اُم حسان کی گرفتاری اور رہائی
اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT
سلطان صلاح الدین ایوبی ؒ کا ایک قول ہے کہ ’’اگر مجھے ایک عورت کو قید سے رہائی دلانے کے لئے اپنا قلعہ چھوڑنا پڑے تو میں اپنا قلعہ چھوڑ کر عورت کو رہائی دلائوں گا۔اس لئے کہ قلعہ تو میں پھر بزور طاقت حاصل کر لوں گا‘‘۔ مولانا عبدالعزیز نے حکومتی مطالبے پر لال مسجد سے ملحقہ جامعہ حفصہ کی زیر تعمیر عمارت کے کچھ حصے کو مسمار کروا کر جامعہ حفصہ کی پرنسپل اُم حسان سمیت جامعہ سیدہ حفصہ کی نو معلمات و طالبات کو ناجائز قید سے رہائی دلوا دی۔جس انداز میں ہزاروں عالمات کی استاد اُم حسان کو گرفتار کیا گیا،پھر ان کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کیا گیا،پھر انہیں قید میں رکھ کر ان سے اور مولانا عبدالعزیز سے ناجائز مطالبات منوائے گئے اور پھر ان ناجائز مطالبات کے تسلیم کئے جانے کے بعد ان کی رہائی عمل میں لائی گئی،اس سب سے ہمارے ملک کا پولیس اور عدالتی نظام کا اصل چہرہ پوری دنیا کے سامنے بے نقاب ہو گیا ہے۔کہاں ہیں اب وہ نام نہاد انسانی حقوق کی علمبردار این جی اوز کہ جنہیں مقدس ہستیوں کی بدترین توہین کے مرتکب گستاخوں کی گرفتاری پر انسانی حقوق یاد آجاتے ہیں؟کہاں ہیں اب وہ لوگ کہ جو مقدس ہستیوں کی بدترین توہین کے مرتکب گستاخوں کے خلاف قانون کے حرکت میں آنے پر انکوائری کمیشن کے قیام کا واویلا کرتے ہوئے توہین مذہب و توہین رسالت کے قوانین کے غلط استعمال کا جھوٹا پروپیگنڈہ کرکے مذکورہ قوانین کو ختم کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں؟ پوری دنیا نے دیکھ لیا کہ مولانا عبدالعزیز اور محترمہ اُم حسان سے غیر قانونی اور ناجائز مطالبات تسلیم کروانے کے لئے اُم حسان وغیرہ کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ اور تعزیرات پاکستان کی متعدد دفعات کا غلط استعمال کرتے ہوئے ایک جھوٹا مقدمہ درج کیا گیا۔اب ان دفعات کو ختم کرنے کا مطالبہ کوئی کیوں نہیں کررہا کہ جن کا غلط استعمال اظہر من الشمس ہے؟
مورخہ 19 فروری کی شب محترمہ ام حسان وغیرہ کی گرفتاری کے بعد حکومت اور مولانا عبدالعزیز کے مابین ہونے والے مذاکرات کے متعلق تفصیلات مورخہ 28 فروری کو ترجمان شہداء فائونڈیشن (لال مسجد)نے جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’خطیب لال مسجد مولانا عبدالعزیز کی جانب سے بنائی گئی مذاکراتی کمیٹی اور حکومت کی جانب سے ضلعی انتظامیہ کے اعلیٰ افسران پر مشتمل کمیٹی کے درمیان جاری مذاکرات کا سلسلہ ختم ہو گیا۔مذاکرات کی ناکامی کے بعد حالات جس خطرناک رخ کی طرف بڑھ رہے ہیں،اسے مدنظر رکھتے ہوئے مجبورا ًحقائق عوام کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔افسوس ناک امر ہے کہ ضلعی انتظامیہ کے ساتھ جاری مذاکراتی عمل ناکام ہو گیا۔ہمیں افسوس ہے کہ معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرنے کی ہماری کوشش کامیاب نہیں ہو سکی.
ضلعی انتظامیہ کی پہلی شرط پر مولانا عبدالعزیز کی جانب سے بتایا گیا کہ کبھی بھی غیر اخلاقی سرگرمیوں کے خلاف ام حسان نے قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیا۔ آئندہ بھی قانون کو ہاتھ میں نہیں لیا جائے گا۔ضلعی انتظامیہ کو بتایا گیا کہ جب کبھی بھی کوئی غیر اخلاقی سرگرمی ہوئی تو اس کے خلاف کارروائی کے لئے 15 کو کال اور متعلقہ مجسٹریٹ سے رابطہ کیا گیا۔ضلعی انتظامیہ کی دوسری شرط پر یہ کہا گیا کہ اگر کسی مسجد و مدرسے کے متعلق کوئی تنازع کھڑا ہو تو اسے حل کرنے کے لئے جید علمائے کرام کی کمیٹی بنا دی جائے۔وہ کمیٹی اس تنازع کے متعلق فیصلہ کرے۔ام حسان ایسے تنازعات میں نہیں پڑیں گی۔گویا کہ کمیٹی نے ام حسان وغیرہ کی رہائی کے لئے ضلعی انتظامیہ کی تین شرائط میں سے دو شرائط تسلیم کر لی تھیں۔ضلعی انتظامیہ کی تیسری شرط جو کہ لال مسجد کے ساتھ جامعہ حفصہ کی دوبارہ تعمیر کی گئی بلڈنگ کی مسماری کے متعلق تھی،اس پر ڈیڈ لاک تھا۔مولانا عبدالعزیز کا موقف تھا کہ لال مسجد آپریشن کے متعلق سپریم کورٹ نے از خود نوٹس کیس میں 02 اکتوبر 2007ء کو وفاقی حکومت اور سی ڈی اے کو حکم دیا تھا کہ وہ لال مسجد کے ساتھ پرانی جگہ پر ہی جامعہ حفصہ کو ایک سال کے اندر دوبارہ تعمیر کرے۔سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی روشنی میں وفاقی حکومت اور سی ڈی اے لال مسجد کے ساتھ پرانی جگہ پر ہی جامعہ حفصہ کی دوبارہ تعمیر کی پابند تھی۔وفاقی حکومت اور سی ڈی اے نے سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا۔وفاقی حکومت اور سی ڈی اے نے سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا تو ہم نے از خود جامعہ حفصہ کی دوبارہ تعمیر شروع کر دی۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: مولانا عبدالعزیز کی جانب سے ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ضلعی انتظامیہ کے مذاکراتی کمیٹی جامعہ حفصہ کی مذاکراتی عمل مذاکرات کے سپریم کورٹ میں نہیں کمیٹی نے کے متعلق کیا گیا کے خلاف کی گئی کے بعد کے لئے
پڑھیں:
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس چوہدری عبدالعزیز نے استعفیٰ دیدیا
لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس چوہدری عبدالعزیز— فائل فوٹولاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس چوہدری عبدالعزیز نے استعفیٰ دے دیا۔
ذرائع کے مطابق جسٹس چوہدری عبدالعزیز 2016ء میں لاہور ہائی کورٹ کے جج بنے تھے۔
جوڈیشل کمیشن اجلاس میں لاہور ہائیکورٹ میں 10 ایڈیشنل ججز کی تعیناتی کیلئے 4 سیشن ججز اور 45 سینئر وکلاء کے ناموں پر غور ہوگا۔
ان کے قریبی ذرائع نے بتایا ہے کہ جسٹس چوہدری عبدالعزیز نے استعفیٰ ذاتی وجوہات کی بنیاد پر دیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ چوہدری عبدالعزیز نے 2033ء میں اپنے عہدے سے ریٹائر ہونا تھا تاہم انہوں نے قبل از وقت ہی عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔