دہشت گردی روکنے کے لیے خیبرپختونخوا حکومت کا افغانستان سے مذاکرات پر زور
اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT
ترجمان خیبرپختونخوا حکومت کا کہنا ہے کہ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے افغانستان سے بات چیت ناگزیر ہیں، وزارت خارجہ اور داخلہ خواب غفلت سے بیدار ہو کر اندرونی و بیرونی سطح پر دہشت گردی روکنے کے لیے عملی اقدامات کریں۔
یہ بھی پڑھیں: خیبر پختونخوا حکومت 2 مذاکراتی وفد افغانستان بھیجے گی، ٹی او آرز تیار
اپنے ایک بیان میں ترجمان صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن صوبے کا کردار ادا کر رہا ہے، دہشت گردی صرف خیبر پختونخوا کا مسئلہ نہیں، بلکہ پورے ملک کا چیلنج ہے، جس کے حل کے لیے قومی یکجہتی ضروری ہے۔
بیرسٹر سیف نے شکوہ کیا کہ افغانستان سے بات چیت کے لیے طے شدہ نکات یعنی ٹی او آرز وفاق نے سرد خانے میں ڈال دیے ہیں، وفاق نہ خود افغانستان سے بات کر رہا ہے اور نہ صوبائی حکومت کو بات کرنے دے رہا ہے۔
مزید پڑھیں: خیبر پختونخوا حکومت کا وفاق سے افغانستان سے بات چیت کے لیے درکار ٹی او آرز کی جلد منظوری کا مطالبہ
انہوں نے وفاق پر زور دیا کہ وہ خیبر پختونخوا کے ساتھ مل کر اس آگ کو پورے ملک تک پھیلنے سے روکے، خیبر پختونخوا حکومت دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر شدید تشویش کا اظہار کر رہی ہے۔
بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا کے عوام اور سیکیورٹی فورسز اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں، وفاق دور بیٹھ کر تماشا دیکھنے کے بجائے دہشت گردی کے خلاف ٹھوس حکمت عملی بنائے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغانستان بیرسٹر سیف ترجمان ٹی او آرز خیبر پختونخوا خیبرپختونخوا حکومت داخلہ دہشت گردی سیکیورٹی فورسز صوبائی حکومت وزارت خارجہ وفاق.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغانستان بیرسٹر سیف ٹی او ا رز خیبر پختونخوا خیبرپختونخوا حکومت داخلہ سیکیورٹی فورسز صوبائی حکومت وفاق افغانستان سے بات پختونخوا حکومت خیبر پختونخوا حکومت کا کے لیے
پڑھیں:
افغانستان،امریکہ پاکستان میں دہشت گردی کے ذمہ دار
اسلام آباد(طارق محمودسمیر)عالمی دہشت گردی انڈیکس 2025ء میں پاکستان دوسرے نمبر پر آ گیا،2024ء میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات
میں 45 فیصد اضافہ ہوا، 2023ء میں 517 حملے رپورٹ ہوئے تھے جو 2024ء میں بڑھ کر ایک ہزار99تک جا پہنچے، کالعدم تحریک طالبان پاکستان ملک میں تیزی سے بڑھنے والی سب سے خطرناک دہشت گرد تنظیم کے طور پر سامنے آئی ہے، جو 2024ء میں پاکستان میں 52 فیصد ہلاکتوں کی ذمہ دار تھی۔گزشتہ سال ٹی ٹی پی نے 482 حملے کیے، جن میں 558 افراد جاں بحق ہوئے، جو 2023ء کے مقابلے میں 91 فیصد زیادہ ہے۔ملک میں دہشت گردی کی حالیہ لہرمیں نء حکمت عملی کیتحت سکیورٹی فورسزکو نشانہ بنایاجارہاہے، یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ دہشت گردی کے شکار بیشتر علاقے پسماندگی اور جہالت میں سرفہرست ہیںاور پسماندگی اور جہالت کا خاتمہ فوجی آپریشن سے نہیں ہوگابلکہ یہ حکومت خصوصاً صوبائی حکومتوں کی کاوشوں ہی سے ہو سکتا ہے، دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے وفاق اورصوبوں کے درمیان مؤثرتعاون ناگزیرہے جب کہ اس وقت وفاق اور خیبر پختونخوامیں ورکنگ ریلیشن شپ کا شدید فقدان ہے ، یہ ماننا ہو گا کہ سیاسی انتشار دہشت گردی کے عفریت کو پھیلنے کے لیے موافق ماحول فراہم کر رہا ہے،اسی طرح انسداد دہشت گردی میں نظم ونسق کا بھی بڑا عمل دخل ہے، خیبرپختونخوا حکومت نے روزاول سے جو طرزعمل اپنا رکھا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس کی ترجیح صوبے کیامور یا عوام کے مسائل کا حل نہیں بلکہ پارٹی کے احتجاجی لائحہ عمل اور بیانیہ کو لے کر چلنا ہے، چنانچہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نظم ونسق کے مسائل پر بھی توجہ دینا ضروری ہے، پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کی بڑی وجہ افغان سرزمین کا دہشت گردی کے لیے استعمال ہونا ہے، اگست 2021ء میں کابل میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد سے پاکستان کی مغربی سرحد پر سکیورٹی خدشات اور اندرونِ ملک دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا، اس سے بھی زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ دہشت گردوں کو افغان عبوری حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے اوردہشتگردانہ کارروائیوں میں افغانستان میں چھوڑاگیاامریکہ اسلحہ استعمال ہورہاہے، دہشت گردی اس لہرپر قابوپانے کیلیے سکیورٹی فورسزکے آپریشنزبھرپورانداز میں جاری ہیںاور اس حوالے سے اہم کامیابیاں بھی حاصل ہورہی ہیں،خصوصاًصوبہ خیبرپختونخوا ،جودہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے،وہاں حالیہ عرصے میں بڑی تعدادمیں خوارج کو جہنم واصل کیاجاچکاہے،اس میں کوئی دورائے نہیں کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے حوالے سے پاکستانی فورسزکی صلاحیتوں کی دنیامعترف ہے، ماضی میں کئے گئے آپریشن رَدُ الفَساد ، آپریشن ضربِ عضب، آپریشن کوہِ سفید،آپریشن راہِ نجات،آپریشن راہِ راست اور آپریشن راہ حق پاکستانی فورسز کی اہلیت ،صلاحیت اور مہارت کا ثبوت ہیں لیکن اس حقیقت کا ادراک بھی ضروری ہے کہ صرف طاقت کا استعمال دہشت گردی کے مسئلے کا حل نہیںبلکہ اس کے اسباب کا خاتمہ بھی ضروری ہے،سرحد پار سے آنے و الے دہشت گردوں کو افغان عبوری حکومت کی شہ میسر ہونے کے حوالے سے پاکستان کی تشویش بجا ہے، پاکستان کی جانب سے افغانستان کے ساتھ یہ مسئلہ مستقل بنیادوں پر اٹھایا جا رہا ہے لیکن افغان عبوری حکومت اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ، طالبان کا یہ اقدام دوحہ معاہدے کی بھی خلاف ورزی ہے جس میں ان کی جانب سے یقین دلایا گیا تھا کہ وہ افغانستان کو دہشت گردوں کی آماجگاہ نہیں بننے دیں گے، چنانچہ وقت آگیا ہے کہ افغانستان کے حوالے سے پالیسی کا جائزہ لیا جائے، افغان سرزمین کا دہشت گردی کے لیے استعمال روکنے کے لیے تمام ممکنہ آپشن برؤئے کار لائے جانے چاہئیں، اقوام متحدہ کی رپورٹس میں بھی افغانستان میں دہشت گردتنظیموں کے سرگرم ہونے کااعتراف کیاجاچکاہے لہذاعالمی ادارے سے مطالبہ کیاجاناچاہئے کہ وہ اس تشویش ناک صورت حال کے حوالے سے فوری اقدامات اٹھائے،اسی طرح دہشت گردی میں امریکی اسلحہ استعمال ہونے کامعاملہ ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ اٹھایاجاناچاہئے ،صدرٹرمپ افغان طالبان سے یہ اسلحہ واپس لانے کااعلان کرچکے ہیں تاہم اس حوالے سے فوری اور سنجیدہ اقدامات ضروری ہیں،امریکہ دوحہ معاہدے کااہم فریق ہے ،اسے افغان طالبان کی طرف سے اس معاہدے کی خلاف وزریوں کاسلسلہ بندکرانے کے لیے کرداراداکرناچا ہئے۔