قرآن کی ترویج بذریعہ جدید ذرائع۔۔۔۔ ایک عملی ضرورت
اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT
اسلام ٹائمز: عصرِ حاضر میں بصری مواد کو سب سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ ویڈیوز، اینیمیشن اور ڈاکیومینٹریز کے ذریعے قرآن کی تعلیمات کو کہانیوں، واقعات اور مثالوں کی شکل میں پیش کیا جائے تو یہ انداز خاص طور پر نوجوانوں اور بچوں کو بہت متاثر کرتا ہے۔ جیسے قرآن کے قصص اور تعلیمات کو اینیمیشن کی مدد سے دلچسپ اور سبق آموز انداز میں پیش کرنا اور قرآن کی سائنسی آیات اور جدید تحقیقات کے حوالے سے دستاویزی فلمیں تیار کرکے لوگوں کو قرآن کے معجزاتی پہلوؤں سے روشناس کرانا۔ یاد رہے کہ قرآن کی ترویج کیلئے صرف جدید ذرائع کا استعمال کافی نہیں، بلکہ اس کام کو مؤثر اور دیرپا بنانے کیلئے حکمت، جدت اور منظم منصوبہ بندی کی بھی ضرورت ہے۔ تحریر: محمد حسن جمالی
دنیا جس تیزی سے ترقی کے مراحل طے کر رہی ہے، اس نے زندگی کے ہر پہلو کو نئے زاویوں سے متاثر کیا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے انقلاب نے انسانی معاشرت، فکر اور طرزِ زندگی کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ آج معلومات تک رسائی آسان ترین ہوگئی ہے۔ ڈیجیٹل ذرائع اور انفارمیشن ٹیکنالوجی نے دنیا کو ایک "عالمی گاؤں" میں تبدیل کر دیا ہے، جہاں خبر اور معلومات چند لمحوں میں پوری دنیا میں پھیل جاتی ہیں۔ ایسے میں اگر ہم اپنی دینی تعلیمات، خاص طور پر قرآن کریم کی ترویج کو ان جدید ذرائع کے ساتھ ہم آہنگ نہ کریں تو یہ ہماری ایک بڑی کوتاہی اور غفلت ہوگی۔
قرآن مجید جو تمام انسانیت کے لیے ہدایت اور روشنی کا سرچشمہ ہے، جس میں ہر زمانے اور ہر قوم کے لیے رہنمائی کا کامل پیغام موجود ہے، اسے عصرِ حاضر کی زبان اور جدید اسلوب میں پیش کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمارے زمانے میں مغز متفکر رہبر معظم انقلاب نے بارہا اپنی تقاریر اور خطبات میں قرآن کی ترویج کے جدید طریقوں پر زور دیا ہے۔ انہوں نے اس بات پر تاکید کی ہے کہ ہمیں قرآن کو موجودہ نسل کی زبان میں، جدید ذرائع اور تخلیقی انداز میں پیش کرنا چاہیئے، تاکہ قرآن کا پیغام وسیع تر پیمانے پر اور مؤثر انداز میں دنیا کے کونے کونے تک پہنچے۔
ابلاغ اور مواصلات کے ذرائع جتنے آج وسیع اور طاقتور ہیں، ماضی میں ان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور بصری مواد جیسے پلیٹ فارمز نے ایک نئی دنیا تخلیق کی ہے، جہاں معلومات کی ترسیل چند سیکنڈز میں ممکن ہوچکی ہے۔ اگر ہم ان ذرائع کو قرآن کی ترویج کے لیے مثبت انداز میں استعمال کریں تو اس کے اثرات دیرپا اور ناقابلِ فراموش ہوں گے۔ سوشل میڈیا جیسے فیس بک، یوٹیوب، واٹس ایپ، انسٹاگرام، ٹویٹر اور ٹیلیگرام اب ہماری زندگی کا اٹوٹ حصہ بن چکے ہیں۔ یہ پلیٹ فارمز نہ صرف تفریح کے ذرائع ہیں بلکہ معلومات کی ترسیل اور فکری مکالمے کے مؤثر ذرائع بھی ہیں۔
دنیا بھر کے نوجوان ان پلیٹ فارمز پر سب سے زیادہ وقت گزارتے ہیں۔ یہی نوجوان ہمارے مستقبل کے معمار ہیں۔ اگر ہم قرآن کے پیغام کو ان ذرائع کے ذریعے خوبصورت، دلکش اور مؤثر انداز میں پیش کریں تو ہم یقیناً نوجوان نسل کو قرآن کی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ ایک وسیع اور متنوع سامعین تک فوری رسائی فراہم کرتا ہے۔ مختصر ویڈیوز، متاثرکن اور پوسٹس کے ذریعے قرآن کی تعلیمات کو آسان، سادہ اور جامع انداز میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً قرآن کی آیات کی تشریح، ان سے حاصل ہونے والے اسباق اور عملی زندگی پر ان کے اثرات کو چند منٹوں کی ویڈیوز میں پیش کیا جا سکتا ہے۔
آیاتِ قرآنی کے معانی اور پیغامات کو بصری خاکوں کی صورت میں پیش کرکے عام لوگوں کے لیے قرآن فہمی کو آسان بنایا جا سکتا ہے۔ قرآن کی آیات پر گہرے اور فکری کالمز، تجزیے، حکمت آموز قصے اور سبق آموز واقعات کو سوشل میڈیا پوسٹس اور بلاگز کے ذریعے عام کیا جا سکتا ہے۔ ٹیلی ویژن اور ریڈیو اب بھی دنیا میں ابلاغ کے مؤثر ترین ذرائع میں شمار ہوتے ہیں۔ اسلامی چینلز، قرآنی پروگرامز اور ڈاکومینٹریز کے ذریعے قرآن کی تعلیمات کو جدید اور دلچسپ اسلوب میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ سوال و جواب کی نشستیں، معلوماتی شوز اور نوجوانوں کو درپیش چیلنجز کے پس منظر میں قرآنی رہنمائی پر مبنی پروگرامز نہ صرف معلومات افزا ہوں گے، بلکہ دین سے جُڑنے میں بھی ایک اہم کردار ادا کریں گے۔
عصرِ حاضر میں بصری مواد کو سب سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ ویڈیوز، اینیمیشن اور ڈاکیومینٹریز کے ذریعے قرآن کی تعلیمات کو کہانیوں، واقعات اور مثالوں کی شکل میں پیش کیا جائے تو یہ انداز خاص طور پر نوجوانوں اور بچوں کو بہت متاثر کرتا ہے۔جیسے قرآن کے قصص اور تعلیمات کو اینیمیشن کی مدد سے دلچسپ اور سبق آموز انداز میں پیش کرنا اور قرآن کی سائنسی آیات اور جدید تحقیقات کے حوالے سے دستاویزی فلمیں تیار کرکے لوگوں کو قرآن کے معجزاتی پہلوؤں سے روشناس کرانا۔ یاد رہے کہ قرآن کی ترویج کے لیے صرف جدید ذرائع کا استعمال کافی نہیں، بلکہ اس کام کو مؤثر اور دیرپا بنانے کے لیے حکمت، جدت اور منظم منصوبہ بندی کی بھی ضرورت ہے۔
یعنی قرآن کے پیغام کو لوگوں کی ذہنی سطح، علمی استعداد اور فکری رجحان کے مطابق پیش کرنا ضروری ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کن افراد کو کس طرح کا پیغام دینا زیادہ مؤثر ہوگا۔ جدید ذرائع کو اپنانے میں تخلیقی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال ضروری ہے۔ نئے اور دلچسپ انداز میں قرآن کے پیغام کو پیش کرنا ضروری ہے، تاکہ لوگ اسے شوق سے سنیں اور سمجھیں۔ وسائل اور صلاحیتوں کو صحیح سمت میں بروئے کار لانا بھی نہایت اہم ہے۔ ایک جامع اور مؤثر حکمتِ عملی کے تحت ہمیں قرآن کی ترویج کے لیے اہداف متعین کرنے چاہئیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کا پیغام ہر دل تک پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے۔ قرآن کی ترویج محض ایک ذمہ داری نہیں بلکہ ایک سعادت ہے۔ آج کے دور میں جہاں معلومات کی بھرمار ہے، وہیں قرآن کی حقیقی اور خالص تعلیمات کو عام کرنا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیئے۔ جدید ذرائع جیسے سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور بصری مواد کو بروئے کار لا کر ہم نہ صرف نوجوان نسل کو قرآن سے قریب لا سکتے ہیں بلکہ انہیں ایک روشن اور درست راستہ دکھا سکتے ہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم حکمت، جدت اور بہترین منصوبہ بندی کے ساتھ اس مقدس مشن کو انجام دیں۔ یہی وقت کی ضرورت اور ہماری کامیابی کی کنجی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کے ذریعے قرآن کی تعلیمات کو قرآن کی ترویج کے میں پیش کیا جا کیا جا سکتا ہے انداز میں پیش سوشل میڈیا بصری مواد پیش کرنا ضرورت ہے کہ قرآن کو قرآن قرآن کے کے لیے
پڑھیں:
بھارت؛ رمضان المبارک میں قرآن پاک کی تلاوت جرم بنادیا گیا؛ مسلم بزرگ پر بہیمانہ تشدد
بھارتی ریاست راجستھان میں جہاں مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے حکمرانی ہے، مسلمانوں کے لیے زمین تنگ کردی گئی۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق ریاست راجستھان میں ایک بزرگ مسلمان شخص پر اُس وقت حملہ کیا گیا جب وہ ٹرین میں قرآن مجید کی تلاوت کر رہے تھے۔
یہ بزرگ شہری ایک مسجد کے امام تھے اور گنگا پور سٹی (راجستھان) سے انکلیشور (گجرات) جا رہے تھے تاکہ اپنے مدرسے کے لیے چندہ اکٹھا کر سکیں۔
متاثرہ شخص کے اہل خانہ نے بتایا کہ جب امام صاحب نے ٹرین میں قرآن کی تلاوت شروع کی تو ایک گروہ نے ٹرین میں سوار ہو کر مسلمانوں کے خلاف توہین آمیز تبصرے شروع کر دیے۔
ایک عورت نے بزرگ امام کو پاکستانی کہا، جس کے بعد یہ صورتحال شدت اختیار کر گئی اور انتہا پسند ہندوؤں نے بزرگ شہری کو تشدد کا نشانہ بنایا۔
امام مسجد کو تشویشناک حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ان کا کیا علاج کیا جا رہا ہے۔ اس واقعے سے مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔