Express News:
2025-03-06@23:05:24 GMT

زاغوں کے تصرف میں عقابوں کا نشیمن

اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT

فیض احمد فیض نے جب اپنی مشہور نظم ’’بول‘‘ جو ان کے پہلے شعری مجموعہ ’’نقشِ فریادی‘‘ میں شامل ہے لکھی ہوگی تو یقینا اسی خلفشار، ہیجان اور اندرونی کرب سے گزرے ہوں گے جس سے آج سچ بولنے والے اور سچ لکھنے والے قلم کار دوچار ہیں، کہنے کو تو وہ کہہ گئے کہ:

بول کہ لب آزاد ہیں تیرے

بول زباں اب تک تیری ہے

بول یہ تھوڑا وقت بہت ہے

جسم و جاں کی موت سے پہلے

بول کہ سچ زندہ ہے اب تک

بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے

لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ پاکستان پر ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب سچائی کو سامنے لانے والوں کی زندگی اجیرن کر دی جائے گی لیکن فیض جانتے تھے ’’سچ کا سودا‘‘ من میں سما جائے تو لکھنے والا اور کہنے والا دونوں تلوار کی دھار پہ چلنے کو تیار ہوتے ہیں۔ سچ کا پل صراط عبورکرنا ہر ایک کا مقدر نہیں۔ فیض ناامید نہیں تھے، اسی لیے ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے رہے،کیا ان کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا اور ان کے یہ اشعار مجسم سچائی بن کر سامنے آئیں گے۔

جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں

روئی کی طرح اُڑ جائیں گے

سب تاج اُچھالے جائیں گے

سب تخت گرائے جائیں گے

بس نام رہے گا اللہ کا

اور راج کرے گی خلق خدا

جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

 یہ نظم انھوں نے جنوری 1979 میں کہی تھی، اگر آج وہ زندہ ہوتے تو ایسی باغیانہ نظمیں لکھنے پر جو عوام کا شعور بیدار کر سکتی ہیں انھیں بنیاد بنا کر یقینا انھیں جیل میں ڈال دیا جاتا اور ان کے شعری مجموعے بک اسٹالز سے اٹھا کر سمندر میں پھینک دیے جاتے۔ برسر اقتدار اور طاقت ور لوگ جو جمہوریت کا مکھوٹا لگا کر جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور وڈیروں کے ساتھ ڈکٹیٹرشپ کے تحفظ اور حصول اقتدار کے لیے میدان سیاست میں کودے ہیں انھیں اندازہ ہو گیا ہے کہ سچ کی راگنی اپنا اثر ضرور دکھاتی ہے۔ بلبل کو نغمہ گانے سے کوئی نہیں روک سکتا، گلاب کی خوشبو ہو یا موتیا اور ہار سنگھار کی مسحور کن خوشبو، انھیں پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکتا لیکن افسوس کہ ہم آج جس دور میں سانس لے رہے ہیں اس میں تازہ ہوا کا گزر نہ ہونے کے برابر ہے۔

آج اگر اقبال، حبیب جالب اور فیض زندہ ہوتے تو انھیں پیکا ایکٹ کے تحت جیل میں ڈال دیا جاتا، خاص طور پر اقبال کے اشعار پر تو فوری طور پر انھیں اشتہاری قرار دے دیا جاتا:

اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو

کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی

اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو

مولانا بھاشانی نے 1970 میں ایک جلسے کے دوران جب یہ اشعار پڑھے تو اس وقت ان پر بھی بڑا فساد برپا ہوا تھا کہ مولانا لوگوں کو تشدد پر اکسا رہے ہیں، کیا یہ اشعار آج کی صورت حال کا عکس نہیں؟ ایک طرف بلند و بالا عمارتیں، لگژری کاریں اور پُل کے دوسری طرف جھونپڑیاں، ننگے بدن پھرنے والے بھوکے بچے۔

گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن

میراث میں آئی ہے انھیں مسند ارشاد

زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن

سچ کے دیوتا کو جھوٹ اور منافقت کے دیو نے یرغمال بنا رکھا ہے، سب مفاد پرست ہاتھ باندھے اس کے سامنے ہیں۔ دروغ دیوزاد کے سر پر فرعونیت کا تاج جگمگا رہا ہے۔ اس تاج میں لگے رشوت، اقربا پروری اور کرپشن کے ہیرے غلاموں کے لیے باعث کشش ہیں اسی لیے جھوٹ، فریب، رشوت خوری اور اقربا پروری کی آبیاری نہایت اعلیٰ پیمانے پر اعلیٰ ترین اداروں کے اعلیٰ ترین عہدے داروں کی مدد سے خوب ہو رہی ہے اور پھر زرخرید غلاموں سے توقع بھی کیا کی جا سکتی ہے۔ ان کا کام ہی ’’حاضر سائیں‘‘ اور ’’میرے آقا کیا حکم ہے‘‘ کہنا ہے۔ لفظوں پہ پابندی، بولنے اور لکھنے پر پابندی، یہ قلم توڑ دینے کی پابندی جیسی باتیں تسلسل سے ہو رہی ہیں وہ بھی بدترین جمہوریت کے لے پالکوں کی مرضی و منشا سے سب کچھ ہوتا آیا ہے۔

پاکستان میں کبھی جمہوریت آئی ہی نہیں، جناح صاحب اور لیاقت علی خان نے اس مملکت کے لیے کیا کیا خواب دیکھے تھے لیکن ’’جعلی جمہوریت‘‘ کا راگ الاپنے کے لیے طوطے پال لیے گئے اور انھیں سین یاد کرا دیے، قصیدہ نگاروں کی فوج ظفر موج کے باوجود چند سرپھرے کسی نہ کسی طرح سچائی کا عطر بیچتے رہیں گے۔

یہ وہ صحافی اور تجزیہ کار ہیں جو کسی نہ کسی طرح سچ بولتے تھے، سچ لکھتے تھے۔ لیکن اب ان پر بھی پابندی ہے۔ سب کے لیے ہتھکڑیاں تیار ہیں۔ آج درباری کوؤں نے مل کر راگ درباری گانا شروع کر دیا ہے۔ ارکان اسمبلی کو رشوت دینے کے لیے ان کی تنخواہیں بڑھا دی گئی ہیں تاکہ وہ کسی بھی طرح سے تنقید نہ کریں۔ قلم کاروں میں سے بڑے بڑے نام ہیں جو پے رول پر ہیں، وہ حکومت سے الگ معاوضہ لیتے ہیں۔ جب انھیں کوئی ٹارگٹ دیا جاتا ہے تو وہ پوری ’’ایمانداری‘‘ سے اپنا کام کرتے ہیں۔ اب تو سوشل میڈیا کو بھی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

ملک کی صورت حال ابتر ہے، لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے پورے پورے صفحے کے مقتدرہ کے بیانات جاری کیے جا رہے ہیں۔ ’’سب کچھ اچھا ہے، ملک ترقی پر گامزن ہے‘‘ لیکن لوگ احمق نہیں ہیں۔ وہ بین السطور سب کچھ سمجھ جاتے ہیں، مہنگائی رکنے کا نام نہیں لے رہی، بعض گھروں میں ایک وقت کھانا کھایا جا رہا ہے، پھل مہنگے ہوگئے ہیں کہ کینو سمیت دیگر پھل باہر بھیجے جا رہے ہیں۔ روپے کی قدر دن بہ دن کم ہوتی جا رہی ہے، ملک پریشر ککر بنتا جا رہا ہے، لوگ جانتے ہیں کہ اگر وقت پر پریشر ککر کی اسٹیم نہ نکالی جائے تو وہ پھٹ پڑتا ہے اور تباہی لاتا ہے۔ بنگلہ دیش بھی پریشرککر بن گیا تھا۔ اہل اقتدار کو سوچنا چاہیے کہ ملک کیوں تباہی کی طرف جا رہا ہے؟

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جا رہا ہے دیا جاتا رہے ہیں اور ان ہے ہیں

پڑھیں:

غزہ کی پٹی میں ایک اجتماعی قبر سے 48 شہداء کی لاشیں برآمد

غزہ میں سول ڈیفنس نے اعلان کیا ہے کہ اس کے عملے نے کمال عدوان ہسپتال کے قریب ایک اجتماعی قبر سے 48 شہداء کی لاشیں نکالی ہیں جن میں 22 شہداء ایسے بھی شامل ہیں جن کی شناخت نہیں ہو سکی۔ اسلام ٹائمز۔ غزہ کی پٹی میں ایک اجتماعی قبر سے 48 شہداء کی لاشیں برآمد کر لی گئی ہیں۔ غزہ میں سول ڈیفنس نے اعلان کیا ہے کہ اس کے عملے نے کمال عدوان ہسپتال کے قریب ایک اجتماعی قبر سے 48 شہداء کی لاشیں نکالی ہیں جن میں 22 شہداء ایسے بھی شامل ہیں جن کی شناخت نہیں ہو سکی۔ سول ڈیفنس نے منگل کو ایک بیان میں کہا کہ انہیں غزہ کی پٹی کے شمال میں بیت لاہیا قصبے کے سلطان قبرستان میں سپرد خاک کیا جائے گا۔ انہوں نے غزہ شہر کے مغرب میں واقع اسلامی یونیورسٹی کے قریب الخطیب خاندان سے تعلق رکھنے والے مکان کے ملبے کے نیچے سے ایک شہید کی باقیات برآمد کرنے کا بھی اعلان کیا۔ انیس جنوری کو جنگ بندی کے بعد سے سول ڈیفنس کا عملہ سینکڑوں شہداء کو نکال چکا ہے، جب کہ 10 ہزار سے زائد لاشیں ملبے تلے دبی ہیں، جن میں سے بیشتر کو قابض فوج کی جانب سے بھاری سامان داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کے باعث نکالا نہیں جا سکا۔

متعلقہ مضامین

  • اپوزیشن میں اپوزیشن
  • رمضان المبارک نور ہی نور
  • بغل میں چھری منہ میں رام رام
  • ٹریفک حادثات
  • اگر نرخ گھٹ جائے تو
  • حکومت بتائے افغانستان سے اب تک کیا بات چیت کی گئی؟، شوکت یوسفزئی
  • غزہ کی پٹی میں ایک اجتماعی قبر سے 48 شہداء کی لاشیں برآمد
  • سود کی حرمت، قران اور دیگر آسمانی کتب میں
  • ادبِ اور بغاوت