ڈنکی، خوابوں ، سرابوں اور موت کا سفر
اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT
تین دہائیاں قبل ’’ڈنکی‘‘محض ایک جانور کا انگریزی نام سمجھا جاتا تھا ۔ پھر اچانک یہ لفظ کسی پر اسرار مہم کے لئے استعمال ہونے لگا ۔ جوں جوں اس نے زور پکڑا تو ہر خاص و عام کو اس کی پہچان ہو گئی۔ غیر قانونی طریقے سے، چھپ چھپا کر، جان جوکھم میں ڈال کر کسی دوسرے ملک میں داخل ہونے کو ڈنکی لگانا کہتے ہیں۔ اس کا آغاز نوے کی دہائی میں ہوا ۔جب آسانی سے لوگ یورپ پہنچنے لگے تو اس طرز ہجرت کا رحجان اور مقبولیت بڑھنے لگی۔ جب گائوں کے نوجوانوں نے دیکھا کہ ایک شخص باہر جا کر چند سالوں میں عالی شان گھر بنا لیتا ہے، قیمتی گاڑی خرید لیتا ہے، تو سب اس سے بہت متاثر ہوئے ۔ ان کے دل میں بھی باہر جانے کی خواہش تڑپنے لگی بس کسی طرح یورپ پہنچنا ہے، چاہے جان پر ہی کیوں نہ کھیلنا پڑے۔ یہ رحجان زیادہ تر وسطیٰ پنجاب کے اضلاع گجرات، منڈی بہائو الدین، گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کے نوجوانوں تک محدود رہا ۔ دلچسپ امر یہ ہے مذکورہ اضلاع کسی طور بھی پسماندہ اور نہ غریب ہیں ۔ زراعت، صنعت اور کاروبار کے کئی مواقع یہاں موجود ہیں ۔دیگر پسماندہ علاقوں کی نسبت یہاں بیروزگاری بھی کم ہے۔ اس کے باوجود یہاں کے نوجوان ’’باہر‘‘ جانے کے جنون میں مبتلا رہتے ہیں ۔ وجہ صرف غم روزگار نہیں، بلکہ یورپ کا پر کشش طرزِ زندگی، آزادی اور بہتر مستقبل کی خواہش ہے۔ وہ سمجھتے ہیں یورپ پہنچ کر ہی ان کے خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتے ہیں۔ یہی امید اور اشتیاق انہی ڈنکی جیسے پر خار اور خطرناک راستے پر چلنے کی ترغیب دیتے ہیں ۔
ڈنکی کا سفر کسی فلمی کہانی سے کم نہیں، مگر اس کہانی کا انجام اکثر بھیانک ہوتا ہے۔ جو لوگ اس سفر پر نکلتے ہیں، وہ پہلے ایک انسانی سمگلر سے رابطہ کرتے ہیں، جو ان سے لاکھوں روپے لیتا ہے ، سبز باغ دکھاتا ہے، یقین دلاتا ہے کہ سفر آسان ہوگا، چند ہی روز میں یورپ پہنچ کر وہ گلچھڑے اڑا رہے ہوں گے۔ مگر جیسے ہی سفر شروع ہوتا ہے تلخ اور بھیانک حقائق کے پرت کھلنے لگتے ہیں ۔خوابوں کے آبگینے ٹوٹنے لگتے ہیں ۔ آرمانوں سے دھواں اور دل سے آہوں اور سسکیوں کی درد ناک صدائیں فلک چاک کرنے لگتی ہیں ۔خواب اک بھیانک حقیقت میں بدل جاتا ہے۔ پہلا مرحلہ ایران کی سرحد پار کرنا ہوتا ہے جہاں ایجنٹ بھیڑ بکریوں کی طرح درجنوں لوگوں کو ایک ساتھ کسی خچر گاڑی یا چھوٹے ٹرک میں ٹھونس دیتے ہیں۔ گرمی، دم گھٹنے اور خوف کی شدت کے باعث کئی لوگ بے ہوش ہو جاتے ہیں، مگر کوئی رکنے کا نام نہیں لیتا۔ بعض اوقات ایرانی سیکورٹی فورسز انہیں پکڑ کر جیلوں میں ڈال دیتی ہیں، جہاں کئی کئی مہینے اذیت سہنی پڑتی ہے۔ جو خوش نصیب یہاں سے بچ نکلتے ہیں، وہ ترکی کے پہاڑی علاقوں میں ایجنٹوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔یہ پہاڑی راستے سب سے زیادہ جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔ مسافر کئی کئی دن بھوکے پیاسے چلتے رہتے ہیں، تھکن سے نڈھال ہو جاتے ہیں، مگر رکنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ جو گر جائے، وہ پیچھے رہ جائے۔ بعض اوقات برفانی علاقوں میں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے چلا جاتا ہے، اور کئی لوگ شدید سردی کے باعث راستے میں ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ کچھ خوش نصیب ترکی پہنچ جاتے ہیں، مگر یہاں ان کے لیے ایک اور خطرہ انتظار کر رہا ہوتا ہے قبائلی گینگ اور انسانی اسمگلرز۔ یہ گروہ مسافروں کو اغوا کر کے تاوان کا مطالبہ کرتے ہیں، اور اگر پیسہ نہ ملے تو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں، یا کسی اور مافیا کے ہاتھوں فروخت کر دیتے ہیں۔ ترکی اور لیبیا وہ مقامات ہیں جہاں سے آگے جانے والے یا تو یورپ پہنچ جاتے ہیں، یا پھر سمندر کی بے رحم موجوں میں دفن ہو جاتے ہیں۔ ترکی سے یونان کا سفر انتہائی خطرناک ہوتا ہے۔
ایجنٹ مسافروں کو کسی خفیہ مقام پر رکھتے ہیں، اور موقع ملتے ہی انہیں کشتی میں سوار کروا دیتے ہیں۔ زیادہ تر کشتیوں میں حد سے زیادہ لوگ ٹھونس دیے جاتے ہیں، جنہیں کھانے پینے کا مناسب سامان بھی فراہم نہیں کیا جاتا۔ کئی کئی دن سمندر میں بے یار و مددگار رہنے کے بعد، کچھ کشتیاں یونان پہنچ جاتی ہیں، جبکہ کچھ طوفانی لہروں کی نذر ہو جاتی ہیں۔ جو لوگ زندہ بچ جاتے ہیں، انہیں یا تو یونانی سیکورٹی فورسز پکڑ کر ڈی پورٹ کر دیتی ہیں، یا وہ کسی نہ کسی طرح دوسرے ملکوں میں داخل ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔لیبیا کا راستہ اس سے بھی زیادہ ہولناک ہے۔ یہاں کے سمگلرز کسی بھی انسانی جان کی قیمت نہیں سمجھتے۔ مسافروں کو ایک جگہ جمع کر کے ان پر بے رحمانہ تشدد کیا جاتا ہے، ان کے لواحقین کو تاوان کے لیے وڈیو بھیجی جاتی ہے، اور جو رقم نہ دے سکے، اسے جانوروں سے بدتر سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیبیا کے ساحل سے روانہ ہونے والی کشتیاں سب سے زیادہ حادثات کا شکار ہوتی ہیں۔ جب سمندری طوفان آتا ہے، یا کشتی کا انجن خراب ہو جاتا ہے، تو مسافر بے بسی سے موت کا انتظار کرتے ہیں۔ یہ سوال ہمیشہ اٹھایا جاتا ہے کہ اس المیے کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ سب سے پہلے تو والدین، جو خود اپنے بچوں کو غیر قانونی راستوں پر بھیجنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ جب ایک گائوں کا نوجوان یورپ جا کر پیسے کمانے لگتا ہے، تو باقی والدین بھی اسی خواب میں کھو جاتے ہیں اور اپنے بچوں کو ڈنکی کے راستے پر دھکیل دیتے ہیں۔دوسری بڑی ذمہ داری سوسائٹی پر عائد ہوتی ہے، جو بیرون ملک جانے والے ہر شخص کو ’’ہیرو‘‘بنا دیتی ہے، چاہے وہ غیر قانونی طریقے سے ہی کیوں نہ گیا ہو۔ معاشرے میں یہ سوچ عام ہو گئی ہے کہ باہر جانے والا شخص کامیاب ہے، چاہے وہ وہاں کتنی ہی مشکل زندگی گزار رہا ہو۔ تیسری ذمہ داری قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ہے، جو انسانی سمگلنگ کے نیٹ ورکس کے خلاف سخت کارروائی نہیں کر رہے۔ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی اور دیگر اداروں کو چاہیے کہ وہ ان ایجنٹوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں جو معصوم لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔اگر اس مسئلے کو جڑ سے ختم کرنا ہے، تو سب سے پہلے نوجوانوں کی ذہن سازی کرنا ہوگی۔ انہیں بتایا جائے کہ یورپ کوئی جادوئی زمین نہیں، جہاں پیسہ درختوں پر لگتا ہے۔ انہیں اس حقیقت سے روشناس کرانا ہوگا کہ غیر قانونی راستے ان کی زندگی کو دا پر لگا سکتے ہیں۔حکومت کو چاہیے کہ ایسے پروگرامز متعارف کرائے، جو نوجوانوں کو پاکستان میں ہی بہتر روزگار فراہم کریں۔ جو سرمایہ لوگ ڈنکی کے لئے خرچ کرتے ہیں، اگر وہی کاروبار یا تعلیم پر لگائیں، تو ان کے لیے زیادہ محفوظ اور مستحکم راستے کھل سکتے ہیں۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کو انسانی سمگلرز کے خلاف سخت کارروائیاں کرنی چاہئیں۔ بین الاقوامی سطح پر ایسے ممالک سے تعاون کیا جائے، جہاں پاکستانی غیر قانونی طور پر جانے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ یہ سلسلہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو سکے۔یورپ کا خواب زندگی سے بڑھ کر نہیں۔ ’’ڈنکی‘‘صرف ایک غیر قانونی سرحد پار کرنا نہیں، بلکہ ایک خودکشی کا راستہ ہے، جو زیادہ تر مسافروں کے لئے ’’خوابوں کے قبرستان‘‘ میں بدل جاتا ہے۔ اگر واقعی ایک بہتر مستقبل چاہیے، تو اس کے لیے قانونی اور محفوظ راستے تلاش کریں، ورنہ یہ راستہ صرف بربادی کی طرف لے جاتا ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ہو جاتے ہیں یورپ پہنچ دیتے ہیں کرتے ہیں ہوتا ہے جاتا ہے کے لیے کے لئے
پڑھیں:
یوکرین: ٹرمپ کی وارننگ کے مدنظر یورپی یونین کا سربراہی اجلاس
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 مارچ 2025ء) برسلز میں بدھ کو ہونے والے سربراہی اجلاس میں یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی کے ساتھ یورپی یونین کے 27 ممالک کے رہنما شامل ہوں گے۔ حالانکہ ہنگری نے کییف کی حمایت میں بیان کی توثیق کرنے سے انکار کر دیا ہے، جس سے ان رہنماؤں کے اظہار یکجہتی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
امریکی مدد کے بغیر یورپ اپنا دفاع کیسے ممکن بنا پائے گا؟
یہ میٹنگ دفاعی پالیسی کے فیصلے کے ایک ڈرامائی پس منظر میں ہو رہی ہے۔
یورپ کو خدشہ ہے کہ یوکرین کے خلاف جنگ چھیڑنے والا روس یورپی یونین کے کسی دوسرے ملک پر اگلا حملہ کر سکتا ہے اور موجودہ سیاسی حالات میں یورپ امریکہ پر بھروسہ نہیں کر سکتا۔خبر رساں ایجنسی روئٹرز، جس نے اجلاس کا مسودہ دیکھا ہے، کے مطابق اس میں قائدین عہدیداروں سے پیش رفت پر "آگے بڑھنے کے لئے" زور دیں گے کہ وہ بالخصوص یورپی یونین کی بڑھتی ہوئی فوج کو مربوط کرنے کے لیے اقدامات پر تیزی سے کام کریں تاکہ یوکرین کی مدد کی جاسکے۔
(جاری ہے)
لندن سمٹ: یوکرین، برطانیہ اور فرانس مل کر سیزفائر پلان تیار کرنے پر متفق
تاہم، یہ واضح نہیں ہے کہ آیا تمام 27 رہنما یوکرین پر متن کی توثیق کریں گے کیونکہ ٹرمپ کے اتحادی ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربان نے ویٹو کی دھمکی ہے۔ اوربان نے کریملن سے بھی دوستانہ تعلقات برقرار رکھے ہیں۔
یورپی یونین کو کیا خدشات لاحق ہیں؟امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ اور یورپ کو جوڑنے والے نیٹو سکیورٹی اتحاد کے لیے پرعزم ہیں۔
لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ یورپ کو اپنی سلامتی کی زیادہ ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ اس سے قبل انہوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ امریکہ نیٹو کے ایسے اتحادی کی حفاظت نہیں کرے گا جو دفاع پر کافی خرچ نہیں کرتا۔یوکرین کے لیے زبردست حمایت کے امریکہ کے سابقہ موقف کے برخلاف، صدر ٹرمپ کی جانب سے ماسکو کے لئے زیادہ مفاہمت پر مبنی موقف اختیار کرنے کے فیصلے نے ان یورپی ملکوں کو گہری تشویش میں مبتلا کر دیا ہے جو روس کو اپنی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔
سربراہی اجلاس سے قبل فرانس کے صدر ایمانوئل ماکروں نے بدھ کو فرانسیسی قوم سے خطاب میں یوکرین کی جنگ کے ذکر کرتے ہوئے کہا، "میں یقین کرنا چاہتا ہوں کہ امریکہ ہمارے ساتھ کھڑا رہے گا، لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو ہمیں تیار رہنا ہو گا۔"
سربراہی اجلاس میں وفود یورپی یونین کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈیر لائن کے 864 بلین ڈالر کے "ری آرم یورپ" کے منصوبے پر بھی تبادلہ خیال کرنے والے ہیں۔
جوہری اشتراک میں اضافے پر تبادلہ خیالیورپی رہنماؤں کے خدشات کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صدر ماکروں نے کہا کہ فرانس، اپنے یورپی شراکت داروں کو اپنے جوہری ہتھیاروں کے ذریعے فراہم کردہ تحفظ میں توسیع پر بات چیت کے لیے تیار ہے۔
اس سے قبل جرمنی کے ممکنہ نئے چانسلر فریڈرش میرس نے ماکروں سے جوہری اشتراک میں اضافے پر بات کی تھی۔
ارزولا فان ڈیر لائن کا کہنا تھا کہ یورپ کو "اس پیمانے پر واضح اور موجودہ خطرے کا سامنا ہے جو ہم میں سے کسی نے بھی اپنی بالغ زندگی میں نہیں دیکھا"۔ ادھر یورپی کونسل کے صدر انتونیو کوسٹا نے کہا کہ یہ "یوکرین اور یورپی سلامتی کے لیے ایک اہم لمحہ ہے"۔
امریکہ نے یوکرین کو انٹیلی جنس شیئرنگ روک دیامریکی سینٹرل انٹیلیجینس ایجنسی کے سربراہ جان ریٹ کلف نے کہا ہے کہ واشنگٹن نے یوکرین کے ساتھ خفیہ معلومات کے تبادلے کو روک دیا ہے۔
یہ اقدام صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی کے درمیان وائٹ ہاوس میں اس ملاقات کے بعد اٹھایا گیا ہے، جو ناخوشگوار تکرار میں تبدیل ہو گئی تھی۔ امریکی رہنماؤں نے زیلنسکی سے کہا تھا کہ وہ امریکی حمایت کے بدلے میں نا شکری کا رویہ اپنا رہے ہیں۔
نشریاتی ادارے فوکس نیوز سے بات کرتے ہوئے ریٹ کلف نے تاہم کہا امریکہ کی طرف سے یوکرین کے ساتھ ملٹری اور انٹیلی جینس کا روکنا عارضی طور پر کیا گیا اقدام ہے۔
انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ مستقبل میں امریکہ اور یوکرین ایک دوسرے کے ساتھ شانہ بہ شانہ کام کریں گے۔
صدر ٹرمپ نے منگل کو کہا تھا کہ زیلنسکی نے انہیں بتایا ہے کہ کییف ماسکو کے ساتھ مذاکرات اور امریکہ کے ساتھ معدنیات کے معاہدے کو تیار ہے اور یہ کہ یوکرین گزشتہ ہفتے وائٹ ہاوس ملاقات میں تلخ کلامی سے آگے پیش رفت کرنے پر کام کر رہا ہے۔
زیلنسکی نے منگل کو کہا تھا کہ وائٹ ہاوس میں گزشتہ ہفتے میڈیا کی موجودگی میں ملاقات کے دوران جو کچھ ہوا انہیں اس پر افسوس ہے اور وہ اسے درست کرنا چاہتے ہیں۔
ایڈیٹر: صلاح الدین زین