ابن حجر عسقلانی، تاریخ اسلام کے عظیم مفکر
اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT
اسلامی تاریخ کے عظیم مفکر، محدث،فقیہ، تاریخ دان، مصنف اور منصف ابن حجر عسقلانی فلسطین کے شہر عسقلان سے نسبت رکھتے تھے اسی نسبت سے عسقلانی کہلائے،جبکہ ان کی جنم بھومی مصر ہے جہاں وہ 1372 میں علم کے عظیم گہوارے قاہرہ میں پیدا ہوئے اور ذوق علم کی ساری پیاس قدیم تہذیب کے گہوارے مصرہی میں بجھائی۔ آپ کا پورا نام شہاب الدین احمد بن علی بن محمد بن حجر العسقلانی ہے۔ ماں باپ کا سایہ بچپن ہی میں سر سے اٹھ گیا، تاہم ایک متمول ومعزز خاندان نے آپ کی پرورش کی ذمہ داری اٹھالی۔بچے کے رجحانات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس کی بہترین تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا۔ بچپن میں کلام پاک کے حفظ کی سعادت نے ان کی فکری صلاحیتوں کو مہمیز لگائی اور انہوں نے دینی علوم کی طرف بھرپور توجہ دینا شروع کردی، تاریخ، فقہ اور حدیث کے ساتھ ساتھ ادب کو حرز جاں بنایا۔
حصول علم کا شوق پورا کرنے کے لئے زین الدین العراقی، ولی الدین عراقی، ابن الملقن اور شمس الدین البرماوی جیسے جید اساتذہ کی شاگردی نصیب کا حصہ بنی، مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، یمن اور شام کا علمی سفر کیا اور وہاں کے علماء و ادباء سے علمی استفادہ کیا۔ ابن حجر عسقلانیؒ نے اول اول علم حدیث کو ذوق نظر بنایا اور امام بخاریؒ کی تصنیف ’’صحیح بخاری کی شرح ‘‘ ’’فتح الباری شرح صحیح بخاری‘‘ لکھی جو عالم اسلام میں چاردانگ مشہور و معروف ہوئی،جو اب تک’’صحیح البخاری‘‘ کی جامع ترین اور مستند شرح گردانی جاتی ہے۔ اس میں ابن حجر عسقلانیؒ نے مختلف علمی نکات پرسیرحاصل بحث کی ہے۔ خصوصاً حدیث کے الفاظ اور زبان وبیان اور ان کے لغوی اور نحوی پہلوئوں کا عمیق تجزیہ، قرات اور لہجوں کی روشنی میں الفاظ کے ممکنہ معانی کی تلاش کابیان، متضاد نظر آنے والی احادیث میں تطبیق اور ایک حدیث کو دوسری حدیث کو قرآن یا اجماع امت کے حوالے سے سمجھانے کی سعی کی۔حدیث کے فقہی رموز میں آئمہ اربعہ کے اختلافات کواجاگر کیا اور ہر مسلک کی تائید یا تنقید بارے دلیل کا اہتمام کیا۔
راویان پر ہونے والی جرح، تعدیل یا ثقاہت و تضعیف سے متعلق محدثین کی آرا پیش کیں۔ابن حجر عسقلانی ؒکا وصف یہ ہے کہ حدیث کے سیاق و سباق کی وضاحت کے لئے حدیث کا تاریخی پس منظر بیان کرتے ہیں ساتھ ہی عرب کی سماجی و ثقافتی روایات کے تناظر میں حدیث کی صراحت فرماتے ہیں۔ ابن حجر نے شرح لکھتے ہوئے صحہ ستہ کی تمام کتب کا تقابلی مطالعہ بھی ضرورت کے مطابق پیش کیا اور اس امر کی وضاحت کی کہ امام بخاریؒ نے کس اسلوب یا طرز ترتیب کے تحت باب بندی کی۔بعض مقامات جہاں امام بخاری کسی حدیث کا ذکر نہیں کرتے تو اس امر کا سبب تلاش کرکے بتایا ہے۔
ابن حجر عسقلانی کی ایک اہم کتاب’’ الدررالکامنہ فی اعیان الما الثامن‘‘ ہے جو تذکرہ نویسی کا شاہکار ہے،جس میں آٹھویں صدی ہجری یعنی چودھویں صدی عیسوی کے علماء ، محدثین، صوفیاء ، سلاطین، قاضیوں اور ادیبوں کے حالات رقم فرمائے ہیں۔یہ کتاب چارجلدوں پر محیط ہے اورتقدیم و تاخیر کادھیان رکھتے ہوئے شخصیات کا ذکرحروف تہجی کے اعتبار سے کیا ہے۔کتاب میں تقریباً پانچ ہزار شخصیات کا تذکرہ ہے اور غیر جانبداری کے ساتھ ہر شخصیت کا مختصر اور جامع ذکر کیا ہے۔ یہ کتاب آٹھویں صدی کے عجوبہ روزگار خزانے کی حیثیت رکھتی ہے،جس میں علماء ، محدثین، فقہاء اور مورخین کے ساتھ ساتھ اس دور کی علمی تحریکوں اور علمی رجحانات و میلانات کو بھی احاطہ تحریر میں لایا گیا ہے۔ علمائے امت’’ الدررالکامنہ‘‘ کو اسلام کا قیمتی اثاثہ تصور کرتے ہیں۔کتاب مذکورہ میں محدثین میں تقی الدین سبکیؒ، ابن کثیر ؒ، ابن تیمیہ ؒ، علامہ ذہبی اور امام ابن تیمیہ کے شاگرد ابن القیم الجوزیہ کا ذکر ہے۔
شعرا میں لسان الدین ابن الخطیب، اندلس کے معروف شاعر، سیاستدان اورمورخ جو غرناطہ کے دربار سے بھی وابستہ تھے۔ شمس الدین ابن جابر الاندلسی، عربی زبان کے شاعر،صلاح الدین الصدفی جبکہ ادباء اور تاریخ دانوں میں ابن فضل اللہ العمری، جغرافیہ دان، فلسفی مورخ اور ادیب،ابن خلدون ماہرعمرانیات، فلسفی اور مورخ، ابن الوردی، مشہور ادیب، شاعر اور تاریخ نویس، قاضی القضا رہے جبکہ اپنی کتاب میں مدینہ کے قاضی ابن فرحون جو فقہ مالکی کے عالم بھی تھے ان کا ذکرکیا، برہان الدین ابن مفلح حنبلی کے ممتاز فقیہ،ابن رجب حنبلی محدث اور فقیہ،صوفیاء و مشائخ میں ابن عطاء اللہ اسکندری، ابن سبعین، صوفی اور ماہر فلسفی،بن نبات المصری جو صوفی اور خطیب تھے،جن کے ملفوظات آج بھی اہل تصوف کے یہاں اہم سمجھے جاتے ہیں۔غرض ابن حجر عسقلانی نے آٹھویں صدی ہجری کے تمام شعبوں سے متعلق نابغہ روزگار لوگوں کو اپنی تصنیف میں ان کے مقام کے مطابق جگہ دی.
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ابن حجر عسقلانی حدیث کے ہی میں
پڑھیں:
ورکنگ ویمنز انڈوومنٹ فنڈ قائم کرنے کا اعلان: خواتین کو مرکزی دھارے میں لا کر ہی پاکستان کو عظیم ملک بنا سکتے ہیں، وزیراعظم
اسلام آباد (اپنے سٹاف رپورٹر سے) وزیراعظم شہباز شریف نے صنفی مساوات کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ خواتین کو تعلیم، ہنر مندی اور روزگار کے مواقع تک یکساں رسائی فراہم کر کے ہی انہیں بااختیار بنایا جا سکتا ہے۔ خواتین کے حقوق کو یقینی بنانا ہمارا مشن اور غیر متزلزل عزم ہے۔ وزیر اعظم کا عالمی یوم خواتین کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب۔ قومی کمشن برائے حیثیت نسواں اور اقوام متحدہ پاپولیشن فنڈ کی تیار کردہ دارالحکومت کیلئے صنفی مساوات کے حوالہ سے پہلی رپورٹ بھی لانچ کی جو تعلیم، صحت، گورننس، سیاسی نمائندگی اور انصاف جیسے اہم شعبوں میں چیلنجوں کی نشاندہی اور ان کے حل کی سفارش کرتی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ حکومت قومی معیشت میں کردار ادا کرنے والے پروگراموں میں خواتین کی شمولیت کو فروغ دینے کے لیے اجتماعی اقدام کے لیے صوبوں کے ساتھ اشتراک کار کرے گی۔ انہوں نے ورکنگ ویمنز انڈومنٹ فنڈ قائم کرنے کا اعلان کیا تاکہ کام کرنے والی خواتین کی مدد کی جا سکے اور انہیں عصری چیلنجوں کا مقابلہ کرنے میں مدد ملے۔ وزیر اعظم نے خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کے خاتمے اور مردوں کے مساوی سہولیات کو یقینی بنانے کے لیے خصوصی انتظامات کرنے کے لیے ایک انقلابی قدم قرار دیا۔ یکساں مواقع کی فراہمی سے ہماری پچاس فیصد خواتین کی آبادی کو ایک مفید افرادی قوت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اسلام آباد میں سرکاری اور نجی محکموں میں ڈے کیئر سینٹرز قائم کیے گئے ہیں۔ وزیر اعظم نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ ملک میں اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کی ایک بڑی تعداد کام اور خاندانوں میں توازن پیدا کرنے کی جد و جہد میں پیشہ ورانہ کیریئر چھوڑ دیتی ہیں۔ جس سے ہنر مند انسانی وسائل کا بہت بڑا نقصان ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم یافتہ خواتین کے اس طبقہ کے لیے میرا پیغام ہے کہ وہ آگے آئیں اور اپنی مہارت کے حامل ہسپتالوں، بنکوں اور دیگر پیشوں میں شامل ہوں تاکہ قومی معیشت میں مثبت کردار ادا کرسکیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ملک کی ان ممتاز خواتین فاطمہ جناح اور بیگم رعنا لیاقت علی خان، پاکستان اور مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بینظیر بھٹو، آمریت کے خلاف مزاحمت کرنے والی مثالی شخصیات بیگم نصرت بھٹو اور بیگم کلثوم نواز ، سماجی کارکنان بلقیس ایدھی اور ڈاکٹر روتھ فائو ، قانون دان عاصمہ جہانگیر ، ملک کی کم عمر ترین آئی ٹی ماہر ارفع کریم، سابق سپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا، پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ مریم نواز، لاہور ہائی کورٹ کی پہلی خاتون چیف جسٹس عالیہ نیلم اور سپریم کورٹ کی پہلی خاتون جج جسٹس عائشہ ملک کا ذکر کیا۔انہوں نے کہا کہ قوم کی یہ بیٹیاں خواتین کو بااختیار بنانے کی ایک قابل ذکر علامت ہیں جنہوں نے اپنے اپنے شعبوں میں اپنی شناخت بنائی۔شہباز شریف نے اپنی پارٹی کے ابتدائی دور حکومت میں خواتین کی خودمختاری لیے اٹھائے گئے اقدامات کو ذکر کیا جن میں خواتین کے لیے پنجاب کے پہلے انسداد تشدد مراکز کا قیام، سرکاری محکموں کے بورڈز میں خواتین کے کوٹہ میں اضافہ، طالبات کے لیے وظیفے میں اضافہ اور 90 ہزار بچیوں کو سکولوں میں داخل کر کے اینٹوں کے بھٹوں پر چائلڈ لیبر کا خاتمہ شامل ہے۔ اس موقع پر وزیر قانون، انصاف اور انسانی حقوق اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایت کے مطابق وزارتوں اور محکموں کو خواتین کی شمولیت کی حامل پالیسیوں کو یقینی بنانے کے لیے گزشتہ سال ٹاسک دیا گیا تھا۔صنفی مین اسٹریمنگ کی وزیراعظم نے 10 بہترین نجی کمپنیوں کو فیملی فرینڈلی ایوارڈز دیئے جن میں الفا بیٹا کور سلوشنز، ارفع کریم ٹیکنالوجی انکیوبیٹر، ایوی ایشن ایم آر او، بلنک کیپٹل، فنورکس گلوبل، گفٹ ایجوکیشنل، کِسٹ پے، لائبہ انٹرپرائزز، لیڈیز فنڈ انرجی، اور لی اینڈ فنگ پاکستان شامل تھیں۔یہ ایوارڈز ایک آن لائن سروے اور اسکورنگ میٹرکس پر مبنی تھے جو ایس ای سی پی نے یو این ویمن اور پاکستان بزنس کونسل کے تعاون سے تیار کیا تھا۔ 2024 ء میں شروع کیے گئے سروے میں 230 سے زائد کمپنیوں نے حصہ لیا، جن میں سے 10 کو شفاف عمل کے ذریعے شارٹ لسٹ کیا گیا۔وزیراعظم شہباز شریف نے کاٹن کی تیزی سے گرتی پیداوار پر اظہار تشویش کیا ہے۔ وزیراعظم نے کپاس کی بحالی کیلئے 15 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی۔ کمیٹی کپاس کی فصل کی بحالی کیلئے 30 دن میں تجاویز دے گی۔ ایم این اے طارق جاموت‘ ڈاکٹر احسن رضا بھی کمیٹی میں شامل ہیں۔ پہلا اجلاس 13 مارچ کو طلب کر لیا گیا ہے۔