کراچی میں تلی ہوئی اشیاء اور میٹھے کے زیادہ استعمال سے معدے کی بیماریوں میں اضافہ ہونے لگا۔

جناح اسپتال کے ایمرجنسی انچارج ڈاکٹر عرفان کے مطابق اسپتال میں ہیضے، تیزابیت اور معدے کے امراض کے روز 70 سے زائد کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں جبکہ سول اسپتال میں 60 سے 70 کیسز روزانہ سامنے آ رہے ہیں۔

ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ عام دنوں میں جناح اسپتال میں ہیضے اور تیزابیت کے یومیہ 30 کیسز رپورٹ ہوتے ہیں، ہیضے اور تیزابیت کا شکار لوگوں کی بڑی تعداد ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کی ہے۔

طبی ماہرین نے سحری اور افطاری میں دہی کا استعمال لازمی اور چائے کا استعمال کم کرنے کا مشورہ دیا ہے۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ سحری اور افطاری کے بعد چہل قدمی کریں اور فوری سونے سے گریز کریں، کھانے میں اعتدال رکھیں، مسالے دار اور تلی ہوئی غذا کے بجائے دلیہ، پھل، سلاد کا استعمال کریں۔

ڈاکٹرز نے پانی، لیموں اور تازہ جوس کو ترجیح دینے کی ہدایت بھی کی ہے۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: کا استعمال

پڑھیں:

سندھ گورنمنٹ لیاقت آباد اسپتال میں لیتھوٹریسی مشین استعمال کیے بغیر ناکارہ

کراچی:

سندھ گورنمنٹ لیاقت آباد اسپتال میں لیتھوٹریسی مشین استعمال کیے بغیر ناکارہ ہوگئی۔

صوبائی محکمہ صحت کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اسپتال میں 15 سال قبل خریدی جانے والی لیتھوٹریسی مشین استعمال کیے بغیر خراب ہوگئی، جس سے عوام کے لاکھوں روپے ضائع ہو گئے۔ یہ مشین گردے میں شعاعوں کے ذریعے پتھری توڑنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ محکمہ صحت کے افسران نے مشین تو خرید لی، لیکن اسپتال میں اسے آپریٹ کرنے کے لیے تربیت یافتہ عملہ تعینات نہیں کیا، جس کے باعث مشین ناکارہ ہو گئی۔  

ضلع وسطی میں 45 لاکھ افراد پر مشتمل سندھ گورنمنٹ لیاقت آباد اسپتال وہ واحد اسپتال ہے جو عوام اور ٹریفک حادثات میں زخمی ہونے والوں کے علاج کے لیے ٹراما اسپتال بنایا گیا تھا، لیکن محکمہ صحت کے اعلیٰ حکام کی عدم توجہی کی وجہ سے اسے ٹراما اسپتال میں تبدیل نہیں کیا جا سکا۔ ایکسپریس ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق اسپتال کی حدود تین ہٹی سے ال آصف اسکوائر، بشمول ناظم آباد اور حیدری تک واقع ہے۔ اس اسپتال کے لیے حکومت سندھ سالانہ صرف 4 کروڑ 75 لاکھ روپے کا بجٹ فراہم کرتی ہے، جبکہ یہاں مریضوں کے داخلے کے لیے صرف 200 بستر مختص ہیں۔ او پی ڈی میں روزانہ ساڑھے تین سے چار ہزار مریض آتے ہیں۔  

داخل مریضوں کی ادویات، طبی ٹیسٹوں اور او پی ڈی میں فراہم کی جانے والی دواؤں کے لیے فراہم کردہ بجٹ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حکومت سندھ کی جانب سے اسپتال میں مختص بجٹ کے مطابق فی مریض ہر تین ماہ میں محض 41 پیسے رکھے گئے ہیں۔ اگر اس بجٹ کو ضلع وسطی کی آبادی پر تقسیم کیا جائے تو یہ نا ہونے کے برابر ہے، لیکن حکومت سندھ جب بجٹ ظاہر کرتی ہے تو یہ تاثر دیتی ہے کہ خطیر رقم فراہم کی جا رہی ہے، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔  

سندھ گورنمنٹ اسپتال لیاقت آباد سمیت دیگر اسپتالوں کو مختص کردہ بجٹ ہر تین ماہ بعد قسطوں کی صورت میں فراہم کیا جاتا ہے۔ سندھ کے تمام سرکاری اسپتال عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی رقم سے چلائے جا رہے ہیں، لیکن حکومت یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ خود اس مد میں رقم فراہم کر رہی ہے۔ ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق سندھ گورنمنٹ اسپتال لیاقت آباد کو ہر تین ماہ بعد 1 کروڑ 17 لاکھ روپے ادویات اور دیگر طبی سہولیات کے لیے دیے جاتے ہیں، جبکہ ضلع وسطی کی آبادی 45 لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔  

اسپتال کا شعبہ حادثات صرف 8 بستروں پر مشتمل ہے، جبکہ یہاں روزانہ 1500 مریض رپورٹ ہوتے ہیں۔ بعض شعبوں میں کنسلٹنٹس اور پروفیسرز بھی تعینات نہیں ہیں۔ 2009 میں اسپتال کو ٹراما سینٹر بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا، لیکن اس پر آج تک عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ ٹراما سینٹر کے لیے علیحدہ عمارت بھی تعمیر کی گئی تھی، لیکن وہاں ٹراما سینٹر قائم کرنے کے بجائے ایک منزل پر نرسنگ اسکول، دوسری پر پیرامیڈیکل اور مڈوائفری اسکول جبکہ دیگر حصے میں اسپتال انتظامیہ کے دفاتر بنا دیے گئے۔  

اسپتال میں کارڈیک یونٹ، ڈینٹل یونٹ، بزنس سینٹر اور ارتھوپیڈک یونٹ موجود ہیں، لیکن تربیت یافتہ عملہ نہ ہونے کے باعث یہاں آنے والے مریضوں کو سول یا جناح اسپتال ریفر کر دیا جاتا ہے۔ اسپتال میں میڈیکو لیگل شعبہ اور پوسٹ مارٹم کی سہولت بھی میسر نہیں۔  

اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر عتیق قریشی نے بتایا کہ اسپتال میں ماہانہ ایک لاکھ مریض مختلف او پی ڈی میں آتے ہیں اور گائنی سمیت دیگر امراض کے مکمل علاج کی سہولت موجود ہے، مگر مریضوں کے لحاظ سے بجٹ ناکافی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حالیہ دنوں میں اسپتال کے دو آپریشن تھیٹرز، جو گزشتہ پانچ سال سے بند تھے، اپنی مدد آپ کے تحت فعال کر دیے گئے ہیں۔  

لیتھوٹریسی مشین سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ یہ مشین 15 سال قبل خریدی گئی تھی، لیکن اسے چلانے کے لیے عملہ تعینات نہ ہونے کی وجہ سے یہ بغیر استعمال کے ناکارہ ہوگئی۔ تاہم، اسپتال میں لیپروسکوپی مشین کے ذریعے پتے کی سرجری شروع کر دی گئی ہے۔  

اسپتال میں ڈاکٹروں اور دیگر عملے کی کمی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ٹراما سینٹر کے لیے 2009 میں عمارت تو بنائی گئی، لیکن عملہ اور بجٹ مختص نہ ہونے کے باعث اسے فعال نہیں کیا جا سکا، اور اب اس عمارت میں نرسنگ اسکول سمیت دیگر تعلیمی ادارے قائم کر دیے گئے ہیں۔  

اسپتال میں آنکھوں کی او پی ڈی سمیت تمام شعبوں کی او پی ڈی باقاعدگی سے ہوتی ہے، جبکہ ڈائیلاسز، بلڈ بینک، فزیو تھراپی اور لیبارٹری سمیت دیگر سہولیات بھی دستیاب ہیں۔ یہاں جنرل اور ارتھوپیڈک سرجری بھی ہوتی ہے، تاہم ای این ٹی اور ارتھوپیڈک اسپیشلسٹ کی کمی ہے جبکہ فیکو مشین بھی دستیاب نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین

  • رمضان المبارک : 200 روپے کلو ملنے والا لیموں 400 روپے کلو فروخت ہونے لگا
  • خیبرپختونخوا میں گیسٹرو کے کیسز میں خطرناک حد تک اضافہ
  • 200 روپے کلو ملنے والا لیموں 400 روپے کلو فروخت ہونے لگا
  • اس ہفتے 13 اشیاء ضروریہ مہنگی اور 20 کی قیمتیں کم ہوئی
  • سندھ گورنمنٹ لیاقت آباد اسپتال میں لیتھوٹریسی مشین استعمال کیے بغیر ناکارہ
  • بارشوں کے بعد ڈینگی پھیلنے کا خدشہ، قومی ادارہ برائے صحت نے اہم ایڈوائزری جاری کردی
  • کراچی میں بلی کے کاٹنے کے کیسز بھی سامنے آ گئے
  • کراچی میں کتوں کے کاٹنے کے کیسز بڑھ گئے
  • کراچی سے سردی رخصت، درجہ حرارت بڑھنے سے متعلق نئی پیشگوئی