’امریکا فرسٹ‘ بمقابلہ ’سب سے پہلے پاکستان‘
اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT
جنرل پرویز مشرف کے دور میں ’سب سے پہلے پاکستان‘ کی اصطلاح وجود میں آئی۔ اس کا سیدھا سا مطلب یہ تھا کہ پاکستان کو اپنے قومی مفادات سامنے رکھنے چاہییں، ایسا کرتے ہوئے اسے اپنے ہمسایوں میں سے کسی (جیسے افغانستان میں ملا عمر کی طالبان حکومت )کو اگر قربان کرنا پڑے تو کوئی حرج نہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ سابق جہادی تنظیموں کے حوالے سے بھی مشرف حکومت نے یوٹرن لی ، جس پر ان میں خاصی توڑ پھوڑ بھی ہوئی اور بعض سپلنٹر گروپس الگ ہو کر بیت اللہ مسعود کے ساتھ جا ملے، انہوں نے خاصے مسائل بھی پیدا کیے اور ہمارا جانی نقصان بھی خاصا ہوا۔ اگرچہ بعد میں اندازہ ہوا کہ جنرل مشرف حکومت نے ان جہادی تنظیموں کو لوپروفائل میں جانے اور اپنی سرگرمیاں روکنے کا کہا تھا، انہیں کچلنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ تاہم شدت پسند اور بے لچک ذہن کو یہ باتیں سمجھ نہیں آتیں۔
خیر یہ سب کچھ ہوتا رہا۔ تب جنرل مشرف کی اس ’سب سے پہلے پاکستان‘ کی پالیسی پر بہت تنقید بھی ہوئی، مگر بہرحال یہ ایک منطقی کوشش تھی۔ تب کے معروضی حالات میں شاید اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ ممکن ہے کوئی سول لیڈر حکمران ہوتا تو وہ شاید اسے کچھ مزید سلیقے سے کر لیتا اور اس کے لیے عوامی بیانیہ بھی ترتیب دیتا، مگر پرویز مشرف حکومت نے جو سمجھ آیا، وہ کر ڈالا۔ آج وہ سب تاریخ بن چکا ہے، ہمارے لیے اس کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کرنا زیادہ آسان ہے۔
یہ بھی پڑھیں:کیا بنگلہ دیش کی ’تحریک انصاف‘ کامیاب ہو پائے گی؟
پاکستان جیسے کمزور، معاشی طور پر غیر مستحکم اور ہمہ وقت جیو پولیٹیکل سیچوئشن میں گھرے ملک کے لیے اپنے سروائیول کے لیے مسلسل سوچنا اور کوئی نہ کوئی حکمت عملی بنائے رکھنا پڑتی ہے۔ وقت نے ہمیں یہ سکھا دیا ہے کہ سب انڈے ایک ہی ٹوکری میں نہیں رکھنے چاہییں ۔
ہمیں مغرب کے ساتھ بنا کر رکھنا ہے، جبکہ چین کے ساتھ اپنے اسٹریٹجک تعلقات بھی قائم رکھنے ہیں۔ ہمیں سعودی عرب اور امارات وغیرہ سے قریبی تعلق استوار کرنا ہے، جبکہ ایران کے خلاف کسی مہم جوئی کا حصہ بھی نہیں بننا۔ اسی طرح کی بعض اور چیزیں بھی ہیں۔
ہمارے حکمرانوں سے ماضی میں بہت سی غلطیاں ہوئیں، مگر ہم نے ان نزاکتوں کو کسی نہ کسی طور نبھائے رکھا۔ سپر پاورز کے ساتھ ڈیل کرتے ہوئے کبھی ڈبل اور ٹرپل گیم تک کھیلنا پڑی۔ ہمارے ہمسائے ہم سے ناخوش رہے تب بھی ہم نے کسی نہ کسی طرح معاملات ان کے ساتھ چلائے۔
ہماری بعض خارجہ پالیسیوں پر تنقید کی جا سکتی ہے، مگر ناقدین سے اگر حل پوچھا جائے تو جواب ان کے پاس بھی نہیں۔ ہمارے ہاں لیفٹ کے لوگ یہ کہتے تھے کہ لیاقت علی خان نے پاکستان کے ابتدائی برسوں میں دورہ سوویت یونین کی دعوت مسترد کر کے امریکا کا دورہ کیا ، یہ غلطی تھی، ہمیں سوویت یونین کے ساتھ جانا چاہیے تھا۔ وقت نے ایسے دانشوروں کو غلط ہی ثابت کیا۔ وہ سوویت یونین آخر غروب ہی ہوگیا اور اس کے قریبی اتحادی خوار ہوئے۔
ویسے تو سوویت یونین کی جانب سے دورہ کی دعوت والی بھی محض کہانی ہی نکلی۔ اس دور میں روس میں متعین پاکستانی سفارت کار ایسے کسی بھی دعوے کی تائید نہیں کرتے۔ آخری تجزیے میں یہ محض ایک من گھڑت تھیوری ہی نکلی جسے ہمارے لیفٹسٹوں نے گھڑا تھا۔
بات تاریخ کی طرف نکل گئی، آج کی طرف واپس لوٹتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے ’امریکا فرسٹ‘ کی جو تھیوری دی ہے اور جس جارحانہ انداز میں وہ اس پر عمل درآمد کر رہے ہیں، اسے دنیا بھر میں بڑی توجہ، تشویش اور غور کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے۔ ہر ملک یہ سوچ رہا ہے کہ کس طرح خود کو ٹرمپ کے غضب سے بچائے۔ برطانیہ، فرانس اور جرمنی جیسے بڑے یورپی ممالک بھی واضح طور پر پریشان نظر آ رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:خرابی کی جڑ آخر کہاں ہے؟
2-3 ہفتے قبل بھارتی وزیراعظم نریندر مودی صدر ٹرمپ سے ملاقات کے لیے امریکا پہنچے۔ بھارتی اپنے وزیراعظم کی فہم و فراست اور چوڑی چھاتی کے بڑے گیت گاتے ہیں، انڈین میڈیا اور وہاں کی انٹیلی جنشیا خود کو عظیم بھارت اور نہ جانے کیا کیا کچھ قرار دیتی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کے سامنے مودی جس طرح سجدہ ریز ہوئے ، گھگھیاتے ہوئے وہ ٹرمپ کی خوشامد بلکہ چاپلوسی کرتے رہے۔ ٹرمپ کے سلوگنز کی گھٹیا سی نقل کر کے اپنے انڈین سلوگنز کے ساتھ مطابقت بنانے کی عامیانہ کوششیں کرتے نظر آئے، وہ خاصا عبرت انگیز نظارہ تھا۔
واضح طور پر مودی کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے تھے اور ان کی سر توڑ کوشش تھی کہ کسی طرح صدر ٹرمپ کی خوشنودی حاصل کی جائے۔ وہ امریکا جانے سے پہلے امریکی مصنوعات پر ٹیرف کو نصف سے بھی کم کر گئے، اب شاید مزید کم کر دیں گے۔ بھارتی فوج امریکی اسلحے اور امریکی جنگی ٹیکنالوجی سے بالکل بے بہرہ ہے، روسی عسکری ٹیکنالوجی کا انہیں پرانا تجربہ اور گہری شناسائی ہے۔ اس کے باوجود مودی صرف امریکا کو خوش کرنے کے لیے امریکی فائٹر طیارے اور دیگر سازوسامان خریدنے کے لیے تیار ہوئے تاکہ باہمی تجارتی خسارہ کم ہوسکے۔ بھارتی نام نہاد غرور اور طنطنہ یوں وائٹ ہاؤس میں امریکی حکام کے پیروں میں رُلتے دیکھنا شاید بہت سوں کے لیے حیران کن رہا ہو۔ یہ مگر سفاک زمینی حقائق اور بے رحم سچائیوں کو ظاہر کر رہا تھا۔
اس پس منظر میں میرے جیسےعام اخبار نویس جن کے پاس ان سائیڈ انفارمیشن تو نہیں، البتہ انٹرنیشنل افیئرز سے دلچسپی اور اسے سمجھنے کی اپنی بساط کے مطابق کوشش کرتے ہیں۔ ہمیں یہ تشویش تھی کہ صدر ٹرمپ جب یوکرائن جنگ کے معاملے کو نمٹا لیں گے تو وہ دیگر ایشوز کی طرف توجہ کریں گے، تب ان کی نظر کرم کہیں پاکستان پر نہ پڑ جائے۔ پاکستان تو اپنی ٹیکسائل ایکسپورٹس پر امریکی ٹیرف کا بھی متحمل نہیں ہوسکتا، کجا یہ کہ امریکی صدر کے اشارہ ابرو پر کام کرنے والی آئی ایم ایف اپنا پروگرام روک کر قرضہ دینے سے انکار کر دے یا امریکا پاکستان پر پابندیوں کا سوچے۔
ایسے میں صدر ٹرمپ کے کانگریس سے اپنے طویل خطاب میں اچانک پاکستان کا شکریہ ادا کرنے اور تعریف کرنے کا امر ہمارے لیے نہایت خوشگوار حیرت لے آیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی حکام اور سیکیورٹی اداروں نے بڑی سرعت کے ساتھ کابل ایئرپورٹ پر بم دھماکے کے ماسٹر برین کو پکڑا اور پھر اسے امریکیوں کے حوالے کر کے صدر ٹرمپ کو امریکی عوام کے سامنے ایک اور پوائنٹ اسکور کرنے کا موقع دیا۔ یہ ایک شاندار اسٹروک اور بڑی اسمارٹ موو تھی۔
یہ بھی پڑھیں:احمد جاوید کا متنازع انٹرویو اور اس کا تجزیہ
پاکستان نے بائیڈن انتظامیہ کے نہایت مایوس کن سردمہری والے 4 برسوں کے بعد نومنتخب نئے اور امریکی تاریخ کے شاید طاقتور ترین صدر کے ساتھ ایک اچھا تعلق استوار کرنے کی ابتدا کر دی ہے۔ اسے سراہنا چاہیے۔ ویل ڈن ۔
مجھے شدید حیرت ہوئی جب سوشل میڈیا پر بعض حلقے یہ کہتے پائے جا رہے ہیں کہ مبینہ داعش کمانڈر شریف اللہ شدت پسند تنظیم کے نچلے درجے کا کارکن ہے اور پاکستان نے امریکیوں کو دھوکا دیا وغیرہ۔ یارو تنقید کی کوئی تُک اور بنیاد تو ہونی چاہیے۔ میرے جیسے تو اس میں بھی خوش ہوں گے کہ کسی نچلے درجے کے دہشتگرد کو ہائی پروفائل بنا کر امریکیوں کو تھما دیا جائے۔ اس میں ہمارا کیا نقصان ہے؟ اس کیس میں مگر صورتحال مختلف ہے۔ اطلاعات کے مطابق خود امریکٓی خفیہ ادارے نے شریف اللہ کی خبر دی اور وہ اسے اہم گرفتاری قرار دے رہے ہیں۔ تو جو کام ہمارے دشمنوں کے کرنے کا ہے، وہ کیڑے ہم خود کیوں نکال رہے ہیں ؟
ممکن ہے ہمارے بعض سیاسی حلقوں کوصدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستانی حکومت کی تعریف سے مایوسی ہوئی ہو۔ جنہیں یہ امید تھی کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستانی حکومت پر زیادہ جمہوری رویہ اپنانے اور سیاسی قیدیوں کے ساتھ منصفانہ ٹرائل سمیت دیگر اقدامات کرنے پر زور دے گی، انہیں ایک فوری دھچکا تو لگا ہے۔ تاہم ہمارے خیال میں ریاست کے مفادات اور ملک کی بہتری کے معاملات سیاسی پسند و ناپسند سے بالاتر ہونے چاہییں۔
آنے والے دنوں میں پاک امریکا تعاون کم از کم ایک حوالے سے مزید بڑھے گا۔ صدر ٹرمپ افغان طالبان حکومت پر امریکی اسلحہ واپس کرنے کے لیے دباؤ بڑھائیں گے، ممکن ہے وہ بگرام بیس حوالے کرنے کا مطالبہ بھی کریں، ظاہر ہے اسے ماننا طالبان حکومت کے لیے ممکن نہیں۔ افغان حکومت کے لیے مشکلات بڑھیں گی اور انہیں پاکستان سے کسی قسم کی کوئی سپورٹ نہیں مل سکتی ۔
یہ بھی پڑھیں:کیا صدر ٹرمپ امریکا کو تنہا اور کمزور بنا رہے ہیں؟
افغان طالبان حکومت جس دیدہ دلیری اور ڈھٹائی کے ساتھ ٹی ٹی پی کو سپورٹ کر رہی ہے، اس کے بعد انہیں پاکستان سے کسی قسم کے نرم تاثر کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ اگر امریکا نے افغانستان پر دباؤ بڑھایا تو پاکستان اور امریکا اس بارے میں ایک ہی پیج پر ہوں گے۔ افغان حکومت کی مدد بند ہوگئی تو ان کے لیے مالی مشکلات بڑھیں گی، ہزاروں سرکاری ملازمیں بیروزگار ہو جائیں گے، افغان کرنسی بھی نیچے گرے گی۔ بدقسمتی سے اس سب کچھ کی ذمہ دار افغان حکومت خود ہی ہوگی۔
صاحبو، پاکستان نے پہلے راؤنڈ میں اسمارٹ کھیل کا مظاہرہ کیا ہے، ایک اچھا پوائنٹ اسکور کر لیا۔ کچھ مہلت اور وقت ہمیں میسر آ گیا۔ اس دوران اپنی اکانومی خاص کر ایکسپورٹس پر فوکس کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ صدر ٹرمپ کا اہم ترین اور حتمی ہدف چین ہے۔ جب امریکا چین پر کئی اطراف سے حملہ آور ہوگا تو پاکستان پر بھی شدید دباؤ آئے گا۔ پاکستان چین کے خلاف جانا افورڈ نہیں کر سکتا ، نہ وہ امریکا کی کھلی مخالفت مول لینا چاہے گا۔ وہ وقت جب آئے گا، تب بہت ہی سلیقے اور سمجھداری سے ہینڈلنگ کرنا ہوگی، تاہم اس کے لیے ابھی کچھ وقت حاصل کر لیا گیا ہے۔
’سب سے پہلے پاکستان‘ کی غیر اعلانیہ سوچ اور پالیسی کارگر ثابت ہوئی۔ ’امریکا فرسٹ‘ کی ٹرمپ ڈاکٹرائن کے ساتھ ایک لنک تو بنا لیا گیا ہے۔ بیسٹ آف وشز فار آل۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔
امریکا فرسٹ انڈیا پاکستان چین ڈونلڈٹرمپ سب سے پہلے پاکستان سوشل میڈیا مودی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا فرسٹ انڈیا پاکستان چین ڈونلڈٹرمپ سب سے پہلے پاکستان سوشل میڈیا سب سے پہلے پاکستان طالبان حکومت امریکا فرسٹ رہے ہیں ٹرمپ کے کرنے کا کے ساتھ اور اس کے لیے
پڑھیں:
پاکستان علاقائی امن و استحکام کے لیے امریکا کے ساتھ قریبی شراکت داری جاری رکھے گا. دفترخارجہ
اسلام آباد/واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔06 مارچ ۔2025 )پاکستان نے واضح کیا ہے کہ وہ علاقائی امن و استحکام کے لیے امریکا کے ساتھ قریبی شراکت داری جاری رکھے گا نجی ٹی وی کے مطابق ترجمان دفتر خارجہ نے ہفتہ وار پریس بریفنگ میں بتایا کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت شریف اللہ کو گرفتار اور امریکا کے حوالے کیا.(جاری ہے)
ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے کہا کہ دہشت گرد کمانڈر شریف اللہ کی گرفتاری پر وزیر اعظم نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر پیغام دیا تھا کہ ہم علاقائی امن و استحکام کے لیے امریکہ کے ساتھ قریبی شراکت داری جاری رکھیں گے، پاکستان نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت شریف اللہ کو گرفتار اور امریکا کے حوالے کیا ہے. ترجمان نے کہا کہ شریف اللہ کو کس قانون کے تحت امریکا کے حوالے کیا گیا اس پر وزارت قانون بہتر بتا سکتی ہے وزیر اعظم کا شریف اللہ کی گرفتاری پر ردعمل ایک ریاستی ردعمل تھا شفقت علی خان نے کہا کہ بھارتی وزیر مملکت کے مودی کے آزاد کشمیر واپس لینے کی ہرزہ سرائی افسوس ناک اور باعث مذمت ہے انہوں نے کہا کہ بگرام ایئربیس واپس لینے یا نہ لینے کا معاملہ افغان اور امریکی حکومت کے درمیان ہے افغانستان سے بہتر ہمسائیگی پر مبنی تعلقات چاہتے ہیں، ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں ہیں. ترجمان نے کہا کہ افغان حکام طورخم بارڈر پر غیر قانونی چیک پوسٹ بنا رہے تھے غیر قانونی چیک پوسٹ بنانے پر طورخم بارڈر کی بندش کا مسئلہ شروع ہوا تھا ادھر امریکی نشریاتی ادارے”فاکس نیوز“سے انٹرویو میں امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ نے بتایا کہ کابل ایئرپورٹ حملے کے ”ماسٹرمائنڈ“ کی گرفتاری کے لیے امریکہ نے انٹیلی جنس معلومات پاکستان کو فراہم کی جس کی بنیاد پر پاکستان نے کارروائی کی امریکی وزیر دفاع نے پاکستان کی جانب سے تعاون پر خصوصی شکریہ ادا کیا اور کہا کہ یہ کارروائی ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں ہوئی اور میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہماری قیادت بشمول ڈائریکٹر ریٹکلف اور سینٹ کام اور فوج کے دیگر افسران پاکستانی حکام کو معلومات فراہم کر رہے تھے جنہوں نے اس پر کارروائی میں ہماری مدد کی. ان کا کہنا تھا کہ ہم نے پاکستانی حکام کو معلومات دیں جو ہماری فراہم کردہ انٹیلی جنس پر مبنی تھی انہوں نے اسے گرفتار کیا اور درست شناخت کی تصدیق کی اور ہمیں کچھ دنوں سے اس بارے میں علم تھا پیٹ ہیگسیتھ نے انٹرویو کے دوران سابق صدر بائیڈن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ’ ’امریکیوں کے قاتل“ کو پکڑنے کا کام صدر ٹرمپ کے دور صدارت میں شروع ہوا امریکہ کے فیڈرل بورڈ آف انوسٹی گیشن (ایف بی آئی) نے ان کی حوالگی کی تصدیق کی اور ایف بی آئی نے دو مارچ کو ان کا انٹرویو بھی لیا ہے ایف بی آئی کے ایجنٹ سیتھ پارکر جنہوں نے شریف اللہ کو باضابطہ طور پر گرفتار کیا کی طرف سے امریکہ کی ریاست ورجینیا کی عدالت کو بتایا کہ شریف اللہ شدت پسند تنظیم داعش سے 2016 سے منسلک ہیں اور داعش کی خراسان شاخ کے لیے مختلف کارروائیاں کرتے رہے ہیں.