اسلام آباد:

سپریم کورٹ میں نومئی واقعات میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قرار دینے کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کے دوران  جسٹس جمال مندوخیل نے کہا مارشل لاء کے اقدام کی توثیق میں عدلیہ کا بھی کردار ہے۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی ۔سپریم کورٹ بار کی جانب سے تحریری معروضات عدالت میں جمع کرا دی گئیں جن میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ بار کا پانچ مارچ کو اجلاس ہوا.

اجلاس میں جائزہ لیا گیا بار کا فوجی عدالتوں پر موقف کیا ہونا چاہیے، اصولی طور پر عام شہریوں کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہونا چاہیے، آرمی ایکٹ کی شقیں عدالتی تشریحات میں آئینی قرار پا چکیں، آرمی ایکٹ کی شقوں کو اب کالعدم نہیں قرار دیاجا سکتا. 

سیکیورٹی، امن اور لااینڈآرڈر بھی بنیادی آئینی اقدار ہیں، دہشتگردی میں شدت آئی، پاکستان کے شہری امن اور ہم آہنگی کے مستحق ہیں، دہشتگردی کے خاتمے کیلئے تمام آئینی و قانونی اقدامات ہونے چاہئیں۔

خبر ایجنسی کے مطابق سپریم کورٹ بار کے جواب میں کہا گیا ہے کہ فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کا مقدمہ نہیں چلنا چاہئے، پھر بھی فوجی عدالتوں کو غیر آئینی قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ عدالت عظمی کے متعدد فیصلوں میں آرمی ایکٹ کی دفعات کو قوانین کے مطابق درست پایا گیا ہے۔

آرمی ایکٹ کو غیر آئینی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لاہور بار اور لاہور ہائی کورٹ بار کے وکیل حامد خان نے دلائل میں کہا کہ آرمی ایکٹ مئی 1952 میں آیا، سازش پر پہلا مقدمہ 1951 میں راولپنڈی سازش پر بنا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا راولپنڈی سازش کیس میں فیض احمد فیض جیسے لوگوں کو بھی نامزد کیا گیا تھا۔

حامد خان نے کہا ملزمان کا ملٹری ٹرائل نہیں بلکہ اسپیشل ٹریبونل کے تحت ٹرائل کا فیصلہ ہوا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل استفسار کیا ان ساری باتوں کا ملٹری ٹرائل کیساتھ کیا تعلق ہے، ملک میں کب مارشل لاء لگا اس کا ملٹری کورٹ کیس سے کیا لنک ہے،آئین میں مارشل لاء کی کوئی اجازت نہیں۔

حامد خان نے کہا مارشل لاء کیلئے کوئی نہ کوئی طریقہ نکال لیا جاتا ہے،سپریم کورٹ کے فیصلہ سے مارشل لاء کا راستہ بند ہوا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آئین میں مارشل لاء کے نفاذ کی کوئی اجازت نہیں ہے ، مارشل لاء ماورائے آئین اقدام ہوتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا مارشل لاء کے اقدام کی توثیق میں عدلیہ کا بھی کردار ہے۔ حامد خان نے کہا ملٹری ٹرائل میں دستیاب بنیادی حقوق واپس لے لیے جاتے ہیں، جمہوریت میں ملٹری کورٹس کا کوئی تصور نہیں،سیٹھ وقار نے ملٹری کورٹس سزائیں کالعدم قرار دیں، وہ گریٹ جج تھے۔

خبر ایجنسی کے مطابق جسٹس جمال مندوخیل نے انہیں اس وقت روک دیا جب حامد خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے پی ٹی آئی کے بانی کی گرفتاری کا حوالہ دیتے ہوئے طویل تفصیلات بیان کرنا شروع کردیں۔

جسٹس مندوخیل نے ان سے کہا کہ وہ نقطہ پر آئیں اور عدالت کے سامنے اہم سوال پر بحث کریں۔ عدالت پرانی کہانیاں سننا نہیں چاہتی۔ اصل سوال آرمی ایکٹ کے تحت شہریوں کے ٹرائل کا ہے۔ مزید سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: فوجی عدالتوں سپریم کورٹ مندوخیل نے جسٹس جمال مارشل لاء کورٹ بار نے کہا

پڑھیں:

ارشد شریف قتل؛ کینیا کیساتھ معاہدے کی توثیق کیلیے مزید وقت مانگنے پر سپریم کورٹ کے سخت سوالات

اسلام آباد:

ارشد شریف قتل ازخود نوٹس کیس میں وفاقی حکومت کی جانب سے کینیا کے ساتھ باہمی قانونی امداد کے معاہدے کی توثیق کے لیے وقت مانگنے پر سپریم کورٹ نے پیشرفت میں سست روی پر سخت سوالات اٹھا دیے۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں چھ رکنی آئینی بینچ نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ ایک ماہ میں صدر سے معاہدے کی توثیق کروا لی جائے گی، کینیا کے ساتھ باہمی قانونی امداد کا معاہدہ ہوچکا ہے اور معاہدے کے مطابق اس کی توثیق کا عمل جاری ہے۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ 10 دسمبر کو معاہدہ ہوا آج تک توثیق کیوں نہیں ہو سکی؟ جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا آپ سے روزانہ کی بنیاد پر پیشرفت رپورٹ مانگیں؟

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ تین ماہ بعد بھی وقت مانگا جا رہا ہے۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ بے رحمی کے ساتھ پاکستان کے ایک جانے پہنچانے صحافی کو قتل کیا گیا، حکومت پاکستان کینیا میں صحافی کی فیملی کو کیوں سپورٹ نہیں کر رہی۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ وفاق کینیا میں جاکر فریق بن سکتی ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ پاکستان کا کینیا کے ساتھ باہمی تعاون کی یادداشت کا معاہدہ ہوگیا، معاہدے پر عمل درآمد کے لیے اور کچھ ضروری کارروائی کے لیے ایک مہینے کا وقت درکار ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد آپ ابھی بھی وقت مانگ رہے ہیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم نے 27 فروری کو وزارت داخلہ کو کارروائی آگے بڑھانے کے لیے لکھا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ دسمبر میں آخری سماعت کے بعد آپ نے فروری میں ہی کیوں وزارت داخلہ کو لکھا۔

جوائنٹ سیکرٹری داخلہ نے بتایا کہ ہم نے وزارت خارجہ کو باہمی قانونی تعاون کے لیے نوٹ لکھا ہے۔

مزید پڑھیں؛ ارشد شریف قتل ازخود نوٹس سماعت کے لیے مقرر

جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ اب سے روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی پیش رفت رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں۔

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ہم جے آئی ٹیز کے حق میں نہیں کیونکہ اس کا فائدہ نہیں ہوتا، ہماری بے چینی یہ ہے کہ اتنا عرصہ گزر کیا پھر بھی ارشد شریف کیس میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ صدر کو سمری کس نے بھیجنی ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزارت داخلہ کابینہ کی منظوری کے بعد صدر کو سمری ارسال کرے گی اور وزارت داخلہ سے میرا رابطہ نہیں ہو پا رہا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ وزارت داخلہ کے افسر تو آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔

وزارت داخلہ کے جوائنٹ سیکرٹری عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ 27 فروری کو کابینہ منظوری کے بعد وزارت خارجہ کو نوٹ بھجوا دیا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ معاہدے کی منظوری صدر نے دینی ہے تو کیا صدر مسترد بھی کر سکتے ہیں؟ قانونی مشیر وزارت خارجہ نے کہا کہ اس حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کر سکتا۔

ارشد شریف کی دوسری بیوہ جویریہ صدیق کے وکیل عدالت میں پیش ہوئے۔

وکیل جویریہ صدیق نے دلائل میں کہا کہ کینیا کی ہائی کورٹ نے قتل میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا، کینیا کی حکومت نے فیصلے کےخلاف اپیل کر رکھی ہے، حکومت پاکستان کیس میں فریق بنی اور نہ کوئی سپورٹ کی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ خاتون اکیلی کینیا میں کیس لڑ رہی ہے تو حکومت کو ساتھ دینے میں کیا مسئلہ ہے؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ حکومت کو جائے وقوعہ تک رسائی نہیں مل رہی، فریق بننے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا کیونکہ تفتیش کے لیے رسائی ضروری ہے اور رسائی اسی صورت میں ممکن ہوگی جب باہمی قانونی معاہدہ ہوگا، پاکستان میں 30 سے زائد افراد کے بیان ریکارڈ ہوچکے ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ کئی سال سے از خود نوٹس زیر التواء ہے۔

وکیل والدہ ارشد شریف نے کہا کہ حکومت نے معاملے پر فیکٹ فائنڈنگ کروائی تھی، استدعا ہے کہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کی کاپی فراہم کی جائے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میڈیا میں آنے سے پہلے ہی سارا مسئلہ بنا ہوا ہے۔

سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت ایک ماہ تک کے لیے ملتوی کر دی۔

متعلقہ مضامین

  • ارشد شریف قتل؛ کینیا کیساتھ معاہدے کی توثیق کیلیے مزید وقت مانگنے پر سپریم کورٹ کے سخت سوالات
  • ملٹری ٹرائل، مارشل لا اقدام کی توثیق میں عدلیہ کا بھی کردار ہے ، جسٹس جمال مندوخیل
  • مارشل لا ماورائے آئین اقدام ہے اس کی آئین میں کوئی اجازت نہیں: جج آئینی بینچ
  • سویلینز کا ملٹری ٹرائل کیس؛ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے معروضات جمع کرا دیں
  • ملٹری ٹرائل کیس، آرمی ایکٹ کی شقوں کو غیر آئینی قرار نہیں دیا جا سکتا: سپریم کورٹ بار
  • آرمی ایکٹ کی شقوں کو غیر آئینی قرار نہیں دیا جاسکتا، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن
  • آرمڈ فورسز عدلیہ کا حصہ نہیں، جسٹس مظاہر، قانون میں ملٹری کورٹ نہیں، کورٹ مارشل: جسٹس مندوخیل
  • سویلین کا ملٹری ٹرائل، ملٹری کورٹس عدلیہ کا حصہ نہیں، جسٹس محمد علی مظہر
  • مسلح افواج عدلیہ کا حصہ نہیں، کسی فیصلے میں نہیں لکھا ملٹری کورٹ عدلیہ ہے: رکن آئینی بینچ