یوکرین کا مزاحیہ اداکار ’ولادیمیر زیلنسکی‘ عہدہ صدارت تک کیسے پہنچا؟
اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT
یوکرین کی سیاسی مزاحیہ ٹی وی سیریز سرونٹ آف دی پیپل(Servant of the People) جسے ’سرونٹ آف دی نیشن‘ بھی کہا جاتا ہے، یوکرین کے مزاحیہ اداکار ولادیمیر زیلنسکی نے تخلیق اور پروڈیوس کی تھی۔ پھر انہوں نے اسی نام ’سرونٹ آف دی پیپل‘ سے سیاسی جماعت بنائی اور یوکرین کے صدر بن گئے۔
3 سیزن پر مشتمل سیریز کی پروڈکشن کمپنی ’کوارٹال 95‘ نے کی، جس کی بنیاد زیلنسکی نے رکھی تھی۔ یہ سیریز 2015 سے 2019 تک چلتی رہی جبکہ 2016 میں اس پر فلم (سرونٹ آف دی پیپل 2) بھی بنائی گئی جو 23 دسمبر کو ریلیز کی گئی تھی۔
سیریز کا پہلا سیزن جو 24 اقساط پر مشتمل تھا 16 نومبر 2015 میں ریلیز کیا گیا جبکہ دوسرا سیزن جو 24 اقساط پر مشتمل تھا 23 اکتوبر 2017 اور تیسرا سیزن جو محض 3 اقساط پر مشتمل تھا 27 مارچ 2019 کو ریلیز کیا گیا۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ کو ترکی بہ ترکی جواب دینے پر یوکرینی عوام کا زیلینسکی کو خراج تحسین
زیلنسکی نے سیریز میں مرکزی کردار (وسلی پیٹرووچ گولوبرودکو) ادا کیا تھا۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ 30 سالہ وسلی پیٹرووچ ہائی اسکول میں تاریخ کا استاد ہے۔ اس کا شاگرد اس کی ایک تقریر جس میں وہ حکومت کی کرپشن کے خلاف سخت مؤقف اختیار کرتا ہے کو ریکارڈ کرکے سوشل میڈیا پر ڈال دیتا ہے جو آگ کی طرح وائرل ہوجاتی ہے۔ یوں وسلی پیٹرووچ راتوں رات انٹرنیٹ سنسیشن بن جاتا ہے۔
وسلی پیٹرووچ کے شاگرد اس کی رضامندی کے بغیر اس کی صدارتی انتخاب کے لیے فنڈ ریزنگ مہم شروع کر دیتے ہیں اور کہانی آگے بڑھتی ہے اور وسلی پیٹرووچ (ولادیمیر زیلنسکی) یوکرین کے نئے صدر منتخب ہو جاتے ہیں۔ صدر بننے کے بعد وہ حکومتی اداروں میں کرپشن کے خاتمے کا فیصلہ کرتا ہے۔
ولادیمیر زیلنسکی نے سیریز کی شاندار کامیابی کو دیکھتے ہوئے، کہانی کو حقیقت میں بدلنے کے لیے 2018 میں ’سرونٹ آف پیپل‘ کے نام پر سیاسی جماعت بھی رجسٹر کروالی۔ 3 اقساط پر مشتمل تیسرا سیزن 27 مارچ 2019 کو ریلیز کیا گیا تھا جبکہ محض 2 ماہ بعد ہی ولادیمیر زیلنسکی بھاری اکثریت سے صدارتی انتخاب جیت کر 20 مئی 2019 کو یوکرین کے چھٹے صدر بن گئے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ٹرمپ روس سرونٹ آف پیپل ولادیمیر زیلنسکی یوکرین.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: سرونٹ ا ف پیپل ولادیمیر زیلنسکی یوکرین ولادیمیر زیلنسکی زیلنسکی نے یوکرین کے ریلیز کی
پڑھیں:
زیلنسکی اور پاکستانی سیاست دان
یہ دنیا ہمیشہ سے طاقت کے توازن سیاست کے پیچ وخم اور اقتدار کے کھیل کی اسیر رہی ہے۔ کہیں بڑی طاقتیں اپنے مفادات کے لیے کمزور ریاستوں کو شطرنج کے مہروں کی طرح استعمال کرتی ہیں توکہیں کمزور ملک اپنی بقا کے لیے طاقتوروں کی چوکھٹ پر سر جھکانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کی حالیہ تلخ کلامی نے ایک بار پھر ان رویوں کو نمایاں کردیا ہے جو عالمی سیاست کا حصہ بن چکے ہیں۔ ایک سپر پاور کا رہنما جو سمجھتا ہے کہ دنیا اس کے اشاروں پر ناچنے کے لیے بنی ہے اور ایک چھوٹے ملک کا صدر جو اپنے ملک کے دفاع کی خاطر اپنی عزت نفس کو بھی داؤ پر لگانے کے لیے تیار نظر آتا ہے۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ امریکی صدر نے کسی دوسرے ملک کے رہنما کے ساتھ اس طرح کا برتاؤکیا ہو۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں امریکا نے اپنے مفادات کی خاطر دوست اور دشمن کے ساتھ یکساں رویہ اختیار کیا۔ یوکرین جو ایک طویل عرصے سے روس اور مغرب کے درمیان سینڈوچ بنا ہوا ہے ،اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔
زیلنسکی جو ایک مزاحیہ اداکار سے سیاستدان بنے، اب ایک ایسے میدان میں کھڑے ہیں جہاں لفظوں کی جنگ کے ساتھ ساتھ ہتھیاروں کی جنگ بھی لڑی جا رہی ہے۔ ٹرمپ کی طرف سے ان کی قیادت پر کیے جانے والے طنزیہ وار اور زیلنسکی کی بے بسی کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ کمزور ممالک کے رہنماؤں کے پاس اکثر دو ہی راستے ہوتے ہیں یا تو وہ طاقتوروں کی خوشنودی حاصل کریں یا پھر مزاحمت کی راہ اپنائیں جس کے نتائج کی قیمت ان کے عوام کو چکانی پڑتی ہے۔
اگر ہم اس ساری صورتِ حال کو پاکستانی سیاست کے تناظر میں دیکھیں تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں نے ماضی کے ان تجربات سے کچھ سیکھا ہے یا نہیں۔ کیا ہم نے اپنی خارجہ پالیسی کو خود مختاری کی راہ پرگامزن کیا ہے یا ہم بھی اب تک طاقتور ممالک کے رحم وکرم پر ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی سیاست آج بھی انھی الجھنوں میں الجھی ہوئی ہے جہاں شخصیات اداروں سے زیادہ طاقتور نظر آتی ہیں اور قومی مفاد ذاتی مفاد کے نیچے دب کر رہ جاتا ہے۔
پاکستانی سیاست میں بھی کئی ایسے کردار موجود ہیں جو زیلنسکی کی طرح اقتدار میں تو آ گئے مگر انھیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ اقتدار کی کرسی کانٹوں سے بھری ہوتی ہے۔ انھیں بھی اندرونی اور بیرونی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے انھیں بھی طاقتور قوتوں کے اشاروں پر چلنا پڑتا ہے اور اگر وہ ان اشاروں کو نظر اندازکرنے کی کوشش کریں تو ان کے خلاف ایسی فضا ہموار کر دی جاتی ہے کہ انھیں اقتدار سے الگ ہونے میں دیر نہیں لگتی۔
تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں کئی رہنما عوامی حمایت کے ساتھ آئے مگر جب انھوں نے اپنے فیصلے خود کرنے کی کوشش کی تو یا تو انھیں عبرت کا نشان بنا دیا گیا یا پھر انھیں اپنی بقا کے لیے سودے بازی پر مجبور ہونا پڑا۔
ٹرمپ اور زیلنسکی کی گفتگو میں جو غرور اور بے بسی نظر آئی وہ پاکستان کی سیاست میں بھی عام ہے۔ طاقتور اورکمزورکا یہ کھیل ہمارے ہاں بھی جاری ہے۔ یہاں بھی کچھ سیاستدان خود کو ناقابلِ تسخیر سمجھتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے بغیر ملک کا نظام نہیں چل سکتا کہ عوام کی محبت ان کے ساتھ ہے اور انھیں کوئی چیلنج نہیں کرسکتا۔
دوسری طرف کچھ ایسے بھی ہیں جو ہرحال میں اقتدار میں رہنے کے لیے ہر قسم کی مصلحت اختیار کر لیتے ہیں۔ وہ یہ تسلیم کرچکے ہیں کہ انھیں کب بولنا ہے اور کب خاموش رہنا ہے کب سر اٹھانا ہے اور کب جھک جانا ہے۔ ان کے نزدیک سیاست نظریات کا نام نہیں بلکہ اقتدار حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔
پاکستان میں ایک عرصے سے سیاستدانوں کی وفاداریاں بدلنے اصولوں کی قربانی دینے اور وقتی فائدے کے لیے دیرپا نقصانات کو نظر انداز کرنے کی روایت قائم ہے۔ خارجہ پالیسی ہو یا داخلی معاملات یہاں فیصلے اکثر ان بنیادوں پر کیے جاتے ہیں جو عارضی طور پر فائدہ تو دے سکتی ہیں لیکن طویل المدتی نقصان کی بنیاد بھی رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بین الاقوامی محاذ پر اب تک کوئی مضبوط مقام حاصل نہیں کر سکے۔
پاکستان میں بھی کئی مواقع ایسے آئے جب قیادت کو ایک واضح موقف اختیار کرنا تھا مگر یا تو دباؤ میں آ کر فیصلے تبدیل کردیے گئے یا پھر وقتی فائدے کے لیے کمزور سودے بازی کر لی گئی۔ امریکا، چین، روس، سعودی عرب،ایران ان تمام ممالک کے ساتھ تعلقات میں ہمیں کئی بار ایسے لمحات کا سامنا کرنا پڑا جہاں خود مختاری اور مفادات میں توازن برقرار رکھنا ضروری تھا مگر اکثر ہم یہ توازن برقرار نہیں رکھ سکے۔
ہم کبھی ایک جانب جھک جاتے ہیں اورکبھی دوسری جانب اور اس دوران قومی مفاد پیچھے رہ جاتا ہے۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستانی سیاستدان ٹرمپ اور زیلنسکی کے حالیہ مکالمے سے کچھ سیکھیں گے؟ کیا وہ اس حقیقت کو تسلیم کریں گے کہ دنیا میں عزت صرف انھیں ملتی ہے جو اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہیں جو کمزور نہیں بلکہ مضبوط نظر آتے ہیں؟ کیا ہماری قیادت یہ سمجھ پائے گی کہ عالمی سیاست میں عزت مانگنے سے نہیں بلکہ اپنی پالیسیوں سے حاصل کی جاتی ہے؟
پاکستانی سیاستدانوں کے لیے سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ انھیں اپنے فیصلے خود کرنے کی عادت ڈالنی ہوگی، انھیں خارجہ پالیسی کو کسی اور کے اشاروں پر نہیں بلکہ قومی مفاد کے مطابق ترتیب دینا ہوگا۔ انھیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ وقتی فائدے کے لیے کی جانے والی سودے بازی آنے والے وقت میں نقصان کا سبب بنے گی۔
یہی وقت ہے کہ پاکستانی قیادت اپنی داخلی اور خارجی پالیسیوں پر از سرِ نو غور کرے وہ رویے بدلے جو ہمیں کمزور ظاہرکرتے ہیں وہ حکمتِ عملی اپنائے جو ہماری خود مختاری کو مضبوط کرے۔ اگر ہم نے تاریخ سے سبق نہ سیکھا اگر ہم نے ماضی کی غلطیاں دہرانا جاری رکھا تو ہمیں بھی ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جن کا سامنا آج زیلنسکی کررہے ہیں۔ ہم کب تک دوسروں کے فیصلوں پر اپنی سیاست کرتے رہیں گے؟ کب تک ہم طاقتوروں کے سامنے سر جھکانے کو سفارت کاری کا نام دیتے رہیں گے؟
یہ وقت فیصلہ کرنے کا ہے۔ ہمیں اپنی سیاست میں وہ شعور اور خود داری پیدا کرنی ہوگی جو ہمیں کمزور کے بجائے طاقتورکی صف میں کھڑا کر سکے۔ اگر ہم نے یہ نہ کیا تو ہماری سیاست بھی ہمیشہ ایسے ہی رہنماؤں کے گرد گھومتی رہے گی جو زیلنسکی کی طرح بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں اور ٹرمپ جیسے طاقتور ان پر اپنی مرضی تھوپتے رہیں گے۔