیں۔ ان کی بنیاد نظریہ الحاد اور اسلام دشمنی ہوتی ہے۔ طریقہ واردات یہ ہے کہ اسلامی نام کی آئی ڈیز بنا کر عام لوگوں اور خصوصا مسلمانوں کو فرینڈ لسٹ میں شامل کیا جاتا ہے۔
بعد ازاں انہیں مختلف گروپس میں بلا اجازت ایڈ کرلیاجاتا ہے۔ یہ وہ گروپس ہوتے ہیں جو بد نیتی کی بنا پر بنائے جاتے ہیں اور ہمہ وقت اسلام کی مقدس تعلیمات کے خلاف بھیانک اور زہریلا پراپیگنڈا کرتے ہیں۔ اسلام کے بنیادی عقائد کو ہدف تنقید بنا کر ان پر جارحانہ حملے کیے جاتے ہیں تاکہ لوگوں کواسلامی تعلیمات سے کنفیوز، متزلزل کر کے جذباتی کیا جاسکے۔ اس کے نتیجے میں مسلمان نوجوان اسلامی غیرت و حمیت کے ساتھ ان کی بے ہودہ حرکات پر سیخ پا ہوکر سخت اور تلخ لہجے میں رد عمل ظاہر کرتے ہیں کبھی کبھار بات گالی گلوچ تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ ان پوسٹس کو یہ لوگ مختلف فورمز اور پیجز پر چسپاں کرتے ہیں۔ لوگوں کو بتاتے ہیں کہ یہ مذہبی جنونی مسلمان ہیں۔ دلچسب بات یہ ہے کہ جن کمنٹس میں علمی و فکری مواد ہو اور ان کی بیہودگی کا مکمل جواب ہو ان پوسٹس کو Delete کر دیتے ہیں جبکہ گالی گلوچ والے کمنٹس برقرار رکھ کر اپنے مذموم مقاصد پورے کرتے ہیں۔ اس حوالے سے گزارش ہے کہ یہ مکروہ دھندہ کرنے والے ساری پوسٹس ایک ناپاک ایجنڈے کے تحت لگاتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ رد عمل میں اگر اہلیت ہو تو مدلل جوابات دے کر ان کی پھیلائی ہوئی الجھنوں کا قلع قمع کریں ورنہ گالیاں لکھنے کی بجائے نظر انداز کرتے ہوئے بلاک کرتے جائیں تاکہ آئندہ وہ پوسٹس نظر سے بھی نہ گزریں۔ ان سے انتقام کا یہ بہترین طریقہ ہے کیونکہ جب ان کی پوسٹس پر کوئی کمنٹس نہیں کرے گا تو یہ پوسٹس خود بخود زیرو ہو جائیں گی۔اگر ان ملحدین کے اعتراضات علمی و فکری ہوتے اور نیک نیتی کے ساتھ تلاش حق مقصود ہوتا تو ان کے سوالوں کے جوابات دینا مسلمانوں کی اخلاقی ذمہ داری بنتی تھی۔ ہردور میں مستشرقین اور ملحدین کی طرف سے اسلام پر اٹھنے والے اعتراضات اور سوالات کے جوابات اہل علم نے دیئے اور قیامت تک دیتے رہیں گے لیکن ان ملحدین کے طریقہ کار سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مقصد تخریب کاری اور اسلام دشمنی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ کیونکہ جو بھی علمی و فکری جواب ان کو دیا جاتا ہے اس کو فورا ڈیلیٹ کر دیتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ جواب دینا اہل علم کا کام ہے اورعام آدمی اس میں الجھ کر پریشان اور کنفیوز ہوگا۔یاد رہے کہ ان ملحدین کی قابل مذمت کاروائیوں کے ذریعے (نعوذ باللہ من ذلک)ذات باری تعا لیٰ کا انکارکیا جاتا ہے۔
ہمارے آقا ومولی محمدﷺ کی ذات اقدس پر بہتان تراشی کی جاتی ہے۔ اسلام کو دہشت گرد مذہب ثابت کرنے کی ناکام کوشش ہوتی ہے۔ قرآن پاک کے بارے میں گھٹیا اور لغوزبان استعمال کی جاتی ہے۔ اسلامی تاریخ کے جھروکوں سے مختلف واقعات کو مسخ کرکے پیش کرتے ہیں اور وہ مسلمان جو اس دور پر فتن میں دین اسلام کی ترویج و اشاعت کا کام کر رہے ہوں ان کی کردار کشی کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسی طرح پاکستان کے خلاف زہر اگل کر اسے جنونیوں کی آماج گاہ تک کہا جاتا ہے۔ یہ الحادی فورمز افواج پاکستان کے خلاف جھوٹے پراپیگنڈے کرتے ہیں۔ ان تمام مکروہ اور بھیانک دھندوں کا مقصد اسلام کو بدنام کرنا اور مسلمانوں کے دلوں سے حب الٰہی، عشق رسول ﷺ اور حب الوطنی کو کھرچ کر نکالنا اور افواج پاکستان سے بد دل کرنا ہے۔ ایک منصوبے کے تحت اپنے آپ کو سابق مسلمان ظاہر کرتے ہیں اور لوگوں کو بتاتے ہیں کہ تحقیق کے بعد ہم مرتد ہوئے ہیں۔ یہ بھی فقط ان کے پھیلائے ہوئے جالوں میں سے ایک جال ہے۔ اسی طرح مختلف مسالک کی اہم شخصیات کی تصویریں چسپاں کر کے پیجز اور فورمز بناتے ہیں۔ دوسرے مسلک کے لوگوں کے بارے میں نفرت آمیز لٹریچرز اور پوسٹس لگا کر تکفیری مہم شروع کردیتے ہیں۔ اس طرح مسلمانوں کو آپس میں باہم دست و گریباں کر کے اپنے مذموم مقاصد پورے کرتے اور ہماری سادگی اور غفلت پر ہنستے ہیں۔ کچھ لوگوں کوگمنام جعلی پیر کا روپ دے کر ان کی غیر اسلامی حرکات پر مشتمل وڈیوز تیار کر کے سوشل میڈیا پر پھیلا دی جاتی ہیں تاکہ حقیقی تصوف اسلامی کو بد نام کیا جا سکے۔ ہم اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے یا جانتے بوجھتے ہوئے بھی انہیں موضوع بحث بنا کر اپنی توانائیاں ایک دوسرے پر طعن و تشنیع میں صرف کرتے رہتے ہیں۔اس وقت اہل اسلام خصوصا علمائے ملت اسلامیہ کو بیدار مغز ہونے کی ضرورت ہے۔ایسے دگر گوں حالات میں کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے سے طوفان ٹل نہیں جایا کرتے۔ موجودہ دور کے تقاضوں کو سمجھنا اور پیش آمدہ مسائل سے نبرد آزما ہونا ان کی منصبی ذمہ داری ہے۔ جس طرح امام غزالی نے اپنے دور کے فتنہ الحاد کو ’’تحافۃ الفلاسفہ‘‘ لکھ کر دفن کیا تھا۔ آج پھر اسی نہج پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یاد رہے کہ آج کا فتنہ الحاد پہلے سے بھی خطرناک اور نقصان دہ ہے کیونکہ اس دور کے الحادیوں کے پاس ایسی سائنس اور سوشل میڈیا نہ تھا کہ اپنے نظریات کو پھیلا سکیں جیسا کہ آج پھیلایا جارہا ہے۔ البتہ یہ خبر قابل ستائش ہے کہ پاکستانی حکام بالا کی کوششوں سے ان الحادیوں کی خاصی ویب سائٹس اکاؤنٹس ختم کیے جاچکے ہیں ۔ لیکن پھر بھی معاشرے میں ہر سطح پر اس فتنے کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: سوشل میڈیا کرتے ہیں کے ذریعے لوگوں کو کے خلاف ہیں اور جاتی ہے جاتا ہے کرنے کی کیا جا

پڑھیں:

ملالہ یوسفزئی نے 13 برس بعد آبائی علاقے کا دورہ کرنے پر کیا کہا؟

نوبیل امن انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے کہا ہے کہ بچپن میں ہر چھٹی پاکستان کے شہر شانگلہ میں گزارتی تھی، دریا کے کنارے کھیلتی اور اپنی فیملی کے ساتھ کھانے کا لطف اٹھاتی تھی۔ 13 سال کے طویل عرصے کے بعد واپس آنا یادگار ہے۔

اپنے آبائی علاقے کا دورہ کرنے کے بعد ملالہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی پوسٹ میں کہا کہ پہاڑوں سے گھرے ہوئے دریا کے ٹھنڈے پانی میں ہاتھ ڈبونا اور اپنے پیارے کزنز کے ساتھ ہنسنا مسکرانا میرے لیے بہت خوشی کی بات تھی۔ یہ جگہ میرے دل کے قریب ہے اور مجھے بار بار یہاں واپس آنے کی امید ہے۔

مزید پڑھیں: ملالہ یوسفزئی آبائی علاقے پہنچ گئیں، رشتہ داروں اور طالبات سے ملاقات

انہوں نے مزید لکھا کہ میں اپنے خوبصورت ملک کے ہر کونے میں امن کے لیے دعا گو ہوں۔ بنوں سمیت حالیہ دہشتگرد حملے دل دہلا دینے والے ہیں۔ میں متاثرین اور ان کے اہل خانہ سے تعزیت کرتی ہوں اور اپنے وطن کے ہر فرد کی حفاظت کے لیے دعا گو ہوں۔

As a child, I spent every holiday in Shangla, Pakistan, playing by the river and sharing meals with my extended family. It was such a joy for me to return there today — after 13 long years — to be surrounded by the mountains, dip my hands in the cold river and laugh with my… pic.twitter.com/1oTk93rX9M

— Malala Yousafzai (@Malala) March 5, 2025

واضح رہے کہ ملالہ یوسفزئی نے گزشتہ خیبر پختوننخوا کے ضلع شانگلہ میں واقع اپنے آبائی گاؤں برکانہ شاہ پور کا مختصر دورہ کیا تھا۔ وہ اسلام آباد سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے شاہ پور پہنچیں۔ مختصر دورے میں ملالہ یوسفزئی کے ساتھ ان کے والد ضیاالدین یوسفزئی اور شوہر اسیر ملک بھی تھے۔

ملالہ یوسفزئی پر 2012 میں دہشتگردوں نے حملہ کیا تھا جس میں وہ زخمی ہوئی تھیں، پھر وہ بیرون ملک منتقل ہو گئی تھیں اور اب بھی برطانیہ میں مقیم ہیں۔ ملالہ کو 2014 میں لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے جدوجہد پر نوبیل انعام دیا گیا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ایکس پوسٹ پاکستان شانگلہ طالبان ملالہ یوسفزئی نوبیل انعام

متعلقہ مضامین

  • توکل
  • دہشت گردی کا خدشہ، امریکہ نے اپنے شہریوں کو پاکستان کا سفر کرنے سے روک دیا
  • مجھے نہیں یقین ضرورت پڑنے پر فرانس یا نیٹو اتحادی ہماری مدد کریں گے، امریکی صدر
  • صبا قمر نے خواتین کے عالمی دن پر اپنے عمل سے مداحوں کے دل جیت لیے
  • خواتین معاشرے کی معمار، گھروں کا ستون اور مستقبل استوار کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں، وزیراعظم شہباز شریف
  • اسلام آباد کو کابل سے انگیج کرنا چاہیے، علی محمد خان
  • امریکی صدر کے بیان نے کچھ لوگوں کے بیانیہ کو زمین بوس کردیا، گورنر سندھ
  • اشیائے خور و نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں: عمر ایوب
  • ملالہ یوسفزئی نے 13 برس بعد آبائی علاقے کا دورہ کرنے پر کیا کہا؟